کیامیں بھی اشتہاری ہوں؟۔۔عزیزخان ایڈوکیٹ

آج ایک ریٹائرڈ سیشن جج ثنااُللہ نیازی صاحب کی تحریر “اشتہاری پولیس افیسر” نظروں سے گزری تحریر پڑھنے کے بعد مجھے جج صاحب کی علمی اور قانونی قابلیت پر حیرت ہوئی ہے کہ یہ جج صاحب اس منصب پر کیسے فیصلے کرتے ہوں گے۔ جج صاحب نے اپنی تحریر میں فرمایا ہے کہ جب وہ ایڈیشنل سیشن جج فیصل آباد تھے تو ایک ایس پی نے ڈکیٹی کا ایک ملزم جو ریمانڈ جسمانی پر تھا چھوڑ دیا جس پر اُنہوں نے مدعی کی درخواست پر SP کو طلب کیا کہ وہ وضاحت کریں کہ ملزم کیوں چھوڑا گیا؟ مگر ایس پی طلب کرنے کے باوجود پیش نہ ہوا اور عدالت عالیہ میں رٹ دائر کر دی جسٹس صاحب نے کیس سُنا ایڈیشنل سیشن جج صاحب کا حُکم اس گراونڈ پر خارج کر دیا کہ پولیس کسی شخص کو جس کے خلاف چالان کرنے کے لیے مقدمہ میں مکمل شہادت موجود نہ ہو زیر دفعہ 169 ضابطہ فوجداری ضمانت پر رہا کر سکتی ہے اور اس کے لیے اُسے ملزم کو عدالت میں پیش کرنے کی ضرورت نہ ہے۔

ثنااُللہ نیازی سیشن صاحب کو شاید ضابطہ فوجداری کی اس دفعہ کا علم ہی نہیں تھا یا وہ جان بوجھ کر کسی سفارش یا طمع نفسانی کی خاطر ایک بےگناہ شخص کو چالان کروانا چاہتے تھے۔ہمارے مُلک کا عدالتی نظام بھی کُچھ اس طرح سے ہے کہ کسی بھی سنگین مقدمہ میں ملوث نامزد ایف آئی آر ملزم کو ایک سال تک ضمانت ملنا بُہت مشکل ہوتا ہے۔
سیشن جج صاحب نے مزید لکھتے ہیں کہ جب اُنہیں معلوم ہوا کہ عدالت عالیہ کا جسٹس اور وہ ایس پی ایک ہی شہر کے ہیں تو ہائیکورٹ کے جج کے کیے ہوئے فیصلے کی بدنیتی اُن کے سامنے آگئی- جج صاحب نے اپنی نوکری داو پر لگاتے ہوئے عدالت عالیہ کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا اور کیس دوبارا سُننا شروع کر دیا۔

میں حیران ہوں کہ ایک ایسا شخص جو سیشن جج ریٹائرڈ ہوا ہے اپنی کم علمی پر شرمندہ ہونے کی بجائے اپنے ہی ادارے کے جسٹس پر الزام لگا رہا ہے اور عدالت عالیہ کے فیصلے کو بدنیتی قرار دے رہا ہے۔

جج صاحب کا کالم اس بات پر ختم ہوا کہ آخر کار اُنہوں نے SP کو اشتہاری قرار دے دیا اور آج کل وہ SP لاہور کا CCPO ہے-

ثنااللہ نیازی صاحب کی تحریر پڑھنے کے بعد مجھے بلکل حیرت نہیں ہوئی کیونکہ میں اکثر ٹی وی پروگرام میں حفیظ اُللہ نیازی صاحب کے اسی طرح کے تبصرے سُنتا رہتا ہوں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا

جب میری تعیناتی 2005 میں تھانہ نوشہرہ جدید ضلع بہاولپور میں ہوئی تو وہاں کے ایک مقدمہ قتل میں سابقہ ایس ایچ او صاحب کسی خاص مقصد کے تحت تین نامزد ایف آئی آر ملزمان کی گرفتاری ڈال کر چلے گئے جب میں نے چارج لیا تینوں ملزمان ریمانڈ جسمانی پر تھے میں نے تفتیش کی تو پتہ چلا ان میں دو ملزمان بے گناہ ہیں جبکہ صوف ایک ملزم گناہگار ہے ملزمان کا 14 دن ریمانڈ پورا ہو چکا تھا چودہویں دن میاں نے زیر دفعہ 169 ضابطہ فوجداری روزنامچے میں رپٹ لکھ کر دونوں بے گناہ ملزموں کو رہا کر دیا اُن دنوں سابقہ آئی جی کپٹن عارف نواز صاحب بہاولپور میں DPO تھے میں نے رپٹ لکھنے سے پہلے اُنہیں تمام حالات بتا دیےتھے ۔مدعی مقدمہ نے میرے خلاف عدالت عالیہ بہاولپور میں رٹ دائر کر دی جسٹس شیخ حاکم علی صاحب نے دو ماہ تک اس کیس کو سُنا اور اُنہوں نے میرے 169 ض ف میں ملزمان کے مشروط چھوڑنے کے عمل کو درست قرار دیا-2005 کے عدالت عالیہ بہاولپور بنچ کے رپورٹ کیسوں میں یہ کیس بھی موجود ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری جناب ثنا اللہ نیازی صاحب سے گزارش ہے آپ اپنی کم علمی کے باوجود کئی سال ایڈیشنل اور پھر سیشن جج رہے کئی بےگناہوں کو پھانسی کی سزائیں بھی دی ہوں گی۔ مجھے تو آپ کی دی گئی تمام سزاؤں پر پر شک ہو رہا ہے؟ آپ کو ایسی تحریریں نہیں لکھنی چاہیں آپ نے اُس SP کو اشتہاری کیا وہ آپ کا اختیار تھا مگر آج اُس SP کے CCPO بننے کے بعد آپ کو بغض معاویہ میں اب یہ کالم لکھنا یاد آگیا۔ اس کالم سے آپ کی عزت اور توقیر میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ آپ نے پوری دنیا کو بتا دیا کہ آپ نالائق اور کم علم ہیں-

Facebook Comments