• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آزاد اراکین اور حکایات آصف محمود ۔۔۔ معاذ بن محمود

آزاد اراکین اور حکایات آصف محمود ۔۔۔ معاذ بن محمود

ایڈیٹر نوٹ: ادارہ مکالمے کی ترویج کے لیے ہر شائع شدہ مضمون کے جواب کو خوش آمدید کہتا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی جناب آصف محمود صاحب کی جانب سے چھپے مضمون “آزاد اراکین اور عمران خان کے نومولود خیرخواہ” کا معاذ بن محمود کی جانب سے جواب ہے۔ مکالمہ  کا بحیثیت ادارہ لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ہرگز ضروری نہیں۔ 

قبلہ آصف محمود صاحب کی تحریر نظر سے گزری۔ آغاز عمران خان، اعضائے رئیسہ اور تبرا جیسے الفاظ کے ایک ہی سانس میں لینے سے کیا گیا۔ گویا پہلے جملے نے بتلا دیا کہ نیازی کے کسی شیدائی کا مضمون ہے۔ آگے پڑھنے کا مطلب تھا بغض کے ایک ایسے سویمنگ پول میں غوطہ مارنا ہے جہاں ننگے الزامات کی بہتات اور ساتھ ساتھ خان صاحب کے حق میں بابے رحمتے مارکہ دلائل کا انبار ہونا ہے۔ سڑاند کافی تھی مگر فیصلہ کیا کہ دیکھیں کس درجے کی قے بازی فرمائی گئی ہے۔ پائنچے اٹھا کر ہم مضمون کے اندر چل پڑے۔ 

اندر پہنچ کر معلوم ہوا مضمون میں مزاح کا عنصر ڈالنے کی بھرپور ناکام کوشش بھی کی گئی ہے۔ مثلاً پہلا شوشہ جو چھوڑا گیا اس کے مطابق خان صاحب کے پاس انتخابی اصطلاحات کا پورا خاکہ موجود تھا۔ یقیناً یہ خاکہ یقیناً اسی جگہ چھپا کر رکھا گیا ہوگا جہاں پینتیس پنکچر کے ثبوت پنہاں رکھے گئے تھے۔ موصوف لکھتے ہیں کہ حکومت مسلم لیگ کے پاس تھی اور اس کے پیپلز پارٹی سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ میں نے ذہن پہ زور ڈالنے کی کوشش کی تو ایک ڈائس یاد آیا جس میں اعتزاز احسن آگے اور جناب عمران خان نیازی صاحب مقتدی بنے خاموشی سے پیچھے کھڑے تھے۔ غالباً پانامہ ٹی او آرز کی محفل تھی۔ 

آصف صاحب تحریک انصاف کے لیے اپنے پاس جو پرانا درد لیے بیٹھے ہیں اس پہ بھلا کوئی نومولود کیسے اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ مانا کہ الیکشن کے اگلے دن ہم نے دنیا کے سامنے وعدہ کیا کہ خان صاحب کی حکومت کو جمہوریت کی مضبوطی سے ایک وابستگی ہے اور یوں اس حکومت کی مضبوطی میں ہم اپنا حصہ ضرور ڈالیں گے تاہم ہم بھول گئے تھے کہ خیر خواہی کے جملہ حقوق تحریک انصاف کی نانیوں دادیوں کے پاس ہیں اور یہ کہ مزید خیر خواہی کے لیے یہ نانیاں دادیاں جماعت کی نس بندی کر چکی ہیں۔ 

آصف صاحب کو ان کی محبوب جماعت کی جانب سے چند غلط کاریوں کی یاددہانی کروانی تھی جن سے نظر پھیرنا شاید ایک نیوٹران کی مجبوری ہوتی ہے۔ عین الیکشن کے دنوں میں خان صاحب گلا پھاڑ کر فرماتے رہے “آزاد امیدواروں کے لیے ان کی جماعت میں کوئی جگہ نہ ہوگی”۔ بدقسمتی سے اس جماعت کی وجہ تسمیہ ہی اپنے لیڈر کے یو ٹرنز ہیں۔ یہ لوگ اپنی بات سے پھرنے میں اس حد تک عادی ہوچکے ہیں کہ انہیں اب ایسے مواقع پہ شرم سے زیادہ تفریح آتی ہے۔ یقین نہ ہو تو کسی دن فواد چوہدری کو سن لیجیے۔ پھر بھی یقین نہ آئے تو آصف محمود صاحب سے پوچھ لیجیے کہ خان صاحب نے جب کہہ دیا تھا کہ تحریک انصاف میں آزاد امیدواروں کی جگہ نہیں ہوگی تو اب جہانگیر ترین جہازی یہاں سے وہاں کیونکر چھلانگیں مارتا پھر رہا ہے؟ 

حضرت سوال پوچھتے ہیں کہ قانون سازی کا اختیار نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے پاس تھا، ایسے میں آزاد امیدواروں کو اس بات کا پابند کیوں نہ کیا گیا کہ اسمبلی میں بھی آزاد حیثیت میں بیٹھا جائے؟ میں نے یہ سوال گیارہ بار پڑھا۔ پہلے پہل لگا کہ جناب عالی معصومیت میں ایسا کہہ گئے ہیں لیکن بخدا ہضم نہ ہو پائی۔ اس قدر میسنی معصومیت؟ اسمبلی میں آزاد امیدوار کے طور پر بٹھا بھی دیا جائے تو کیا اسمبلی میں ووٹ کا حق بھی چھین لیتے؟ مطلب آپ اپنے قارئین کو گوبھیاں سمجھتے ہیں یا کھیرے؟ 

آصف صاحب ناکام کامیڈی جاری رکھتے ہوئے اپنی جانب سے طنز کا تیر چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور قارئین کو “قانونی پوزیشن” سمجھاتے ہیں کہ آزاد امیدواروں کا تحریک انصاف میں شامل ہونا عین قانونی ہے لہذا اس پر ماتم نہیں ہونا چاہئے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ کوئی تو ہے جو قانونی پوزیشن سمجھا رہا ہے وگرنہ خان صاحب تو غیر قانونی پوزیشنز کے ماہر ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران غیر قانونی غنڈہ گردی کرتے فرما گئے تھے کہ کسی آزاد کو اپنی پارٹی میں نہیں لیں گے۔ اب دوسری جانب ماتم کر رہی ہے یا پھبتیاں کس رہی ہے آپ خود فیصلہ کر لیں۔ 

آگے چل کر موصوف رانا ثناءاللہ کا ذکر کرتے فرماتے ہیں جس کا مفہوم کچھ ایسا ہے جیسے “جو بکری نے مارا ہے بکرے کو سینگ تو بکرا بھی مارے گا بکری کو سینگ”۔ پڑھ کر دیکھ لیں خدا کی قسم یہی مطلب نکلتا ہے۔ بھائی رانا ثناءاللہ سے کون سا گلا کیونکہ وہ تو پرانے پاکستان کی پرانی گندی عادتوں کا حامل ہے جبکہ تبدیلی کے دعوے دار آپ رہے ہیں، آزاد امیدواروں کو اپنی جماعت میں نہ لینے کا دعوی بھی آپ کرتے رہے ہیں۔ انگور کھٹے ہیں؟ واقعی۔ دو ہزار تیرہ میں اٹھارہ آزاد امیدوار مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ تب نواز شریف جناب عمران خان کے پائے کے مدبر نہ تھے لہذا اعلان نہ کر پائے کہ ہم آزاد امیدواروں کو مرحبا نہ کہیں گے۔ اس قدر اعلی اقدار کا حامل ایک اور فقط ایک ہی شخص ہوسکتا ہے جو ایک ہفتے کے اندر اپنی ہی اقدار کو پیروں تلے روندنے کا حق بھی رکھتا ہے۔ 

آصف صاحب عقل کل ہونے کے اس درجے پر فائز ہیں جہاں انہیں خود سے متصادم رائے رکھنے والوں کا باطن خبیث لگنے لگتا ہے۔ فرماتے ہیں یہ بات بھی خبث باطن ہے کہ خان نے اپنے بیس اراکین کو اسمبلی سے نکال دیا مگر آزاد امیدواروں کو گلے لگا لیا۔ چلیں ہم خبیث ہی سہی مگر وہ بیس اراکین کب کہاں کیسے نکلے؟ یا شو کاز نوٹس کو نئے پاکستان میں جماعت سے اخراج کی متبادل اصطلاح سمجھا جائے؟ 

آگے چل کر آصف صاحب گھوڑوں کے کاروبار سے متعلق کچھ حکایات بیان فرماتے ہیں۔ حکایات تو خیر خیالی کہانیاں ہیں کہ اس سے پوچھو اس نے اس سے اس کے ساتھ اس کے گھر میں اس کی گلی میں اس سے اتنے پیسے لیے۔ اتنی حکایات بیان کر لی ہیں تو ایک نام بس ایک نام ذہن میں لائیے گا حضور۔۔۔ سنجرانی۔ کیسا دیا؟

Advertisements
julia rana solicitors

عمران خان کا مؤقف بہت واضح ہے۔ وہ ہر اس کام کے خلاف ہے جو اس کے مواقف نہ ہو۔ اور وہ ہر اس کام کا حامی ہے جو اسے فائدہ دیتا ہو پھر چاہے ایک ہفتے پہلے وہ اسی کام کے خلاف کیوں نہ ہو۔ عمران کو اناڑی کہیں یا تجربہ کار لیکن بائیس سال تک جتنی چیخیں وہ مار چکا ہے اب بائیس منٹ بھی مزید مارنے سے خوفزدہ ہے۔ وہ ان چیخوں سے بچنے کے لیے کچھ بھی کرے گا۔ 

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”آزاد اراکین اور حکایات آصف محمود ۔۔۔ معاذ بن محمود

Leave a Reply