سفرنامہ اسرائیل۔۔مصنف: طارق محمود/تبصرہ۔۔عارف خٹک

اس کتاب کو میری لائبریری میں آئے ہوئے تقریباً  سال مکمل ہونے کو ہے۔ جب بھی پڑھنے کیلئے اٹھاتا،تو کسی حسینہ کا وٹس ایپ آجاتا اور مجبوراً  کتاب پھر واپس شیلف میں پہنچ چکی ہوتی۔ تقریباً  ایک سال سے اس کتاب کیساتھ یہی آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ بالآخر ایک دو محبوباؤں کو ناراض کرکے ہم نے کتاب پڑھنے کی ٹھان لی۔

اسرائیل کا نام لینا بھی پاکستان میں آپ کے کردار، ایمان اور خاندان تینوں کو مشکلات میں گرفتار کرواسکتا ہے۔ لہذا اسرائیل کو ہم فقط عرب میڈیا اور جذباتی مسلمانوں کی تقریروں کی حد تک جانتے ہیں۔یا ہر جمعہ بعد از نماز مولوی صاحب کی بددعاؤں کی وجہ سے ہم مسلمان اپنے ایمان تازہ کرلیتے ہیں کہ اللہ واقعی اسرائیل کو نیست و نابود کردے۔ اور سعودی عرب کو مزید توانا کردے۔ آمین!
یا ہم جیسے پلاسٹک کے دانشوروں کو پاکستان میں پیش آنے والے ہر حادثے کے پیچھے انڈیا اور اسرائیل کا ہاتھ ہی نظر آتا ہے۔بھلے سلالہ چیک پوسٹ، باجوڑ مدرسہ، خیبر ایجنسی کی  علی مسجد پر جمعے کے روز   کیے  گئے امریکی ڈرون حملے  اور وزیرستان پر ہزاروں ڈرون حملوں میں شہید ہونیوالے مسلمانوں کو ہم فقط بزبان لبرل مستقبل کے دہشت گردوں کے خلاف لڑی جانیوالی عظیم امریکی جنگ تصور کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں اسرائیل کیساتھ عرب ورلڈ کے خوشگوار تعلقات جہاں اسرائیل کو ایران کے خلاف مسلم ورلڈ میں ایک نئی تسلیم شدہ طاقت کے طور پر تسلیم کرایا جارہا ہے۔ وہاں پاکستان اور بنگلادیش جیسے مسلمان حکومتوں کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے عوام کو حقائق کا ادراک کراسکیں کہ اسرائیل ہمارے لئے شجرہ ممنوعہ کیوں ہے۔ حالانکہ اسی شجرہ ممنوعہ کیساتھ امام الامت طیب اردگان کے بڑے ہی قریبی سفارتی تعلقات ہیں۔اور مکہ مدینہ کے امام ضامن سعودی عرب کی تو باقاعدہ انٹیلجنس شیئرنگ اور بھاری سرمایہ کاری کے منصوبے بھی پوری دنیا کے سامنے عیاں ہوچکے ہیں۔

ایسے میں ایک محب وطن پاکستانی اور صوم و صلوٰۃ کے پابند میرے دوست طارق محمود کا اسرائیلی سفرنامہ جو ہمیں اسرائیل کے موجودہ حالات سے باخبر کررہا ہے وہاں چالیس کلومیٹر طویل غزہ پٹی کے مسلمانوں کی حالت زار پر طارق محمود مسلمانوں کا ضمیر جھنجھوڑنے جارہا ہے کہ چلو اسرائیل تو قابض اور ظالم یہودی ہیں،مگر مصراور سعودی عرب کس جذبے کے تحت چھوٹے سے رقبے پر بیس لاکھ مسلمانوں کو محصور کیے بیٹھے ہیں۔

اس کتاب میں جہاں مقدس مقامات کی سیر کے بارے میں بتایا گیا ہے وہاں مسلمانوں کی حالت زار پر عرب ورلڈ کی بے حسی پر ان بے ضمیر سلطانوں پر لعن و طعن کی گئی ہے۔
اس کتاب میں مصنف نے اپنے جذبات سے ہٹ کر حقائق، جغرافیائی حالت، یہودیوں اور فلسطینیوں کا جس خوبصورتی سے تجزیہ کیا ہے۔ وہ بلاشبہ طارق محمود کا ہی خاصہ ہے۔
مجھے اس کتاب کی صحت پر اس لئے بھی شبہ نہیں ہے کہ میں خود دو بار اسرائیل جانے کی کوشش کرچکا ہوں مگر عین وقت پر اس لئے نہیں جا پایا کہ اگر خدانخواستہ پیچھے سے ہمارے قوم پرست دوستوں کی کارستانیوں کی وجہ مجھے وہاں بھی گل خان ثابت کیا گیا تو ترکی کے سفارتی تعلقات بھی مجھے واپس نہیں چھڑا سکتے۔اگر چھڑوا بھی لیا گیا تو اپنے والے شیر ببر مجھے زندہ گاڑ دیں گے۔ لہذا دو بار مصر اور اردن کا ویزہ ہونے کے باوجود میری ہمت نہیں ہوئی کہ پاسپورٹ کے بدلے عارضی سفری اجازت نامے پر اسرائیل جاسکوں۔ حالانکہ اسرائیل میں اس وقت سینکڑوں پشتون آباد ہیں جو افغانستان سے ہجرت کرگئے ہیں اور یہودیوں کی آخری نسل سے بچا ایک مرد جو مزار شریف کا تاجک تھا وہ بھی 2013 میں اسرائیل ہجرت کرگیا۔

ہم پشتونوں کو تاریخی حوالہ جات ویسے بھی یہودی النسل ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ سو مجھے اپنے بھائیوں کو مزید قریب سے دیکھنا تھا۔ مگر افسوس چند لبرل قوم پرستوں کی وجہ سے آج تک جانے کی ہمت نہیں ہوئی ورنہ “پی ٹی ایم” کا ایک جلسہ میں یروشلم میں بھی منعقد کروا سکتا ہوں۔اور عظیم پشتونستان کا نعرہ میں یروشلم تک پہنچا سکتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تمت بالخیر

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply