وفاق میں کس کی حکومت ہے ؟-محمد اسد شاہ

8 فروری 2024 کو عام انتخابات منعقد ہوئے ۔ ان انتخابات کے انعقاد سے قبل ہی یہ طے تھا کہ نتائج “متنازع ” ہوں گے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی عمران خان کی پارٹی کو 2018 جیسی “سرپرستی ” حاصل نہیں تھی ۔ عمومی تاثر کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ عمران اور اس کی پارٹی کو حالیہ انتخابات میں بھی سرپرستی حاصل تھی اور اب بھی ہے لیکن یہ 2018 سے ذرا مختلف ہے ۔ یہ سرپرستی کون کر رہا ہے اور کس طرح کر رہا ہے ، یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ۔ چوں کہ اس بار سرپرستی ذرا منقسم تھی ، اس لیے یقینی بات تھی کہ عمران کو اس کی خواہش کے مطابق نشستیں نہیں دی جا سکیں گی ۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو عمران کی خواہش کے مطابق نہ ہو ، عمران اسے بہت ہوشیاری کے ساتھ متنازع  بنا لیتا ہے ۔ چناں چہ 2024 کے انتخابی نتائج کا متنازع  ہونا پہلے سے طے شدہ امر تھا ۔ عمران کی سرپرستی کا تیسرا دور جاری ہے ۔ پہلا دور یوں تو عرصہ دراز سے جاری تھا لیکن اس پر خصوصی ، باقاعدہ اور منظم “محنت” 2010 میں شروع ہوئی اور 2023 میں یہ پہلا دور مکمل ہوا ۔ اس دور میں عمران کو ہیرو ، دیوتا، لیڈر ، ہینڈسم ، صادق ، فرشتہ اور امین وغیرہ بنایا گیا ، اور اس کی ہوس اقتدار کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ یعنی نواز شریف پارٹی کو ہر طرح سے برباد کیا گیا ۔ اس معاملے میں نادیدہ طاقت کے تمام مراکز ، جنھیں میں “پروپرائیٹرز” کہا کرتا ہوں ، نے دن رات یک جان ہو کر ہر طرح کی “محنت” کی ۔ پروپرائیٹرز نے مل کر گلی محلوں تک سے نواز شریف کی مقبولیت کو جڑ سے اکھاڑنے کی بہت زبردست اور کامیاب کارروائیاں کیں ، جن کے ثمرات اب تک حاصل کیے جا رہے ہیں ۔

عمران کی سرپرستی کا دوسرا دور 2023 میں تحریک عدم اعتماد کے ساتھ شروع ہوا ۔ یہ تحریک عدم اعتماد ویسے تو عین جمہوری اور آئینی تھی لیکن عمران کے سرپرستوں نے اس کے ذریعے عمران کو ایک ایسا “مظلوم ہیرو” بنا کر پیش کیا جو “بے چارہ اکیلا” ہے اور “ڈٹ کے کھڑا” ہے ۔ تحریک عدم اعتماد اس لیے ضروری تھی کہ 2018 میں عمران کو حکومت بھی دی گئی اور تمام پروپرائیٹرز کی سو فی صد پشت پناہی بھی عطا  فرمائی گئی ۔ لیکن عمران نے کرپشن کے وہ ریکارڈز قائم کیے کہ خصوصاً وفاق ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ملکی معیشت ، معاشرت ، اخلاقیات اور سیاست کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ ملک میں پیسہ رہا نہ ہی نوجوانوں میں تمیز ۔ دوپٹے اتار کر ، گالوں پر نقاشی کروا کے ، سرعام لڑکوں کے ہجوم میں ناچنے والی لڑکیوں کے ذریعے “نئی ریاست” ایجاد کی گئی اور اس ریاست کے لیے مدینہ منورہ کا مقدس نام نہایت بے رحمی کے ساتھ استعمال کیا گیا ۔ جب ملک میں پیسہ ہی نہ رہا تو پروپرائیٹرز کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوئی ۔ اگر عمران کو پورے 5 سال مسلط رکھا جاتا تو عمران کا نام ردی کے پرانے ٹوکروں میں پھینکی گئی دیمک زدہ کتابوں میں ہی ملتا ۔ یہ خیال تو پروپرائیٹرز کے لیے موت جیسا خوف ناک تھا ۔ چناں چہ فوری فیصلہ ہوا کہ اسے یوں ہٹایا جائے کہ وہ ظالم کی بجائے الٹا مظلوم نظر آئے ۔ جس عالمی طاقت کے اشارے پر اس نے سی پیک کو بند کیا ، مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ خراب کیا ، چین اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بگاڑے ، اسی عالمی طاقت کی “دشمنی” والا ناٹک بھی رچایا گیا ۔ تحریک عدم اعتماد پر گنتی کروانے کی بجائے آئین توڑنے جیسا جرم ثابت ہوا لیکن عارف علوی ، قاسم سوری اور عمران خاں کو اس پر کوئی سزا نہ سنائی گئی ۔ بلکہ اسے کھل کر ریاست کے خلاف کھیلنے کے تمام مواقع اور راستے دیئے گئے ۔ اس نے وہ سب کچھ کیا جو اس نے چاہا ۔ 9 مئی 2023 کو افواجِ پاکستان کی تنصیبات پر حملے کیے گئے ، فوجی وردی کی سر عام توہین کی گئی ، شہداء کے مجسمے تک اکھاڑ پھینکے گئے ۔ لیکن کیا کسی مجرم کو کوئی سزا ہوئی؟ نہیں ۔ ان کی وڈیوز ساری دنیا نے دیکھیں ۔ لیکن انھیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی ۔ جس شخص نے مشتعل ہجوم کو جی ایچ کیو کی طرف بھیجا ، اس شخص کو سزا کون سنا سکتا ہے؟ الٹا اسے تو نظر بند کرنا ہی جرم بن گیا ۔ ایک اشتہاری کو کسی تھانے یا عدالت میں پیش ہوئے بغیر وزارتِ اعلیٰ تک مکمل محفوظ راستہ عطاء ہوا ۔

سرپرستی کا تیسرا دور 8 فروری 2024 سے شروع ہوا ۔ عمران کے تمام کٹڑ ساتھیوں کو اسمبلیوں میں باعزت مقام دلوا دیا گیا ۔ ایک صوبہ تو مکمل طور پر اس کے حوالے ہے ۔ وہ سیاسی قیدی نہیں اور کسی سیاسی جماعت کا سربراہ بھی نہیں ۔ لیکن آئے روز اس کی سیاسی ملاقاتوں کے احکامات جاری ہوتے ہیں ۔ اسے جیل میں اس قدر مراعات حاصل ہیں کہ بھٹو ، شریف یا زرداری جن کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ قانوناً وہ سیاست سے نااہل ہے ۔ لیکن اسے پورے پروٹوکول کے ساتھ سیاسی جماعت چلانے اور ملک بھر میں آئے روز احتجاج کروانے کی تمام سہولیات میسر ہیں ۔ کوئی سرکاری وکیل عدالتوں میں یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ ایسا کیوں اور کس قانون کے تحت ہے؟

دوسری جانب، 8 فروری 2024 کے انتخابات میں وفاق/قومی اسمبلی کے لیے منقسم مینڈیٹ سامنے آیا ۔ بہت سے آزاد امیدوار جیتے ۔ آزاد رکن ایک ہو یا سو ، وہ کوئی جماعت نہیں ہوا کرتے ۔ چناں چہ سیاسی جماعتوں میں سب سے زیادہ نشستیں پاکستان مسلم لیگ (نواز شریف) نے حاصل کیں ۔ پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر ٹھہری ۔ نتائج کا لازمی اثر یہی تھا کہ اتحادی حکومت بنے جس کے لیے سیاسی جماعتوں میں مذاکرات ضروری تھے ۔ لیکن مذاکرات ہوئے تو پیپلز پارٹی جیت گئی ۔ صدر پیپلز پارٹی کا ، وزیر اعلیٰ سندھ پیپلز پارٹی کا ، وزیر اعلیٰ بلوچستان پیپلز پارٹی کا ، چیئرمین سینیٹ پیپلز پارٹی کا ، گورنر پنجاب پیپلز پارٹی کا ، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی پیپلز پارٹی کا ۔ یہ سب کچھ دینے کے بعد بڑی پارٹی یعنی مسلم لیگ نواز کو کیا ملا ، وزیر اعظم شہباز شریف اور سپیکر ایاز صادق ، بس !

بظاہر مسلم لیگ (نواز شریف) کی وفاق میں حکومت ہے لیکن پورے وزیراعظم ہاؤس میں آپ کو مسلم لیگ نواز کے قائد کی تصویر تک نظر نہیں آتی ۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ پیپلز پارٹی کے ہر وزیراعظم کے دور میں تمام سرکاری ملاقاتوں اور اجلاسوں میں وزیر اعظم کے پیچھے قائد اعظم کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو ، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی تصاویر لازمی ہوا کرتی ہیں ۔ لیکن اب صرف قائد اعظم کی تصویر ہے ۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ قائد اعظم کے علاوہ کسی اور لیڈر کا موجودہ وزیراعظم ہاؤس سے کوئی تعلق نہیں ۔ صدارتی انتخاب سے قبل وزیراعظم کے عشائیے میں شہباز شریف کے دائیں جانب آصف علی زرداری اور بائیں جانب بلاول زرداری بیٹھے تھے اور اسی سٹیج کو مکمل سمجھا گیا ۔ شہباز شریف ہر تقریر میں لازماً پیپلز پارٹی کے قائدین ذوالفقار علی بھٹو ، بے نظیر بھٹو ، آصف علی زرداری اور بلاول زرداری تک کے نام لیتے اور تعریفیں کرتے ہیں ۔ لیکن جوابی تقاریر میں آپ نے آج تک آصف علی زرداری یا بلاول زرداری کے منھ سے مسلم لیگ نواز کے قائد کی تعریف کبھی نہیں سنی ہو گی ۔ پہیلی تو یہ ہے کہ وفاق میں کس قائد اور جماعت کی حکومت ہے اور کس فارمولے کے تحت ہے !

Advertisements
julia rana solicitors london

 نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply