حکومت مخالف جماعتوں کا حق احتجاج ۔ انور جوکھیو

یہ ایک عام سوال ہے اور خصوصاً حکومتی وزرا کی جانب سے بار بار اٹھایا جاتا ہے کہ حکومت پانچ برس کے لیے منتخب ہوئی ہے اور اس کے خلاف احتجاج غیر آئینی عمل ہے۔ اگر ہم بنظر غائر جائزہ لیں تو پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں کسی بھی حکومت کے لیےپانچ سالہ مدت ایک طویل عرصہ ہے۔ میری رائے میں حکومت کی ابتدائی مدت دو سال ہونی چاہیے اور اگر کوئی حکمران ان دو سال کے دوران کاکردگی دکھانے (ڈیلیور کرنے) میں کامیاب رہتا ہے تو پھر اسے اگلے تین برس بھی دئیے جائیں اور اس کو لا تعداد مرتبہ منتخب ہونے کا بھی حق ہونا چاہیے۔ موجودہ پانچ سالہ مدت عوام کے اور اپوزیشن کے اعصاب توڑ دیتی ہے ۔ اگر موجودہ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو  نواز شریف نے منتخب ہونے کے بعد اب تک عوام کے حقیقی مسائل کے بارے میں کوئی پیش رفت نہیں کی ہے بلکہ ان کا فرمانا ہے کہ اگر “ہمیں 10 سال دے دیے جائںی تو ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کر لیں گے۔” جبکہ حقیقت یہ کہ پچھلی حکومت کی پالیسیاں ہی چلائی جارہی ہں ۔ اس تناظر میں اپوزیشن کی جانب سےاستعفی کا مطالبہ ایک مناسب اور جائز قدم ہے ۔ اگر ملک کے حالات اب درست نہ ہوئے اور ملک ایک فلاحی مملکت میں تبدیل نہ ہوا اور آئی ایم ایف سے جان نہ چھڑائی گئی تو بہت دیر ہو جائے گی۔ آنے والے وقت میں جگہ جگہ معاشی بنیادوں پر فسادات پھیل جانے کا اندیشہ ہے۔ بڑے سے بڑا لیڈر انھیں نہ روک سکے گا ۔ موجودہ حکومت کے حامیوں کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے میں کہنا چاہوں گا کہ آئین کا صرف نام ہی بدنام ہے ورنہ تو حکومت بھی مکمل طور پر آئین پر عمل درآمد نہیں کرتی ۔ آئین سے انحراف کے مرتکب سابق ڈکٹیٹر پر غداری کا مقدمہ کیوں نہیں داخل کیا گیا جبکہ اس کی سزا اور طریقہ کار آئین میں موجود ہے ۔ آئین ملک کے عوام کو روزگار ، تعلیم اور انصاف کی آزادی فراہم کرتا ہے اور حکومت ِ وقت کو اس کا پابند کرتا ہے۔ اس پر عمل کروانے کے لئے ہمیں آئین کیوں یاد نہیں آتا ، آئین میں پاکستان کی قومی اور دفتری زبان اردو ہے ،پھرعدالتوں میں بھی انگلش کیوں استعمال ہوتی ہے؟  آئین ِ پاکستان کے آرٹیکل 62 ، 63 کسی بھی ممبر اسمبلی کے لئے ایک معیار مقرر کرتے ہیں ، نامزدگی کے وقت انہیں کیوں نظر انداز کر دیا جاتا ہے؟  جو رویہ ہمارا قرآن کے ساتھ ہے وہی اس آئین ِ پاکستان کے ساتھ بھی ہے ۔ جب بات حکومت یا کسی پریشر گروپ کے حق میں جاتی ہے تو کسی کو آئین یاد نہیں آتا اور جب ذاتی مفاد پر ضرب پڑتی ھے تو ہمیں آئین یاد آ جاتا ہے ۔ کیا حقیقت میں یہ ملک آئین پر چل رہا ہے؟ کیا کاغذ کا وہ ٹکڑا جو عوام کے حقوق کے نفاذ کا سبب نہ بن سکا، زیادہ اہم ہے یا اس ملک کے عوام کے اجتماعی مفادات؟ آئین اور قوانین عوام کے رد عمل سے ، رسوم و رواج سے بنتے ہیں ، جو قانون عوام کے رسم و رواج اور لوگوں کی ضروریات سے ٹکراتا ہو وہ اس لائق ہے کہ اسے رد کر دیا جائے ۔ اگر چہ رد کیے جانے اور خلاف ِ آئین قوانین کو ختم کرنے کا اختیار بھی حکومت ِ وقت کے پاس ہوتا ہے لیکن پاکستان کے آئین کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس پر من و عن عمل نہیں کیا جاتا اور  نہ ہی کیا جاسکتا ہے ۔ جب یہ مان لیا گیا کہ نواز حکومت غلط ہے ، اور ایک غلط اور کرپٹ حکومت خود کو اقتدار سے علیحدہ کرنے پر راضی نہیں ہے اور اصلاحات نافذ کرنے پر بھی تیار نہیں ہےاور  صرف 5 سالہ اقتدار پورا کرنے پر مصر ہے تو ایسی حکومت کے خلاف عمران اور قادری جو کچھ کر رہے ہیں ، وہ ایک نرم عمل ہے ۔ آئین اور قانون کے تحت عوام ِپاکستان کا یہ حق ہے کہ وہ اجتماع کر سکیں ، اجتماعی طور پر اسمبلی بنا کر احتجاج کر سکیں، مارچ کر سکیں ،دھرنا دے سکیں اور کسی کرپٹ حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرسکیں ، ان تمام اقدامات کو آئین تحفظ فراہم کرتا ہے کیونکہ یہ عوام کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

(انورجوکھیوسینئیر قانون دان ہیں۔ آپ سندھ کی دھرتی کی مدھر آواز ہیں۔)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply