• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی کا کھتارسس/چند تصویریں جو اجتماعی بے عزتی کا احساس دلاتی ہیں۔ ۔اعظم معراج

پاکستانی کا کھتارسس/چند تصویریں جو اجتماعی بے عزتی کا احساس دلاتی ہیں۔ ۔اعظم معراج

کل چار تصویریں دیکھیں ، ایک میں ایک مذہبی راہنما ء  بیچارہ ایک حکومتی پارٹی کی    ورکر کے دفتر میں مؤدبانہ چہرے پر انکساری سجائے کھڑا ہے۔اور پارٹی ورکر چہرے پر رعونت لئے اپنی کرسی پر بیٹھی ہیں۔(یاد رہے مذہبی راہنماء  کی انکساری بھی کرسی سے مشروط ہے۔ورنہ؟؟کچھ کہنے کی ضرورت نہیں).

دوسری تصویر میں وہ ہی حکومتی ورکر ایک بھاری گلدستے کے بوجھ سے دوہری ہوتی پتہ نہیں کب سے پارٹی پیر کے انتظار میں کھڑی ہیں۔لیکن اس تصویر میں چہرے پر زمانے بھر کی انکساری اور عاجزی ہے۔ تیسری تصویر میں جب پارٹی ورکر پیر کی آمد میں تاخیر کی بدولت وہ تھک کر بیٹھ گئی ہیں۔تو ایک ہاتھ میں عمرو عیار کی زنبیل کے سائز کا بیگ اور دوسرے ہاتھ کی مدد سے گلدستہ گود میں رکھا ہوا ہے  ناکہ صوفے کے ساتھ والی ٹیبل پر ،وجہ شاید یہ رہی ہو کہ پیر کی آمد پر گلدستہ اٹھانے میں دیر یا بھول چوک نہ ہو جائے۔ چوتھی تصویر میں کراچی کا ایک محنت کش فیزوتھراپسٹ ندیم گل ان دونوں کو اس طرح کی تصویروں سے بچانے کے لئے اور انکی بحالی عزت کے لئے شدید گرمی میں کوشاں ہے۔ تین تصویریں شیئر کرتے ہوئے مجھے شرم آرہی ہے۔ کیونکہ ایسی تصاویری نمائش سے پیٹ میرا ہی ننگا ہونا ہے۔ گو کہ یہ تین تصویریں میرے معاشرے کا اصل چہرہ ہے۔ چوتھی قابل فخر تصویر حاضر ہے۔ ندیم گل گرمی کی وجہ سے آنکھوں میں آیا پسینہ صاف کر رہا ہے۔ ناکہ شرمندگی سے منہ چھپا رہا ہے۔پانچویں تصویر ایکسٹرا ہے۔کیونکہ اس تصویر میں ندیم گل اپنے کام کے سامنے فخر سے کھڑا ہے۔کیونکہ اسے یقین ہے۔وہ اَسّی لاکھ لوگوں  کی بحالی ء عزت ِ نفس کے لئے کوئی کام انجام دے رہا ہے۔ یہ تصویر ایکسٹرا اس لئے ہے کہ عزتِ  نفس شاید  ہمارا مسئلہ نہیں ،یا کم از کم ان تصویری خواتین وحضرات کا تو قطی نہیں، ورنہ وہ ایسی تصویریں فخریہ شیئر نہ کریں اور نہ ان کے حواری ایسی تصویروں پر شرمندگی محسوس کرنے کی بجائے واہ کے ڈونگرے برساتے ۔ اس لئے میں پانچویں تصویر شیئر کرنے پر معذرت چاہتا ہوں۔

اس سے پہلے بھی  ایک تصویر نے  چند دن پہلے رنجیدہ اور شرمندہ کیا تھا، وہ تصویر ایسی تھی کہ پچھلے دنوں پاکستانی معاشرے کے معروضی میعار کے مطابق ایک بڑے شخص کی صاحب زادی کی شادی تھی ۔ظاہر ہے انھوں نے بہت سے لوگوں کو اس خوشی کے موقع پر دعوت دی تھی ان مہمانوں کی فہرست میں ایک پارٹی ورکر ایسا بھی تھا جو تینتیس لاکھ لوگوں کی شناخت پر لیکن اسی بڑے آدمی کی سفارش پر بظاہر اہم منصب پر فائز ہے۔ اس نے جہازی سائز کا وہ دعوت نامہ ہاتھ میں پکڑ کر تصویر سوشل میڈیا پر جاری کی۔ یہ حرکت سر انجام دینے والا وہ واحد مہمان تھا۔

اسی طرح کی ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایسا ہی ایک کردار جیبوں میں آدھی انگلیاں ڈال کر پاکستانی معروضی حالات کے معیار کے مطابق  مکمل انقلابی حلیہ بنائے کچھ مظلوم خاندانوں کے ہاں پہنچا، وہاں اس نے نقلچی  سٹائل میں تقریر کی،واہ واہ سمیٹی، وہیں  سے تھانے پہنچ کر وہ تھانے دار کے سامنے بھیگی بلی بنا تھانے دار کی تعریفوں کے پل باندھ رہا تھا ۔شکریہ سوشل میڈیا جرنلزم جو جلد ہی حقیقت کھول کر رکھ دیتا ہے۔

چند دن پہلے ایسے ہی کسی کو بلوچستان اسمبلی میں کہا گیا “چپ کر اوئے خیراتی نشست والے۔ ”

چند سال پہلے ایک اچھے خاصے پڑھے لکھے نوجوان کو ٹکٹ لینے کے لئے اپنی سیاسی بصیرت دکھانے کی بجائے ایک سیاسی جماعت کے مالک کو گانا سناتے ہوئے بھی دیکھاگیا۔

ندیم گل آپ اور آپ کے بے لوث ساتھی ان مورکھوں کی بحالیء  عزت میں جس طرح جٹے ہو۔خدا آپ کو اس کا اجر عظیم عطا فرمائیں آمین۔ورنہ انھیں تو احساس ہی نہیں آپ انکے لئے کیا کر رہے ہیں ۔ ورنہ یہ آپ ساتھ نہ کھڑے ہوں اور پیروں ،فقیروں کی جگہ آپ سے تصویر کھنچوانے میں فخر محسوس کریں ۔ آپکے کے ساتھ مل کر یہ پوسٹرز لگائیں یہ نہ کرسکیں تو آپ اور آپ کے ساتھیوں کو خوشامد سے نہیں بلکہ عقیدت سے پھول پیش کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا  کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply