• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن(2،آخری حصّہ)۔۔ میجر جنرل (ر)خادم حسین راجہ /ترجمہ : لیاقت علی ایڈووکیٹ

مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن(2،آخری حصّہ)۔۔ میجر جنرل (ر)خادم حسین راجہ /ترجمہ : لیاقت علی ایڈووکیٹ

اٹھارہ مارچ کی صبح میں اور فرمان میرے دفتر میں مجوزہ فوجی ایکشن کی منصوبہ بندی کے لئے اکٹھے ہوئے ۔میں نے اس بات کا اہتمام کر لیا تھا کہ ہماری دفتر میں موجودگی کے دوران میری بیوی میرے بنگالی اے ڈی سی کو کسی نہ کسی طریقے سے مصروف اور دفتر سے دور رکھے گی۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ فرمان کی صبح سے ہی میرے دفتر میں موجودگی کی بنا پر اس کے دل میں شکو ک و شبہات پیدا ہوں کیونکہ فرمان اور میرا اس طرح اکٹھے ہونا کوئی معمول کاواقعہ نہیں تھا بلکہ موجود صورت حال کی سنگین نوعیت کے پس منظر میں یہ ایک غیر معمولی بات تھی ۔وقت چونکہ بہت کم تھا اس لئے ہم نے فوجی ایکشن کی موٹی موٹی تفصیلات طے کرنے پر ہی اکتفا کیا تھا۔ پھر ہم دونوں نے منصوبے کے حوالے سے اپنے اپنے علیحدہ نوٹس لکھے ۔

پلان کے مطابق ڈھاکہ چھاؤنی سے جو اقدامات کئے جانے تھے ان کی قیادت اور نگرانی فرمان کی ذمہ تھی جب کہ باقی سارے صوبے میں فوجی ایکشن کی کمان میرے فرائض میں شامل تھی۔ چنانچہ پلان کا ابتدائیہ فرمان نے لکھا جس میں انھوں نے ڈھاکہ میں فوجی ایکشن کس طرح ہوگا اس کی تفصیل بیان کی تھی۔میں نے پلان کے مطابق مقامی کمانڈروں اور فوجی دستوں کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کردیا تھا۔ 18مارچ کی شام طے شدہ پروگرام کے مطابق ہم ایسٹرن کمان ہیڈ کوارٹر میں دوبارہ اکٹھے ہوئے ۔ اس شام ہونے والے اجلاس میں ، میں نے ابتدائیہ اور فوجی ایکشن کی دیگر تفصیلات شرکاء کو بتائیں۔ہمارے تیار کردہ پلان کو اجلاس کے شرکاء نے بغیر کسی بحث و تمحیص کے منظور کر لیا ۔

اکیس مارچ کو بھٹو اپنے مشیروں اور پارٹی ساتھیوں کے ہمراہ ڈھاکہ پہنچے ۔ہمیں ان کی آمد کی خبر صرف ایک دن قبل ملی تھی ۔مارشل لاء سٹاف ۔۔۔ بریگیڈئیر ( بعد ازاں لیفٹیننٹ جنرل )غلام جیلانی خان اور چند دوسرے افسربھٹو اور ان کے وفد میں شامل افراد کی سکیورٹی اور ان کی رہائش کے امور کو دیکھ رہے تھے ۔ انھوں نے اس حوالے سے صدر یحییٰ خان کے پرنسپل اسٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل پیرزادہ سے رہنمائی چاہی تو موصوف نے کہا کہ بھٹو اور ان کے وفد میں شامل افراد سیاست دان ہیں لہذا وہ کسی سرکاری پروٹوکول کے حقدار نہیں ہیں اور ڈھاکہ آمد اور قیام کے دوران اپنے جملہ انتظامات انھیں خود ہی کر نا چاہئیں۔ بھٹو اور ان کے وفد کو اس طرح بے یارو مدد گار چھوڑنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ڈھاکہ اُ س وقت شدید غصے اور احتجاجی سیاست کی گرفت میں تھا اور ایسی صورت حال میں اگر بھٹو کو قتل کر دیا جاتا تو اس کے نتیجے میں مغربی پاکستان میں آگ لگ جاتی ۔

یہ سب کچھ ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے بھٹو کے استقبال اورانھیں اور ان کے وفد کو ہوٹل انٹر کانٹیننٹل میں ٹھہرانے کا بند وبست کیا تھا ۔بھٹو ڈھاکہ میں جتنے روز قیام پذیر رہے ان کی سکیورٹی کی ذمہ داری ہم نے نبھائی۔بھٹو کی سکیورٹی کی ذمہ داری بریگیڈئیر جہانزیب ارباب کو سونپی گئی تھی جو ان دنوں ڈھاکہ گیریژن کے کمانڈر تھے ۔ تمام ضروری اقدامات اس ضمن میں انھوں نے ہی کئے تھے ۔ بعد ازاں بھٹو جب بر سر اقتدار آئے تو انھوں نے ارباب کے اس احسان کا بدلہ انھیں لیفٹیننٹ جنرل کا عہدہ اور اپنے آبائی صوبے کا کو ر کمانڈر بنا کر اُتارا تھا۔یہ بات قارئین کے لئے دل چسپی کا باعث ہو گی کہ شیخ مجیب جو ان دنوں مشرقی پاکستان کا ڈیفیکٹو حکمران تھا ، نے بھی بھٹو کا استقبال کرنے اور میزبان بننے کی پیش کش کی تھی ۔ بھٹو کی حفاظت اس صورت میں عوامی لیگ کے رضاکاروں نے کرنی تھی ۔ تا ہم ہم یہ سمجھتے تھے کہ شیخ مجیب کے مجوزہ انتظامات فول پروف نہیں تھے اس لئے کسی قسم کا رسک لینے کی ضرورت نہیں تھی۔

ڈھاکہ پہنچنے پر بھٹو اور ان کے وفد کے ارکان کو ایک مضبوط فوجی دستے کی حفاظت میں ہوٹل پہنچایا گیا تھا ۔ہوٹل میں فوجی دستے تعینات کئے گئے تھے ۔ جس روٹ سے بھٹو اور ان کے وفد نے گذرنا تھا اس پر بھی فوجی دستوں کو متعین کیا گیا تھا بالخصوص فارم گیٹ پر جو فسادی ہجوم اور غنڈہ عناصر کے اجتماعا ت کے لئے خاصا بدنام تھا ۔چنانچہ یہ تھے وہ حالات جن میں بھٹو ڈھاکہ پہنچے ، وہاں ہونے والے مذاکرات میں حصہ لیا ،اپنا کردار ادا کیا اور پھر بحفاظت واپس مغربی پاکستان پہنچے تھے ۔

قارئین کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کرائی جاتی ہے کہ ملک کے دو اہم ترین سیاسی رہنما، صدر مملکت اور مسلح افواج کے سربراہ ایک ہی چھت کے نیچے بے سود مذاکرات میں مصروف تھے۔ دو نوں سیاسی رہنماؤں کا مختلف امور پر موقف انتہاپسند ی پر مبنی تھا اور ان کے مابین سمجھوتے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے ۔بظاہر صدر نے بھی آئندہ کے سیاسی انتظام میں خود کے لئے کردار حاصل کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا ۔ جاری مذاکرات کی رفتار اور فریقین کے نکتہ ہائے نظر میں موجود بعد اور تفاوت کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ناکامی ان مذاکرات کا مقدر بن چکی تھی ۔ ہم جیسے افراد کے لئے جو ان واقعات سے قریبی طور پر وابستہ تھے یہ صورت حال بہت ما یوس کن تھی ۔

ان سنگین حالات میں ایک شخص نے جسے میری ذات پر بہت زیادہ اعتماد تھا انتہائی راز داری میں مجھ سے رابطہ کیا تھا۔اُ س شخص جس کا نام میں نہیں لینا چاہتا، نے تجویز دی تھی کہ اُن دنوں ڈھاکہ میں جمع فوجی اور سیاسی قیادت کو ہم حراست میں لے کر ملک کا انتظام و انصرام سنبھال لیں۔ملک اور عوام کو دیانت دار اور مخلص قیادت کی ضرورت ہے اور ہم یہ قیادت فراہم کر سکتے ہیں ۔ جس سنجیدگی سے مجھے یہ تجویز دی گئی تھی میں نے اسی سنجیدگی سے اُ س کے بارے میں غور و فکر کا وعدہ کیا تھا ۔میں نے پوری رات اس تجویز اور اس کے مضمرات پر غور کیا تھا ۔ میں نے کسی دوسرے شخص حتی کہ اپنی بیوی سے بھی اس تجویز بارے کوئی بات نہیں کی تھی ۔جب میں اگلی صبح دفتر جانے کے تیار ہوا تو میں اس تجویز بارے اپنا فیصلہ کر چکا تھا ۔ میں نے اس تجویز کو مستر د کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں اپنے فرائض ادا کرتا رہوں گا۔

اب جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے کہ میں نے اپنا ذہنی تواز ن بر قرار ر کھا  اور لالچ کا شکار نہیں ہوا تھا ، میں نے اُ س تجویز کو مسترد کر دیا تھا ۔میں نے وہ فیصلہ اس لئے نہیں تھا کہ مجھ میں بہادری اور جرات کی کمی تھی۔میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں ایک حد تک میری زندگی کا دارو مدار مقدر پررہا ہے ۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اونچے عہدے اور مقام کے حصول کی خواہش نے مجھے کبھی بے چین نہیں کیا ۔ میری ہمیشہ یہی دعا رہی ہے کہ میری فیملی خوش و خرم رہے اور میں ایمانداری سے ایک نفیس زندگی گذاروں ۔

میجر راؤ فرمان علی اور میں نے مشترکہ طور پر فوجی آپریشن کا جونیا منصوبہ بنایا تھا اُ س کا نام ’ آپریشن سرچ لائٹ‘ رکھا گیا تھا ۔ یہ نام کیوں رکھا گیا تھا اس کی کوئی خاص وجہ اور اہمیت نہیں تھی ۔ہم اپنے منصوبے کے ساتھ تیار تھے اور اس انتظارمیں تھے کہ ہمیں احکامات ملیں اور ہم اس پر عمل درآمد شروع کر دیں۔ اس مرحلے پر اہم مسئلہ یہ تھا کہ سکیورٹی انتظامات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ’آپریشن سرچ لائٹ ‘ پر عمل در آمد کے احکامات جونیئر کمانڈرز تک کیسے پہنچائے جائیں ۔ اس حوالے سے بہت سی مشکلات درپیش تھیں۔ہمارے پاس چونکہ وقت بہت کم تھا اور صدر، شیخ مجیب اور بھٹو کے مابین جاری مذاکرات بھی کچھوے کی چال چل رہے تھے ، اس دور ان ہماری کوشش یہ تھی کہ پورے صوبے میں متعلقہ حلقے ہر لحاظ سے تیار ہوں اور جونہی انھیں احکامات ملیں وہ بغیر کسی تاخیر کے اپنی کاروائیاں شروع کر دیں۔

یہ فیصلہ ہوا تھا کہ میں کومیلا اور چٹا گانگ جا کر بالترتیب بریگیڈیر اقبال شفیع اور لیفٹیننٹ کرنل فاطمی جو 20 بلوچ رجمنٹ کی کمان کر رہے تھے ،کو ’آپریشن سر چ لائٹ‘ پر عمل در آمد کرنے کے احکامات پہنچاؤں گا۔ یہ بھی طے ہوا تھا کہ میں چٹاگانگ میں موجود ایسٹ بنگال رجمنٹل سنٹر کے سیکنڈ ان کمانڈ کرنل شگری اور چٹا گانگ ہی میں متعین کرنل جنجوعہ جو 8۔ایسٹ بنگال کے کمانڈر تھے ،کو ا س آپریشن کے بارے میں کم از کم معلومات فراہم کروں گا ۔معاملات اُس وقت تھوڑے خراب ہوئے جب میجر جنرل افتخار جنجوعہ جو اس وقت جنرل ہیڈ کوارٹرز میں ماسٹر جنرل آف آردیننس کے عہدے پر فائز تھے ،نے تین سٹاف آفیسرز کے ہمراہ چٹاگانگ جانے کے لئے مجھ سے لفٹ لینے کا فیصلہ کیا تھا ۔

وہ ’آپریشن سر چ لائٹ‘ کے بارے میں نہیں جانتے تھے کیونکہ طے یہ ہوا تھا کہ ا س آپریشن کے بارے میں صرف انھی افراد کو معلومات فراہم کی جائیں گی جنھیں ان کی ضرورت ہے ۔ بریگیڈئیر انصاری جو کمانڈر لاجسٹکس تھے، بھی اس سفر میں ہمارے ساتھ تھے ۔ بریگیڈئیر انصاری کا میرے ساتھ جانا اس لئے ضروری تھا تاکہ وہ چٹاگانگ کی بند گاہ پر کھڑے بحری جہاز ’ایم۔وی ۔سوات پر موجود سامان کو فوجی دستوں کی مدد سے اتروائیں۔ ایم وی سوات مغربی پاکستان سے سات ہزار ٹن اسلحہ بارود لے کر آیا تھا اور چٹاگانگ بندر گاہ پر ٹھہرا ہوا تھا ۔ یہ معمول کی سپلائی تھی جو مشرقی پاکستان میں موجود فوج کے لئے تین ماہ تک کے لئے بطورریزرو کافی تھی ۔

جب قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوا تو مشرقی پاکستان میں شکوک و شبہات میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا تھا ۔ اس ہیجان اور احتجاج سے بھرپور صورت حال میں عوامی لیگ نے گودی مزدوروں سے اپیل کی کہ وہ مغربی پاکستان سے آنے والے بحری جہازوں کو ان لوڈ نہ کریں کیونکہ ان میں اسلحہ لایا جائے گاجو عوام کے خلاف استعمال ہوگا ۔ چنانچہ گودی مزدوروں نے عوامی لیگ کی اس اپیل کا فوری جواب مکمل ہڑتال کر کے دیا تھا ۔ گودی مزدوروں کی ہڑتال کے باعث ایم وی سوات گذشتہ کئی ہفتوں سے چٹاگانگ بندر گاہ پر کھڑا تھا اور اس کو ان لوڈ نہیں کیا جاسکا تھا ۔

چٹاگانگ روانہ ہونے سے قبل میں نے ایسٹ بنگال رجمنٹل سنٹر کے کمانڈنٹ ایم ۔آر مجمدآ ر کے بارے میں بھی تفصیلی بحت مباحثہ کیا تھا ۔ بریگیڈئیر مجمد آر  اس وقت مشرقی پاکستان میں سنئیر ترین بنگالی فوجی افسر تھے ۔ صوبے کے بنگالی فوجی افسر بالخصوص یونٹ کمانڈرز رہنمائی کے لئے ان کی طرف دیکھتے تھے ۔بریگیڈئیر بنگالی فوجی افسروں کی خواہشوں ، امنگوں اور فوجی نقل و حرکت اور کاروائیوں کے حوالے سے مرکزی حیثیت اختیار کرچکے تھے ۔چٹاگانگ ہمارا کمزور محاذ تھا ۔ یہ سمندر میں ایک اہم ترین مقام پر واقع تھا اور اس کی اہمیت اس وقت تو اور بھی بڑھ چکی تھی جب بھارت نے پاکستانی ہوائی جہازوں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی لگادی تھی ۔

چٹاگانگ ایک بڑی فوجی چھاؤنی تھی لیکن یہاں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جو فوجی دستے متعین تھے ان کا تعلق صرف بلوچ رجمنٹ ہی سے تھا اور یہ رجمنٹ آپریشن کے آغاز سے پہلے ہی مغربی پاکستان روانہ ہورہی تھی ۔ میرے خیال میں سات آفیسرز اور دو سو فوجی جوان بحران شروع ہونے سے پہلے ہی ایڈوانس پارٹی کے طور پر مغربی پاکستان جاچکے تھے ۔ یہ کٹی پھٹی بلوچ رجمنٹ چٹاگانگ چھاؤنی کی حفاظت اور بندر گاہ کو فنکشنل رکھنے کے حوالے سے ناکافی تھی ۔اس صورت حال میں ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ میں واپس ڈھاکہ جاتے ہوئے کسی بہانے بر یگیڈئیر مجمدار کو بھی اپنے ہمراہ لیتا جاؤں گا ۔

اس مشکل اور انتہائی پیچیدہ مشن کے ساتھ میں کومیلا کی طرف روانہ ہوا ۔میں نے بر یگیڈئیر انصاری کو ہدایت کی کہ وہ ہمارے ہمراہ آنے والے میجر جنرل افتخار جنجوعہ او ر ان کی ٹیم کے ارکان کو چٹاگانگ چھاؤنی میں اسلحہ ڈپو اور دیگر فوجی تنصیبات کے معائنے کے لئے لے جائیں ۔ میں نے لیفٹیننٹ کرنل محمد یعقوب جو 53فیلڈ رجمنٹ کی کمان کر رہے تھے ،کو پیغام بھیجا کہ وہ بریگیڈئیر اقبال شفیع کی ہمراہی میں میری بریفنگ میں شریک ہوں ۔میں نے انتہائی کامیابی سے انھیں مجوزہ منصوے کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی ۔منصوبے کے مطابق بر یگیڈئیر شفیع کو اپنے بریگیڈ کے ایک مضبوط فوجی دستے کی کمان کرتے ہوئے چٹاگانگ کا کنٹر ول حاصل کرنا تھا ۔

لیفٹیننٹ کرنل یعقوب ملک کو اپنی رجمنٹ اور کچھ دوسرے مغربی پاکستانی فوجیوں کے اشتراک سے کومیلا شہر اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کا کنٹرول حاصل کرناتھا۔
کومیلا میں جو بریفنگ میں نے دی تھی اس سے میں معقول حد تک مطمئن تھا ۔یہاں سے فارغ ہو کر اپنے ساتھی مسافروں کے ساتھ چٹاگانگ روانہ ہوگیا ۔چٹاگانگ پہنچنے پر میں نے بریگیڈئیر مجمد ار سے کہا کہ وہ بر یگیڈئیر انصاری کے ساتھ جاکر چٹاگانگ بند ر گا ہ پر کئی دنوں سے کھڑے بحری جہاز ایم ۔ وی سوات کو ان لوڈ کرانے کے انتظامات کرے ۔میں نے بر یگیڈئیر مجمدار سے یہ بھی کہا کہ ڈھاکہ کے نواح میں واقع جو دیب پور میں تعینات -2 ایسٹ بنگال رجمنٹ کے دستوں میں مناسب کمانڈر کی عدم موجودگی کے باعث بے چینی اور عدم اطمینان پایا جاتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ ڈھاکہ چلے اور رجمنٹ کے افسروں اور جوانوں سے ’پاپا ٹائیگر ‘ کے طور پر بات کرے اور ان کے شکوک و شبہا ت دور کرے ۔ میری اس گفتگو سے اسے اپنی اہمیت اور مقام کا احساس ہوا اور پھر بر یگیڈئیر مجمدار کے حوالے سے کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا تھا ۔ ڈھاکہ پہنچ کر ہم نے انھیں حفاظتی تحویل میں لے لیا اور بعد ازاں مغربی پاکستان منتقل کر دیا جہاں وہ جنگی قیدیوں کے تبادلے تک مقیم رہے ۔

چٹاگانگ میں ہوئی بریفنگ خاصی پیچیدہ تھی ۔ یہاں 20 –بلو چ رجمنٹ کے لیفٹیننٹ کرنل فاطمی کو مکمل طور پر بریف کرنا ضروری تھا کیونکہ ان کی زیر کمان مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجی دستوں نے مجوزہ فوجی ایکشن میں حصہ لینا تھا ۔ایسٹ بنگال رجمنٹ کے کرنل شگری اور لیفٹیننٹ کرنل جنجوعہ بنگالی فوجی دستوں کی کمان کرنے کے حوالے سے بے بس ہو چکے تھے ۔ تاہم یہ بات قابل اطمینان تھی کہ وہ اپنے مغربی پاکستانی ساتھیوں اور ان کے کنبوں کی حفاظت کرنے کی حد تک پر عزم تھے ۔ میں گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کرنل فاطمی کے ہاں جا پہنچا اور اسے فوجی ایکشن کے بارے میں مکمل بریفنگ دی اور جہاں تک کرنل شگری کا تعلق تھا تو ان کے ساتھ میں محض چند لمحے ہی گذار سکا ۔

کرنل شگری کوئی بہت تیز طرار اور ہوشیار فوجی افسر نہیں تھے ۔ دوران گفتگو میں نے جو ریمارکس دیئے ان سے وہ کسی حد تک پریشان ہوگئے تھے ۔ میرے ریمارکس کی اہمیت ان پر چند دن بعد اس وقت واضح ہوئی جب بر یگیڈئیر اقبال شفیع اپنے فوجی دستوں کے ساتھ چٹاگانگ پہنچے اور وہاں کا کنٹرول سنبھال لیا ۔کرنل شگری اپنی حفاظت کرنے میں تو کامیاب رہے تھے لیکن کرنل جنجوعہ اتنے خوش قسمت نہیں تھے ۔ ان کے سیکنڈ ان کمانڈمیجر (بنگلہ دیش کے قیام کے بعد جنرل اور صدر مملکت ) ضیا ء الرحمن نے بٹالین کے دیگر دو فوجی افسروں کے ساتھ انھیں بھی موت کے گھاٹ اتاردیا تھا۔

جہاں تک صوبے کے دوسرے شہروں اور چھاؤنیوں کا تعلق تھا وہاں تک پیغام رسانی کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔ جب میں کومیلا کے لئے روانہ ہوا تھا تو فرمان جیسور چلے گئے تھے جہاں انھوں نے بریگیڈئیر درانی کو جو 107 –بریگیڈ کی کمان کررہے تھے فوجی ایکشن کے بارے میں احکامات اور منصوبے کی تفصیلا ت پہنچادی تھیں۔اگلے دن مجھے رنگ پور اور راجشاہی کے لئے روانہ ہونا تھا جب کہ فرمان کی منزل سلہٹ تھی۔لیکن جنرل ٹکا خان نے کسی ممکنہ ہنگامی صورت حال سے نبٹنے کے لئے ہم دونوں کو ڈھاکہ ہی میں روک لیا ۔ میری بجائے کرنل سعد اللہ خان کورنگ پور اور راجشاہی بجھوادیا گیا ۔کرنل سعد اللہ خان نے اپنا مشن جاری رکھتے ہوئے 27۔پنجاب رجمنٹ کے کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل شفقت بلوچ کو راجشاہی ڈراپ کیا ۔ بر یگیڈئیر علی الادروس سلہٹ گئے اور وہاں انھوں لیفٹیننٹ کرنل سرفراز ملک کو جو 32 پنجاب رجمنٹ کی کمان کررہے تھے فوجی ایکشن سے متعلق تفصیلات اور حکمت عملی سے آگا ہ کیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

’آپریشن سرچ لائٹ‘ کے بارے میں باقاعدہ تحریر ی احکاما ت نہیں دیئے گئے تھے ۔ اس آپریشن پر زبانی احکامات کی روشنی ہی میں عمل درآمد کیا گیا تھا ۔ تاہم میرے پاس ایک کاپی تحریری احکامات کی موجود ہے جو میں نے اس کتاب کے آخر میں بطور ضمیمہ شامل کردی ہے ۔تحریر ی احکاما ت بھی صرف گائڈ لائن کی حد تک تھے بہت سی تفصیلات اور جزئیات فیلڈ کمانڈرز کی صوابدید اور پہل کاری پر چھوڑی دی گئی تھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جیسور سیکٹر کے راجشاہی اور چوڈنگا کے علاقوں میں ہمیں شدید ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔فیلڈ کمانڈرز یہ باور کرنے میں ناکام رہے تھے کہ وہ سرکشی کی صورت حال سے نبرد آزما ہیں۔ بظاہر ان کے اذہان میں یہ تصور راسخ تھا کہ وہ ’ سول حکومت‘ کی مدد کر رہے ہیں جیسا کہ وہ ایک دو سالوں سے کر رہے تھے اور وہ اس کے عادی بھی تھے ۔ درپیش صورت حال ماضی سے قطعی طور پر مختلف تھی اس کا انھیں بالکل ادراک نہیں تھا ۔ اگرچہ ان کے اس رویے کی بدولت بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں لیکن ذمہ دار افسر محض قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر بری الذمہ ہوگئے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply