واقعہ کربلا:مختلف زاویے اور جہات/عامر حسینی

ایک زاویہ ہے جس سے مذہبی کمیونٹی کے اندر جو ذیلی فرقوں پر مشتمل کمیونٹیز اسے دیکھتی ہیں – بلاشبہ اسلام میں جو شیعہ اور سنی اسلام کی تقسیم ہے اس میں شیعہ اسلام میں اس کی تعظیم و تقدیس مخصوص شعائر ، رسوم و رواج کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور یہ سب ان کی “مذہبی آزادی ” کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ اور جو بھی سیکولر سوچ کا حامل شخص ہوگا ، وہ اس میں رکاوٹ ڈالنے کے بارے میں کسی بھی سرکاری پابندی یا کسی دوسرے مذہبی گروہ کی جانب سے اسے طاقت یا تشدد کے زور پر بند کرانے کی مخالفت کرے گا – چاہے اس کے اپنے خیالات اس “واقعہ” کے بارے میں جو بھی ہوں – اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ شیعہ کمیونٹی کے عاشورا منانے کے رسوم و رواج اور طریقوں پر زبردستی پابندی لگانے کی کوشش کرے –
ایسے ہی سنی اسلام میں جو فرقہ عاشورا کے دنوں میں اپنے طریقے سے اس کو مناتا ہے ۔ جیسے عرف عام میں بریلوی کہلانے والے ان دنوں میں نیاز پکاتے ہیں ، گریہ کرتے ہیں لیکن ماتم نہیں کرتے ، پانی کی سبیل لگاتے ہیں یا کئی ایک اپنے تعزیے نکالتے ہیں ، دردناک شہنائی بجاتے ہیں ۔ تمثیل نگاری میں کتگا، تلوار بازی کرتے ہیں یہ ان کی مذہبی آزادی سے تعلق رکھتا ہے-

دیوبندی اور اہل حدیث جمہور اس موقع پر شہادت امام حسین پر جلسہ منعقد کرتے ہیں اور وہ اس دن پر نیاز ، سبیل ، تمثیل نگاری ، تعزیہ کو بدعات میں شمار کرتے ہیں تو یہ ان کے مذہبی نظریات ہیں اور وہ ایسا کرنے میں آزاد ہیں- کسی دوسرے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ انھیں پبلک میں تحریر سے ، تقریر سے مطعون کرے اور انھیں اپنے طریقے سے اسے منانے پر مجبور کرے –

ایک بہت چھوٹا گروہ ایسا بھی ہے جس کے نزدیک واقعہ کربلا غلط فہمی کا نتیجہ تھا اور وہ حسین (علیہ السلام ) اور یزید ( ملعون ) کو ایک درجے پر رکھتے ہیں اور اسے خاندانی چتقلش کا نتیجہ بتاتے ہیں ۔ وہ اپنے حد تک تو یہ خیال کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن اگر وہ اپنے خیال کو زبردستی مسلط کریں اور اس کے لیے قولی و تحریری و عملی تشدد کا راستا اختیار کریں تو یہ “آزادی ” نہیں بلکہ دوسروں کی مذہبی آزادی سلب کرنے والی بات ہوگی –

یا وہ گروہ جو امام حسین کو حکومت وقت کا “باغی ” قرار دے کر ان کے قتل کو حکومتی رٹ قائم کرنے کا ذریعہ سمجھتا ہو وہ اگر پبلک میں۔۔۔۔ تحریر میں یا سو شل میڈیا کی پبلک پوسٹ میں ایسی بات کہے یا لکھے گا تو یہ فتنہ و فساد پھیلانے کے مترادف ہوگا –
اہل تشیع کا حق ہے کہ وہ اپنے طریقے سے عاشور منائیں ۔ وہ مساجد ، امام بارگاہ اور گھروں کے اندر privately and secretly اپنے مذہب کے مطابق ان شخصیات پر تبرا و تولی کریں جو ان کی نظر میں “اہل بیت ” کے دشمن تھے تو کوئی اس بات کے آڑے نہیں آئے گا – لیکن اگر وہ پبلک میں اپنی مجالس اور جلوسوں میں ایسا کریں گے تو پھر وہ اپنی مذہبی آزادی کی حد عبور کریں گے – شوشل میڈیا پر اگر وہ اپنی ایسی مجالس کو لائیو یا ریکارڈ شکل میں پبلک /فار ایوری ون کی پرائیویسی کے ساتھ شئیر کریں گے جو تبرا اور تولی کا عنصر رکھتی ہوں گی تو یہ عمل فرقہ پرستی اور منافرت انگیز تقریر کے زمرے میں آئے گا چاہے وہ یہ نام لیے بغیر مگر طاقتور اور واضح اشارہ یا کنایہ میں کریں-

جب سے سوشل میڈیا آیا ہے تب سے مجالس کو براہ راست نشر کرنے کا رجحان زور پکڑ گیا ہے اور اس دوران کئی ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں جو Hate Speech اور Sectarian Provoking میں آتے ہیں ۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے –

فرقوں اور مذاہب کے درمیان جو باتیں باعث نزاع ہیں اور جو مقدمات سخت جھگڑے کا سبب ہیں ان کے بیان کی جگہ اور Space چار دیواری کے اندر Private place ہوتی ہے ۔ جب وہ متنازع باتیں پبلک میں ہونے لگیں تو پھر مذہب ، عقیدہ فرد کا نجی معاملہ نہیں رہتا ۔ یہ دوسروں کے عقائد اور شعائر پر حملہ بن جاتا ہے –

مثال کے طور پر سنی اسلام کے نزدیک ثقیفہ بنو ساعد میں مہاجر اور انصار صحابہ کا اجتماع اور اس میں بعد از وفات رسول نیابت رسول اللہ کا طے ہونا عین اسلامی اور خلافت ان کے نزدیک ایک عین اسلام ہے ۔ اگر کوئی شخص میں خلافت کو “غصب ، جبر ، ارتداد ” جیسے الفاظ سے پبلک میں بیان کرے اور تبرا اور تولی کا دائرہ چند ( زیادہ سے زیادہ چھے اصحاب) کو چھوڑ کر سب صحابہ کرام تک پھیلائے تو یہ فعل اس کے مذہبی عقیدے کی آزادی اور اس پر عمل کی آزادی کے دائرے سے تجاوز کے مترادف ہوگا کیونکہ یہ عقیدے کے ذاتی ہونے کی Space سے نکل جائے گا-

ایک شخص یا گروہ قرآن کو الہامی کتاب نہ مانتا ہو یہ اس کا ذاتی عقیدہ اس وقت تک رہے گا جب تک وہ اپنے تک اس معاملے کو رکھے گا ۔ لیکن اگر وہ پبلک میں آکر قرآن کو پھاڑ دیتا ہے یا اسے آگ لگا دیتا ہے جیسے مغرب میں ایک کر رہا ہے یا وہ گروہ جو پیغمبر اسلام کے اخلاق سوز خاکے چھاپتا ہے تو یہ معاملہ “آزادی رائے یا مذہبی آزادی ” کا نہیں رہے گا ۔ ایسے ہی کسی مسلمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ پبلک میں انجیل ، تورات ، زبور ، عہد نامہ قدیم ، گیتا ، اپنشد کی بے حرمتی کرے یا انھیں جلائے چاہے وہ اس کے نزدیک الہامی کتب نہ رہی ہوں ، محرف اور مسخ شدہ ہی کیوں نہ ہو ۔ کسی مسلمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ گنیش یا درگا دیوی کی مورتیوں کو توڑے یا صلیب کو توڑے ۔ ایسے ہی کسی غیر شیعہ کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ شیعہ کے تعزیوں، علم اور دیگر شبہیوں کو توڑے ، جلائے – –

کسی ملحد کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مذہب پر سنجیدہ تنقید اور بحث کی بجائے مذہب کی مقدس شخصیات کو تضحیک ، تمسخر ، تذلیل کا نشانہ بنائے – ایسی آزادی تخریب اور فساد کو دعوت دے گی اور اس سے کچھ نہیں نکلے گا –
مذھب فرد کا ذاتی معاملہ ہے ، اس اصول کو “مذہبی آزادی کے حق ” کے ساتھ ملاکر کچھ ضروری حدود و قیود کے ساتھ ملاکر دیکھنا ہوگا – اور یہ دیکھنا ہوگا کہ
اشتعال provoking
نفرت انگیز تقریر و تحریر Hate Speech and Writing
Discrimination امتیاز
جبر و استبداد Oppression and Suppression
تعذیب Persecution
بیہودہ پن /لچر پن Abhorrent
کمتر بنایا جانا Marginalizing
محصور کردیا جانا Ghettoizing
کا مطلب مذھبی جبر کے تناظر میں کیا معنی رکھتا ہے ؟ اور یہ کیسے مذھبی آزادی کے مخالف ہے –
مذہبی عقیدے کے دائرے Domain میں حق اور باطل ، ظالم اور مظلوم ، جابر اور مجبور، رحمانیت اور شیطنت بارے مذہب کے بانیان اور دیگر مقدس ہستیوں کے حوالے سے Public debate , مناظرہ ، تقریر in public domains like on TV, media and social media کبھی معروضی objective ہو نہیں سکتی ۔ یہ ہمیشہ موضوعی Subjective ہوگی اور یہ لامحالہ شورش و فساد Chaos and disintegration کے ساتھ تشدد violence کو جنم دے گی اور سماج کو نراجیت Anarchy کی طرف لے جائے گی –

julia rana solicitors london

واقعہ کربلا پر عقیدے اور مذہب کی رو سے ہونے والی کسی بھی عوامی جگہ پر ہونے والی دو مخالف فریقین کی بحث کا نتیجہ بھی یہی برآمد ہوگا – اس کا نہ تو سیکولر ازم سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی مذہب سے۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply