قبل از اسلام عرب معاشرے کی عورت (حصۂ اوّل)۔۔۔ منصور ندیم

ایک مفروضہ ہمارے اذہان میں اس شدت سے راسخ کروایا گیا ہے کہ قبل از اسلام جیسے دنیا میں انسان بغیر کسی معاشرتی توازن و قوانین کے زندگی گزار رہا تھا، اور خصوصا عرب کے لوگ تو جیسے  وحشت و بربریت اور جاہلیت کے ہی نمائیندے تھے۔ وہاں جنگل کا قانون نافذ تھا جبکہ انسانی تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ زمانہ قدیم میں بھی قانون کی بنیاد رسوم و رواج ہوتے تھے رسوم و رواج کسی معاشرے کے اخلاق اور تربیت کرنے والے ایسے بنیادی اصول تشکیل کرتے ہیں جنھیں دہائیوں یا صدیوں کی دانش و روایت سے کشید کیا جاتا تھا۔

اسلام سے پہلے عرب معاشرہ میں جو قوانین اور رسوم چلے آرہے تھے ان میں سے بہت کم کو اسلام نے کلی طور پر رد کیا ،بعض کو من وعن اور بعض کو ترمیمات کے ساتھ قبول کر لیا گیا،  مکہ کی اپنی تہذیب، اپنے اصول اور اپنی اقدار تھیں۔ بالخصوص مکہ میں ایک مخصوص نہج کانظام حکومت موجود تھا۔ اس تناظر میں اسلام نے کیا رویہ اختیار کیا ؟ جاہلی دور کے سماجی اداروں، معاشرتی اقدار ، معاشی طور طریقوں ، اور سیاسی نظام کو کلیتہً رد کردیا گیا، من وعن قبول کرلیا گیا ، یا ترمیم و اضافہ کے ساتھ اختیار کیا گیا؟  یہ علیحدہ موضوع ہے۔

ظہور اسلام سے قبل خطہ عرب کے سیاسی ادارے موجود تھے،  جن کی تفصیل ذیل میں موجود ہے ۔

1- ادارہ عرافہ :

یہ ادارہ عرب معاشرہ میں بہت اہمیت رکھتا تھا۔ عریف ایک چھوٹے حلقے کانمائندہ ہوتا تھا ۔ ہر قبیلہ میں دس دس افراد پر ایک عریف مقرر ہوتاتھا۔ عام طور پر قبیلہ میں سے تجربہ کار ذہین اور صاحب ثروت شخص کو عریف منتخب کیاجاتاتھا جو نہ صرف اپنے حلقے کے لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال کرسکتا ہو بلکہ دیگر جماعتوں اور قبائل کے ساتھ تعلقات اور معاملات میں اپنے حلقے کے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرسکے۔ یعنی عریف قبیلہ یا جماعت کا ذمہ دار فرد ہوتاہے۔ جو لوگوں کی قیادت کرتا ہے اور ان کے تمام حالات سے سردار کو باخبر رکھتاہے۔

یہ ادارہ اسلام کے بعد بھی برقرار تھا، امام بخاری نے کتاب الشہادات میں ایک روایت نقل کی ہے کہ ابو جمیلہ نے حضرت عمرؓ کے پاس ایک مقدمہ پیش کیا اور عرض کیا کہ مجھے ایک نومولود بچہ پڑاہواملاہے۔ میں نے پرورش اور تربیت کے لیے اسے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ لہٰذا بیت المال سے اس بچہ کا روزینہ مقرر فرمادیجیے۔ حضرت عمرؓ نے اس شخص کو مشکوک سمجھا تو اس کے عریف نے اس کی صفائی پیش کی۔
’’قال عریفی انہ رجل صالح ‘‘ میرے عریف نے بتایاکہ یہ نیک آدمی ہے۔
عریف کی تصدیق پر حضرت عمرؓ نے اس بچہ کا روزینہ مقرر فرمادیا ، اور ابوجمیلہ کی دیانت و صداقت کابھی اعتبار کرلیا۔

علامہ طبری اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ جس طرح عہد فاروقی میں عریف مقرر کیے گئے تھے، بالکل اسی طرح عہد نبوی ؐ میں بھی عریفوں کا تقرر ہوتا تھا۔۔ یعنی یہ ادارہ ’’عریف ‘‘ زمانہ قبل ظہور اسلام میں موجود تھا اور عہد نبوی ؐ میں فرائض کی کچھ تبدیلیوں کے ساتھ اسے قائم رکھاگیا تھا۔

2- نقابہ

دوسرا سیاسی و معاشرتی ادارہ نقابہ تھا، اس میں عرافہ کی بہ نسبت زیادہ بڑے حلقے کی نمائندگی ہوتی تھی، نقیب قوم کا سردار ہوتا تھا ، اس لیے کہ وہ قوم کے حالات کی چھان بین کرتا تھا اور ان کے حالات سے حکومت کو باخبر رکھتا تھا۔
جہاں تک ان نقیبوں کے فرائض واختیارات کا تعلق ہے تو عمومی طور پر ان کے فرائض میں شامل تھاکہ لوگوں کے باہمی جھگڑوں اور اختلافات کو ختم کرائیں، لوگوں کے حالات سے پوری طرح باخبر رہیں۔ ان کے حالات اور ضروریات سے حکومت کو بھی باخبر رکھیں۔ خاص طور پر باصلاحیت اور صاحب ہنر افراد کی صلاحیتوں سے حکومت کو مطلع کرتے رہیں ، تاکہ حکومت ان کی صلاحیتوں اور قابلیتوں سے فائدہ اٹھا سکے۔
عریف چھوٹے چھوٹے حلقوں اور محلوں کی بنیاد پر نمائندگی کرتاتھا ، اس کی ذمہ داریاں بھی علاقائی اور ابتدائی سطح تک محدود ہوتی تھیں، وہ اپنے محلے یا علاقے کے افراد کے حقوق و فرائض کی نگہبانی کرتا تھا۔ اس کے برعکس نقیب کی ذمہ داریاں زیادہ وسیع ہوتی تھیں۔ وہ ملکی اور قومی سطح پر نمائندگی کرتاتھا۔ یہ ادارہ عربوں کے ہاں موجود تھا بلکہ پہلے کے ادوار میں بھی اس کاذکر ملتاہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد میں بھی نقیبوں کا ذکر ملتاہے ۔
اسلام کی سیاسی تاریخ میں بیعت عقبہ کو جو بنیادی اہمیت حاصل ہے ، سیاسیات کا ہر طالب علم اس سے پوری طرح آگاہ ہے۔ اس موقع پر اہل مدینہ کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا جو قبیلہ خزرج سے تھے اور تین قبیلہ اوس سے ان تمام نقباء کو مسلمانوں نے خود نامزد نہیں کیا تھا بلکہ تمام نام انصار کی جانب سے پیش کیے گئے تھے.
تاریخ میں یہ بات بہت واضح ہے کہ جسے آج زمانہ جاہلیت کہا جاتا تھا اس کے یہ دو قدیم ادارے علاوہ ازیں حلف اور ولاء اپنی پوری اسپرٹ کے ساتھ عہد نبوی میں بھی کام کرتے رہے۔

ظہور اسلام سے قبل عرب کے انتظامی، عدالتی (جرگہ) و فلاحی ادارے :

ظہور اسلام سے قبل وہاں کے معاشرتی زندگی میں انتظامی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے لئے انتظامی اور  فلاحی ادارے بھی موجود تھے۔ جن کا ذکر مندرجہ ذیل ہے ۔

1- بنی ہا شم ( عبا س ) سقایہ ،عمارۃ البیت:

سقا یہ سے مراد کعبے کی زیارت کے لئے حج یا عمرہ کے لئے آنے والوں کو پانی پلانا اور عمارۃ البیت سے مراد حرم کعبہ کا عام انتظام کر نا تھا ، عمارۃ البیت کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ افسر متعلقہ وقتاً فوقتاً حرم کعبہ میں گھوم پھر کر نگرانی کرے اور دیکھے کہ کوئی شخص جھگڑے،گالی گلو چ یا شور و غوغا سے کعبہ کے تقدس کو مجروح تو نہیں کر رہا۔ پہلے سقایہ اور عمارۃ البیت کے عہدے ابو طالب کو وراثت میں ملے تھے ۔مگر ابو طالب نے مفلسی کے با عث یہ اپنے بھائی عباس کے ہاتھ بیچ دیئے ۔
مکہ کے کشوری نظم ونسق میں ایک خاصا اہم عہدہ تفسیر منافرہ کا ہوا کرتا تھا ۔یہ عہدہ موروثی طور پر بنی عدی یعنی حضرت عمر کے خاندان میں چلا آ رہا تھا ۔ جب جنگ چھڑتی تو وہ عمر کو اپنا سفیر مختار بنا کر بھیجتے اور جب کوئی بیرونی قبیلہ قر یش کی اولیت کو چیلنج دیتا تو اس وقت بھی عمر ہی کو منافر بنا کر بھیجا جاتا تھا ۔طعد از اسلام صلح حد یبیہ کے موقع پر مسلمانوں نے عمر کو ہی اپنا نمائیندہ بنا کر مکہ بھیجنے کے لئے چنا تھا۔ گویا وہ اس وقت کی اسلامی حکومت میں بھی وزیر خارجہ اور سفیر تھے جیسے پہلے زمانہ ظہور قبل اسلام میں تھے۔

2- تحکیم:

ایسا ہی ایک ادارہ ’’تحکیم‘‘کا بھی تھا ، یعنی بعض شخصیتیں ثالث یا حاکم کا کام کر تی تھیں ۔چنا نچہ ایام جاہلیت کا ایک مشہور حکم عامربن طرب العدوا نی تھا۔ اس کے پاس ہر جگہ سے تحکیم کے لئے مقدمے والے آتے تھے۔ قبیلہ تمیم کے سردار موروثی طور پر پورے عرب کے حاکم مانے جا تے تھے ۔یہ سردار کسی بڑے میلے کے مو قع پر حکم مقرر ہو تے تھے ،مثلاً عکاظ کے میلے میں یہ سردار دیو انی اور فوجدا ری ہر قسم کے مقدموں کا فیصلہ کرتے تھے ۔ان فیصلوں کی خلاف ورزی میں رسوائی اور بدنامی کا ڈر ہوتا تھا ۔ابن قتیبہ کے حوالے سے بعض مولف لکھتے ہیں کہ عیلان بن سلمہ ثقفی ہفتہ میں ایک دن اپنے ذاتی معاملات میں مصروف رہتا ،ایک دن شاعری کے جلسوں میں حصہ لیتا اور ایک دن حکم بن کر جھگڑے چکایا کرتا ۔ چنانچہ قصی اور قضاء کی جنگ میں بنی کنانہ کے ایک شخص عمر بن عوف کو حکم بنایا گیا۔ان طر یقوں کے علاوہ ایک غیر معمولی طریقہ بھی زمانہ جاہلیت میں مکہ کی شہری زندگی کا ایک حصہ تھا ،شہر مکہ میں ’’حلف الفضول ‘‘کا ایک ادارہ قائم تھا،جس کا آغا ز جرہمی زمانے سے معلوم ہوتا ہے ،حرب فجار کے بعد یہ ادارہ زندہ ہوا ۔یہ ایک اجتماعی حلف تھا ،اس کی ایک تاریخی اہمیت یہ ہے کہ خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے قبل اس میں حصہ لیا تھا ۔یہ دراصل ایک رضاکار جماعت کا سمجھوتہ تھا ، جس کا مقصد یہ تھا کہ شہری حدود میں جو مظلوم پائے ،ان کی مدد کی جائے اور ظالم کو سزا دی جائے ۔ یعنی ظلم کے خلاف اس معاشرے میں بھی اجتماعی آگاہی کا چلن زمانہ قبل از اسلام موجود تھا۔

3 – حلف اور ولاء :

عربو ں کے ہاں باہم مناقشت کا سلسلہ تو جا ری رہتا تھا ،اور قبائلی معا شرت کے سبب کمزور فرد یا کمزور قبیلہ کے لئے با عزت اور محفوظ زند گی گزرانا خاصا مشکل تھا ۔اس ضرورت کے پیش نظر مختلف قبا ئل یا افراد ایک دوسرے سے تحفظ کے حصول کی خاطر باہم معاہدات کر تے تھے ۔اسی قسم کے دو طرح کے معاہدوں کا ہم ذکر کر رہے ہیں ۔حلف کی تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ہے :

حلف: یعنی مختلف قبیلوں کے دو گروہ با ہم معاہدہ کرلیتے تھے ،اکٹھے زندگی بسر کرتے تھے ،زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ایک قبیلہ کی مانند ہوجا تے تھے ۔اور کمزور گروہ قوی تر گروہ میں ضم ہو جاتا حتی کہ انہی کے نسب میں شامل ہو جاتا۔

ولاء : اسی طرح جب کوئی فرد اپنے کو تنہا محسوس کرتا اور چاہتا کہ اسے کوئی تحفظ حاصل ہو تو وہ طاقتور قبیلے کی جانب رجو ع کرتا تاکہ اسے تحفظ فرا ہم کرے۔ایسا کر کے وہ شخص اس قبیلہ کا مولی بن جاتا ۔بعد ازاں مرور زمانہ اس شخض کا نسب قبیلہ کے نسب میں شامل ہو جاتا , جاہلیت کے دورمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طا ئف سے وا پسی پر مکہ میں داخلہ بھی ولاء کے ذریعہ ہی ہوا تھا ۔

4- قسامت :

قسامت سے مراد قسمیں ہیں ۔اگر کسی آبادی یا محلہ میں مقتول کی لاش پا ئی جائے اور اس کے قاتل کا علم نہ ہو تو لاش کا اس آبادی میں پایا جانا اس شک و شبہ کا متقاضی ہے کہ قاتل اسی آبادی یا محلہ کا کو ئی شخص ہوگا ،اس لئے مقتول کے ورثاء کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس محلہ کے پچاس آدمیو ں سے اس بات کی پچاس قسمیں لیں کہ نہ ہم نے اس کو قتل کیا اور نہ ہمیں اس کے قاتل کا علم ہے ،اگر وہ قسم کھالیں تو ان کے ذمہ دیت واجب نہ ہو گی اور اگر قسم کھانے سے انکار کریں تو ان کو اس وقت تک قید میں رکھا جا ئے گا جب تک وہ قسم نہ کھائیں یا اقرار نہ کریں ۔
اسلام سے پہلے عربوں کے ہاں یہ روا ج تھا کہ مدعی اپنے دعوے کو درست ثابت کر نے کے لئے کوئی ثبوت پیش کر تا تھا ۔اگر ثبوت پیش کر نا اس کے لئے ممکن نہ ہو تا تو وہ مدعی علیہ سے قسم لیتا ۔اسلام نے بھی اس اصول کو قائم رکھا ۔ علاوہ ازیں دیت کا تصور بھی قبل از اسلام موجود تھا۔

اسلام سے قبل عرب کے معاشرتی معاملات کے قوانین :

نکاح:
معاشرتی تنظیم میں نکاح کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ عربوں کے ہاں مختلف النوع نکاح رواج پذیر ہے۔ ایک صورت تو نکاح عام کی تھی۔ یہ نکاح مسلمانوں میں رائج نکاح سے بہت حد تک مماثلت رکھتا تھا ۔ اس نکاح کی صورت میں مہر وغیرہ باقاعدہ سے ادا کیاجاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی نکاح کی اقسام عرب میں موجود تھیں۔
لیکن اسلام آنے کے بعد نکاح کی دوسری صورتوں میں مثلاً نکاح الحزن، نکاح البدل ، نکاح شغار ، نکاح مقت ، دو بہنوں کے ساتھ بیک وقت نکاح اور محرمات کے ساتھ نکاح کو باطل قرار دے دیا گیا۔

تعدد ازدواج:
بلا تحدید بیویاں رکھنے کارواج عام تھا۔ حدیث میں ہے کہ غیلان بن ثقفی جب اسلام لائے تو ان کی دس بیویاں تھیں۔ لیکن قبول اسلام کے بعد ان کو کہا گیا کہ ان میں سے چار کو اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں اور باقیوں کو چھوڑ دیں۔

محرمات:
اس دور میں ماؤں، بیٹیوں ،پھوپھیوں اور خالاؤں سے نکاح جائزنہیں تھا ، وہ منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کا درجہ دیتے تھے اور یوں وہ بھی محرمات کی فہرست میں شامل تھا۔

طلاق:
قبل از اسلام عرب میں تین طرح کی طلاق مروج تھیں۔
۱۔ظہار
۲۔ ایلاء
۳۔ طلاق مروج ۔
قبل از اسلام  میں مختلف اوقات میں تین طلاقیں دینے کا رواج تھا، یہ طریقہ بعینہ اسلام کاطریقہ ہے۔ البتہ فرق یہ تھا کہ پہلے کے وقت میں  جب عدت گزرنے کازمانہ قریب ہوتا اور ایک دو دن باقی رہ جاتے تو اس وقت رجوع کرلیتے تھے لیکن اسلام  نے ان دونوں طریقوں کو رد کیا۔
خلع:
خلع کے یہ معنی ہیں کہ عورت شوہر کو کچھ مال دے کر اس سے تعلق منقطع کرلے۔ جاھلیت میں اس کی مثال عامر بن ظرب کی موجود ہے۔
ایلاء:
ایلاء لغت میں قسم کھانے کو کہتے ہیں۔ فقہی اصطلاح میں اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر یہ قسم کھالے کہ وہ اپنی بیوی سے صحبت نہیں کرے گا ۔ عرب ایلاء کوبھی طلاق ہی شمار کرتے تھے جو ایلاء کی مدت گزرنے کے بعد واقع ہوتی تھی ، جو ان کے ہاں ایک سال مقرر ہوت تھی اور کبھی وہ اس کو دو سال بھی کردیتے تھے۔
ظہار:
عربوں کے درمیان ظہار بھی بمنزلہ طلاق کے تھا۔ ظہار سے مراد یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے یہ کہے کہ تو میری ماں کی حیثیت رکھتی ہے ۔

عدت:
زوجین کے درمیان تفرق میں سے ایک اثر عدت ہے۔ تفریق کے اسباب میں سے کسی سبب کے بعد عورت جس زمانے میں شادی کاانتظار کرتی ہے ، اور اس کے بعد اس کو شادی کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس مدت کو عدت کہتے ہیں۔ جب تک یہ مدت گزر نہ جائے عورت کسی دوسرے شخص سے شادی نہیں کرسکتی۔۔عدت گزارنے میں یہ حکمت سمجھی جاتی تھی کہ اختطاط نسب کاتدارک کیاجائے ۔ عرب بھی عدت کے اصول پر عمل پیراتھے ۔ موت کی صورت میں ان کے ہاں عدت مکمل ایک سال مقرر تھی جبکہ اسلام نے یہ مدت ۴ماہ دس دن مقرر کی ہے۔

جرم و سزاکے معاملات:

معاشرتی امن کے قیام کے لیے سزاؤں کے نفاذ بھی عربوں کے یہاں بنیادی اہمیت رکھتا تھا اور وہاں اس کے قوانین بھی موجود تھے،  چنانچہ جب ہم قبل از اسلام عربوں کے حالات پر اس نہج سے نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس معاشرے میں مختلف جرائم کی سزائیں نافذ العمل ملتی ہیں۔ مثلاً قتل اور ضرب شدید کی سزائیں مقرر تھیں۔

قتل کی سزا ، یعنی قصاص یا دیت :
ان دونوں سزاؤں میں سے قصاص مقدم سمجھاجاتاتھا۔ اول تو اس میں عام طور پر یہ مقولہ رائج تھاکہ ’’القتل القی للقتل ‘‘(قتل کو قتل ہی روک سکتاہے ) دوسرے مقتول کے اولیاء قاتل سے بغیر قصاص لیے باز نہیں آتے تھے۔ ان کے ہاں دیت کا قبول کرناباعث ننگ وعار سمجھاجاتاتھا اور دیت کا لینا مقتول کے خون کھانے کے برابر خیال کیاجاتاتھا۔ چنانچہ اس سے متعلق شعرائے عرب کے اشعار کثرت سے ان کے دیوان میں موجود ہیں۔ البتہ قتل خطا کی صورت میں دیت قبول کرلی جاتی تھی۔ قتل میں عامۃ الناس کی دیت کے ایک سو اونٹ مقرر تھے۔
پہلے خون بہا کی مقدار دس اونٹ مقرر تھی ، لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب انہوں نے دیکھاکہ لوگ قتل ناحق سے باز نہیں آتے تو انہوں نے اس کی مقدار ایک سواونٹ تک بڑھادی تھی، بعد از اسلام اس کو برقرار رکھا گیا۔ ’’قسامہ ‘‘جس کا حدیثوں میں ذکرآتاہے ، اس کو سب سے پہلے ابو طالب نے رواج دیا تھا۔

زنا،چوری اور رہزنی کی سزا:
قبل از اسلام میں بھی چوری کی سزا چور کا داہنا ہاتھ کاٹنا تھی۔ اسی طرح زنا اور رہزنی کی سزا بھی عرب میں مروج تھی ۔

قبل از اسلام عرب میں بیع و شراء کے معاملات:

باہم لین دین، بیع و شراء بھی عرب معاشرت کا ایک اہم حصہ تھا، اسلام سے پہلے عرب میں بھی معاملات کی بہت سی قسمیں رائج تھیں۔ مثلاً شرکت ، مضاربت ،رہن ،بیع وغیرہ وغیرہ ۔ ذیل میں ہم ایسے آثار کابیان کریں گے جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے۔

۱۔ عقد شرکت
عربوں کے ہاں شرکت کامعاہدہ معروف تھا، اس کاثبوت سیرت طیبہ کی کتابوں میں مذکور یہ روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت سے پہلے سائب بن ابی سائب کے ساتھ تجارت کرتے تھے ،

۲۔ عقد مضاربت
اس کو قراض بھی کہتے ہیں ، اس کامطلب یہ ہے کہ ایک شخص اپنا مال دوسرے شخص کو تجارت کی غرض سے دے اور اس کو نفع کے اس مقرر حصے میں اپنے ساتھ شریک رکھے۔ یہ عقد بھی عربوں کے یہاں معروف تھا اور اس قسم کامعاملہ قریش کے درمیان عام تھا۔ اہل مکہ مضاربت پر اپنا مال تاجروں کو دیتے اور قریش سال بھر میں دوبڑے تجارتی سفر کرتے ، ایک سردی میں یمن کی طرف ، دوسرا گرمی میں شام کی طرف۔

۳۔ عقد سلم
عرب عقد سلم سے بھی واقف تھے ۔سلم ایسی بیع کو کہتے ہیں جس میں معاہدہ کے وقت وہ چیز موجود نہیں ہوتی ، جس کو خریدنا ہوتاہے ،لوگ ایک سال اور دو دو سال کے لیے پھلوں میں بیع سلم کرتے تھے۔ مجو شخص بیع کرتا تھا ، وہ خریدار کو اس کی مقدار، ناپ یا وزن بتانے کا ذمہ دار ہوتا تھا  اور اس چیز کو خریدار کے سپرد کرنے کی مدت معلوم کا بھی ۔ بلکہ اس چیز کو بیچنے والے سے یہ معاہدہ ہوتاہے کہ ایک مقررہ مدت کے بعد وہ اس چیز کو خریدار کو دے دے گا اور اس چیز کی قیمت معاہدہ کے وقت ادا کردی جاتی ہے۔

رہن:
قرض کی صورت میں ضمانت کے طور پر رہن رکھنے کا عربوں زمانہ قبل از اسلام سے ہی رائج تھا۔

وصیت اور میراث:

ملکیت منتقل کرنے کے اسباب میں سے ایک سبب وراثت ہے، یعنی کسی فرد کی موت کے بعد اس کا مال اور جملہ مالی حقوق میت کے ترکہ سے متعلق حقوق کی ادائیگی کے بعد بطریق خلافت (جانشینی) اس کے وارثوں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے ، عرب معا شرہ میں بھی  وصیت اور میراث کا سلسلہ موجود تھا ،وہ وارث اور دوسروں کو وصیت کی اجازت دیتے تھے لیکن ان کے ہاں اس کی کوئی مقدار مقرر نہیں تھی اسلام  آنے کے بعد وصیت کے اصول کو قائم رکھا گیا اور وصیت کرنے والے کے ترکہ میں تہائی حصہ وصیت کرنے کی حد مقرر کی اور تہائی سے زیادہ وصیت کرے تو یہ وارثوں کی اجازت پر موقوف تھا ۔وصیت کی اجازت صرف ان لوگوں کے حق میں دی جن کو میراث میں حصہ نہیں ملتا ۔وارث کے حق میں وصیت کو دوسرے ورثاء کی اجازت پر موقوف رکھا۔

ایام قبل از اسلام میں عربوں کے ہاں بالخصوص اہل مکہ کے ہاں شوریٰ کانظام عملاً موجود تھا۔ اس ضمن میں ’’دارالندوہ‘‘ کو بہت شہرت حاصل تھی۔ شورائی نظام کے علاوہ ہر قبیلے کے سردار کا طریق بھی رائج تھا ،  بیت اللہ کی کنجی برداری کا منصب قبل از اسلام عثمان بن طلحہ کے خاندان کے پاس تھا، فتح مکہ کے موقع پر چونکہ یہ مسلمان ہوچکے تھے اور اس کام کا ان کو سابقہ تجربہ بھی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عثمان بن طلحہ کو بلایا اور بیت اللہ کی کنجی ان کے حوالے کی۔

کعب بن لوی کی اولاد میں قصی پہلا شخص تھا جسے مکہ میں سلطنت حاصل ہوئی اور جس کی قریش اطاعت کرنے لگے، سیاسی انارکی کے باوجود جب قصی بن کلاب نے مکہ پر قبضہ کرکے یہاں حکومت قائم کرلی تھی تب اہل مکہ نے ان کے حکم کو بلا چوں چراتسلیم کیا۔ جس طرح مذہب کی پیروی کی جاتی تھی ، اہل مکہ اسی طرح قصی کے حکم کی پیروی کرتے تھے ، زندگی تو زندگی مر جانے کے بعد بھی انہی کے حکم پر عمل ہوتاتھا۔
اس کے ہاتھ میں بیت اللہ کی نگرانی حاجیوں کو پانی پلانا، حج کے زمانے میں باہر سے آنے والوں کی مہمان نوازی ، اکابر قریش کی مجلس کی صدارت جنگی قیادت جیسے پانچ کلیدی منصب تھے۔ اس طرح اس نے اپنے دامن میں مکہ کے سارے شرف و مجد کو سمیٹ لیاتھا۔ قریش کے کسی مرد یا عورت کانکاح، پیش آمدہ کسی اہم معاملے میں مشورہ اور کسی اجنبی قبیلہ سے جنگ کافیصلہ اسی کے گھر پر ہوتاتھا جس کا صدر اس کی اولاد میں سے کوئی ہوتاتھا ۔ جب کوئی لڑکی بالغ ہوتی تو اس کے گھر میں اسے اوڑھنی اڑھائی جاتی اور اسے اس کے گھر پہنچایا جاتا۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”قبل از اسلام عرب معاشرے کی عورت (حصۂ اوّل)۔۔۔ منصور ندیم

Leave a Reply to فیصل جوش Cancel reply