ریاستی نصاب سے مکالمہ ۔ عزیر سالار

“ہم جیت گئے, ہم جیت گئے

تمام اہلیانِ وطن کو گزرا یوم دفاع مبارک ہو، ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں”

 ماشاءاللہ آپ زندہ قوم ہی ہیں، بس کسی سازش کے تحت ہرے پاسپورٹ کی رینکنگ غلط چھپ گئی اور بیچارہ نیچے سے دوسرے نمبر پر آیا ہے- جارح دشمن کو ہرانے والی قوم کا عظیم پاسپورٹ۔ کیا کہا جارح؟، میں تو ٹھہرا عام سولین سو میرا تو کوئی دعوی ہے نہیں، لیکن اپنی شاہینوں کی فوج کا سربراہ، یعنی ہمارا ائیر مارشل کہتا ہے کہ اس جنگ سمیت سبھی چاروں جنگیں ہم نے شروع کیں۔ لیکن سرکاری نصاب میں تو یہ لکھا ہے کہ “جارح دشمن نے طاقت کے نشے میں چور ہو کر ارض پاک پر میلی آنکھ سے دیکھنے کی جسارت….”

“چھوڑو یار کیا یہ گیتا تم چھٹی دفعہ سنا رہے ہو۔ دیکھو جو بھی ہے ہم نے لاشوں کے ڈھیر لگا دیے تھے یہ تو تمہیں بھی ماننا ہی پڑے گا ہم نے خون کی ندیاں بہا دیں تھیں، پوری دنیا مانتی ہے یہ والی جنگ ہم جیتے تھے تم کیوں نہیں مانتے؟”

میرے پیارے سرکاری نصاب، اگرچہ میرے استاد گوگل کا مانیٹر وکی پیڈیا کچھ اور بتا رہا ہے لیکن میں جنگوں پر لاشیں گن کر فخر کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ مجھے خوشی نہیں ہوتی اگر سرحد کے اس پار بھی کسی گھر میں کوئی جنازہ پہنچے اور لاکھوں ارمان سجائے بیٹھی کوئی لڑکی بے وقت بیوہ ہو جائے ، مجھے سرحد پار کسی یتیم بچی کا چہرہ بھی اتنا ہی قابل رحم لگے گا جتنا کسی کو سرحد کے اس طرف کسی بچے کا لگ سکتا ہے۔ بس یہی کارن ہے کہ میں دنیا کی تعمیر کو تخریب پر فوقیت دیتا ہوں، میں پاکستان کو اس سات دہائیوں پر محیط جنگی ماحول سے نکالنا چاہتا ہوں، مجھے اپنے وطن کو ایران یا شمالی کوریا نہیں بنانا… مختصر یہ کہ مجھے کسی وردی کی آغوش میں پناہ نہیں چاہیے مجھے اپنی حفاظت کے لیے ملک کے گرد مضبوط معیشت کی خاردار تار لگانی ہے-

“اچھا تو تمہارا مطلب ہم اپنی فتوحات پر فخر کرنا چھوڑ دیں؟”

دیکھو ضرور فخر کرو لیکن تمام حقیقتوں کو تسلیم کر کے… سب سے پہلے دنیا میں اپنا مقام دیکھو اور اپنے اس دشمن کا بھی جسے اکاون سال پہلے تم نے زیر کیا تھا- میں چاہتا ہوں اس قومی دن پر تو چلو جھوٹ کو قومی سطح پر منا لو لیکن اس کے بعد کبھی کسی قومی دن پر تم قوم کے ساتھ مل کر کچھ ایسا پلان کرو جس میں واقعی فخر ہو…. حقیقی معنوں میں فخر….. کیوں ناں کسی دن ہم سب مل کر یہ یہ عہد کر لیں کہ اگلے بیس یا تیس سال میں پاکستان میں ایک ایسی یونیورسٹی بنانی ہے جو کم سے کم اسلامی دنیا کی نمبر ون یونیورسٹی ہو، ایک ایسی یونیورسٹی جس میں جاپان کوریا ملائشیا آسٹریلیا چین بھارت روس ایران سعودی عرب ترکی یورپ کینیڈا اور امریکا سے بھی طالب علم پڑھنے کے لیے آئیں… یہ ہوگی اسلام کی حقیقی خدمت اور یہ ہی ہو گا پاکستان کا حقیقی فخر۔ یہ یونیورسٹی صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں ہوگی بلکہ ایک نئے عہد کا آغاز ہوگی- لیکن اس کے لیے ہمیں کسی بزنس ٹائیکون کا چندہ نہیں بلکہ کچھ بیش قیمتی لوازمات درکار ہوں گے جیسے کہ کھلی فضا، مثالی امن، ہوا دار اذہان اور سیاسی استحکام۔ اس کے علاوہ ہمیں بس یہ سمجھنا ہے کہ کسی چوراہے پر دشمن کا ٹینک گاڑھ دینا بڑائی نہیں ہوتی بلکہ کسی چوک میں ایک ٹیچر کا یا سائنسدان کا فلاسفر کا یا لیڈر کا مجسمہ گڑھا ہو وہ قابل فخر ہوتا ہے- اور یہ بھی کہ دشمن کو طاقت (جذبے) کے نشے میں تباہ و برباد کرنا ہرگز ہرگز قابل فخر نہیں بلکہ خود کو تعمیر کرنے میں ہی سارے جہانوں کا فخر پنہاں ہے-

(اب تو ہم نے جیتے جی دیکھ لیا کہ یہ تخریب کاری تو سچے جذبے سے سرشار مٹھی بھر طالبان ہم سے بہتر انداز میں کر لیتے ہیں، ستر ہزار لاشوں کا گھاؤ… گنتی گننے میں نجانے کتنے گھنٹے لگیں)

میں اپنی بات دہراتا ہوں تاکہ کم سے کم مجھے تو یاد رہے… “مجھے کسی وردی کی آغوش میں پناہ نہیں چاہیے مجھے اپنی حفاظت کے لیے ملک کے گرد مضبوط معیشت کی خاردار تار لگانی ہے-“

پاکستان زندہ باد ہو- آمین۔ اب کچھ لوگوں کو اعتراض ہو گا کہ میرا نعرہ سب سے مختلف کیوں ہے؟ ان کے لیے وضاحت بھی چسپاں کر دوں کہ جس دن قوم کی نظروں میں وطن کو تعمیر کرنے والے مزدور کی عزت اور وقار، وطن کی سرحد پر پہرہ دینے والے سپاہی کے برابر ہو جائے گا اس دن پاکستان حقیقی معنوں میں زندہ باد ہوگا-

تب کسی سے بندوق کی نوک پر زندہ باد کہلوانا نہیں پڑے گا پھر ارض وطن پر کوئی غدار پیدا نہیں ہوگا- کیونکہ غدار صرف وہاں پیدا ہوتے ہیں جہاں ناانصافی ہو اور یہاں نا انصافی ہے اور بے حد ہے- پاکستان کو زندہ باد بنانا ہے یا صرف کہلوانا ہے، اسکا دارومدار اس انصاف پر ہے جو ریاست مستقبل میں شہریوں کے ساتھ روا رکھے گی- تب ہمیں فخر کیلیے کسی نصابی جھوٹ یا خاص دن کے جشن منانے کی ضرورت نہ رہے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(عزیر سالار ساہیوال میں رہتے ہیں۔ انکی تحریر  اس بے چینی اور غصے کا اظہار ہے جو ہماری نوجوان نسل اکثر محسوس کرتی ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”ریاستی نصاب سے مکالمہ ۔ عزیر سالار

  1. میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے…
    ڈاکٹر عبدالسلام جیسے بھی مذہبی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھا دئے گئے، ورنہ ایسے نابغوں کی تصویریں نوٹ پر چھپتی ہیں.

    1. یار پریشانی یہ نہیں ہے کہ ہم پست ذہن ہے اصل پریشانی یہ ہے کہ ہم ماننے کو تیار نہیں کہ ہم پستی میں ہیں اور نکلنا ہے

Leave a Reply