مارے گئے گلفام اور تیسری قسم ۔۔۔۔ظفر عمران

فلم ’تیسری قسم‘ پنشوار ناتھ رینو کی ہندی کہانی ’مارے گئے گلفام‘ کے پلاٹ پر مبنی ہے۔ باکمال باسو بھٹا چاریہ نے اس فلم کی ہدایات دی ہیں۔ فلم کے مرکزی کرداروں میں راج کپور اور وحیدہ رحمان کو منتخب کیا گیا۔
شنکر داس کیسری لال 30 اگست 1923ء کو راول پنڈی میں پیدا ہوئے، وہ ’شلندر‘ کے قلمی نام سے جانے جاتے ہیں۔ فلم ساز، ہدایت کار، مصنف و شاعر گلزار کا کہنا ہے، ہندستانی سینما کا سب بہترین نغمہ نگار شلندر تھا۔ اسی شلندر نے قطرہ قطرہ جمع کر کے یہ فلم ’تیسری قسم‘ پروڈیوس کی تھی۔
اس فلم میں راج کپور نے ایک بھولے بھالے بیل گاڑی والے کا کردار ادا کیا ہے، اس کا نام ہیرا من ہے۔ پہلی بار وہ اپنی بیل گاڑی میں چور بازاری کے مال کی ترسیل کرتے پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے بچتا ہے۔ قسم کھاتا ہے کہ آئندہ چور بازاری کا مال نہیں لادے گا۔ دوسری بار بانس لادے چلا جاتا ہے، کہ حادثہ ہوجاتا ہے، بیچ چوراہے میں پٹتا ہے۔ اس بار دوسری قسم کھاتا ہے کہ آئندہ کبھی بانس لاد کے نہیں چلے گا۔ بھولا بھالا ہیرامن مال بردار بیل گاڑی سے چھپر والی بیل گاڑی بنالیتا ہے، اور اب اسے دور گاوں کو ایک زنانہ سواری لے کر جانا ہے۔ یہاں وحیدہ رحمان ناٹک کمپنی کی مقبول گلوگارہ، رقاصہ، اداکارہ ’ہیرا بائی‘ کے کردار میں ظاہر ہوتی ہیں۔ ہیرا من اور ہیرا بائی اس سفر کے دوران ایک دوسرے کے دل کے قریب آ جاتے ہیں۔ ’تیسری قسم‘ بیل گاڑی والے اور رقاصہ کی محبت کی کہانی ہے۔ بیل گاڑی والا ہیرا من فلم کے آخر میں ’تیسری قسم‘ کیا کھاتا ہے، یہ آپ فلم دیکھ کر جانیے گا۔
ہندوستان پاکستان میں کمرشل سینما پر تنقید کرنا اور متوازی سینما کی حمایت میں کچھ لکھنا نہایت آسان ہے۔ کمرشل فلم یا مین اسٹریم سینما کی فلمیں بھی فلاپ ہوجاتی ہیں، لیکن عام ڈگر سے ہٹی ہوئی فلمیں بنانے والے کس قدر مالی نقصان کا خطرہ لے کر کے فلم بناتے ہیں، یہ کم کم لوگ جانتے ہیں۔ پھر بھی ایسے دیوانوں کی کمی نہیں، جو اپنی چال چلتے آئے، یہی اپنے پروفیشن کا مان ہیں۔
میں نے پہلی بار ’تیسری قسم‘ اس وقت دیکھی تھی، جب مجھے فلم دیکھنے کا سلیقہ تک نہیں تھا۔ اس وقت بھی اس میں کچھ تھا، کہ مجھے فلم کے چند حصے یاد رہ گئے تھے۔ اس کے تمام نغمے مجھے بہت پسند ہیں۔
’سجن رے جھوٹ مت بولو، خدا کے پاس جانا ہے‘۔ (شلندر)
’دُنیا بنانے والے، کیا تیرے من میں سمائی‘۔ (حسرت جے پوری)
’سجنوا بیری ہوگئے، ہمار‘۔ (شلندر)
’مارے گئے گل فام‘۔ (حسرت جے پوری)
چلت مسافر موہ لیا۔‘ (شلندر)
’آ آ بھی جا‘۔ (شلندر)
’ہائے گجب کہیں تارہ ٹوٹا‘۔ (شلندر)
لتا، مکیش، مناڈے، آشا کی آوازیں، اور شنکر جے کشن کی ترتیب دی دل کش دھنیں۔
بہت بعد میں مجھے ’مارے گئے گل فام‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ افسانے نے مجھ پہ اچھا تاثر چھوڑا، تو دوسری بار ’تیسری قسم‘ کو طالب علم کے طور پہ دیکھنے کی ٹھانی، کہ کیسے ایک افسانے کو اسکرین پہ منتقل کیا گیا ہے۔ یہ سبھی فلم بین مانتے ہیں، کہ جن جن ناولوں پر فلمیں بنی ہیں، انھیں پڑھنے کے بعد فلم دیکھی جائے تو چاہے وہ بیسویں صدی کی اول نمبر فلم ’گاڈ فادر‘ ہی کیوں نہ ہو، ناول کے مقابلے میں کم تر محسوس ہوتی ہے۔ ناول میں ہر قاری کا اپنا تصور ہوتا ہے، جو اسکرین کے کرداروں سے میل کھائے نہ کھائے۔
باسو بھٹا چاریہ مڈل سینما کے نمایندہ ہدایت کاروں میں سے ایک تھے، جنھوں نے متوازی سینما اور کمرشل سینما کے بیچ کا میدان چن کر اپنی پہچان بنائی۔ یہ روایتی کمرشل سینما کی فلم نہیں تھی۔ اگرچہ اس فلم سے جڑے لگ بھگ سبھی اس وقت کے کمرشل سینما کے بڑے نام تھے۔ یہ فلم 1966ء میں ریلیز ہوئی، باکس آفس پہ ڈیڈ فلاپ رہی؛ 67ء میں اسے نیشنل فلم ایوارڈ فار بیسٹ فیچر فلم قرار دیا گیا، اسی سال ماسکو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں نامز دگی ہوئی، لیکن فلم کی ناکامی نے اس کے پروڈیوسر شلندر کو اتنا مایوس کیا کہ وہ 14 دسمبر 1966ء کو انتقال کرگئے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply