بنا ہے شہ کا مصاحب ، پھرے ہے اتراتا۔۔۔(سفرِ جوگی) اویس قرنی/قسط4

گوگل نقشہ کی مدد سے منزلوں کا تعین اور سفری دورانیے کا تخمینہ لگا کر یہ طے ہوا کہ اگر ہم صبح سات بجے دھنوٹ سے نکلیں تو مملکتِ رحیم یار خان کی حدود پار کرکے زیادہ سے زیادہ ساڑھے نو بجے جندو پیر جم خانہ میں ناشتہ کر رہے ہونگے۔ لیکن بورے والا کی BRB پر میجر بیگم عزیز بھٹی نے کرنل نواز احمد کو سوا گھنٹے کی سخت مزاحمت سے روکے رکھا۔

باب العلم نے فرمایا تھا:۔ میں نے اپنے ارادے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا۔ اس دن اس ب علم نے اپنے ہمراہی نواز بھائی کی سات بجے دھنوٹ پہنچنے میں ناکامی سے ایک شادی شہدا انسان کی مجبوری کو پہنچانا۔ اور نواز بھائی نے پانچ بجے بورے والا سے روانگی والا ارادہ ٹوٹنے سے بیگم صاحبہ کی رٹ کو پہچانا۔ اور یوں یہ سوا گھنٹے کی دیر بھی ہمارے حق میں خیر کا باعث رہی کہ ہم سب نے کچھ نہ کچھ پہچان لیا۔

اسی دیر کے ڈر سے میں نے اماں کو ناشتے سے روکا تھا کہ ہم یہیں ناشتہ کرنے بیٹھ گئے تو دوپہر راستے میں ہو جائے گی ، اورگرمی میں پسینو پسینی ہونے سے بہتر ہے جتنا وقت ہم ناشتے پہ صرف کریں اتنے وقت میں ہم سو پچاس کلومیٹر طے کرلیں۔ البتہ احتیاطی ناشتے کے طور پر اماں نے دس ابلے انڈے ہمراہ کردیے۔ ساڑھے آٹھ بجے نواز بھائی بورے والا سے دھنوٹ پہنچے ادھرسے ہم بھی سورۃ القریش پڑھتے گھر سے نکلے کہ موٹربائک پر اتنے لمبے سفر کا پہلا تجربہ کررہے تھے۔

بیمار کا حال اچھا ہے(سفریاتِ جوگی)۔۔۔۔اویس قرنی/قسط3

شنگریلا کے سامنے سے گزرتے ہوئے یاد آیا کہ شیخ سعدی نے گلستان کے سببِ تالیف میں سفر سے واپسی پر دوستوں کیلئے قلاقند لے جانے کی خواہش کا ذکر کیا ہے ، سوچا لڑکپن سے اپنے پسندیدہ شاعر کیلئے قلاقند لے چلیں۔ اس خیال کوعملی پاجامہ پہنانے میں چند منٹ لگ گئے کیونکہ ہم نے تازہ کی فرمائش کردی تھی۔

قلاقند بیگ میں ٹھونسی ، بیگ بغل میں دابا اور موٹرسائیکل کو لات رسید کرکے جو روانہ ہوئے ، تو ستر اور اسی کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے لودھراں ہی نہیں بہاولپور جیسے قابلِ دید شہر کو بھی دور سے ٹاٹا کرتے ہوئے آگے نکلتے چلے گئے۔ راستے میں احمد پور شرقیہ بھی آیا ، لیکن ہم نے بہاولپور کو گھاس نہ ڈالی تھی ، اسے کونسا بھوسہ ڈالتے۔ ہاں البتہ بائک پہ بیٹھے بیٹھے تشریف کو سن پایا ، تو اس نمانڑی پہ ترس کھا کر سرِ راہ پانچ منٹ رک گئے۔ دوران ِخون بحال ہوا ، اور میزبان کی کال بھی آ گئی۔ انہیں تسلی دی کہ آپ ناشتہ سجائیں ، میں بوہے باریاں تے نالے چنی گوٹھ ٹپ کے ، آندی پئی ہاں ہوا بن کے۔

چنی گوٹھ کے بیچوں بیچ ، مکھن میں سے بال کی طرح نکلتے چلے گئے ، وہاں سے تھوڑا آگے ہمارے سامنے اک موڑ آیا۔ وہاں کوئی چھیل چھبیلی نار ناموجود پائی تو ہم نے بھی دل کو وہاں چھوڑنا نامناسب سمجھا ، اور دل سمیت ہی لیاقت پور روڈ پر مڑ کر آگے بڑھتے چلے گئے۔ یہاں ہم نے زمین کو کسی بیوہ کی طرح سفید پوش پایا۔ پہلی نظر میں ہم سمجھے “اچھا !! تبت ٹیلکم پاؤڈر یہاں سے نکلتا ہے۔” راستے میں کئی جگہ ٹیوب ویل دیکھے جو اندھا دھند زمین سے پانی کشید کرکر کے سیم نالے میں بہا رہے تھے۔ تب سمجھ آیا کہ یہ سفیدی اس ٹیلکم پاؤڈر کی تھی ، جو زیرِ زمین پانی کی سطح ضرورت سے زیادہ بلند ہونے کی وجہ سے سیم اور تھور سے وجود میں آیا تھا۔

سرِ منزل پہنچنے تک مناسب ہے کہ ایک حقیقت کا انکشاف کردیا جائے۔ اس سفر کیلئے ہماری تمام تر ہمت بندھائی ، اور مسافر نوازی کا ثواب نواز بھائی کو جاتا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے ایسے کئی سفر ہمارے ارادے میں تھے جو بن کیے ہی مرجھا گئے۔
برادرم عدیل اشرف گزشتہ پانچ سال سے مانسہرہ میں ہماری میزبانی کو ترس رہے ہیں۔
آزاد کشمیر میں سائیں سہیلی سرکار کی فاتحہ بھی ہم پہ برسوں سے ادھار ہے۔
مرزا غالب اور پطرس بخاری کے بعد ہمارے پسندیدہ ترین مزاح نگار کرنل محمد خان صاحب نجانے کب سے بالکسر میں ہماری آمد کے منتظر ہیں۔
سیالکوٹ میں برادرِخورد سلطان عثمان ہارونی القادری صاحب کا گلا ہمیں دعوت دیتے دیتے بالاخر بیٹھ گیا ہے ، اور اب وہ ہم سے ناراض ہو کر ہمیں دوستی سے عاق کر گئے ہیں۔
ایسے ہی ایک وکیل بابو عبدالقیوم نتکانی صاحب دوست و شاگرد تھے ، تونسہ شریف میں ہماری میزبانی کو اڈیکتے اڈیکتے ان کی آنکھیں پتھرا گئیں ، اور آخر وہ بھی حق ِناراضی استعمال کرتے ہوئے دوستی اور استادی پہ دو حرف بھیج گئے۔
راجن پور میں ایک عزیز دوست خاقان بابر تھے ، ان کے ساتھ ہم نے کئی بار عزیز شاہد صاحب سے ملاقات طے کی ، لیکن الٹی ہو گئیں سب تدبیریں اور بہت سے وغیرہ وغیرہ

ہم جو مزاج میں مرزا غالب اور سیاحت کے شوق میں شیخ سعدی واقع ہوئے ہیں، ہمیں نواز بھائی جیسا دوست میسر آنا ، یقیناً من و سلویٰ سے لاکھوں گنا زیادہ بہتر ہے۔ من و سلویٰ سے تو صرف پیٹ کی تسکین میسر آتی ، لیکن نواز بھائی ہمیں بائکرز قبیلے سے متعارف کروا کر اور ہمارے ایکسپلورنگ پاکستان والے شوق کو مہمیز کر کے ہماری روحانی تسکین کا سبب بنے ہیں۔ اور اب انہی کی ہمراہی میں ہم لیاقت پور روڈ پر واقع ایک چھوٹی سی چیک پوسٹ پر رکے ہوئے ہیں۔

چیک پوسٹ پر رکنے سے شاید یہ سمجھ لیا جائے کہ ہمیں پولسیوں نے روکا ہے ، وضاحت کردینی چاہیے۔ اگر چیک پوسٹ پر ہمیں کسی پولسیے نے روکا ہوتا تو اب تک جوگی پشتین “آوارہ گرد تحفظ موومنٹ” کے نام سے تحریک کا آغاز کرچکا ہوتا۔ لیکن یہ رکنا سراسرحسبِ منشا تھا۔ تاکہ گوگل نقشے سے پوچھ لیا جاوے کہ بول میری مچھلی کتنا پانی۔ نقشے نے بتایا کہ آپ جہاں کھڑے ہیں ، یہی مقام جندو پیر ہے۔ہمیں یقین نہ آیا ، آتا بھی تو کیسے آتا کہ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کا قصہ کئی بار سنا ہوا ہے۔ انہیں تو منزل پہ پہنچنے کی اطلاع بذریعہ غیبی تنبیہی آواز مل گئی تھی کہ جہاں تم کھڑے ہو ، یہ مقدس وادی طویٰ ہے، جوتے اتار دو اور اس مقام کا ادب ملحوظ رکھو۔ وہاں تو ایک جلتی ہوئی جھاڑی بھی تھی۔ جبکہ یہاں آس پاس کوئی جلتی ہوئی جھاڑی نہیں بلکہ ایک تناآور درخت کھڑا تھا ، آس پاس کچھ دکانیں تھیں،اور دکانداروں نے صفائی کے بعد سارا کوڑا کرکٹ وہاں جمع کر دیا تھا ، جہاں اتفاق سے ہم اترے تھے۔ پس جوتے اتارنے کی بجائے میزبانوں کو کال کی اور نشانیاں بتا کر پوچھا منزل کتنی دور ہے۔ اب موبائل سے وہ غیبی آواز آئی کہ ادا آپ کے سامنے کھبے پاسے ایک گلی ہے ، اسی گلی میں مڑ کر سیدھا چلے آئیے۔

ہم بائک پہ بیٹھے جونہی گلی میں داخل ہو کر آگے بڑھے ، سامنے کچھ فاصلے پر ایک گیٹ کے سامنے کالے کپڑوں اور روشن چہرے والے دو جوان نظر آئے۔ ان میں سے ہٹے کٹے کا نام کامران اسلم اور پتلو جئی کا نام خالد نجیب ہے۔اور ہماری ان سے پہلی ملاقات ہے۔

عشق کے نمازی اور جوگ کے روزہ دار

کھلے دل اور کھلے بوہے کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہا گیا۔ دونوں استقبالی جس بے تابی سے ہم سے ملنے کو لپکے ، لحظہ بھر ہی سہی ، چشمِ تصور سے ہم نے ان دونوں کو بغداد کے شہزادے امین الرشید و مامون الرشید اور اپنے آپ کو وہ اتالیق پایا ، جس پہ ہارون الرشید کو بھی رشک آگیا تھا۔ کامران اسلم ہم سے بغلگیر ہوئے تو معانقے میں اس قدر مبالغہ کیا ، کہ مجھے کہنا پڑا :۔ شکر کرو میں ناشتے کے بغیر آیا ہوں ، ورنہ لینے کے دینے پڑے ہوتے۔ غرض کہ کامران سے چُھوٹا تو خالد نجیب میں اٹکا ، اور کچھ دیر اٹکا رہا۔

کامران اور خالد کے حسنِ اخلاق میں کچھ دخل ان کی ذاتی محبت و اخلاص کو بھی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر یہ ہم سرائیکیوں کی روایت ہے۔ ہر دور میں چند مستثنیات کے علاوہ سرائیکی آج بھی اپنی اس روایت سے جڑے ہوئے ہیں۔ گھر آئے کی تکریم کرنا ، اور مہمان کو سر آنکھوں پہ بٹھانا ہمارا خاص امتیاز ہے۔ مہمان نوازی میں سرائیکیوں کا مدمقابل اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ عرب تھے۔ اپنے تمام تر احساسِ پندار سمیت مزاج میں گندھی نرمی ، اور عاجزی کی روایت دنیا بھرمیں جہاں بھی ملے گی ، صرف دراوڑی اقوام میں ملے گی۔ چاہے وہ “سائیں” کے تکریمی لفظ سے مخاطب کرنے والے سرائیکی ہوں ، سندھی ہوں ، یا جنوبی ہند کے ہاتھ جوڑ کرتکریم کرنے والے تامل و ملیالی ہوں۔(آریاؤں نے بھی یہ ادا ، دراوڑوں سے سیکھ کر اپنی روایت کا حصہ بنائی تھی)

اسے سرائیکیوں کی سادگی کہیے یا روایت کی پابندی سمجھیے۔ وسیب بھر میں “ادا ، بھرا ، لالہ ” کہنے کے بعد یقین کرلیں آپ ان کے کاغذات میں سگے بھائی ہو چکے ہیں۔ چاچا کہہ دیا تو پھر یہ منہ بولا رشتہ بھی سگے رشتے کی طرح نبھایا جائے گا۔ صرف اسی پر ہی بس نہیں ، سرائیکی وسیب میں بڑوں کا ادب کرنے کی روایت اس قدر پختہ ہے، کہ یہاں چند مستثنیات کے سوا کمی اور کامے بھی قابلِ تکریم سمجھے جاتے تھے، وسیب میں ہر بڑا مذکر چاچا ، اور ہر بڑی مؤنث ماسی ہوتے ہیں۔

اس وقت جہاں ہمارے مختصر قافلے نے پڑاؤ ڈالا ہے ، یہ سرائیکی زبان کے مقبول ترین فوک سنگرز میں ایک سائیں اجمل ساجد کا آفس بھی ہے۔ ایک ریک میں انہیں ملنے والے ایوارڈز کی کثرت وسیب میں ان کی مقبولیت کا لیول بتا رہی تھی۔ ساتھ والے کمرے میں کوئی شاگرد ہارمونیم پہ الاپ کا ریاض کررہا تھا۔اور ادھر ہمارے سامنے خالد نجیب پُر اشتیاق لہجے میں تعریفاتِ جوگی کا پاٹھ پڑھے جا رہے تھے ، درمیان میں کہیں سانس لینے کو وقفہ کرتے تو کہتے “اور سنائیں ، سر کیا حال ہیں” ہم کیا حال سناتے کہ مجسم سامنے موجود ہیں خود ہی دیکھ لیں۔ بہرحال ابھی انہوں نے کوئی مبلغ نصف درجن بار ہمارا حال پوچھا ہوگا کہ اس دوران کامران نے ریاض کرتے شاگردوں کو تخلیہ کا حکم سنا کر، ہمیں” کھانا منتظر ہے” کی فرحت بخش اطلاع پہنچائی۔

ناشتہ جسے برنچ کہنا زیادہ مناسب ہو گا ، دستر خوان پہ اس شان سے سجا تھا کہ مجھے بے اختیار وہ مسکین شاعر یاد آیا ، اور اس کی مجبوری سمجھ آگئی ، جس نے کہا تھا “کھاؤں کدھر کی چوٹ اور بچاؤں کدھر کی چوٹ”۔ اور اس پہ مستزاد ڈونگوں سے اٹھتی خوشبوئیں ، جنہوں نے مجھے کچھ دیر کیلئے یہ فراموش کرنے میں مدد دی کہ میں نہ صرف بیمار ہوں ، بلکہ آج کل پرہیز میں صرف دہی پہ گزارا کررہا ہوں۔ مکھن سے چپڑی روٹی اور دیسی گھی کا تڑکا لگا ساگ ، سرائیکیوں کی ایسی کمزوری ہے ، اس کے بدلے سمرقند و بخارا تو کیا ، صادق آباد و پتن منارا بھی دان میں دے دیں۔ ہم ٹھہرے کل جگ کے جوگی ، ہمارے پاس فقط نمانڑا سا دل تھا سو وہی وار دیا۔ مکھن کا باؤل اپنے سامنے کیا اور سارا ایثار و بھائی چارا فراموش کردیا۔

کامران سائیں ہمارے ہم نوالہ ہوئے ، کچھ تو کھانا لذیز تھا ، کچھ کامرانی اصرارِمسلسل تھا کہ ہم نےچکن سے پرہیز کو پسِ پشت پھینکا اور تب تک کھایا کیے جب تک تھک نہ گئے۔ اس دوران ہمارے بائیں پہلو نشین خالد نجیب ساقی بنے ہمیں لسی کے جام بھر بھر پلاتے رہے۔ گوبھی کو ہم نے حسرت بھری نظر سے دیکھ کر کہا شکر کرو میں تھک گیا ہوں ، ورنہ آج تمہاری خیر نہ تھی۔ البتہ نواز بھائی نے اس سے بھی کسی قدر علیک سلیک کر لی۔

اسی اثنا میں کامران کے والد صاحب اور اجمل ساجد صاحب کی آمد ہوئی۔اسی روایتی خوش دلی اور خندہ پیشانی سے ملے ، اجمل ساجد صاحب کو اب تک ویڈیوز میں دیکھا اور وسیب بھر میں کہیں ٹی وی پر ، کہیں ریڈیو پہ اور کہیں کھیتوں میں ہل چلاتے ٹریکٹرز پہ سنا تھا ، آج ان سے بالمشافہ ملنے کا اتفاق ہوا تو بہت خوشی ہوئی۔میری تمنا تھی کہ ان سے کچھ دیر گپ شپ رہے اور ان سے کچھ سنیں ، لیکن وہ ایک ولیمے پہ جانے کی جلدی میں تھے سو یہ آرزو بھی تشنہ رہی۔ بہت کم خوش صورتی اور خوش آوازی کی ایسی یکجائی ظہور میں آتی ہے۔ حسنِ صورت اور حسنِ آواز کو یوں میڈم نور جہاں میں یکجا دیکھا تھا ، یا پھر اجمل ساجد صاحب کو دیکھا ہے۔ اللہ ان کے فن اور مقبولیت میں مزید اضافہ فرمائے۔

کھانے کے دوران ہمارا شاگردِ خاص ساجد نجیب بھی آن پہنچا ، لیکن ملنے کی بجائے دور بیٹھا درشنِ استاد میں مشغول رہا۔ ہم نے اصرار کیا کہ آؤ ہمارے ساتھ ہم پیالہ ہوجاؤ۔ لیکن وہ بقول میرؔ
دور بیٹھا غبارِ میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
کی تصویر بنا بیٹھا رہا۔ کھانے کے بعد بہت احترام اور محبت سے آن ملا ، مجھے بھی اس سے مل کر خوشی ہوئی۔ کوئی ایک ادھ دھکا کھا کر ، کوئی ناکامی کے غم میں اور کچھ فقط شوقیہ ہی ، جوگی بننے کی کوشش تو سب کرتے ہیں۔ اپنی طرح کا پیدائشی جوگی یہ دیکھا۔ مجھے ساجد میں اپنا لڑکپن دکھائی دیا۔ افسوس کہ ہم دونوں کو گفتگو کا زیادہ موقع نہیں ملا ، ورنہ اس کے چہرے پر بہت سوالات دکھائی دیئے ، اور میرے پاس بھی کچھ جوابات اس لیے پینڈنگ تھے کہ سامنے بیٹھ کر ہی سمجھائے جاسکتے تھے۔

سب آئے ، سب ملے ، نہ آئے اور نہ ملے تو فقط وہ نہ آئے نہ ملے ، جن سے ملنے کی خاطر یہ سارا سفر کیا گیا تھا۔ شاید یہ اویس ہونے کی قیمت ہے۔ ایک اویس یمن سے چل کر حجاز آئے ، بیمار ماں کا خیال اور شوق ِدیدار میں جنگ ہوئی ، جس میں فتح اویسیت کی ہوئی۔ اور یوں عملاً ثابت کیا کہ عشق سے اگلا درجہ اویسیت ہے۔ لوگ اویس ہونا آسان سمجھتے ہیں۔ لوگوں کا کیا ہے ، وہ تو عشق ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں ، لیکن یہ حقیقت صرف اہلِ حق جانتے ہیں کہ عشق فقط سنگِ میل ہے ، عشق سے آگے جہان اور بھی ہیں ، جب عشق جوگ اوڑھ لے تو وہ اویس ہوجاتا ہے۔عشق والوں کو صرف دیدار ملتا ہے ، وصال یارِ ملتا ہے۔ لیکن اویس کو کیا کیا ملتا ہے ، یہ اویس جانے یا دینے والا جانے، اس بات کا بوجھ نہ لفظ سہار سکتے ہیں ، نہ کوئی فریکوئنسی اسے آواز میں ڈھال سکتی ہے۔ سمجھنے والوں کیلئے “کُلّھا” کا اشارہ کافی ہے۔

غالب ، غالبان اور غالبیت کے نظارے

کھانے کے بعد گفتگو کی توپوں سےسیفٹی لاک ہٹا لیے گئے ، اور کئی موضوعات پر گولہ باری کی گئی۔ اسی گولہ باری میں ہم پہ کامران اسلم کے کچھ اور جوہر کھلے اور ہمیں کہنا پڑا :۔ “یہ نشانچی بھی یارب اپنے لشکر میں تھا۔”

یہ وہی کامران اسلم ہے ، جس نے فیس بک پہ ہمیں درخواستِ دوستی بھیجی تو ہم نے اس کی ظاہری وضع قطع اور یوزر نیم “انجینئر کامران اسلم” سے یہی سمجھا کہ یہ بندہ مجھے کیا پڑھ اورسمجھ سکے گا۔ یہ تو کوئی فرینڈ لسٹ بھرنے کا شوقین لگتا ہے۔ پس یہی سمجھ کر ہم نے قبول کرنے کی بجائے درخواست کو برقی بھٹی کی نذر (ڈیلیٹ) کر دیا۔ ہماری اس روش پہ ہمیں اکثر لوگ مغرور ، کھڑوس ، سائیکو سمجھتے رہے تھے اور ہیں۔ اب بھی شاید مذکورہ بالا پیراگراف ہمارا اقبالی بیان سمجھ لیا جاوے ، مناسب ہے کہ اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھا دیں۔

غالبؔ اور دوسرے شعرا میں آخر کیا فرق ہے۔ یہ بھی شاعر ہیں ، وہ بھی شاعر تھے۔ ایک طرف غالب ہیں ، اپنی ذات میں ایک انجمن نہیں ایک تہذیب ہیں ، وہ اکیلے ہی اپنی جماعت ہیں۔ دوسری طرف شعرا کا ہجوم ہے۔ لیکن وہ غالب ِخستہ اکیلے ہی ان سب پہ غالب ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ان سب شعرا کا منتہائے شاعری “ہمارا کلام کتنے لوگ سن اور پڑھ رہے ہیں” تھا۔ اور غالب کی شرط “میرا کلام کتنے لوگ سمجھ رہے ہیں” ہے۔ اسی لیے وہ سب شعرا “تھے” جبکہ غالب آج بھی “ہیں”۔ جیسے آج مجھے کہا جاتا ہے کہ فلاں مشہور بلاگر کو دیکھیے ، فلاں کو دیکھیے ، آپ بھی ان کی طرح اپنے قارئین بڑھائیے۔ غالب کو بھی ان کے خیرخواہ یہی صلا دیتے ہونگے۔ لیکن اگر غالب بھی دوسرے شعرا کی روش پر چلتے اور راقم بھی دوسرے بلاگرز والی منافقت اپنا لے تو پھر فرق کیا رہا؟

غالب اور غالبان کا مسئلہ “قدر” ہے۔ اور ہر اس انسان کا مسئلہ قدر ہوتا ہے ، جسے اپنا اور اپنی تخلیق کا لیول معلوم ہو۔ تخلیق کا درد صرف خالق جانتا ہے۔ پس اسے اپنے درد کی قیمت بے قدری نہیں چاہیے۔ لوگ کہتے ہیں کہ غالب ایک وسیع المشرب انسان تھے۔ ان کے دوستوں کا دائرہ مذہب و ملت اور زبان و قوم کی قیود سے آزاد ، نہایت وسیع تھا۔ لیکن راقم ان سے متفق نہیں ہے۔ بے شک غالب کے دوستوں میں ہندو بھی تھے، لیکن ہندوستان بھر کا ہر ہندو نہیں ، بلکہ منشی ہرگوپال تفتہ ، ہیرا لال ، چھج مل ، شیو نرائن ، بنسی دھر وغیرہ۔ بے شک غالب کے دوستوں میں انگریز (عیسائی) بھی تھے۔ لیکن ولیم فریزر کا دوست غالب ، اس سے بھی کہیں زیادہ بڑے عہدے والے مسٹر ٹامسن کو دوست کیوں نہیں بناتا؟ ہونے کو تو ولیم فریزر بھی انگریز ہے ، اور مسٹر ٹامسن بھی انگریز ہے۔ لیکن غالب نے دوستی کے قابل صرف ولیم فریزر کو ہی کیوں سمجھا ہے؟ آخر غالب جون جیکب (میجر جان جاکوب) کی دوستی کا ہی دم کیوں بھرتے ہیں؟
غالب کے دوستوں میں مسلمان ہی نہیں ، مولوی صاحبان بھی ہیں۔ لیکن وہ غالب جو مولوی احمد علی اور اسی قبیل کے دیگر مولویوں سے گندی گالیوں کا تبادلہ کرتے ہیں ، ان سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ وہی غالب مولانا فضلِ حق خیر آبادی ، مولانا صدر الدین آزردہ ، منشی نبی بخش حقیر جیسے دوستوں کو اپنی زندگی کے سب سے بہترین دوستوں میں شمار کرتے ہیں۔ ان کے اس سلوک کا یہی حساب کتاب دوسرے مذاہب و اقوام سے بھی رہا ۔

پس سمجھنا مشکل نہیں کہ غالب اور غالبان کو کسی انسان کے مذہب ، ملت ، رنگ ، قوم ، نسل ، زبان ، عمر ، جنس ، سماجی مرتبہ یا دیگر عوامل سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہر وہ انسان جو قدردان ہے ، وہ ہمارا جگری دوست ہے۔ ورنہ استقبال کیلئے باہر نہ آنے والا ٹامسن بھلے ہی ملکہ برطانیہ کا نمائندہ اور گورنر ہی کیوں نہ ہو، وہ اور اس کا عہدہ غالب اور غالبان کی نظر میں کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔

میرتقی میر کو قسمت نے بہت رولا ، یتیمی کے بعد جس نے بھی سرپرستی میں لیا ، اسے ملک الموت نے اچک لیا۔ اس حال میں لکھنؤ پہنچے کہ سفر میں بیل گاڑی کا کرایہ تک جیب میں نہیں تھا۔ نواب نے مکان دیا ، اور ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کردیا۔ کام صرف یہ تھا کہ جب موسم یا نواب کا موڈ اچھا ہو ، اسے شاعری سنایا کیجیے۔ ایک دن اتفاق سے موسم اور نواب کا موڈ دونوں اچھے تھے، نواب نے میر کو بلوا بھیجا۔ میر حاضر ہوئے تو نواب صاحب باغ میں ایک حوض کنارے کھڑے ، حوض میں تیرتی مچھلیاں دیکھ رہے تھے۔ حسبِ معمول آداب و سلام کے بعد نواب نے فرمائش کی میرصاحب کچھ سنائیے۔ میر نے تازہ کلام پڑھنا شروع کیا ، اور نواب صاحب حوض میں تیرتی مچھلیوں کو اپنے عصا سے چھیڑتے رہے۔ میر دو شعر پڑھ کر خاموش ہو گئے۔ نواب نے کہا آپ پڑھتے رہیے ، میں سن رہا ہوں۔ میر نے اتمام ِحجت کو اگلے دو شعر پڑھے ، لیکن نواب مچھلیوں سے اٹکھیلیاں کرتا رہا۔ میر نے کاغذ لپیٹ کر جیب میں رکھا ، اور واپس لوٹ آئے۔ نواب نے کچھ دن ناراضی جتائی ، پھر خود ہی بندے دا پتر بن کر کئی بار بلاوے بھیجے ، لیکن میر نے صاف انکار کردیا۔ کہ نواب صاحب اس فقیر کے کلام کی قدر نہیں سمجھتے۔

جب بھی کوئی انسان استادی کو پہنچ جاتا ہے ، تو وہ عام لوگوں کی نظر میں کھڑوس ، مغرور ، سائیکو ہوجاتا ہے۔لوگ اپنی بے قدری کے عوض اس کی تخلیقات چاہتے ہیں ، اور ناکامی پر اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے ، اسی پر بداخلاقی اور بلا بلا بلا قسم کے الزام دھر کے سچے بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں بہت سے لوگ ایڈ کرتے ہیں ، اور ایڈ کرنا چاہتے ہیں۔ جب ہم انہیں دوست بنا کر انہیں عزت دیں تو وہ بدلے میں ہمیں بے قدری دیتے ہیں۔ وہ اپنے تئیں فرض کرلیتے ہیں ، لے بھئی میں تو کوئی ظلِ الہیٰ ہوں ، میں تو کوئی جنٹل مین ہوں ، اس بندے کی کسی تخلیق پر قدر کا اظہار کرکے میں کہیں خود بے قدرا نہ ہوجاؤں۔ حکیم فاروق سومرو صاحب سمیت ایسے کتنے ہی “نام بڑا درشن چھوٹے” کی درخواستِ دوستی قبول کر کے ہم نے انہیں عزت دی ، لیکن وہ سال بھر میں ہماری کسی ایک تخلیق پر بھی حوصلہ افزائی کا ایک جملہ نہ سہی ، حوصلہ افزائی کا کلک بھی نہ کرسکے۔ بھئی ہم غالبان ہیں ، ہمیں کوئی بڑی سے بڑی گالی دے دے ، مرحبا ، سبحان اللہ ، زندہ باد۔ لیکن جونہی کوئی ہماری غالبیت کو للکارے ، پھر وہ اپنی علمیت سمیت ہماری نظر سے گرگیا۔ ایسے کئی بے قدروں کا جلا جوگی اب کسی کی دوستی قبول نہیں کرتا۔ جب تک کہ دوستی کا خواہشمند اپنی قدر دانی اور ثابت قدمی واضح نہ کرے۔ اور کامران نے درخواستِ دوستی ایک بار ڈیلیٹ ہونے پہ بھی برا نہ منایا ، مسلسل چھ ماہ درخواستیں بھیجنا جاری رکھا۔ اور اب یہ ہمارے بہترین دوستوں میں سے ایک ہیں۔

آج اس بزم ِکامران میں فلموں سے بلاگرز کی غیبتوں تک تقریباً ہر موضوع لتاڑا گیا۔ اسی دوران ہمارے بلاوے پر آلِ عباس کے روشن چراغ برادرم ساجد خان عباسی صاحب بھی جہانزیب سمیت لیاقت پور سے تشریف لائے۔ آپ دھندے کے لحاظ سے استاد اور طبیعت سے جوگی ہیں۔ ان سے مل کر ہمیں مولانا حالی یاد آئے ، جنہیں حالی سے مل کر خوشی ہوئی کہ ابھی اتنا بھی ہنیر نہیں مچا ، ابھی کچھ اچھے لوگ جہان میں باقی ہیں۔ فائزہ بیوٹی کریم کی مہربانیوں سے روشن چہرہ لوگ تو بہت پھرتے ہیں ، لیکن روشن ضمیر خال خال ملتے ہیں۔ ساجد بھائی میں دونوں روشنیاں دیکھ کر اپنی فہرستِ دوستاں پہ تھوڑا سا فخر اور زیادہ شکر ادا کیا۔ کہ میرے دوست سب سے کم ضرور ہیں ، لیکن چنیدہ اور سب سے خاص ہیں۔ گو یہ ملاقات مختصر رہی لیکن محبت فزوں تر ہوئی۔

غالب ، غالبان اور غالبیت کے نظارے

کھانے کے بعد گفتگو کی توپوں سےسیفٹی لاک ہٹا لیے گئے ، اور کئی موضوعات پر گولہ باری کی گئی۔ اسی گولہ باری میں ہم پہ کامران اسلم کے کچھ اور جوہر کھلے اور ہمیں کہنا پڑا :۔ “یہ نشانچی بھی یارب اپنے لشکر میں تھا۔”

یہ وہی کامران اسلم ہے ، جس نے فیس بک پہ ہمیں درخواستِ دوستی بھیجی تو ہم نے اس کی ظاہری وضع قطع اور یوزر نیم “انجینئر کامران اسلم” سے یہی سمجھا کہ یہ بندہ مجھے کیا پڑھ اورسمجھ سکے گا۔ یہ تو کوئی فرینڈ لسٹ بھرنے کا شوقین لگتا ہے۔ پس یہی سمجھ کر ہم نے قبول کرنے کی بجائے درخواست کو برقی بھٹی کی نذر (ڈیلیٹ) کر دیا۔ ہماری اس روش پہ ہمیں اکثر لوگ مغرور ، کھڑوس ، سائیکو سمجھتے رہے تھے اور ہیں۔ اب بھی شاید مذکورہ بالا پیراگراف ہمارا اقبالی بیان سمجھ لیا جاوے ، مناسب ہے کہ اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھا دیں۔

غالبؔ اور دوسرے شعرا میں آخر کیا فرق ہے۔ یہ بھی شاعر ہیں ، وہ بھی شاعر تھے۔ ایک طرف غالب ہیں ، اپنی ذات میں ایک انجمن نہیں ایک تہذیب ہیں ، وہ اکیلے ہی اپنی جماعت ہیں۔ دوسری طرف شعرا کا ہجوم ہے۔ لیکن وہ غالب ِخستہ اکیلے ہی ان سب پہ غالب ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ان سب شعرا کا منتہائے شاعری “ہمارا کلام کتنے لوگ سن اور پڑھ رہے ہیں” تھا۔ اور غالب کی شرط “میرا کلام کتنے لوگ سمجھ رہے ہیں” ہے۔ اسی لیے وہ سب شعرا “تھے” جبکہ غالب آج بھی “ہیں”۔ جیسے آج مجھے کہا جاتا ہے کہ فلاں مشہور بلاگر کو دیکھیے ، فلاں کو دیکھیے ، آپ بھی ان کی طرح اپنے قارئین بڑھائیے۔ غالب کو بھی ان کے خیرخواہ یہی صلا دیتے ہونگے۔ لیکن اگر غالب بھی دوسرے شعرا کی روش پر چلتے اور راقم بھی دوسرے بلاگرز والی منافقت اپنا لے تو پھر فرق کیا رہا؟

غالب اور غالبان کا مسئلہ “قدر” ہے۔ اور ہر اس انسان کا مسئلہ قدر ہوتا ہے ، جسے اپنا اور اپنی تخلیق کا لیول معلوم ہو۔ تخلیق کا درد صرف خالق جانتا ہے۔ پس اسے اپنے درد کی قیمت بے قدری نہیں چاہیے۔ لوگ کہتے ہیں کہ غالب ایک وسیع المشرب انسان تھے۔ ان کے دوستوں کا دائرہ مذہب و ملت اور زبان و قوم کی قیود سے آزاد ، نہایت وسیع تھا۔ لیکن راقم ان سے متفق نہیں ہے۔ بے شک غالب کے دوستوں میں ہندو بھی تھے، لیکن ہندوستان بھر کا ہر ہندو نہیں ، بلکہ منشی ہرگوپال تفتہ ، ہیرا لال ، چھج مل ، شیو نرائن ، بنسی دھر وغیرہ۔ بے شک غالب کے دوستوں میں انگریز (عیسائی) بھی تھے۔ لیکن ولیم فریزر کا دوست غالب ، اس سے بھی کہیں زیادہ بڑے عہدے والے مسٹر ٹامسن کو دوست کیوں نہیں بناتا؟ ہونے کو تو ولیم فریزر بھی انگریز ہے ، اور مسٹر ٹامسن بھی انگریز ہے۔ لیکن غالب نے دوستی کے قابل صرف ولیم فریزر کو ہی کیوں سمجھا ہے؟ آخر غالب جون جیکب (میجر جان جاکوب) کی دوستی کا ہی دم کیوں بھرتے ہیں؟
غالب کے دوستوں میں مسلمان ہی نہیں ، مولوی صاحبان بھی ہیں۔ لیکن وہ غالب جو مولوی احمد علی اور اسی قبیل کے دیگر مولویوں سے گندی گالیوں کا تبادلہ کرتے ہیں ، ان سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ وہی غالب مولانا فضلِ حق خیر آبادی ، مولانا صدر الدین آزردہ ، منشی نبی بخش حقیر جیسے دوستوں کو اپنی زندگی کے سب سے بہترین دوستوں میں شمار کرتے ہیں۔ ان کے اس سلوک کا یہی حساب کتاب دوسرے مذاہب و اقوام سے بھی رہا ۔

پس سمجھنا مشکل نہیں کہ غالب اور غالبان کو کسی انسان کے مذہب ، ملت ، رنگ ، قوم ، نسل ، زبان ، عمر ، جنس ، سماجی مرتبہ یا دیگر عوامل سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہر وہ انسان جو قدردان ہے ، وہ ہمارا جگری دوست ہے۔ ورنہ استقبال کیلئے باہر نہ آنے والا ٹامسن بھلے ہی ملکہ برطانیہ کا نمائندہ اور گورنر ہی کیوں نہ ہو، وہ اور اس کا عہدہ غالب اور غالبان کی نظر میں کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔

میرتقی میر کو قسمت نے بہت رولا ، یتیمی کے بعد جس نے بھی سرپرستی میں لیا ، اسے ملک الموت نے اچک لیا۔ اس حال میں لکھنؤ پہنچے کہ سفر میں بیل گاڑی کا کرایہ تک جیب میں نہیں تھا۔ نواب نے مکان دیا ، اور ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کردیا۔ کام صرف یہ تھا کہ جب موسم یا نواب کا موڈ اچھا ہو ، اسے شاعری سنایا کیجیے۔ ایک دن اتفاق سے موسم اور نواب کا موڈ دونوں اچھے تھے، نواب نے میر کو بلوا بھیجا۔ میر حاضر ہوئے تو نواب صاحب باغ میں ایک حوض کنارے کھڑے ، حوض میں تیرتی مچھلیاں دیکھ رہے تھے۔ حسبِ معمول آداب و سلام کے بعد نواب نے فرمائش کی میرصاحب کچھ سنائیے۔ میر نے تازہ کلام پڑھنا شروع کیا ، اور نواب صاحب حوض میں تیرتی مچھلیوں کو اپنے عصا سے چھیڑتے رہے۔ میر دو شعر پڑھ کر خاموش ہو گئے۔ نواب نے کہا آپ پڑھتے رہیے ، میں سن رہا ہوں۔ میر نے اتمام ِحجت کو اگلے دو شعر پڑھے ، لیکن نواب مچھلیوں سے اٹکھیلیاں کرتا رہا۔ میر نے کاغذ لپیٹ کر جیب میں رکھا ، اور واپس لوٹ آئے۔ نواب نے کچھ دن ناراضی جتائی ، پھر خود ہی بندے دا پتر بن کر کئی بار بلاوے بھیجے ، لیکن میر نے صاف انکار کردیا۔ کہ نواب صاحب اس فقیر کے کلام کی قدر نہیں سمجھتے۔

جب بھی کوئی انسان استادی کو پہنچ جاتا ہے ، تو وہ عام لوگوں کی نظر میں کھڑوس ، مغرور ، سائیکو ہوجاتا ہے۔لوگ اپنی بے قدری کے عوض اس کی تخلیقات چاہتے ہیں ، اور ناکامی پر اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے ، اسی پر بداخلاقی اور بلا بلا بلا قسم کے الزام دھر کے سچے بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں بہت سے لوگ ایڈ کرتے ہیں ، اور ایڈ کرنا چاہتے ہیں۔ جب ہم انہیں دوست بنا کر انہیں عزت دیں تو وہ بدلے میں ہمیں بے قدری دیتے ہیں۔ وہ اپنے تئیں فرض کرلیتے ہیں ، لے بھئی میں تو کوئی ظلِ الہیٰ ہوں ، میں تو کوئی جنٹل مین ہوں ، اس بندے کی کسی تخلیق پر قدر کا اظہار کرکے میں کہیں خود بے قدرا نہ ہوجاؤں۔ حکیم فاروق سومرو صاحب سمیت ایسے کتنے ہی “نام بڑا درشن چھوٹے” کی درخواستِ دوستی قبول کر کے ہم نے انہیں عزت دی ، لیکن وہ سال بھر میں ہماری کسی ایک تخلیق پر بھی حوصلہ افزائی کا ایک جملہ نہ سہی ، حوصلہ افزائی کا کلک بھی نہ کرسکے۔ بھئی ہم غالبان ہیں ، ہمیں کوئی بڑی سے بڑی گالی دے دے ، مرحبا ، سبحان اللہ ، زندہ باد۔ لیکن جونہی کوئی ہماری غالبیت کو للکارے ، پھر وہ اپنی علمیت سمیت ہماری نظر سے گرگیا۔ ایسے کئی بے قدروں کا جلا جوگی اب کسی کی دوستی قبول نہیں کرتا۔ جب تک کہ دوستی کا خواہشمند اپنی قدر دانی اور ثابت قدمی واضح نہ کرے۔ اور کامران نے درخواستِ دوستی ایک بار ڈیلیٹ ہونے پہ بھی برا نہ منایا ، مسلسل چھ ماہ درخواستیں بھیجنا جاری رکھا۔ اور اب یہ ہمارے بہترین دوستوں میں سے ایک ہیں۔

آج اس بزم ِکامران میں فلموں سے بلاگرز کی غیبتوں تک تقریباً ہر موضوع لتاڑا گیا۔ اسی دوران ہمارے بلاوے پر آلِ عباس کے روشن چراغ برادرم ساجد خان عباسی صاحب بھی جہانزیب سمیت لیاقت پور سے تشریف لائے۔ آپ دھندے کے لحاظ سے استاد اور طبیعت سے جوگی ہیں۔ ان سے مل کر ہمیں مولانا حالی یاد آئے ، جنہیں حالی سے مل کر خوشی ہوئی کہ ابھی اتنا بھی ہنیر نہیں مچا ، ابھی کچھ اچھے لوگ جہان میں باقی ہیں۔ فائزہ بیوٹی کریم کی مہربانیوں سے روشن چہرہ لوگ تو بہت پھرتے ہیں ، لیکن روشن ضمیر خال خال ملتے ہیں۔ ساجد بھائی میں دونوں روشنیاں دیکھ کر اپنی فہرستِ دوستاں پہ تھوڑا سا فخر اور زیادہ شکر ادا کیا۔ کہ میرے دوست سب سے کم ضرور ہیں ، لیکن چنیدہ اور سب سے خاص ہیں۔ گو یہ ملاقات مختصر رہی لیکن محبت فزوں تر ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

جوگی
اسد ہم وہ جنوں جولاں ، گدائے بے سروپا ہیں .....کہ ہے سر پنجہ مژگانِ آہو پشت خار اپنا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply