• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بلوچستان کا قومی سوال اور پاکستانی لیفٹ کا المیہ۔۔۔۔ظہیر احمد بلوچ

بلوچستان کا قومی سوال اور پاکستانی لیفٹ کا المیہ۔۔۔۔ظہیر احمد بلوچ

مجھے بڑے تعجب کے ساتھ بتانا پڑ رہا ہے کہ میں جب بلوچ قومی سوال کی بات کرتا ہوں تو مابعدجدیدیت کے زمرے میں رہ کر نہیں بلکہ بطور ایک سوشلسٹ قومی جدوجہد میں طبقاتی پروگرام پر یقین رکھنے والے اس ساتھی کے بطور کرتا ہوں جس نے بغیر کسی آئیڈنٹی تضاد کے اوکاڑہ کے مزارین خاص کر آپا بدر نسا کو لاہور پریس کلب کے سامنے خوش آمدید کہہ کر لاہور لیفٹ کی نمائندگی کی۔ وہ ساتھی جس نے قومی پہچان سے ماورا ہو کر دیگر اقوام کے مزدور کسان طبقے کے ساتھ جڑت کا مظاہرہ کیا۔ مذہبی فاشسٹوں کی مخالفت میں لاہور کی ہی سڑکوں پر احتجاج کیے، پنجاب کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے بالادست طبقے کے خلاف لاہور کی ہی سڑکوں پر مظاہرہ کیے۔ یہاں تک کہ مجھ پر پہلی ایف آئی آر کسی بلوچ کے لیے احتجاج کی وجہ سے درج نہیں ہوا بلکہ لاہور ہی کے لبرٹی تھانے کی حدود میں ایک پشتون پروفیسر کے بے دردی سے قتل کے خلاف احتجاج آرگنائز کرنے کی وجہ سے درج ہوئی۔

ہمارے ہاں اتنے سارے لوگ جنگ میں مارے جا چکے ہیں کہ اب کسی ایک نام کو لے کر کریڈٹ بھی نہیں لیا جاتا۔ مگر خیر آپ نے کامریڈ سبین محمود کا نام لے ہی لیا تو بتاتا چلوں کہ لاپتہ افراد کے کیمپ میں لگے کامریڈ سبین محمود کی تصویر اس بات کی گواہی ہے کہ ہم اپنے نظریاتی دوستوں کو بھولتے نہیں۔ ملتان کی سڑکوں پر پی ٹی ایم اور دیگر اقوام کے مزدور طبقوں سے یکجہتی کے بدلے ہمارے ساتھی اور بی ایس او کے جوائنٹ سیکٹری سنگت جیئند بلوچ آٹھ ماہ تک لاپتہ رہے۔ وہ بہاؤلدین زکریا یونیورسٹی میں شعبہ سماجیات میں زیر تعلیم ایک ترقی پسند اور مارکسی تناظر ہی سے قومی جدوجہد کو دیکھنے والے طالب علم ہیں مگر افسوس کہ پنجاب کے لیفٹ نے پنجاب ہی کے تعلیمی اداروں میں ہمارے جمہوری حقوق پر لگی قدغن پہ مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔

لاہور لیفٹ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لاہور کے مین بولیوارڈ، لمز ڈی ایچ اے اور گلبرگ کے گرد گزاری جانے والی زندگی اور خانہ بدوشی کی زندگی دو مختلف دنیائیں ہیں۔ اکیسویں صدی میں خانہ بدوشی کی زندگی گُزارنے والی ایک چھوٹی قوم بلوچ کو اُن کے جمہوری حقوق دلانے میں لاہور لیفٹ کس حد تک کامیاب ہو سکا ہے، اس پہ طویل مکالمے کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ لاہور لیفٹ چھوٹی قوموں (بلوچ، پشتون اور گلگتیوں) کو جب تک اُن کے جمہوری حقوق نہیں دلاتا، تب تک بین الاقوامی یکجہتی بے معنی اور ساتھ ساتھ پسے ہوئے اقوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اور ویسے بھی جہاں ایک طرف زندگیاں متاثر ہوں اور دوسری طرف نوکریوں کی فکر کرنا، کم از کم ہمارے معروض میں تضحیک سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔

کامریڈ تیمور رحمان صاحب الزام تراشی پر اُتر آنے کے بجائے یہ کیسے بھول گئے کہ جب پنجاب کے تعلیمی اداروں میں طالب علموں کو مارکسزم کی جدلیات تک سمجھ نہیں آتی تھی تو دوسری طرف بلوچستان میں بشمول آپ کے والد اور چچا محترم طبقاتی شعور رکھنے والے بلوچ مسلح محاذ پر تھے؟۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پنجاب کے لیفٹسٹ کو ہم سے رابطہ کرنا چاہیے تھا مگر اس کے باوجود ہم نے خود جڑت پیدا کی اور سبین محمود کے قتل کے بعد لمز سے جنم لینے والے تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس الائنس کو سہارا دینے لاہور کے بلوچ طلبا ہی آئے اور اپنی طرف سے ذمہ داریاں پوری کیں مگر اب بلوچ طلبا سمجھتے ہیں کہ یہ الائنس تب تک ممکن نہیں جب تک لاہور لیفٹ بلوچ طلبا کو ان کے جمہوری حقوق دلانے کے لیے عملی طور میدان میں نہیں آتا۔ اسی سال بہاول پور سے اور پشاور سے چار بلوچ طالب علم ماورائے عدالت جبری گمشدہ کیے جا چکے ہیں، کیا مزدور کسان پارٹی نے اب تک کوئی ایک بیان تک جاری کیا؟۔

ہم پر سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ ہم صرف قومی دائرے میں رہ کر ظلمت کو دیکھتے ہیں۔ لاہور لیفٹ چونکہ خود کو احتساب سے بری سمجھتا ہے۔ وہ کسی کے سوال کرنے پر خود ہی victim card کھیلنے لگتے ہیں مگر سوال ہم پر اٹھائے جاتے ہیں اور الزام تراشتے ہیں کہ ہم وکٹم کارڈ کھیلتے ہیں۔ کیا کوئی لاہور لیفٹ سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ جب پشتون تحفظ موومنٹ سرفیس پر تھی تو حقوقِ خلق موومنٹ بنانے کا کیا مقصد تھا؟ بقول کامریڈ لینن، ایک حاکم قوم کے سوشلسٹ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ محکوم اقوام کی برابری کا تحفظ کرے۔ مگر جہاں تک پاکستانی مارکسسٹوں کی بات ہے تو ان سے بلوچستان کو ہمیشہ شکوہ رہا ہے، جس میں میری طرف سے لاہور لیفٹ کچھ اضافہ سمجھے۔

بلوچستان گذشتہ سترہ سالوں سے مسلسل ماورائے عدالت جبرگمشدگیاں، مسخ شدہ لاشیں، اجتماعی قبروں کے علاوہ اساتذہ، شاعروں، ادیبوں، دانش وروں اور جرنسلٹس کے قتلِ عام جیسے اذیت ناک مظالم، دوسری طرف اذ تذلیلِ خاموشی اور مرگ کے درمیان مرکز کے مزاحمت کاروں، ادیبوں، شاعروں اور دیگر فکر و شعبے کے لوگوں کی دانش وارانہ بخالت اور اِس پر اُن کا خود کو احتساب سے بری سمجھنا انتہائی بے ہودہ و بھونڈا عمل ہے۔

حال ہی میں لاہور لیفٹ فرنٹ اور خصوصی طور پر حقوقِ خلق موومنٹ کی طرف سے سوشل میڈیا پر جاری کردہ بیان جس میں وہ سیاسی قیدی علی وزیر، محسن داوڑ، بابا جان، اوکاڑہ سے مہر ستار اور اس کے علاوہ یہاں تک کہ نواز شریف کی گرفتاری کی بھی مزاحمت کی گئی۔ جبکہ دوسری جانب ہزاروں ماورائے عدالت جبری قیدیوں (جن میں اکثریت بلوچ سیاسی قیدیوں کی ہے) کو مکمل طور نظر انداز کردینا، یہ واضح تاثر فراہم کرتا ہے کہ پنجابی مارکسسٹ بلوچ سیاسی قیدیوں پر نسل پرستانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

یہاں تک کہ بلوچستان کا بچہ بچہ یہ جانتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی قیدیوں کی تعداد سب سے زیادہ بلوچستان سے ہے۔ شاید بلوچ کی بدبختی ہے کہ پنجاب کے ان ترقی پسندوں کی نسل پرستانہ رویوں کی بلوچ بار بار نشاندہی کرنے کے بعد اب تو شکایت کرنے سے بھی مایوس ہو چکا ہے۔

آخر میں میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ پنجاب کے مارکسسٹوں، ادیبوں، شاعروں اور لکھاریوں کو اگر ہماری بات سمجھ نہیں آتی تو وہ بلوچستان کے متعلق intellectual dishonesty پر سرائیکی زُبان کے شاعر صوفی تاج گوپانگ کے نظم کا ایک بند جس میں وہ خود اپنے قلم پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں، اسے ہی پڑھ لیں:

میں کیوں جو قلمکار آں
‏میں لفظیں کوں ٹھہا نظماں لکھیندا ہاں
‏میݙے کندھی شریک ہمسائے بلوچیں دے
‏گھریں وچ دھاڑ پئے ڳئی اے
‏میں ہک وی حرف نئیں ٻولیا
‏پتہ نئیں کھوٹے اکھریں دے میں بزدل لکھاری دا
‏قلم تاریخ کوں کیا پاندھ ݙیسی میں شرمسار ہاں

Advertisements
julia rana solicitors london

اردو ترجمہ:
میں جو ایک قلم کار ہوں
میں لفظوں کو ترتیب دے کر نظمیں لکھتا ہوں
میرے ہمسائے بلوچ کے گھر میں رونے کی دھاڑیں ہیں
لیکن میں ایک لفظ بھی نہیں کہا!
پتہ نہیں اس بزدل لکھاری کے کھوٹے لفظوں کا
میرا قلم، تاریخ کو کیا پیغام دے گا، میں شرمندہ ہوں!!

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply