معیشت کی صورت حال کیا ہے؟/عامر حسینی

(درج زیل تحریر وٹس ایپ پر بنے ایک اسٹڈی سرکل گروپ میں ڈاکٹر ریاض احمد، سرتاج خان اور دیگر کے درمیان تبادلہ خیال اور میری تفہیم کا خلاصہ ہے ۔ خاص طور پر سیاسی جماعتوں بارے تبصرہ میرا ہے)
پاکستان کی تین ماہ میں 57 فیصد امپورٹ کم ہوئی ہے یعنی 3 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے ۔ایکسپورٹ میں 32 ملین ڈالر یعنی 18 فیصد کمی ہوئی ہے ۔
پاکستانی روپے کی شرح ڈالر کے مقابلے میں بہت زیادہ گری ہوئی ہے۔فرنس آئل، بجلی، گیس ان کو گھریلو ملازمین سے بھی سستی دی جارہی ہے تو ایکسپورٹ میں تو بہت زیادہ اضافہ ہونا بنتا تھا، بنا کیوں نہیں؟

ایکسپورٹ میں کمی کا سبب ٹیکسٹائل مصنوعات کی عالمی منڈی میں ڈیمانڈ میں بڑی کمی  ہے ۔ اس وجہ سے پاکستان کی ٹیکسٹائل فیکٹریاں 40 فیصد مشینری کا استعمال کررہی ہیں  ۔ یعنی فیکٹریوں میں  60 فیصد مشینری پروڈکشن ہی نہیں کررہیں ۔ ٹیکسٹائل گارمنٹس کی پروڈکشن میں جو بے تحاشا اضافہ تھا وہ بھی سُکڑ رہا ہے کیونکہ عالمی کساد بازاری کے سبب ڈیمانڈ تیزی سے نیچے آئی ہے ۔

یہاں ایک سوال یہ جنم لیتا ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں اس وقت بھی ٹیکسٹائل اور گارمنٹس پروڈکشن اور اُس کی سپلائی چین وسعت پذیر ہے، کیا وجہ ہے اُن پر عالمی کساد بازاری کا وہ اثر نہیں ہوا؟ اس کی وجہ وہاں پر ایک تو خام مال کی انتہائی سستے داموں دستیابی اور پھر پاکستان کے مقابلے میں سستی لیبر اور لیبر کی پیدواریت کی شرح پاکستان سے کہیں زیادہ ہے ۔

دوسرے الفاظ میں انڈیا اور بنگلہ دیش میں کسانوں اور لیبر کا شدید استحصال ہے اور پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ لیبر سے سستے داموں محنت کی قوت خرید کی جاتی ہے ۔

ایکسپورٹ اور امپورٹ سے جڑے پاکستانی سرمایہ دار اپنے منافع میں کمی کو نقصان قرار دے کر مزدوروں کا استحصال کررہے ہیں۔ ساتھ ساتھ مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کررہے ہیں جس سے عام صارف پر بوجھ بڑھ رہا ہے ۔

انڈس موٹرز نے ٹیوٹا کاروں کی اسمبلنگ پلانٹ دس روز کے لیے مکمل بند کردیا ہے کیونکہ ان کاروں کے سپیئر پارٹس کی برآمد میں مشکلات پیش آرہی تھیں ۔
فیصل آباد اور کراچی میں اکثر کارخانوں میں مزدوروں کو کام سے واپس بھیجا جارہا ہے اور تنخواہیں نہیں دی جارہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہنگائی کے سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم کا ایگری کلچر سپورٹ پروگرام کسانوں، زرعی گریجوئٹس اور خواتین کو بلاسود و کم شرح سود پر قرضے فراہم نہیں کرپایا ہے ۔ کسانوں نے مہنگی کھاد، سپرے، ادویات لیکر گندم، چاول و دیگر فصلوں کی کاشت کی ہے ۔
موجودہ حکومت کے وزیر خزانہ صنعت کاروں اور بڑے تجارتی مراکز کے مفادات کے مطابق کسی نہ کسی طرح شہری مراکز میں فوڈ سیکورٹی نیٹ ورک قائم کرنے کے بیانات دیے رہے ہیں تاکہ سستی فوڈ ہو تو اُن پر ورکرز کی تنخواہوں میں اضافے کا دباؤ کم ہوجائے گا ۔ لیکن دیہی اور مضافاتی غیر صنعتی علاقوں پر مشتمل آبادی کا کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔
اس وقت ملک بھر میں قائم پبلک یونیورسٹیاں فنڈز کی کمی کا شکار ہیں ۔ اکثر ادارے اپنے تدریسی اور غیر تدریسی عملے کو تنخواہیں نہیں دے پارہے ۔
ایچ ای سی اور وفاقی فنانس ڈیپارٹمنٹ سرکاری جامعات میں کئی شعبہ جات سے تدریسی نان تدریسی عملے میں ڈاؤن سائزنگ پر زور دے رہا ہے ۔ نئی بھرتیوں پر مکمل پابندی لگائی جارہی ہے ۔ ترقیاتی بجٹ پر کٹ لگایا جارہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت پاکستان کی سیاسی جماعتیں چاہے وہ 11 جماعتی اتحادی حکومت میں شامل ہوں یا اپوزیشن میں ہو سب کی سب کارپوریٹ سیکٹر، ٹریڈرز، رئیل اسٹیٹ بزنس، بڑی زرعی ملکیت والے کاشتکاروں، سیڈ و زرعی ادویات و کھاد کے کاروبار سے جڑے سیکشن پر ٹیکس لگانا نہیں چاہتے کیونکہ یہ سب بڑے پریشر گروپ کے طور پر ان جماعتوں میں موجود ہیں ۔ یہاں تک کہ باوردری و بے وردی نوکر شاہی اور عدالتی اسٹبلشمنٹ کے بھی انہی پریشر گروپوں میں شامل ماسٹرز سے رشتہ داری یا کاروباری ساجھا داری ہے ۔

سیاسی جماعتوں میں سب سے کمزور آواز شہری و دیہی غریبوں، ورکنگ کلاس، نچلے متوسط طبقے کی ہیں اور ان کے مفادات کو سب سے زیادہ پس پشت ڈال کر سارا بوجھ اُن پر ڈالا جاتا ہے
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ pcsir کراچی کے 2500 ملازمین کو تنخواہ اور کئی سو ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن نہیں ملی۔

وفاقی اردو یونیورسٹی کے دو کیمپس کراچی میں قریب 300 اساتذہ اور ہزار کے قریب ملازمین کو اس ماہ 40 فیصد سیلری ملی، ہاؤس سیلنگ بند، بقیہ سیلری کا 50 فیصد دیا۔

اس پر المیہ یہ کہ چار دن سے اردو یونیورسٹی میں  احتجاج ہے، صرف عبدالحق کیمپس پر اور وہاں جب جمعہ کو امتحانات کے بائیکاٹ کا اعلان ہوا تو اس پر سیکرٹری انجمن اساتذہ اور دیگر کو  شوکاز بھیج دئیے گئے، کمال یہ ہوا کہ انجمن کے صدر جو احتجاج کے خلاف ہیں انہوں نے وی سی سے کہا اس سیکرٹری کو چار اور شو کاز دو، پھر بھی اساتذہ احتجاج کر رہے ہیں، امتحانات کا بائیکاٹ نہ کر پائے کہ تقسیم ہیں اور ان میں وہ حالیہ اکتوبر میں استاد اپائنٹ ہونے والے بھی ہیں جو اور دیگر ٹمپریری اپنی جیب سے فوٹو اسٹیٹ کروا کر امتحان کے پرچے بانٹ کر امتحان لے رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس قدر جبر اور بیگار کے ساتھ کام لینے کا ماحول بنتا جا رہا ہے کہ جو پہلے کبھی بھی نہ تھا۔
اس لیے اردو یونیورسٹی میں جو اساتذہ بھی احتجاج کر رہے ہیں ان کو اپنی تعداد پر گبھرانا نہیں چاہیے۔
آپ کا احتجاج ان تمام حکمرانوں کو خوفزدہ رکھے گا جو دیگر سرکاری ملازمین پر حملہ آور ہیں، کم سہی، لیکن آپ ہم سب کی ڈھال ہیں۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply