سندھ کے صوفیوں کو سمجھو۔۔۔۔محمد داؤد خان

وہ لطیف کے دیس سے آئے ہیں اور ان کے کانوں میں بھی وہی صدا گونج رہی ہے جو لطیف بہت سا علم دیکھ کر اس علمی بحث کو ختم کرنے کو استعمال کیا کرتا تھا۔

ادی آؤن ان جانڑ
سکھیوں میں کچھ نہیں جانتی!

کیوں کہ لطیف کسی علمی بحث میں پڑنے کو فضول کام سمجھا کرتا تھا۔ یہ بھی اپنے مرشد کے طریقے پر چلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ کوئی علمی بحث نہیں کرتے۔ وہ عالم نہیں ہیں، وہ عاشق ہیں۔ کراچی کے جہانزیب کلمتی، خورشید ثاقب سے لے کر وسیب کی مہکی بولی کے اس کامریڈ تک جس نے بس اوشو جیسی داڑھی ہی نہیں رکھی پر وہ اپنے من سے اوشو ہے۔

مرشد اوشو بھی تو علمی بحث نہیں کیا کرتا تھا۔ جب وہ ہزاروں لوگوں کے درمیاں سے اُٹھ کر اپنے آشرم میں آتا تھا تو مغربی صحافی ان سے سوال کیا کرتے تھے کہ؛
،،تم اس اجتماح کو کیا سکھاتے ہو اور وہ تم سے کیا سیکھتے ہیں؟!
تو اوشو کا ایک ہی جواب ہوتا تھا؛ “عشق!”
تو وہ صحافی حیرت میں آ کر پوچھتا تھا، وہ کیسے؟!!
تو اوشو جواب دیتا تھا، “یہ ہزاروں میں انسان میری علمی باتیں نہیں سمجھتے، پر وہ تو اس لیے حاضر ہوتے ہیں کہ میں بول رہا ہوتا ہوں، مجھے سننا ہی تو ان کا عشق ہے. میں انہیں عشق سکھاتا ہوں!”

تب وہ صحافی اور حیرت بھری نظروں سے اوشو کو دیکھ کر اوشو سے پوچھتا، “تو پھر آپ کیا جانتے ہیں؟!”
تو اوشو بھی وہی جواب دیتا تھا جو لطیف کی زباں پر ہوا کرتا تھا، جب اس عاشق سے عالم آ کر الجھ جاتے تھے تو لطیف اپنا دامن جھاڑ کر اُٹھتے اور ان عالموں کو وہیں علمی کیچڑ میں چھوڑ کر جاتے رہتے پر لطیف جو عالموں کو جواب دیتے، جو اوشو مغربی صحافی کو جواب دیتے اور جو جواب اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی کے عالموں کے جتھے کو سندھ کے اور وسیب کے صوفی دے رہے ہیں کہ؛
ادی آؤن ان جانڑ!
سکھیوں، میں کچھ نہیں جانتی!

یہ علمی بحث میں نہ الجھنے کا عاشقوں کا سادہ سا جواب ہے۔ اس جواب کی ضرورت اب شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ جب سندھ کے صوفیوں نے اسلام آباد کی ایک مادرِ علمی میں رنگوں کا دن ہولی منایا تو کئی عالم اپنے ہاتھوں میں مقدس کتابیں اور بہت بڑے جبے لے کر حاضر ہو گئے اور آ کر ان صوفیوں کو گھیرا جن کا نعرہ ہی اناالحق ہے۔ جو عالم نہیں، جو عاشق ہیں۔ جو کتابوں کو بہت پیچھے چھوڑ کو عشق کو پرنام کرتے ہیں، جن کے لبوں پر ایسے ہی الفاظ ہو تے ہیں کہ،

خصوصاً تھا وہاں خانہِ عشق
سب اس کے گھر کے ہوں گے دیوانہ عشق!

تو اے عالموں! تم انہیں کتابوں، کتابوں میں لکھی باتوں، آدھی اور اندھی دلیلوں سے کیسے روک سکتے ہو جن کے بس وجود ہی نہیں پر ان کے دل بھی صوفی ہیں۔ اگر تم انہیں مقدس کتابوں سے نہیں بھی ڈراؤ جب بھی وہ جانتے ہیں اور ان کے تڑپتے اور دھڑکتے دل اس بات کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں کہ،

اللہ آھے
اللہ آھے
اللہ آھے اندر میں!

وہ اپنے من کے صوفی سے سچے ہیں۔ وہ سندھ سے آئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سندھ میں اب بھی محمد بن قاسم موجود ہے اور وہ کیسے ہندوؤں کے گھروں پر چڑھائی کرتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اب بھی سندھ میں ہندو گھروں سے کیسے خوبصورت نوجوان لڑکیاں اُٹھا لی جاتی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کیسے سندھ کے ہندو اپنی عزت اور اپنی جان کی فکر میں مبتلا ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جب ہندو گھروں سے مدرسے کے بدمعاش لڑکیاں اُٹھا لے جاتے ہیں تو ان کی ماؤں کی حالت کیا ہوتی ہے۔ مرگلا کے پہاڑ کے باسیوں، تم نہیں جان پاؤ گے جب سندھ میں کسی ہندو کی بیٹی کو محمد بن قاسم کے پیرو کار ایمان کی دولت سے نوازتے ہیں تو ایک بوڑھا باپ اپنی عزت کی چتا اپنے کاندھوں پر لیے جہنم میں جلنے چلا جاتا ہے۔

تم نہیں جانتے جب کوئی لاچار ہندو باپ اپنے کسی مُکھی کے پاس کھڑا ہو کر اپنی ٹوپی اس مکھی کے پیروں میں ڈال کر اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر اس مکھی سے پوچھتا ہے کہ، “سائیں انصاف ہوگا؟!”
تو وہ مکھی ان ایمان والوں سے اپنی جان چھڑانے کے لیے اس بوڑھے ہندو والد سے کہتا ہے کہ ابھی تو میں کراچی جا رہا ہوں واپس آ کر دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے؟!
اور وہ واپس نہیں آتا۔ وہ بوڑھا ہندو اس مکھی کی راہ تکتا رہ جاتا ہے۔

تب تک تو وہ ہندو لڑکی صاحب ایمان ہو جا تی ہے اور وہ ہندو باپ اپنا منہ پیٹتے پیٹتے پیٹتے اس بستر پر لگ جاتا ہے جس بستر سے وہ تب ہی اُٹھ پاتا ہے جب کچھ لوگ آتے ہیں، اس کی چتا کو اُٹھاتے ہیں اور کسی شمشان میں لے جا کر جلا ڈالتے ہیں۔

تم پھر بھی پوچھتے ہو کہ یہ سندھ اور وسیب کے صوفی یہاں رنگوں سے کیوں کھیلتے ہیں؟
تم پھر بھی پوچھتے ہو کہ یہ سندھ کے باسی مسلم ہو کر یہاں ہولی کے رنگوں میں کیوں ڈوب رہے ہیں؟
تم پھر بھی پوچھتے ہو کہ یہ سب ہولی کے رنگوں میں سب کو کیوں رنگ رہے ہیں؟

کیوں کہ یہ اور ان جیسے بہت سے صوفی اب بھی سندھ میں محمد بن قاسم کی باقیات کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ اب بھی سندھ میں محمد بن قاسم کے رہ جانے والے قافلے کے جنگ جو ہندوؤں کی لڑکیوں کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹ رہے ہیں۔
تم انہیں مقدس کتابوں اور بڑے جبوں سے مت ڈراؤ!
یہ کافر نہیں ہیں، یہ جو ہیں سو ہیں!
تم انہیں خدا سے دور کر کے کافر مت کہو!
تم ان پر کوئی تہمت مت لگاؤ!

یہ سندھ کے صوفی تمہا ری دھرتی پر مہمان ہیں ان پر فتواؤں کی بارش مت کرو!
انہیں رنگوں سے کھیلنے دو۔
یہ سندھ اور وسیب کے صوفی ہیں۔انہیں رنگ اچھے لگتے ہیں۔
انہیں رنگوں میں ڈوبنے دو۔ انہیں اپنی چُنری رنگوں میں رنگنے دو۔
تم بھی ان کے ساتھ رنگوں میں رنگ جاؤ!
ان کے دل رنگوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان کی روحیں رنگوں میں ڈوبی ہوئی ہیں!

دیکھو وہ سندھ اور وسیب سے اپنے ساتھ عذاب نہیں لائے۔
وہ سندھ سے اپنے ساتھ بہت سے رنگ اور محبت لائے ہیں۔
وہ اپنے ساتھ علم نہیں لائے، وہ علم سے کورے اور عشق سے بھر پور ہیں۔
دیکھو! وہ سندھ اور وسیب سے اپنے ساتھ بہت سا عشق لائے ہیں۔
اپنی مقدس کتابیں بہت سا ڈر اور جبہ اک طرف رکھ کر
ان رنگوں میں رنگ جاؤ!

سندھ کے صوفیوں سے مت الجھو
سندھ کے صوفیوں کو سمجھو!

محبت جن جے من میں، سے میرا ئی سونھن
تن م مشعال سدا سپرین!

Advertisements
julia rana solicitors

محبت جن کے من میں وہ میلے ہو کر بھی اچھے ہوتے ہیں
وہ سدا مشعال کی طرح جلتے رہتے ہیں، میرے سائیں!

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply