کتابوں سے عشق/عاصمہ حسن

کہتے ہیں کہ یہ کتابوں سے عشق کی آخری صدی ہے۔ کتابیں پڑھنے والے ختم ہوتے جا رہے ہیں اب ہماری نوجوان نسل کتابوں کی طرف راغب نہیں ہوتی کیونکہ ان کی دلچسپی کے سامان اور بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔
یہ بات کسی حد تک غلط ثابت ہوتی ہے جب ہم کتابوں کی لاہور انٹرنیشنل نمائش کو دیکھتے ہیں جہاں لوگوں کا جم آفرین ہجوم نظر آیا جسں میں والدین نہ صرف اپنے لیے بلکہ بچوں کے لیے بھی کتب کی خریداری کرتے ہوئے نظر آئے۔ اس لمحے خوشی کی انتہا نہ رہی جب تین لڑکیاں اپنی پسندیدہ کتاب کے ملنے پر خوشی سے چیخنے اور چھلانگیں مارنے لگیں۔ ایسا خوب صورت نظارہ دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ اور ذہن میں فوراً یہ سوال آیا کہ کون کہتا ہے کہ یہ کتابوں سے عشق کی آخری صدی ہے اور اب کوئی کتاب نہیں پڑھتا۔
جو کتابوں سے عشق کرتے ہیں ان سے پوچھیے کہ کیسے ان کو کتابوں کی مہک اپنی طرف کھینچتی ہے۔ پیسے جوڑ جوڑ کر کتب خریدی جاتی ہیں اور کتاب شروع کرنے سے آخر تک پڑھنے کا کیا مزہ ہوتا ہے کیسے کتاب اپنے پڑھنے والے کو باندھ کر رکھتی ہے۔
ہاں کتب تھوڑی مہنگی ضرور ہو گئی ہیں ظاہر ہے اس میں بہت سارے عوامل شامل ہیں۔ میرے خیال میں کتابوں کی قیمت مناسب ہونی چاہئیے تاکہ زیادہ سے زیادہ کتب بینی کو فروغ مل سکے۔
آج کے دور میں اس طرح کی نمائشیں بہت اہمیت کی حامل ہیں اور ایک خوش آئند بات بھی ہے ـ کتابوں کا مطالعہ ہماری سوچ کو ‘ تخیل کو پروان چڑھاتا ہے ‘ دنیا کو دیکھنے کا نیا زاویہ مہیا کرتا ہے اور ہماری کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک لکھاری اپنی زندگی کا نچوڑ لکھتا ہے’ اپنے تجربات اور علم کی روشنی دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ لوگوں کی زندگی میں بدلاؤ لا سکے’ وہ سیکھ سکیں۔ اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں یا ان کو کچھ نیا اور منفرد پڑھنے کو مل سکےـ
مطالعہ ہماری سوچ کا دائرہ وسیع کرتا ہے ہم مختلف لکھنے والوں کو پڑھتے ہیں اور بار بار پڑھتے ہیں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بات عام سی ہوتی ہے لیکن لکھنے والے کا انداز اتنا خوبصورت اور دلکش ہوتا ہے کہ بات فوراً دل میں اتر جاتی ہے۔
اگر کتابیں نہ ہوں تو زندگی بے رونق ہو جائے ان کی اہمیت کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو کتابوں سے عشق کرتے ہیں۔ کتابوں کی مہک انہیں اپنی طرف کھینچتی ہے۔ وہ مطالعے کے بغیر خود کو ادھورا سمجھتے ہیں۔ جو کتب بینی کا شغف رکھتے ہیں وہ بہتر جانتے ہیں کہ کتابوں کی موجودگی ‘ان کی خوشبو کیا اہمیت رکھتی ہے ـ کمرے میں اردگرد کتابیں ہوں ‘ شیلف کتب سے سجی ہو تو انسان خود کو کس قدر مطمئن اور پرسکون محسوس کرتا ہے ـ نئی کتاب شروع کرنے کے لیے دل مچلتا ہے کہ جلدی سے پڑھ لی جائے اور دل چاہتا ہے کہ تمام کتابیں ہمارے پاس ہوں اور پڑھی ہوئی ہوں ـ
لیکن دیکھنے میں یہ بھی آتا ہے کہ آج کی نوجوان نسل کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ کون سی کتاب پڑھی جائے۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ کتاب کے پہلے 8 سے 10 صفحات یا آغاز کے 2 سے 3 اسباق کا مطالعہ کیا جائے اگر وہ آپ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو آگے پڑھیں ورنہ کتاب بدل لیں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے کتاب کے پہلے کے صفحات پڑھنا مشکل ہوتا ہے پھر وہ اس ردھم یا ترنم میں آ جاتے ہیں اور دلچسپی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ کتاب کب ختم ہوئی پتہ نہیں چلتا۔ کسی سے نہ پوچھیں کہ ہم کون سی کتاب پڑھیں کیونکہ آپ خود کو سب سے بہتر جانتے ہیں اور ضروری نہیں کہ اگر ایک کتاب مجھے پسند ہے وہ دوسرے کو بھی اچھی لگے۔ سب کی سوچ اور مزاج مختلف ہوتا ہے اسی طرح لکھنے والے کا انداز اور مزاج منفرد ہوتا ہے۔ کسی کو کوئی لکھاری پسند ہوتا ہے تو کسی دوسرے کے لیے کوئی اور لکھاری اور صنف دلچسپی کا باعث ہوتی ہے۔ لیکن صنف کوئی بھی ہو ہم کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں اور سیکھنے کا’ پڑھنے کا فائدہ تبھی آئے گا جب ہم خود میں سدھار بھی لائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

رومانوی ‘ عشق و محبت کی کہانیاں پڑھنے کی بجائے ایسی کتب کا انتخاب کریں جو سبق آموز ہوں جن سے سیکھنے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا موقع حاصل ہو۔ جس سے ہماری سوچ بدلے اور ہم میں مثبت تبدیلی آئے ـ
آج کل سوشل میڈیا بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ بہت سارے معروف لکھاری اپنی کتب کی نمائش کرتے ہیں لوگوں کو راغب کرتے ہیں کہ وہ کتب بینی کی طرف آئیں۔ سیشنز اور ملاقات رکھی جاتی ہے آٹوگراف اور نیک تمناؤں کے ساتھ کتابیں اپنے پڑھنے والوں کو دی جاتی ہیں جس سے لوگوں میں ایک خاص طرز کا رجحان اور کتب سے عشق پیدا ہو رہا ہے۔
سوشل میڈیا کے مثبت کردار سے لوگوں میں آگاہی اور شعور پیدا ہو رہا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل اب کتابوں کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ اس میں سوشل میڈیا پر پڑھے لکھے طبقے کا کردار بہت اہم ہے جن میں چند مشہور لوگ جنہیں لوگ پڑھنا ‘ سننا اور ملنا پسند کرتے ہے ان کا ذکر بہت اہم ہے جن میں ہشام سرور جو اپنے فری کورسز میں کتابوں کا ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ کتاب انہوں نے پڑھی ہے اس کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے اور نوجوان نسل ان کی بات سنتی اور آنکھیں بند کر کے مانتی بھی ہے نوجوانوں کو سیدھے راستے پر لانے اور ڈیجیٹل اسکلز’ کمیونیکیشن بہتر بنانے ‘ کی اہمیت اجاگر کرنے میں میں ان کی خدمات قابل ذکر ہیں ۔
رؤف کلاسرا اور عارف انیس صاحب کے نام قابل ذکر ہیں جن کی کتب لاہور انٹرنیشنل بک فیئر میں توجہ کا مرکز رہیں اور لوگوں نے اپنے پسندیدہ لکھاریوں کے ساتھ ملاقات بھی کی’ تصاویر بھی بنوائیں اور ان کی کتب پر نیک تمناؤں کے آٹوگراف بھی وصول کیےـ جو کہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے ـ سوشل میڈیا پر ان کی جلوہ افروزی کی دھوم مچی ہوئی ہے ـ
دیگر کئی لکھنے والے خاص طور پر نئے لکھاری بھی ابھر کر سامنے آ رہے ہیں جن کو لوگ نہ صرف پڑھنا پسند کرتے ہیں بلکہ ان کو سوشل میڈیا پر فالو بھی کرتے ہیں اور سب سے اہم ان سے سیکھتے بھی ہیں۔ یہ ایک مثبت اور خوش آئند بات ہے کہ ہمارے بچے شعور رکھتے ہیں اور کتابوں سے اپنا تعلق مضبوط کر رہے ہیں۔
کتب پر خاصی رعایت بھی ملی جس سے مطالعہ کے شیدائیوں کو حوصلہ ملا اور انھوں نے دل کھول کر اپنی پسندیدہ کتابیں خریدیں ـ ایسی نمائیشیں ہوتی رہنی چاہئیے تاکہ مطالعہ کی جو پیاس ہے اس کو بجھانے کےزیادہ سے زیادہ مواقع حاصل ہو سکیں ـ لاہوری خوش خوراک ہونے کے ساتھ کتابوں کے بھی رسیا ہیں ـ لاہور کتابوں اور ثقافت کا ہمیشہ سے مرکز رہا ہے ـ یہاں ہر سال انٹرنیشنل بک فیئر کا بے چینی سے انتظار کیا جاتا ہے ـ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply