مودی، کشمیر اور گلگت بلتستان کا مقدمہ۔۔

مورخہ پانچ اگست 2019 کو ہندوستان کے فاشسٹ حکمران نریندرمودی کی جانب سے ریاست جموں کشمیر لداخ کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور اسٹیٹ سبجیکٹ رول کے خاتمےاور اس کام کو انجام دینے کیلئے دو ہفتے  پہلےسے جموں کشمیر لداخ میں فوجی طاقت کے بل بوتے پر ریاست کا مکمل گھیراؤ اور عوام کو گھروں میں محصور کرکے دنیا کی تاریخ کے افسوناک دہشتگردی اور انسانیت سوز اقدام پر جشن مناناانسانی  تاریخ کی ایک المناک داستان کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت میڈیا رپورٹ کے مطابق نولاکھ بھارتی افواج انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں میں مصروف عمل ہے لیکن بدقسمتی سے جہاں اقوام عالم اس  تمام صورت حال میں محوتماشا نظر آتا ہے وہیں مسلم ممالک بھی معاشی اور اقتصادی مفادات کے آگے مجبوریوں کا شکار نظر آتا ہے۔
محترم قارئین۔ بہت لوگوں کو شاید   معلوم ہی نہیں کہ کشمیر کی تاریخ کیا ہے اور کشمیر کا رقبہ کہاں سے کہاں تک پھیلا ہوا ہے ۔اورخطےکی قدرتی وسائل اور آبی ذخائر سے مالا مال زمینیں اس وقت کون کون سے ممالک کے پاس ہیں۔ پاکستان، ہندوستان اور چین کے درمیان متنازع ریاست جموں کشمیر لداخ گلگت بلتستان اقصائے چن کا کل رقبہ 84471 مربع میل ہے۔ جس میں سےتقریباً 38 فیصد گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو ملا کر پاکستان کے زیر انتظام اور42 فیصد ہندوستان کے زیرانتظام اور 20 فیصد چائنہ کے پاس ہے۔ رقبے کے لحاظ سے اس وقت گلگت بلتستان 29814 مربع میل اور آزاد کشمیر 4144 مربع میل پاکستان کے پاس جبکہ لداخ 33740 مربع میل، صوبہ کشمیر 6893 مربع میل اور جموں 9880 مربع میل ہندوستان کے زیر انتظام ہیں اور 1962 کی جنگ میں1971 مربع میل چین کے زیر قبضہ چلاگیا اور بعد میں پاکستان سے چین کو 1868 مربع میل مزید گفٹ کیے جو کہ اقصائے چن اور شخزگم پر مشتمل ہے۔(حوالہ جموں وکشمیر کی جغرافیائی حقیقتیں، مصنف : جی ایم میر )۔


قارئین،ریاست جموں کشمیر کی تاریخ بھی عجیب ہےکیونکہ اس خطے کی تاریخ کا اگر ہم 1846 سے لیکر 1947 تک کا مطالعہ کریں تو یہاں سکھوں اور ڈوگروں کی حکومت رہی اور یہاں کے عوام ہر دور میں اُن سے نبرد آزما ہوتے رہے خاص طور پر گلگت بلتستان کی تاریخ ناکام بغاوت سے بھری پڑی ہے۔ وہیں گلگت بلتستان لداخ میں سہولت کاروں کی بھی ایک طویل داستان ہے جسے راجہ یا میر کہتے ہیں جنہوں نے ہر دور میں عوامی مفادات کا سودا کرکے اقتدار حاصل کیااور آج بھی یہی طبقہ اقتدار پر قابض ہے۔ اسی طرح جموں اور کشمیر میں بھی مہاراجہ کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے جسم سے کھال اُتار کر درختوں پر لٹکانے جیسے واقعات بھی ریاست کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔

تاریخ کشمیر کے حوالے سے لکھی گئی  مختلف کتابوں میں یہ بات درج ہے کہ تقسیم برصغیر کے بعد ریاست جموں کشمیر کے اندر بھی ایک شورش پیدا ہوگئی تھی کیونکہ مہاراجہ کو  شک تھا کہ میرا مُلک جو کہ مسلمان اکثریتی ریاست ہے ایسا نہ ہو کہ یہاں کے مسلمان بغاوت کریں۔ یہی وجہ تھی کہ جب متحدہ ہندوستان کی تمام ریاستوں کو پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہونے کا اختیار ملاتو مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست جموں کشمیر ،تبت (گلگت بلتستان،لداخ ،جموں کشمیر) کو خود مختار رکھنے کا فیصلہ کیا یا  اس حوالے سے فیصلہ کرنا باقی تھا۔لیکن 22 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے قبائلی لشکر نے موجودہ آزاد کشمیر پر حملہ کردیا۔ نامور مصنف مرحوم کلدیب نائر اپنے ایک کالم میں اس واقعے کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں، مہاراجہ نے آزاد رہنے کو ترجیح دی۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان اکثریت والی ریاست جموں و کشمیر پاکستان کے ساتھ شامل ہو سکتی تھی بشرطیکہ اس موقع پر صبروتحمل کا مظاہرہ کیا جاتا۔ مہاراجہ نے آزاد رہنے کا اعلان کر کے پاکستان کے ساتھ اپنی حیثیت برقرار رکھنے کا معاہدہ کر لیا تاہم بھارت نے ایسا معاہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اس کے خیالات مختلف تھے۔ اس موقع پر پاکستان نے بے صبری کا اظہار کرتے ہوئے وہاں اپنے نیم فوجی دستے بھیج دیے اور وادی پر بزور طاقت قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ اس پر مہاراجہ نے بھارت سے فوجی مدد طلب کر لی۔ اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اس وقت تک راجہ کی کوئی مدد کرنے سے انکار کر دیا جب تک کہ ریاست بھارت کے ساتھ الحاق نہیں کرتے,، جبکہ مہاراجہ ہری سنگھ کا بیٹا ڈاکٹر کرن سنگھ بھارتی لوک سبھا میں اپنے ایک خطاب میں اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب 27 اکتوبر 1947 بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے ساتھ ریاست کے الحاق پر معاہد ہ ہو رہا تھاوہ بھی اُس وقت وہیں موجود تھے اور اُن کے والد یعنی مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ ریاست کا مکمل طور پر الحاق نہیں کیا بلکہ صرف تین سبجیکٹ،دفاع،خارجہ اورکمیونیکیشن پر بھارت کو اختیار دیے جسے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35A سے تحفظ فراہم کیا۔ یوں 5 اگست کو مودی نے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہوئے اُس قانون کو ہی توڑ دیا جس کی بنیاد پر بھارت کشمیر کواٹوٹ انگ سمجھتے تھے۔
قارئین ، تاریخی کتابوں میں یہ بات بھی لکھی ہوئی ہے کہ جب مہاراجہ نے ہندوستان سے الحاق کا اعلان کیا تو مہاراجہ کے ہی فوج میں شامل مسلمان افسران کو پہلے ہی اس بات کا شک تھا کہ تقسیم ہندوستان کی صورت میں مہاراجہ کا جھکاؤ مذہبی طور پر ہندوستان کی طرف ہی ہوگا اسی خدشات کے پیش نظر اُنہوں نے خفیہ طور پر ایک انقلابی کونسل تشکیل دی ہوئی تھی جسکا مقصد ضرورت پڑنے پر مہاراجہ کا تختہ اُلٹنا تھا کیونکہ مہاراجہ کی جاگیر میں موجود مسلمان کسی بھی حوالے سے مہاراجہ کی طرز حکومت سے خوش نہیں تھے ،مذہبی تفرقے نے ریاست جموں کشمیر کے عوام کے اندربغاوت کی سوچ مسلسل اُبھر رہی تھی کیونکہ مہاراجہ مذہبی طور پر راجپوت ہندو تھے۔یوں جہاں چار مربع میل قبائیلوں نے آزاد کرکے پاکستان کی جھولی میں ڈال دیا وہیں گلگت اور لداخ جو ریاست کی سب سے بڑی اکائی تھی،بھی مکمل طور پر ہندوستان کے قبضے میں جانے کا خطرہ تھا۔اس خطرے کے پیش نظر کرنل مرزا حسن خان اور اُس کی ٹیم نے مہاراجہ سے بغاوت کرکے گلگت میں موجود گلگت اور لداخ کاگورنر مہاراجہ ہری سنگھ کا بھانجا برگیڈئیر گھنسارا سنگھ کوگرفتار کرکے گلگت سے مہاراجہ کا جھنڈا سرنگوں کرکےآزاد ریاست جمہوریہ گلگت کا جھنڈا لہرایا جسے دہائیوں بعد پہلی بار گزشتہ سال یوم آزادی گلگت بلتستان کے موقع پر عوام کو آزادی کے ساتھ دوبارہ سے لہرانے کا موقع ملا ورنہ اس سے پہلے اس جھنڈے کے بارے میں بات کرنے والوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان کے عوام کو اُس آزادی کی بنیاد پر پاکستان کے دیگر چار صوبوں کی طرح شہری حقوق نہیں ملے بلکہ ناکام آزادی کے صرف 16 دن بعد ایف سی آر نافذ کر دیا ۔
اب اگر ہم اگلے مرحلے میں ادھوری آزادی اور مسئلہ کشمیر وجود میں آنے کے بعد کی صورت حال کا جائزہ لیں تو طویل کہانی ہے لیکن مختصر ذکر کریں تو جواہر لال نہرو یکم جنوری 1948 کواس مسئلے کو اقوام متحدہ لیکر گئے اور وہاں ایک کمیشن بنا اُس کمیشن کو بین الاقوامی طور پر UNCIP کہتے ہیں اس کمیشن پر مملکت پاکستان اور ہندوستان دونوں نے دستخظ کی ہوئی ہے  جس کے تحت مسئلہ کشمیر نے حل ہونا ہے۔   اُس کمیشن کا 13 اگست 1948 کی قرارداد میں گلگت بلتستان کو بھی ریاست جموں کشمیر کی  دیگر اکائیوں کی طرح متنازعہ قرار دیکر 6 ہفتوں کے اندر گلگت میں لوکل اتھارٹی کے قیام کا حکم دیا لیکن اقوام متحدہ کی  قرارداد کے باوجود اس خطے کو 28 اپریل 1949 کو معاہدہ کراچی کے ساتھ باندھا گیا جو آج تک پیکج کی بنیاد پر قائم اور دائم ہیں۔گلگت بلتستان کے عوام جب بھی اس خطے کو مکمل طور پر قومی دھارے میں شامل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں مسئلہ کشمیر اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا عذر پیش کیا جاتا ہے اور جب مسئلہ کشمیر کی بنیاد پر حقوق کا مطالبہ کریں تو اس مطالبے کو ایک طرح غداری جیسے سنگین الزامات کے زمرے میں ڈال کر عوام کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جسکے زیر عتاب لوگوں کی اس وقت گلگت بلتستان میں ایک طویل فہرست موجود ہے

گلگت بلتستان کے 22 لاکھ عوام کی قانونی شہریت کے حوالے سے جب یہاں کے قومی لیڈران اور مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے کشمیر کازکے حوالے سے ریاستی بیانئے پر گہری نظر رکھنے والے اہل قلم اور اہل علم کہتے ہیں کہ قانونی طور پر گلگت بلتستان کے باشندے انقلاب گلگت کی ناکامی یا اُس انقلاب کو ناکام بنانے کی سازشوں کے بعد 16 نومبر 1947 سے لیکر آج تک پاکستان کے زیر انتظام متنازع خطہ ہے ۔لہذا جب تک رائے شماری نہیں ہوتی، شہریت کا فیصلہ ہونا ممکن نہیں ۔البتہ گلگت بلتستان کے عوام ریاست جموں کشمیر کے قانونی شہری ضرور ہیں، جسے ریاست پاکستان ،ہندوستان اور اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتے ہیں اور دفتر خارجہ کے ترجمان بھی کئی بار اس بات کا برملا اظہار کر چکے ہیں اور آخری بار گزشتہ ہفتے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مظفر آباد میں پریس کانفرنس کے دوران گلگت بلتستان کو ریاست جموں کا حصہ قرار دیکر کسی قسم کا صوبہ بنانے کے امکانات کو واضح طور پر مسترد کردیا یعنی اور اس خطے کی قسمت کا فیصلہ بھی رائے شماری کے ذریعے ہی ہوگا۔
یوں اب اگر ہم واپس کشمیر چلیں تو 5 اگست 2019 کو نریندر موودی کی تاریخی دہشتگردی کا ذکر کریں تو اُن کے اس اقدام سے مسئلہ کشمیر میں ایک نئی جان آئی ہے جموں کشمیر لداخ کے حوالے بھارتی آئین کی  دو شقوں کے خاتمے کے بعد مسئلہ کشمیر واپس اقوام متحدہ کے ٹیبل پر چلا گیا ہے اور سلامتی کونسل کا اجلاس ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست جموں کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ ایک متنازعہ خطہ ہے اور اس خطے کی قسمت کا فیصلہ یہاں کے عوام نے کرنا ہے۔لہذا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اس وقت بھارت کمزور پوزیشن پر ہے اور اُنہیں مزید کمزور کرنے کیلئے گلگت بلتستان اس خطے کی متنازع  حیثیت کے مطابق حقوق دینے کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

قارئین :کشمیر کی حالیہ صورت حال پر پاکستان کے مشہور مورخ،محقق اور دانشور ڈاکٹر مہدی حسن کا ایک مختصر انٹرویو اس وقت سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہورہا ہے جو شاید اُنہوں نے 5 اگست کے بعد کسی بلاگر کو دی تھی ۔ وہ کشمیر کے مسئلے پر سفارتی جنگ اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے کو مسترد کرتے ہیں۔ اُنکا کہنا ہے کہ دنیا کے مہذب مُلک دو ملکوں کے درمیان متنازع  خطےکے معاملے میں دخل نہیں دیتے لہذا ہمیں پہلے کشمیر کی آزادی کی بات کرنی چاہیے کیونکہ محکوم قوموں کی آزادی ہر مہذب مُلک کے ایجنڈے میں شامل ہوا کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس وقت خطے کی آزادی کی بات کرنی چاہیے اور بعد میں عوام فیصلہ کرے گی ۔ ڈاکٹر مہدی حسن کا یہ بیان ایک تاریخ ساز بیان اور تلخ حقیقت ہے کیونکہ اس وقت یہاں تک مسلمان ممالک بھی کشمیر کے مسئلے پر ہندوستان کے ساتھ اپنے تجارتی اور اقتصادی مفادات کا  شکار نظر آتا ہے۔ امریکہ کے صدر نے ثالثی کی جو پیشکش کی تھی اُس پر بھی کوئی عملی اقدام کہیں نظر نہیں آرہا ۔لیکن اس کے باوجود کشمیر کے مسئلے پر ہندوستان کمزور پوزیشن پر ہے لہذا پہلے کشمیر کی آزادی کیلئے ایک روڈ میپ تیار کرنے کی ضرورت ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس وقت اُس روڈ میپ کا مرکز نگاہ گلگت بلتستان ہی ہوگا کیونکہ اس وقت ہندوستانی میڈیا گلگت بلتستان کے مسئلے کو لیکر مسلسل ٹاک شوز اور خبر نشر کرکے دنیا کو یہی بتا رہا ہے کہ جو کام ہم نے آج کیا وہی کام پاکستان نے گلگت بلتستان میں دہائیوں پہلے کی ہوئی ہے۔ لہذا ہندوستان کو سفارتی محاذ پر شکست دینے اور دنیا کے مہذب ملکوں کی توجہ کشمیر کی طرف مرکوز کرنے کیلئے ایک غیرجانبدار کردار ادا  کرتے ہوئےگلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزیوں کو روک کر ہندوستان کو سفارتی محاذ پر شکست دینے اور گلگت بلتستان کو آزادی کشمیر کا مرکز بنانے کی ضرورت ہے یہی گلگت بلتستان کے عوام کا دیرینہ مطالبہ اور مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب انشاللہ پہلا قدم ثابت ہوگا۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply