روح و بدن/انور مختار

خدا‘ کائنات‘ انسان‘ روح‘ مادہ‘ حیات و ممات‘ زمان و مکان‘ آخرت‘ خیرو شر‘ تقدیر و تدبیر اور وجدان و وحی فلسفہ کے اہم موضوعات ہیں بنیادی طور پر کائنات کے مطالعہ کے دو ابواب ہیں کائنات مادی اور کائنات روحانی۔ مادہ کا تعلق علم طبعیات (PHYSICS) اور روح کا تعلق مابعد الطبیعات (METAPHYSICS) سے ہے مادہ اور روح کیا ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

 

 

 

یہ سوالات آج بھی مفکرین اور سائنس دانوں کے زیر بحث ہیں اس سوال کا جواب انبیاء میں بھی ملتا ہے اور فلاسفر بھی دلائل سے وجود روح و بدن کو ثابت کرتے ہیں روح اور بدن کے درمیان رابطہ ان اہم مسائل میں سے ہے ، جو فلسفہ کے مشکل ترین مباحث شمار ھوتے ہیں اور دو مطالب تمام دانشوروں کے نزدیک بدیہی اور اظہرمن الشمس ہیں کہ
۱-انسان کے وجود میں دوقسم کی خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو آپس میں کافی تفاوت رکھتی ہیں- پہلی قسم کی خصوصیت نفسانی خصوصیت ہے، جیسے: آگاہی، ارادہ، ذاتی ہویت، خوشحالی، غم، درد کا احساس وغیرہ، کہ ان کے ساتھ کوئی بھی طبیعیاتی[جسمانی] معیار تطبیق نہیں کرتا ہے اور اس معیار کے ذریعہ ان کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ہے- دوسری قسم، طبیعیاتی اور جسمانی خصوصیات ہیں-
۲-نفسانی اور طبیعیاتی خصوصیات، باہم تفاوت رکھنے کے باوجود آپس میں عمیق اور پیچیدہ رابطہ رکھتی ہیں لیکن ان کے درمیان اس رابطہ کو کس فلسفہ کے ذریعہ بیان کیا جائے؟ اس پر فلاسفہ اور حکماء کے درمیان اتفاق نظر نہیں پایا جاتا ہے نفس اور بدن کا مسئلہ قدیم الایام سے آج تک فلسفہ کے اصلی مباحث میں شمار ھوتا رہا ہے- اگرچہ اس کے بارے میں جدید بیان ڈیکارٹ کے زمانہ سے شروع ھوا ہے- بعض فلاسفہ اس کے قائل ہیں کہ مختلف مسائل، من جملہ: آگاہی، ذاتی ھویت، جسمانی موت کے بعد فرد کا بقا، نفسیاتی بیماریاں، ارادہ کی آزادی، دوسرے حیوانوں کے ساتھ انسان کے نفسیاتی اختلافات وغیرہ، اس پر مبنی ہیں کہ ہم نفس اور بدن کے درمیان رابطہ کے بارے میں کیا جواب دیں؟ ان مسائل کو اس حقیقت نے پیش کیا ہے کہ نفسیاتی خصوصیات طبیعیاتی خصوصیات سے کافی متفاوت دکھائی دیتی ہیں اور اس کے باوجود یہ دو خصوصیات آپس میں کافی عمیق اور پیچیدہ رابطہ بھی رکھتی ہیں- ہاتھ میں سوئی کا گھسنا، درد کا سبب بن جاتا ہے، لیکن یہ طبیعیاتی تبدیلی کیسے درد کا احساس پیدا کرتی ہے اور درد کیسے درد کے عامل سے بدن کو دور کرنے کا سبب بن جاتا ہے؟ اور کیا آگاہی کو مادی ذرات کی کیفیت،یعنی، ایٹموں، مالی کیولوں، خلیوں اور پیچیدہ حرکتوں کی طرف لوٹا دیا جاسکتا ہے؟ یہ کام آسان نہیں ہے اور اب تک فلاسفہ کی کافی کوششوں کے باوجود اس سلسلہ میں کوئی قابل توجہ نتیجہ نہیں نکلا ہے- ان دو خصوصیات کے درمیان فاصلہ اس قدر زیادہ ہے کہ ان کے آپسی رابطہ کا معما ابھی تک حل نہیں ھوسکا ہے اور تمام علمی و فلسفی ترقیاں اس قسم کے سوالات کا خاطر خواہ جواب نہیں دے سکی ہیں یہ کہ مذکورہ مثال کے مطابق اعصاب کے سلسلہ میں کونسے طریقہ کار رونما ھوتے ہیں؟ یہ علم اعصاب کے ماہروں کا کام ہے، لیکن یہ کہ کیا نفسیاتی یا ذہنی حالتیں ، صرف اعصابی عمل ہیں یا نہیں،؟ یہ ایک فلسفیانہ تحقیق کا کام ہے بہر حال، اس مطلب کے واضح ھونے کے لئے پہلے فلاسفہ کے نظریات اور آراء کے بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے روح یا نفس اور بدن کے درمیان رابطہ کے بارے میں فلاسفہ کے نظریات پر تحقیق اور غور کرنے کے بعد ہم ان نظریات کو ” وحدت گرائی” اور ” کثرت گرائی” نام کے دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں، کیونکہ بعض فلاسفہ وجود نفس کا انکار کرتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ انسان کے وجود میں بدن اور اس کے مادی و عنصری اجزاء کے علاوہ کوئی اور چیزنہیں ہے، اور آج کل یہ نظریہ” یکسان نظریہ” کے نام سے مشہور ہے- بعض فلاسفہ، نفس اور بدن کے باب میں ” دوگانہ نظریہ” کا دفاع کرتے ہیں- اس کے علاوہ کہا جاسکتا ہے کہ نفس اور بدن کے درمیان رابطہ کے بارے میں بہترین نظریہ حکمت عالیہ کا پیش کیا گیا نظریہ ہے، جس میں نفس اور بدن کو ” دوگانہ یگانہ” کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے- بہر حال، چونکہ نفس اور بدن کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں قدیم فلاسفہ کے افکار اور نظریات کی بنیاد کو، حالیہ صدیوں کے فلاسفہ کے نظریات میں پایا جاسکتا ہے اس لئے ہم جدید افکار کے پیش نظر اس کی بحث شروع کرتے ہیں، اور خلاصہ کی رعایت کرتے ھوئےذیل میں صرف دو مشہور نظریات پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں قدیم زمانہ سے آج تک ، بہت سے فلاسفہ نے انسان کی حقیقت کی ایک قسم کی دوگانگی کی صورت میں تفسیر کی ہے- یہ فلاسفہ انسان کو ایک ایسی مخلوق جانتے تھے، جو، جو مادی ذرات کے درمیان طبیعی قوانین سے تشکیل پائی ایک طبیعی دنیا، میں زندگی گزارتا ہے، لیکن وہ خود ایک ایسا جوہر ہے جو مذکورہ امور میں سے نہیں ہے- اس جوہر کو ” نفس” یا ” روح” کہا جاتا ہے- مثال کے طور پر افلاطون کہتا تھا: ہم میں سے ہر ایک انسان ایک بسیط، الہی اور ناقابل تغییر روح اور ایک مرکب اور فنا ھونے والا بدن رکھتا ہے، یعنی، بدن صرف مادی دنیا میں ہمارے وجود کے لئے ایک وسیلہ ہے، جو روح کے ابدی سفر کا ایک جلدی گزرنے والا مرحلہ ہے، بہ الفاظ دیگر، افلاطون نہیں کہتا تھا کہ ہم روح رکھنے والی ایک مخلوق ہیں، بلکہ یہ کہتا تھا کہ ہم روح کے ساتھ ایک ہیں، یعنی ہر انسان صرف ایک روح ہے، جو انسان کے وجود کو تشکیل دیتا ہے بہر حال ” ڈیکارٹ” کا جدید فلسفہ، نظریہ دوگانہ شمار ھوتا ہے- وہ اپنے طریقہ کار کے مطابق کہتا تھا کہ: ایک لحاظ سے میں، اپنے متمائز و واضح تصور کو ایک قابل غور اور محدود جانتا ھوں اور بہ الفاظ دیگر، جسم سے جدا ایک تصور جانتا ھوں، اور اسے صرف ایک لا محدود اور نا قابل فکر چیز جانتا ھوں جو یقین کی بنیاد پر ہے کہ در حقیقت میں اپنے بدن سے جدا ھوں اور اس کے بغیر ایک موجود ھو سکتا ھوں ڈیکارٹ کے کہنے کے مطاق، مادی جوہر کا ذاتی وجود صاحب ابعاد مکان کے معنی میں ہے، یعنی فضا میں سے ایک حجم کو پر کرنا، جبکہ جوہر نفسانی خصوصیات میں سے ” فکر کرنا” یا ” آگاہ ھونا ” ہے – ” فکر کرنے” سے اس کا مراد نفسانی حالتوں اور فعالیتوں کے بارے میں ایک مکمل سلسلہ ہے، جیسے: اس کے خاص معنی میں ، دیکھنا، محسوس کرنا، ادراک کرنا، حکم دینا اور شک کرنا ہے- ان دو جوہروں کی خصوصیات کے درمیان فاصلہ ان میں سے کسی ایک پر اثر نہیں ڈال سکتا ہے
پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ تدبر و تفکر انسان کی جبلت و فطرت میں ہے۔ مذہب‘ فلسفہ اور سائنس کے طریق کار اور طرز فکر میں فرق ہے لیکن ان سب میں قدر مشترک فلاح و فوز انسان ہے۔ ہر قوم میں فلاسفہ پیدا ہوئے ہیں۔ ہندومت مذہب بھی ہے اور فلسفہ بھی جس کی بنیاد عقل و استدلال کے بجائے اعتقادات‘ توہمات اور رسومات پر ہے۔ ہندی مفکرین نجات کے لئے علم کے ساتھ ساتھ عمل کو بھی لازمی قرار دیتے ہیں اور بت پرستی سے توحید کا راستہ ڈھونڈتے ہیں۔ حبین مت ایمان‘ عقل اور اعمال صالح کو فلسفہ اور مذہب کی بنیاد قرار دیا گیا ہے جین مت میں خدا کا تصور نہیں ہے یہ لوگ اعمال صالح ہی کو مقصد زیست گردانتے ہیں گویا یہ سماجی مذہب ہے بدھ مت گوتم بدھ کی تعلیمات پر مبنی ہے۔ وہ زندگی ارو دکھ کو لازم و ملزوم ٹھہراتا ہے۔ انسان کی نجات اعمال صالحہ پر منحصر ہے۔ ترک خواہشات اور ترک لذات گوتم بدھ کا درس ہے۔ چین میں فلسفی کنفوشس کو مذہبی رہبر بھی مانا جاتا ہے کنفوشس روایتی اخلاقی فلسفی تھا جبکہ تاؤ ازم میں عالم طبعیات کے علاوہ وجدان و عرفان کا مبلغ تھا۔ وہ تصوف کے ذریعہ ادراک و حقیقت انفس و آفاق کا پرچارک تھا۔ قدیم چینی فلاسفہ میں روشن فکر بھی تھے جن میں یانگ چو‘ میٹی اور چاؤ لین چی ممتاز ہیں ایران میں مزدیت فلسفہ بھی تھا اور مذہب بھی ’’آوستہ‘‘ قدیم ایرانیوں کا مذہبی صحیفہ ہے۔ آوستا میں تصور خالق‘ حقیقت روح اور خیرو شرو کا ذکر ہے۔ زرتشت‘ مانی اور مزدک نے اہل ایران پر مذہبی اور فکری اثرات چھوڑے۔ زرنشست خیروشر میں تنویت کا قائل تھا۔ مزدک نے سماجی و اقتصادی مساوات اور انقلاب اشراکیت کا درس دیا۔ یونان کو فلسفہ و حکمت کی سرزمین مانا جاتا ہے۔ یونانیوںکی آزاد فکر کی بدولت ہر نظریہ میں تضادات و اختلافات عام ہیں۔ مثال کے طورپر وجود کائنات پر طرح طرح کی دلچسپ آراء پڑھنے کو ملتی ہیں۔ پالیس کی رائے میں تخلیق کائنات ’’پانی‘‘ سے ہوئی۔ جبکہ دیوجانس ’’ہوا‘ کو تمام جیزوں کا خمیر اور باعث تخلیق کائنات گردانتا ہے۔ یونانی فلاسفہ میں عقل کے اتنے گھوڑے دوڑائے گئے ہیں کہ بقول حافظ شیرازی ’’شدپریشاں خواب من از کثرت تعبیر ھا‘‘ یونانیوں کے دوسرے دور فکری میں پروٹاگوراس‘ پروڈکیکس‘ سپیاس‘ تھراسیماکس اور پولس معروف سو فسطائی فلسفی گزرے ہیں۔ انہوں نے نظریہ علم اور نظریہ اخلاق دیا۔ انسان کو تمام مخلوق کا محور و معیار قراردیا۔ عظمت انسان میں مروجہ مذہبی ارو اخلاقی حدود وقود کو یکسر رد کر دیا۔ یونانی فلاسفہ میں تیسرے دور میں سقراط‘ افلاطون اور ارسطو قابل ذکر ہیں۔ مسلمانوں میں زیادہ تر متکلمین پیدا ہوئے جنہوں نے قرآن مجید کے احکامات کی عقلی توجیہہ کی۔ ان میں یعقبو الکندی‘ ابو نوفارابی‘ ابن مسکویہ‘ ابن سینا‘ ابن رشد‘ ابن طفیل‘ امام غزلی‘ شیخ الاشراق سہروردی‘ ملا صدوا‘ ابن عزلی‘ ابن خلدون کے علاوہ عصر حاضر میں شاہ ولی اللہ دہلوی‘ شبلی نعمانی‘ ڈاکٹر اقبال‘ مولانا مودودی‘ غلام احمد پرویز‘ استاد مرتضیٰ مطہری اور ڈاکٹر علی شریعتی کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ مغربی فلاسفہ میں جارج برکلے‘ ڈیوڈ سیو‘ کارل مارکس‘ کانٹ‘ نطشے‘ ھیگل‘ تھامس ہابز‘ ڈیکارٹ‘ جان لاک‘ ولیم‘ جیمز‘ برگساں اور برٹرینڈرسل کا مقام بلند ہے۔ ان لوگوں نے عقل و آگہی کے چراغ روشن کر کے انسانوں کو شعور زندگی عطا کیا۔ وحی‘ وجدان‘ ابہام اور عقل حصول علم و آگہی کے مختلف ذرائع ہیں”
جب کہ ‘نفس’، ‘روح’ اور وحی قرآن میں ان معنوں میں استعمال ہوا ھے
نفس: نفس قرآن مجید میں اُن معنوں میں استعمال ہوا ہے جن میں ہم ‘جان’ کا لفظ بولتے ہیں۔ یہ انسان کا اصل وجود ہے جو ہماری شخصیت کی نمائندگی کرتا ہے ۔اس مقصد کے لیے ہماری زبان میں عام طور پر ‘روح’ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہےں۔ تاہم اس فرق کو سمجھ لینا چاہیے کہ روح یا Soul کا لفظ قرآن مجید میں ان معنوں میں استعمال نہیں ہوابلکہ اس مفہوم کے لیے نفس کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
روح: روح کا لفظ قرآن مجید میں متعدد معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ حضرت جبرائیل کے لیے استعمال ہوا ہے (القدر:4، مریم:17)۔ یہ لفظ وحی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے (غافر:15)۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اذنِ خصوصی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے (حجر:29)۔ آپ نے سورہ بنی اسرائیل کی جس آیت (85) کے حوالے سے سوال کیا ہے اس میں ‘روح’ کا لفظ ‘وحی الہٰی’ کے لیے استعمال ہوا ہے۔
وحی: سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ پیغام ہے جو وہ اپنے نبیوں اور رسولوں پر نازل کرتے ہیں۔ البتہ قرآن مجید میں بعض مقامات پر یہ لفظ اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ سورہ نحل:68 میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ”تیرے رب نے شہد کی مکھی پر یہ القاء کیا ہے کہ۔۔۔۔۔۔”۔ الہام، القاء کرنے یا دل میں ڈالنے کے اسی مفہوم میں یہ لفظ سورہ طٰہٰ آیت 38 میں حضرت موسیٰ کی والدہ کے حوالے سے استعمال ہوا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply