نوٹ !’’اندلس اے اندلس!‘‘ ہسپانیہ مسلم تاریخ کا درخشندہ باب ہے جو آج بھی مسلم ذہن کو مسحور کیے ہوئے ہے۔ اردو ادب میں اس کا حوالہ کب، کیسے اور کس پیرائے میں آیا اور اس نے ’’کلٹ آف سپین‘‘ یا ’’عشقِ اندلس‘‘ کی صورت اختیار کر لی، اس پر ڈاکٹر خالد مسعود نے کھوج کی ہے اور قارئینِ تجزیات کے لیے موضوع کی نئی جہتیں سامنے لائے ہیں۔ عشقِ اندلس کا مسلم قومی شناخت کی تشکیل میں کیا کردار رہا ہے اور کس طرح یہ علمی بحثوں کا محور رہا، تاریخ پس منظر، اور سفرناموں سے ہوتا ہوا اردو شاعری اور ناول نگاری میں یہ کیسے ظہور پذیر ہوتا رہا، یہ سب ہمہ جہت پہلو ڈاکٹر صاحب نے ایک مختصر مضمون میں اجاگر کر دیے ہیں۔
اس ہفتے بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کی خلاف ورزی کرتے ہوے یرو شلم کواسرائیل کا دارالحکومت بنا نے سے فلسطین میں جن اندوہناک مظالم کا آغاز ہوا، اس کے خلاف احتجاج میں پاکستان میں ایک مرتبہ پھر ہسپانیہ کا ذکر آیا اورعلامہ اقبال کے اس شعر کا تذکرہ بھی ہوا جس میں ہسپانیہ سے مسلمانوں کی طویل وابستگی کے حوالے سے سوال اٹھایا گیا تھاکہ اگر ماضی میں کسی ملک میں رہائش اور حکمرانی کو یہود فلسطین پرقبضے کے جواز بنا سکتے ہیں تو مسلمان بھی اسی بنیاد پر ہسپانیہ پر اپنا حق جتا سکتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر علامہ اقبال کی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ بھی ہسپانیہ سے جڑی یادوں کو جگاتی ہے۔ علامہ اقبال ہسپانیہ کو خونِ مسلمان کا امین بتاتے تھے۔
جنوب ایشیائی مسلمانوں کی ہسپانیہ یا اندلس کی یادوں کی داستان آج بھی مسحور کر دیتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ برصغیرمیں سماجی اور تاریخی شناخت کیسے تشکیل دی گئی۔ اس صدی کے آغاز میں جنوب ایشیائی مسلمان خاص طور پر یہاں کی مسلم اشرافیہ سیاسی زوال اور سماجی شکست و ریخت کے دوران اپنی شناخت کے تکلیف دہ بحران سے گزر رہی تھی۔ برطانوی استعمارکی محکومی، سائنسی علوم کی ترقی اورجدید اکتشافات کے پیش منظر میں یورپی اقوام مسلمانوں کو علمی اور تہذیبی طور پر پس ماندہ قوم ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔ اس کے جواب میں مسلم دانشوروں کے لیے ایک ہی راستہ تھا کہ وہ اپنی عظمت رفتہ کا حوالہ دیں کہ کبھی وہ بھی سائنس ، ثقافت اور دیگر شعبوں میں نامور ہوا کرتے تھے۔ اور کبھی مسلمان یورپ میں حکمران بھی تھے۔ ہسپانیہ یا مسلم اندلس اس ماضی کی شاندار مثال کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ ایک جانب یورپ کا ملک تھا جہاں مسلمان آٹھ سو سال حکمران رہے۔ اس عہد میں مسلم اور غیر مسلم رعایا کوجدید دور سے کہیں بہترحقوق حاصل تھے۔ دوسرے یہ دور ہسپانیہ میں عقلی علوم کی ترقی اور انسان دوستی کی اقدارکے فروغ پر مبنی مسلم تہذیب کا عروج تھا جس پر یورپ کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی گئی۔
یہ حوالہ اس لیے بھی معنی خیز ہے کہ جدید دور سے پہلے جنوب ایشیا میں سپین سے کبھی ایسی وابستگی نہیں رہی۔ حتیٰ کہ 1492ء میں سقوطِ اندلس پر جب افریقا کے بہت سے مسلم علاقے دل شکستہ تھے، برصغیر میں کوئی رد عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ سولھویں صدی سے ہسپانیہ اور پرتگال ایک استعماری قوت کے طور پر ابھرے اور مسلم دنیا کے متعدد علاقوں پر قابض ہوگئے۔ تاہم ہسپانیہ کے استعماری کردار کے باوجود عشق اندلس اور ہسپانیہ کی عظمت کی کہانی میں اس کا ذکر نہیں۔ بیسویں صدی میں تو یہ یادیں اس زورسے آئیں کہ لکھنے والوں نے اسے سپین سے عشق یا عقیدت تک کا نام دیا اور اب یہ اردو ادب میں رومانوی ناسٹیلجیا کا اہم موضوع ہے۔
عشق اندلس: اصطلاح اور مفاہیم
’’کلٹ آف سپین‘‘، ہسپانیہ سے عقیدت یا عشق اندلس کی اصطلاح پہلی بار بر صغیر کے نامور مؤرخ اور ادیب عزیز احمد نے لیوی پراونشال کی یاد میں فرانسیسی زبان میں ۱۹۶۲ء میں پیش کیے گئے ایک مقالے میں استعمال کی۔ انھوں نے اس کی یہ تعریف کی’’ یہ بین الاسلامی وحدت کے اس تصور کا نام ہے جس کی رُو سے بر صغیر کے مسلمان پوری اسلامی تاریخ کو ایک یکتا اور مجموعی طور پر مربوط عمل سمجھتے ہیں۔ اسی بنا پر وہ یہ زور دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہسپانیہ میں مسلمانوں کی علمی اور ثقافتی ترقی ان کی اپنی میراث ہے‘‘۔ فرانسیسی زبان میں ’کلٹ‘ کا لفظ عقیدت اور وارفتگی کے ایسے رویے کا نام ہے جسے عبادت یا مذہب کا درجہ تو نہیں دیا جا سکتا لیکن یہ وابستگی کے عمومی تعلق سے بڑھ کر ہے۔ ظاہر ہے یہاں اسپین یا ہسپانیہ سے مراد اندلس ہی ہے جو اس علاقے کا نام ہے جہاں مسلمانوں کی حکومت رہی جس میں آج کے اسپین اور پرتگال شامل تھے۔ دوسرے مؤرخ برنارڈ لوئیس ہیں جنہوں نے ۱۹۷۳ء کی ایک تحریر میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال کیا۔ عزیزاحمد نے یہ بات بر صغیر کے حوالے سے کہی اوربرنارڈ لوئیس نے ترکی اور ایران اور دوسرے مسلم علاقوں میں بھی اس وارفتگی کا ذکر کیا۔ عزیز احمد لکھتے ہیں:
’’ماڈرن اسلام ان انڈیا مطبوعہ۱۹۴۶ء اور اسلام ان ماڈرن ہسٹری مطبوعہ۱۹۶۳ء کے مصنف کینٹ ویل اسمتھ مسلمانوں کی اندلس میں دلچسپی کو معذرت خواہانہ رویہ سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں کوفہ ، بصرہ ، بغداد ، قاہرہ اور قرطبہ پر فخر کرنا مسلم تہذیب کی برتری کے لیے ترتیب دی گئی معذرت خواہانہ دلیل ہے۔‘‘ کوئی بھی ایسی دریافت جسے سراہا جا سکتا ہو اس پر فوری طور پر ’’ہماری‘‘ ہونے کا دعویٰ کردیا گیا۔‘‘ (صفحہ۶۰) اسلامی تہذیب کی برتری ثابت کرنے کے لیے اس کی کامیابیوں کا موجودہ زمانے کے مغرب سے تقابل کیا گیا۔ یورپ کی ترقی کا سہرا مسلمانوں کے سر پر سجایا گیا۔ یورپی نشاۃ ثانیہ کی جڑیں مسلم اندلس میں بتائی گئیں۔ (صفحہ ۶۰،۶۱)
عزیز احمد نے اسمتھ سے اختلاف کیا ہے کہ اسمتھ نے تاریخ کو جغرافیائی تناظر میں تقسیم کر دیا ہے۔عزیز احمد یہ دلیل دیتے ہیں کہ مسلم اندلس کے ثقافتی اور تاریخی جاہ و جلال نے ان کے عقیدے کو سیاسی اور ثقافتی طور پر متحرک کیا۔ یہ رویہ انیسویں صدی میں یورپی تہذیب کے مقابلے میں مسلم تہذیب کی پسپائی کے دوران مغرب کے خلاف ایک مستقل ردِعمل کی صورت نظر آتا ہے۔ مسلم اشرافیہ کے پاس تاریخ میں فخر کرنے کواسپین اور ترکی دو ہی ملک تھے۔ ایک ماضی کا حصہ بن چکا تھا اور دوسرا ۱۹۲۰ء میں ختم ہو گیا۔ انھوں نے خاص طور پر اس امر پہ زور دیا کہ مستشرقین کی تحریروں میں عمومی طور پر یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ مسلم اندلس میں انسانیت کی اقدار موجودہ یورپی معاشروں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھیں۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو سکون ملا جو کہ اس سے پہلے نفسیاتی افسردگی کا شکار تھے۔ یہ بات اس لیے اور بھی اہم ہے کہ خاص طور پر جبکہ مسلم دنیا اور یورپ کے مابین موجودہ تعلقات ماضی میں اندلس کے مسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین تعلقات سے قطعی برعکس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی مصنفین نے اس عہد میں مسلمان حکمرانوں کی بردباری اور کردار کی خوبیو ں کو نمایاں طور پر بیان کیا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان برصغیرمیں اپنی اقلیتی حیثیت کا موازنہ اندلس میں مسلم اقلیتی حیثیت سے بھی کر رہے تھے۔ ہندوستان میں جمہوریت کا مطلب غیر مسلموں کی حکمرانی تھی جو یہاں آبادی کے لحاظ سے اکثریت میں تھے۔
جواہر لعل نہرو کو اس بات پر اعتراض تھا کہ مسلمان اپنی جڑیں مسلم عہد کے ہسپانیہ میں تلاش کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں یہ قومی شناخت کو ہندوستان سے باہر رکھنے کا عمل تھا۔ (رام گوپال : انڈین مسلمز، اے پولیٹیکل ہسٹری، لاہور بک ٹریڈرز،۱۹۷۶ء، ص۱۲۸)۔ این میری شمل کے خیال میں ہندوستان کے مسلمانوں کی ہسپانیہ میں دلچسپی مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی مصلحانہ تحریکوں کا امتیازی نشان ہے۔اس کا آغاز الطاف حسین حالی سے ہوا اور اسے کمال تک علامہ اقبال نے پہنچایا جن کی شاعری جزیرہ نما آئبریا میں شاندار مسلم عہد سے وابستگی کا آخری پُر اثر اظہار ہے۔ ( شمل، اسلام ان دی انڈین سب کونٹی ننٹ، ۱۹۸۰ء ،ص ۲۰۵)۔
ابتدا
عزیز احمد کے مطابق ہندوستان میں اندلس سے عشق و عقیدت کا معاملہ مولانا الطاف حسین حالی(۱۸۳۷۔۱۹۱۴ء) سے شروع ہوا۔ اور بہت جلد ادب میں احیائے اسلام کی رومانویت کا غالب رجحان اور مسلم تاریخ نویسی کا اہم رویہ بن گیا (عزیزاحمد،۱۹۶۷ء، اسلامک ماڈرنزم ان انڈیا اینڈ پاکستان، ص۹۸)۔ حقیقت میں اندلس سے عشق و عقیدت کی ابتدا انیسویں صدی کے آغاز میں یورپ سے ہوئی اور وہاں سے یہ مسلم دنیا میں پھیل گئی۔ انیسویں صدی کے وسط میں یہ لہر ہندوستان پہنچی۔ برنارڈ لیوس کی تحقیق کی رو سے اس رویے کی مصدقہ ابتدا یورپ میں لوئی ویادور کی فرانسیسی زبان میں لکھی کتاب ’’ہسپانیہ میں عربوں کی تاریخ اور سماجی رویے‘‘ سے ہوئی جو پیرس سے دو جلدوں میں ۱۹۳۸ء میں شائع ہوئی (لیوئس، دی کلٹ اف سپین اینڈ دی ٹرکش رومانٹکس،۱۹۷۳ء، ص ۱۳۱)۔
ایم ہنری پیریز نے اپنی کتاب بعنوان’’مسلم ٹریولز ان اسپین‘‘ میں بیان کیا ہے کہ مسلمانوں میں الاندلس کی’دریافت‘ کی ابتدا ۱۸۸۶ء سے شروع ہوئی (لیوئس،۱۳۰)۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کا آغاز دو واقعات سے ہوا۔ پہلا واقعہ سلطان عبدالحمید ثانی کے بھیجے وفد سے تعلق رکھتا ہے جسے اسپین میں عرب مخطوطات کی تلاش میں بھیجا گیا۔ دوسرا واقعہ بین الاقوامی اورینٹل کانگرس کے اجلاس سے تعلق جس میں مسلم علما نے شرکت کی اور انھیں پہلی مرتبہ اسپین کے بارے میں مستشرق علما کے کام کا علم ہوا۔
اس رجحان کو مزید بہتر طور پر سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ اس عہد میں اندلس کے موضوع میں یورپ کے اہل علم کی دلچسپی میں اضافے کا ایک مختصرجائزہ پیش کردیا جائے۔
یورپ
مسلم ہسپانیہ میں عمومی دلچسپی کا آغاز یورپ میں انیسویں صدی میں ہوا۔عرب ہسپانیہ سے متعلق موضوعات پرمتعدد کتا بیں عربی سے ترجمہ کرکے ترتیب دی گئیں جو’’ببلیوتھیکا عریبکو ہسپانا‘‘(عربی اسپین کی کتابیات) کے عنوان سے سلسلے وار شائع ہوئیں۔ مثال کے طور پر ان میں ابن بشکوال [م۵۷۸ھ] کی الصلہ فی تاریخ ائمۃ الاندلس(۱۸۸۳)، ابن ابّار[م۶۵۸ ھ] کی التکملہ لکتاب الصلہ (۱۸۸۷ء)، عبد الواحد المراکشی [م۶۴۷ ھ] کی المعجب فی تلخیص اخبار المغرب من لدن فتح الاندلس الی آخر عصر الموحدین (۱۸۸۶ء)، ابن الضبی [م ۵۹۹ ھ] کی بغی الملتمس فی تاریخ رجال اھل الاندلس (۱۸۸۵ء) ابن الفرضی [ م۴۰۳ھ] کی تاریخ علماء الاندلس (۱۸۹۱ء )، ابن الخیرالاشبیلی [م ۵۷۵ ھ] کی فہرسہ (۱۸۹۴ء ) شامل تھیں۔ ان کے ساتھ ساتھ کوڈ یرا ، لافونتے، القنطارا، جولیان رابیرا، آسین پلاسیؤس اور گونزالیس پالینسیئا اور بہت سے نامور ہسپانوی مصنفین نے مسلم ہسپانیہ کی شاندار تاریخ پر لکھا۔ ان مصنفین نے تاریخ ، ادب اور فکر کی بہت سی جہتیں بیان کیں۔ کچھ ہسپانوی مؤرخین نے مسلم ہسپانیہ کی عظمت کے تصورسے اختلاف بھی کیا۔ مغربی یورپ میں انسان دوستی کی تحریک مذاہب کی نکتہ چیں تھی۔ انھوں نے اسلامی عہد کے ہسپانیہ سے متعلق تحریروں کا حوالہ دے کرکہا کہ وہ عہد رواداری اور تہذیب کا دورتھا۔ جن مورخین نے ہسپانیہ کی تاریخ کا اس پہلو سے مطالعہ کیا ان میں رائنہارٹ ڈوزی، گیانگوس، لین پول اور واشنگٹن ایرونگ کو بطور مثال لیا جا سکتا ہے۔
لین پول اس امر پہ دکھ کا اظہار کرتا ہے کہ مسلمانوں کو ہسپانیہ سے بے دخل کردیا گیا۔ ان کا عہد ثقافت اور تہذیب کا زمانہ تھا۔ لکھا کہ ’’یورپ کی کوئی بھی قوم مسلم قوم کی برابری نہیں کرسکتی تھی‘‘۔ واشنگٹن ایرونگ نے دیگر مؤرخین سے بڑھ کر مسلم ہسپانیہ کے رومانوی عہد کی تصویر کشی کی اور اسے عوام میں مقبول بنایا۔
یورپ ہی سے اندلس سے عقیدت اور عشق کا تصور مسلم دنیا میں آیا۔ زیادہ تفصیلات میں جائے بغیر اختصار کے ساتھ یہاں ترکی ، ایران اور عرب دنیا سے اس معاملے کا کچھ ذکر کیا جائے گا۔
ترکی
برنارڈ لیوس کا کہنا ہے کہ ہسپانیہ سے عقیدت کا معاملہ یورپ سے پہلے پہل ترکی میں آیا۔ (عشق ہسپانیہ اور ترکی رومانویت۔ اسلامی تاریخ میں افکار، افراد اور واقعات ، مشرق وسطیٰ میں۔ نئی دلی آرئین بکس انٹرنیشنل، صفحہ ۱۲۹۔۱۳۳)۔ یہ عقیدت جو بہت ہی گہری جذباتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ابھری تھی، مسلم دانشوران میں تیزی سے سرایت کر گئی۔ ہزیمت ، کمزوری اور پسماندگی کے عہد میں مسلم دانشوروں کے لیے عظیم ، امیر ، طاقتور اور تہذیب یافتہ مسلم ریاست کی یورپ میں موجودگی کا تصور جس کی حیثیت ان کی نگاہ میں یورپی تہذیب کے رہبر و رہنما کی تھی، بیحد خوشگوار تھا۔ زوال کے عہد میں جب وہ شکست اور انخلاء کی کہانی پہ غور کرتے تو انھیں الحمرا کی شان و شوکت پر غروب آفتاب کے منظر کی یاد سے ایک افسردہ تشفی مل سکتی تھی۔ بہت جلد مسلم اندلس کے عروج اور زوال کی کہانی شاعروں کا پسندیدہ موضوع اور ناول نگاروں کی داستانوں کا محبوب پس منظر بن گیا۔ مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر ہندوستان کے مسلمانوں میں زور پکڑتے ہوئے تاریخ کے رومانویت پسند اور معذرت خواہانہ تعبیر کے زاویہ فکر کے لیے قرطبہ کی عظمت نے زریں عہد کا کردار ادا کیا۔( لیوئس ۱۲۹)
پیریز کے حوالے سے لیوئس لکھتا ہے کہ سلطان عبدالحمید ثانی نے الشنقیطی کو جو ایک عرب النسل محقق تھا، ۸۷۔۱۸۸۶ء میں ہسپانیہ بھیجا تاکہ مسلم عہد کے اندلس کی گم گشتہ تاریخ کی باقی ماندہ نشانیاں تلاش کرے۔ (لیوئس۱۳۰) تاہم یہ امر بھی اہم ہے کہ ایک نوجوان عثمانی ترک رہنما ، ضیاء پاشا (۱۸۲۵۔۱۸۸۰ء) نے پہلے ہی ویادور کی کتاب کا اندلس کی تاریخ کے عنوان سے ترکی زبان میں ترجمہ کر دیا تھا اور ۶۴۔۱۸۶۳ء میں استنبول سے شائع ہو چکی تھی۔ الشنقیطی کی مہم سے پہلے یہ کتاب دوبارہ ۸۷۔۱۸۸۶ء میں شائع ہوئی۔(لیوئس۱۳۲)
مسلم ہسپانیہ میں ترکوں کی دلچسپی متعددترک شعراء اور ڈرامہ نویسوں کی تخلیقات میں بھی نظر آرہی تھی۔ عظیم شاعر اور ڈرامہ نویس عبدالحق حامد (۱۸۵۲۔۱۹۳۳ء) نے مشہور ڈرامے طارق (۱۸۷۶ء) ، نظیف (۱۸۷۶ء) ، عبداللہ الصغیر ، تیزر ، ابن موسیٰ اور ذات الجمال(۱۸۸۱ء) تحریر کیے۔ ڈراما ’’طارق‘‘ اسلام کی عظمت ، شان و شوکت اور شرافت کا پرعزم دفاع تھا۔ ’’طارق‘‘ ڈرامے میں محبت ، نفرت ، حسد ، جنگ ،موت اور عظمت کے بیان میں حامد نے بہت کامیابی سے اسلام کی گہری اخلاقی اقدار پر، اپنے عقیدے پر زور دیتا ہے ، حب ا لوطنی اور ترقی کے بارے میں اپنے افکار کا اظہار کرتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے سیاسی اور سماجی مسائل پر تبصرے کرتا ہے۔ اس کتاب پر ۱۸۷۹ء میں پابندی لگائی گئی تھی مگر یہ نوجوان ترک انقلاب [ یون ترکلر] کے بعد خفیہ طور پر شائع ہوئی۔
تیزر اور ملک عبدالرحمن ثالث کے بارے میں ناول اور ڈراما بنو امیہ کے عہد میں قرطبہ کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ رچرڈ نامی ایک شخص ایک ہسپانوی دوشیزہ کا جس کا نام تیزر ہے، عاشق ہے۔یہ عرب دشمن گروہ کا سربراہ ہے۔ اس کہانی میں تیزر، ملک عبدالرحمن سے محبت کرنے لگتی ہے اور رچرڈ کے خلاف ہوجاتی ہے۔ اس المیہ کہانی کا انجام تیزر کی موت پر ہوتا ہے۔تیزر کا ترجمہ عربی، فارسی، سربین اور مسلم بوسنیک زبانوں میں بھی کیا گیا ہے۔ ڈراما نویس ۱۸۸۳۔۱۸۸۵ء کے دوران بمبئی میں بطور ترک قونصل جنرل قیام میں ہندوستان کے مسلمانوں سے رابطے رہے اور یوں جنوب ایشیا میں مسلمان اس کی تخلیقات اور افکار سے واقف ہوئے۔ (لیوئس ۱۳۳)
ایک اور ترک لکھاری معلم ناجی (۱۸۵۰۔۱۸۹۳ء) نے ایک تاریخی نظم بعنوان’’حمایت‘‘ لکھی جس میں غرناطہ کے عظیم محافظوں کا تذکرہ تھا جنہوں نے۱۴۹۲ء کے آخری معرکے میں شہر کا دفاع کیا تھا۔(لیوس۱۳۳)
عرب دنیا
عرب ممالک جہاں عرب قومیت کی تحریکیں ابھر رہی تھی وہاں اندلس عرب کامیابی کی مثال کے طور پر پیش کیا گیا۔ یورپی مؤرخین کے قلم سے عرب ہسپانیہ کی عظمت کا تذکرہ ان کے ہاں عرب تہذیب کی برتری کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ فلپ خوری حتی کی ’’تاریخ عرب‘‘ میں قرونِ وسطیٰ کے عربوں کی تہذیب کی شان و شوکت کی کہانیاں درج تھیں جس میں اندلس کا تذکرہ بھی تھا۔ جرجی زیدان نے بھی فتح اندلس کے بارے میں ناول لکھا تو عرب ہسپانیہ کا تذکرہ رومانوی انداز سے کیا۔ عرب عہد کے بہت سے مخطوطے تدوین و تحقیق کے بعد شائع کییگئے۔ نامور عرب مؤرخ محمد کرد علی نے اندلس کے کئی سفر کیے اور ان کا احوال اپنی کتاب غابر الاندلس و حاضرہا (مطبوعہ قاہرہ۱۹۲۳ء ) میں لکھا۔ یہ کتاب مصنف کے اندلس سے عشق و عقیدت کی مثال ہے۔
عبداللہ عنان نے زیادہ تر اندلس میں عربوں کے عہد کے آخری برسوں کے متعلق لکھا ہے۔ ۱۹۹۲ء میں اسپین میں کولمبس کا سال منایا گیا تو اس موقع پر اسپین کے بارے میں عربی زبان میں بھی بہت سی کتابیں شائع ہوئیں۔ قاہرہ میں اندلس کے عربی فکر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے سلسلہ وار طباعت کا اہتمام کیا گیا جس کا عنوان المکتبۃ الاندلسیہ تھا۔ اس سلسلہ وار اشاعت کا مقصد ان مطبوعات میں سے ایک کے مقدمے میں یوں بیان کیا گیا۔ اس طرح ’’اندلس میں اپنے آباؤ اجداد کی میراث کی نشرواشاعت ہمار ے فرائض میں شامل ہے۔ اندلس وہ سر زمین ہے جہاں عرب تہذیب پھلی پھولی اور اس نے چہار دانگ عالم کو منور کیا‘‘۔ (مقدمہ الخشنی، قضا ۃ قرطبہ، قاہرہ :دارالمصریہ ۱۹۶۷ء، ص ج)
یہ مقصد جن الفاظ میں بیان ہوا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ عرب قومیت اندلس اور ہسپانیہ کی تاریخ کو کیسے عرب تہذیب کا حصہ سمجھتی تھی۔ اس استدلا ل کی اگلی کڑی محمد عبداللہ عنان کے اس جملے میں بھی ملتی ہے کہ اندلس کے مسلم عہد نے یورپی نشاۃ ثانیہ کی راہ ہموار کی ہے۔ (دولۃ الاسلام فی الاندلس، قاہرہ :شرکہ مساہمہ ، ،۱۹۵۵ء، ص ۶)
عبدالعزیز سالم اپنی کتاب تاریخ المسلمین و آثارہم فی الاندلس[بیروت:دارلمعارف ۱۹۶۲ء ] میں بیان کرتے ہیں کہ اندلس کی مثال ایک پُل کی سی ہے جس کے ایک جانب یورپ تھا اور ایک جانب ایشیاء اور افریقا۔ اس نے یورپ میں تاریکی کا عہد ختم کرنے میں مدد کی۔
جنوبی ایشیا
عہد وسطیٰ کے اندلس اور ہندوستان میں رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ اگرچہ مسلمانوں کے زیر نگیں ہند اور اندلس میں بہت سی قدریں مشترک ہیں۔ دونوں ہی خطے ایک ہی سال یعنی۷۱۱ء میں فتح ہوئے۔ یہ دونوں آٹھویں صدی میں اموی سلطنت کے د ور افتادہ کونوں میں واقع تھے، ایک مشرق میں تھا تو دوسرا مغرب میں۔ دونوں ہی اہم علاقوں کے مضافات میں تھے۔ دونوں ہی علاقے ایسے تھے جہاں اقلیت کا اکثریت پہ راج تھا، دونوں ہی بغداد میں عباسی خلافت کے لیے غیر اہم رہے۔ سندھ کی تو اہمیت ہی نہیں تھی اور اندلس کی سلطنت عباسی خلفا کی فرماں روائی سے باہر تھی (احمد،۱۹۶۲ء)۔
ماضی میں بر صغیر کا اسپین سے رابطہ بہت کم رہا۔ بعض لوگوں کا ذکر ملتا ہے لیکن یا تو برصغیر اور اندلس کے لوگوں کے مابین رابطہ بر صغیر سے باہر ہوا یا ان کا تعلق اندلس سے نہیں تھا۔ شمالی افریقا کے علاقے جو آج مراکو، تونس اور الجزائر کہلاتے ہیں سب مغرب کہلاتے تھے۔ چنانچہ بعض ناموں کے ساتھ مغربی کی نسبت سے ان کا اندلس یا اسپین سے ہونا ضروری نہیں۔ا بن بطوطہ کا تعلق مراکو کے شہر طنجہ سے تھا۔ ہم یہاں اندلس سے جس وارفتگی کے تعلق کا ذکر کر رہے ہیں،اس کا زمانہ انیسویں صدی سے شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں ادب، تاریخ اور سفر ناموں میں جس کثرت سے اندلس اور اسلامی اسپین کا ذکر ہے اس کا احاطہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔ بلکہ ایسی تحریروں پر بھی تفصیلی گفتگو نہیں ہو سکتی جو عشق اندلس کی گواہی دیتی ہیں۔ ہم ان تحریروں کا محض ایک فہرست نما جائزہ پیش کر رہے ہیں تاکہ اس وارفتگی کا اس حد تک اندازہ ہو سکے کہ بر صغیر میں یہ عشق بنیادی طور پر مسلم قومی شناخت کی تلاش کے دوران پیدا ہوا۔ اور ان عشاق کی اکثریت اسلامی جدیدیت کی تحریک کا حصہ تھی۔
شاعری
الطاف حسین حالی نے ۱۸۷۹ء میں ایک طویل نظم مسدس کی شکل میں لکھی جس کا عنوان تو ’’مدوجزر اسلام‘‘ تھا لیکن یہ ’مسدس حالی‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ (مدوجزر اسلام،۱۹۵۵ء) یہ پُر اثر نظم لکھنے کا مقصد قومی بیداری ، نصیحت اور خود پر تنقیدی نگاہ ڈالنا تھا۔ حالی سرسید احمد خان کے ساتھی اور اسلامی جدیدیت کی تحریک کے ایک اہم رکن تھے۔ یہ نظم فلسفہ تاریخ کو بھی بیان کرتی ہے۔ اس کے مطابق جو اقوام آج تہذیب یافتہ ہیں کبھی ان کا ماضی بربریت کی مثال تھا۔ اور اس کے برعکس صورت بھی تاریخ میں نظر آتی ہے۔ مسلمان کبھی تہذیب کے عروج پہ تھے۔ انھوں نے دیگر اقوام کے علوم سے استفادہ کیا اور اسے اقوام عالم تک پھیلا دیا۔
ہوا اندلس ان سے گلزار یکسر
جہاں ان کے آثار باقی ہیں اکثر
جو چاہے کوئی دیکھ لے آج جا کر
یہ ہے بیت حمرا کی گویا زباں پر
کہ تھے آل عدنان سے میرے بانی
عرب کی ہوں میں اس زمیں پر نشانی
ہویدا ہے غرناطہ سے شوکت ان کی
عیاں ہے ویلنسیہ سے قدرت ان کی
بطلیوس کو یاد ہے عظمت ان کی
ٹپکتی ہے قادیس سے حسرت ان کی
نصیب ان کا اشبیلیہ میں ہے سوتا
شب و روز ہے قرطبہ ان کو روتا
یہ نظم بہت مشہور ہوئی۔ اگرچہ یہ مسلمانوں کی تنزلی کے المیے کا بیانیہ تھا تاہم اس نے مسلم ہسپانیہ اور ہند کے مسلمانوں کے درمیان ایک ذہنی ربط جوڑا ہے اور یہ نظم اس قدر مشہور ہوئی کہ لوگوں نے اندلس کے شہروں کے نام پر اپنے گھروں کے نام رکھنے شروع کردیے۔ (احمد،۱۹۶۲، ص۴۶۷) کینٹ ویل اسمتھ نے حالی کو سرسید سے جوڑنے کی روایت سے اتفاق نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ حالی نے مسلم ہسپانیہ میں مسلمانوں کی شان و شوکت بیان کی اوراس کا مسلمانوں کے حال سے تقابل کیا ہے۔ بخلاف سرسید اور دیگر کے جنہوں نے اس کا تقابل حالیہ یورپ سے کیا ہے۔ ( ڈبلیو سی اسمتھ ، ماڈرن اسلام ان انڈیا، اشرف ۱۹۶۳ء، ص۳۴) عزیز احمد کے مطابق یہ نظم موجودہ مسلمانوں کی کاہلی کا نوحہ ہے۔ اگرچہ اسلام کی سیاسی وسعت ایک تاریخی حقیقت ہے۔ یہ وسیع رقبوں تک پھیلا ہے۔ ہسپانیہ کے کھنڈرات اس کے گواہ ہیں کہ یہاں سائنس کی ترقی ہوئی اور پھر وہ یورپ کے طول و عرض میں پھیلی۔ (احمد،۱۹۶۷ء، ص۹۸) اگرچہ مسدس ایک گہری یاسیت کی تصویر ہے (احمد۱۹۶۷ء، ص۹۹) تاہم مسلم اصلاحی تحریک نے اندلس کی تصویر کو معرفت ذات کی نظر ثانی کے لیے استعمال کیا ہے۔
علامہ محمداقبال
دیگر شعراء کی نسبت علامہ اقبال نمایاں طور پر اس عشق و عقیدت میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ان کی یہ دلچسپی انھیں اندلس کے سفر پر لے گئی اور انھوں نے ۱۹۳۲ء میں میڈرڈ یونیورسٹی میں بعنوان ’’ اندلس اور اسلام کی علمی دنیا‘‘ ایک لیکچر دیا۔ یہ لیکچر اندلس ، اس کی ثقافت ، فلسفے اور روحانیت کا مختصر جائزہ تھا۔ اقبال نے تذکرہ کیا کہ ’’تعلیم یافتہ لوگوں نے اب اپنے عرب خون پر فخر کرنا شروع کردیا ہے اور ہر اچھی چیز مورش کہلاتی ہے۔اسلام کے خلاف نفرت کم ہورہی ہے۔اسلامی تہذیب اور فلسفے کے مطالعے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ ہسپانیہ میں عرب تہذیب مکمل طور پر ناپید ہوچکی ہے۔ ٹولیڈو شہر اس کی جیتی جاگتی مثال ہے‘‘۔یہاں ان کی ملاقات مشہور یورپی مفکر ’’آسین پلاسئیس‘‘سے ہوئی جو کہ خود بھی مسلم ہسپانیہ کی تاریخ کے مداح تھے۔ (اقبال کی تحریریں اور خطوط ، ص۷۷،۷۸)
اقبال نے یہاں رہ کر ایک فطری تعلق کو محسوس کیا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہاں ٹولیڈو میں اپنے گھر جیسا احساس ہوا ہے۔ میں نے یہاں پر بھی پلاؤ سے ویسا ہی لطف اٹھایا ہے جیسے یہ لاہور ہی ہو۔ پروفیسر شمل نے بیان کیا ہے کہ اقبال نے مسجد قر طبہ کو سراہا اور اس کا موازنہ دلی کے قطب مینار سے کیا۔(بال جبریل ، اقبال اکیڈمی،۱۹۸۹ء، ص۱۴۵) اقبال کی شاعری پر اندلس سے عقیدت اور عشق کا خاص رنگ ہے۔ اقبال نے اندلس پر بہت سی نظمیں کہیں۔ بال جبریل میں دعا ، مسجد قرطبہ، قید خانے میں معتمد کی فریاد، عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا درخت ، ہسپانیہ اور طارق کی دعا یہ کلام اندلس کے موضوع پر ہے۔ اس سارے کلام میں نمایاں ترین مقام مسجد قرطبہ کا ہے۔ اس کا عمومی موضوع مرورِ زمانہ اور زمانے کے استمرار کے مقابل تصور عشق ہے۔ انھوں نے ۱۹۳۲ء میں مسجد قرطبہ کا دورہ کیا۔ عزیز احمد کے مطابق اندلس سے عشق کا جو مرحلہ نصف صدی پہلے حالی نے شروع کیا تھا مسجد قرطبہ میں عروج پہ پہنچ گیا تھا۔ (عزیز احمد۱۹۶۲، ص۴۶۷) یہ نظم علامتی تشبیہوں سے شروع ہوتی ہے جس میں وقت کو خالق، ممتحن، مٹادینے والا اور تباہ کردینے والا کہا گیا ہے۔ انسانیت کی بقاء اسی میں ہے کہ اگر وہ عقیدے پہ باقی رہے۔ مسجد ایک ایسی ہی تخلیق ہے۔ یہ نظم مسلمانوں کی تخلیقی دانش پہ زور دیتی ہے۔ (احمد۱۹۶۲ء، ص۴۶۸) اقبال کہتے ہیں:
اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
تیری بنا پائیدار ، تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل
کعبۂ اربابِ فن سطوتِ دینِ مبیں
تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں
جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب
ظلمتِ یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں
مسجد قرطبہ یورپ میں دانش اور سیاست کی ترقی کا ایک جائزہ بھی ہے۔ اقبال نے اس میں انقلاب فرانس اور تحریک اصلاح کلیسا کا بھی تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ اقبال کا جزیرہ نما آئبریا سے عشق قرطبہ سے شروع ہو کر اسی پہ ختم ہوتا ہے۔ غرناطہ کو اپنا موضوع نہیں بناتے۔ اپنی نظم ہسپانیہ میں کہتے ہیں۔
ہسپانیہ تو خونِ مسلماں کا امین ہے
مانندِ حرم پاک ہے تو میری نظر میں
غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے لیکن
تسکینِ مسافر ، نہ سفر میں نہ حضر میں
ایک نظم جو کہ سسلی پہ ہے وہ بھی عبرت اور ناسٹلجیا پہ ختم ہوتی ہے۔ اقبال اپنے دکھوں کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ افسردہ اقبال کے نصیب میں تھا کہ وہ تیرے دکھوں پہ ماتم کناں رہے۔ اسی طرح ان کی نظم بلاد اسلامیہ کا آغاز بھی قرطبہ کی یاد سے ہوتا ہے۔
ہے زمینِ قرطبہ بھی دیدۂ مسلم کا نور
ظلمتِ مغرب میں جو روشن تھی مثل شمعِ طور
بجھ کے بزم ملتِ بیضا پریشاں کر گئی
اور دیا تہذیبِ حاضر کا فروزاں کر گئی
ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
مقصد ہے ملوکیتِ افرنگ کا کچھ اور
قصہ نہیں تاریخ کا یا شہد و رطب کا
ہسپانیہ تو خون مسلماں کا امیں ہے
مانندِ حرم پاک ہے تو میری نظر میں
چند سال پہلے جب بوسنیا کے مسلمان اسی کرب سے گزر رہے تھے تو اکبر احمد نے اقبال کی مسجد قرطبہ کو یاد کرتے ہوئے لکھا:
’’ اندلس میں مسلمانوں کے پانچ سو سال پہلے کے سقوط کے بعد ہم ایک اور اندلس کو وقوع پذیرہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ جو کچھ سرب بوسنیائی مسلمانوں کے ساتھ کررہے ہیں، ان کے تقابل میں صلیبیوں کو رحم دل ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس مشکل وقت میں مسلمانوں کو اپنے عہد کے عظیم مفکر کو پڑھنا چاہیے۔ اقبال موجودہ عہد کے مسلم مفکرین میں وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے اس دنیا میں ماضی اور حال ، مشرق اور مغرب کے مابین ایک داخلی ربط کی طرف اشارہ کیا تھا۔ ان کی قرطبہ میں لکھی نظم بہت جذباتی ہے کیونکہ یہ ہمیں مسلم شان و شوکت اور اس عظمت کا بتاتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ اسے زوال کیونکر آیا۔ (اکبر احمد۱۹۹۳، بوسنیا، ص۳۴)
ناول
اردو شاعری کے علاوہ اردو ناول نے بھی عشق اندلس کو ابھارنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ قابل ذکر تعداد میں لکھاریوں نے مسلم ہسپانیہ کو اپنی کہانیوں کا منظرنامہ بنایا ہے۔ عبدالحلیم شرر نے ۱۸۹۰ء میں ’’شہیدِ وفا‘‘ اور ’’فرینانڈس اور ازابیلا‘‘ تاریخی ناول لکھے۔ یہ غرناطہ میں مسلم سماج کے زوال کی کہانی تھی۔ ۱۸۹۶ء میں’’فلورا فلورینڈا ‘‘ لکھا جس میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان تنازع کو بیان کیا گیا ہے۔ اسی سال ’’ فاتح اور مفتوح‘‘ شائع ہوا۔ یہ چارلس مارلے اور عبدالرحمن کے درمیان جنگ کی کہانی ہے۔ شرر نے’’ الفانسو‘‘، ’’فاتح اندلس‘‘،’’مقدس نازنین‘‘ نامی ناو ل بھی لکھے۔ ان میں کردار کم تھے بلکہ یہ تاریخی انداز میں بیان کی گئی رومانوی کہانیاں تھیں۔ ان کہانیوں میں تاریخ کے جبر اور المیہ زوال پر زور دیا گیا ہے۔
ان تمام ناول نگاروں میں جن کا ذکر یہاں عشق اندلس کے باب میں ہوا ہے ،نسیم حجازی (م۱۹۹۶ء) سب سے مؤثر اور حالیہ لکھاری ہوئے ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی کہانی ’’یوسف بن تاشفین‘‘ اندلس میں مسلم عہد کے زوال کی ایک اور کہانی ہے۔
سفرنامے
اندلس کے موضوع پر بہت سے سفر نامے موجود ہیں۔ اردو زبان کے حالیہ عہد میں قریب بارہ سفرنامے شائع ہوئے ہیں۔ ابتدائی اردو سفرنامے مثال کے طور پر نواب محمد عمر علی خان کا ’’قند مغربی‘‘ جو مطبع نظامی کانپور سے ۱۸۹۸ء میں شائع ہوا، وہ کسی عشق و عقیدت کے پس منظر میں نہیں لکھا گیا۔ وہ محض ان کے سفر کا احوال تھا۔ تاہم اس تحریر میں واعظانہ رنگ نمایاں تھا۔ اس کے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب اندلس کی تاریخ کو جاننے کی اہمیت پہ زور دیتی ہے۔ اختتامیے میں ایک نظم درج ہے جس میں مسلمانوں کے زوال کا تذکرہ موجود ہے۔ اندلس سے عقیدت اور عشق کے پس منظر میں لکھے گئے سفرناموں میں عمومی طور پر دو نقطہ نظر موجود رہے ہیں۔ پہلی صورت کو ہم ’’ عبرت‘‘ کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کے نوحے پر مبنی ہے کہ یہاں کبھی مسلمان آباد تھے اور اب یہاں اسلام کا کوئی نام لیوا نہیں ہے۔ ’’ یہ سرزمین جہاں آٹھ سو سال تک صدائے تکبیر گونجتی رہی اب یہاں اذان و نماز سے کوئی شخص آگاہ تک نہیں ہے۔‘‘ ’’میں نے سرزمینِ اندلس پر پہلی نماز اس کیفیت میں ادا کی کہ مجھے عبرت و حسرت ہورہی تھی۔‘‘ اس طرح کے جملوں میں نصیحتیں بھری ہوئی ہیں۔ جس سے مسلمانوں کے دل میں اس سرزمین سے گہرے تعلق کا عندیہ بھی ملتا ہے۔ سفر نامے کی دوسری قسم وہ ہے جس میں مسلمانوں کا اس سرزمین سے ناسٹلجیا ظاہر ہوتا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ کا ’’اندلس میں اجنبی‘‘ اس جملے سے آغاز ہوتا ہے۔’’ایک پاکستانی مور کی اپنے ہی گھر غرناطہ میں ۴۷۷ سال کی جلاوطنی کے بعد واپسی۔‘‘ (لاہور، التحریر،۱۹۷۶ء) محمد حمزہ فاروقی کی کتاب ’’آج بھی اس دیس میں‘‘ کے مضامین کے عنوانات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف پر اقبال کی گہری چھاپ ہے۔ ان کے مضامین کے عنوانات اقبال کے مصرعوں پر ہیں۔ مصنف ماضی کے اندلس کی جڑیں موجودہ ہسپانیہ میں تلاش کرتا ہے۔
تاریخ
ہندوستانی مسلمانوں کی آئبرین جزیرہ نما میں بطور گم گشتہ وراثت دلچسپی لینے کا امر آہستگی سے پروان چڑھا ہے۔ بہت سی کتابیں، تراجم اور تالیفات اس موضوع پر شائع ہوئی ہیں۔مسلم تہذیب کی برتری کو نمایاں کرنے کے لیے اس کے زریں عہد کا اس زمانے کے یورپ سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ حالیہ یورپی ترقی مسلمانوں سے مدد لینے کا ثمر ہے۔ پروفیسر شمل نے بیان کیا ہے کہ کرامت علی جونپوری جن کا انتقال ۱۸۷۳ء میں ہوا تھا ، وہ سرسید کی تحریک میں شامل تھے انھوں نے ایک کتاب بعنوان ’’مآخذالعلوم‘‘ لکھی جس میں انھوں نے بیان کیا کہ یونان کے سائنسی علوم کو عرب مسلمانوں نے عام کیا اور انھیں آگے یورپ تک منتقل کیا۔ یہی نظریہ بعد ازاں سرسید اور اقبال کے افکار میں بھی ملتا ہے۔ (شمل۱۹۸۰، ص۱۸۱) ابتدائی دور میں ہسپانیہ کی تاریخ پر موجود اردو کتابیں اس موضوع پر لکھی گئی انگریزی کتابوں کا ترجمہ تھیں۔ مثال کے طور پر حامد علی صدیقی کی کتاب ’’کارنامہِ مور یا مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت یعنی تاریخ اندلس‘‘ اس موضوع پر تحریر لین پول کے کام کا اردو ترجمہ تھا جو کہ ۱۸۹۸ء میں شائع ہوا تھا۔مترجمین نے دلی اور اندلس کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جو افراد دلی کے غم میں روتے ہیں انھیں چاہیے کہ اپنی ایک آنکھ کے آنسو اندلس کے غم میں بہایا کریں۔ دنیا میں سوائے تغیر کے اور کچھ باقی نہیں رہتا۔ (تعارف، ص۲۳۸) اگرچہ اندلس اپنی سائنسی اور مادی ترقی میں دلی سے کہیں بہتر اور آگے تھا لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ حقیقت بہت کم لوگوں کے علم میں ہے۔ ( اردو تراجم کی ضرورت، ص۲۴۰) آج ہم نَو سو سال بعد ہندوستانی مسلمان جو کہ اندلسیوں کے ہم نسب ہیں انہی کے سماج کی طرح ایک اقلیتی رحم دل اور منصف حکومت کے زیر اثر ہیں جیسا کہ انھوں نے وہاں قائم کی تھی ۔(صدیقی ،ص۲۴۴)
مؤرخین کی ایک اور قسم بھی ہے جنہوں نے تاریخ ہسپانیہ پر محض تاریخی اسلوب میں لکھا۔ بہت سی کتابوں کا متن تراجم سے اخذ شدہ ہے۔ مولوی محمد زکریا مائل نے ’’اخبار مجموعہ‘‘ کا ترجمہ کیا ہے جسے دلی سے انجمن ترقی اردو نے۱۹۴۲ء میں شائع کیا۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ اندلس مسلم تاریخ کا تابناک باب ہے اور مسلم قوم کا اندلس پر قابض ہونا وہاں کے باشندوں کے لیے باعثِ رحمت تھا۔ عنایت اللہ ولد مولانا ذاکر اللہ نے رائن ہارٹ ڈوزی کے کام کو ’’عبرت نامہ اندلس‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا۔ اس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۳۵ء میں آیا تھا۔ اس کی تدوین شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی نے۱۹۳۳ء میں کی تھی۔ مدیر کے مطابق اس اشاعت کا مقصد ہندوستانی مسلمانوں کی اس موضوع میں دلچسپی ہے۔
سکاٹ ، لین پول ، مراکشی (المعجب ) مقری ( نفح الطیب) کا ترجمہ بھی اردو زبانوں میں کیا گیا۔ ڈوزی کے کام میں صلیبی جنگوں کے باب میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب نظر آتا ہے۔ ڈوزی کی تاریخ کا ۱۹۲۹ء میں اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ عنایت اللہ لکھتے ہیں کہ انھیں تاریخ اندلس کے مضمون میں دلچسپی تھی اور اردو میں مستشرقین کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں پر اٹھائے گئے اعتراضات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا، لہٰذا انھوں نے اس کام میں محنت کی۔
محمد صدیق نے یورپی مؤرخ کونڈے کی تاریخ ہسپانیہ کا ترجمہ کیا ہے۔ مترجم کے مطابق کونڈے ایک اسلام دوست ہسپانوی مؤرخ تھا۔ عبدالحلیم شرر نے اس پر نظر ثانی کی ہے۔ پہلے پہل یہ ترجمہ ماہنامہ ’’مورخ‘‘ میں۱۹۱۶ء سے ۱۹۱۷ء تک سلسلہ وارشائع ہوا۔ اس ترجمے کی ضرورت اور اس کے شائع کرنے کی وجوہات یہ تھیں کہ ہندوستان میں تاریخ اندلس پہ کوئی جامع تحقیق موجود نہیں تھی۔ (صدیق،۱۹۱۷ء)
منشی محمد خلیل الرحمن نے ’’مقری کی تاریخ‘‘ کا ترجمہ ۱۹۲۱ء میں کیا۔ اخبار الاندلس ، تاریخ مور نامی ترجمہ یورپی مؤرخ ایس پی سکاٹ کی کتاب کا تھا۔ یہ۱۹۲۱ء میں شائع ہوا۔ قاضی ولی محمد بھوپالی کا سفر نامہ اندلس لکھنو سے نامی پریس نے ۱۹۲۷ء میں شائع کیا۔ یہ امت مسلمہ کے ان بزرگوں کے لیے تحریر کیا گیا تھا جو بسا اوقات اندلس کے مسلمانوں کا غم محسوس کرتے ہیں۔ اس کتاب کا متن مسلمانوں کے زوال کی جذباتی وضاحت کرتا ہے اور اس میں بیان کیا گیا ہے کہ ہسپانیہ کی سماجی زندگی پر اسلام کے کیا اثرات مرتب ہوئے تھے۔ سید احمد اللہ ندوی نے ابن خطیب کی کتاب الاحاطہ کا ترجمہ کیا۔ جس کو کراچی سے نفیس اکیڈمی نے۱۹۶۳ء میں شائع کیا۔ رشید اختر ندوی کی کتاب ’’ مسلمان اندلس میں‘‘ ادراہ معارف ملی نے ۱۹۷۰ء میں شائع کی۔ جس میں عبرت کی آنکھ سے اس موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کا آغاز ’’آہ قرطبہ‘‘ کے جملے سے ہوتا ہے۔ اس کے اختتامی ابواب میں اندلس میں سائنسی ترقی علوم کی ترویج اور فنون کی بلندی کا تذکرہ ہے۔
ریاست علی ندوی نے تاریخ اندلس ( اعظم گڑھ، معارف۱۹۵۰، ص۱) میں لکھا کہ مسلمانوں نے یورپ کے دو ممالک پر حکومت کی اندلس اور سسلی۔ اردو زبان میں تحریر کی گئی اندلس کی تاریخ کی کتابیں زیادہ تر ترجمہ ہیں۔ سید سلیمان ندوی کی لکھی ہوئی کتاب’’اسلام کی تاریخ شرق و غرب میں‘‘ میں بیان کیا گیا ہے کہ اسلام کی اندلس میں تاریخ کو مسیحیوں نے لکھا ہے۔ اگرچہ انھوں نے مسلمانوں کی مادی ترقی کو سراہا ہے تاہم کہیں کہیں غلط فہمیوں اور غلط بیانیوں سے بھی کام لیا گیا ہے۔ لہٰذا ایک معتبر تاریخ لکھنے کی ضرورت ہے۔
مؤرخین میں سید امیر علی کا کام منفرد ہے۔ ان کا کام اگرچہ تاریخ ہسپانیہ پہ ہی مرکوز نہیں ہے۔ تاہم ان کی تحریروں کو اس فہرست میں شامل کیا جاتا ہے جس میں عشق اندلس کو فروغ دیا گیا ہے۔ امیر علی(۱۸۴۹۔۱۹۲۸ء) نے مغربی قارئین کے لیے تاریخ اسلام لکھی جو ۱۸۹۹ء میں شائع ہوئی۔ (عزیز احمد،۱۹۶۷ء، ص۸۷) انھوں نے اپنی تحریروں میں مسلمانوں کو اسی نام سے پکارا جس سے انھیں یورپ میں مخاطب کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اندلس کو تہذیب کے نمونے کے طور پر پیش کیا۔ (شمل ، اسلام برصغیر میں ، برل ۱۹۸۰ء، ص۲۰۵) امیر علی اور چراغ علی نے انسان دوستی پر زور دیتے ہوئے بیان کیا کہ مسلم تاریخ انسان دوستی کا ہراول دستہ تھی اور یورپیوں نے ان کی پیروی کی ہے۔مسلمانوں کی روایتی مذہبی تحریکوں کا طریقہ کار مختلف ہے جیساکہ دیوبند تحریک میں یورپ یا ہسپانیہ کی تاریخ اور اس بحث میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی۔ ان کی رائے میں اندلس عرب مسلمانوں کی تاریخ کا حصہ ہے جس پر عبرت یا معذرت خواہی کا کوئی عذر نہیں ہونا چاہیے۔ علامہ شبلی نعمانی کی رائے دیوبند کے قریب ہے۔ معارف ندوہ نے بھی ہسپانیہ کی تاریخ سے دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے بہت سے اہم مقالات شائع کیے لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ ندوہ اندلس کے عشق میں اسی درجے مبتلا تھا جیسے وہ بہت سے جنوب ایشیائی ادیب، شاعر اور مؤرخ جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا۔
برصغیر اور اندلس کی تاریخ کے تقابلی مطالعے اور مماثلتوں کے تذکرے کا ایک اور رخ پاکستان کی آزادی کے بعد سامنے آیا۔ یہ رخ بھارت کے بعض مسلم مفکرین نے پیش کیا۔ان کا کہنا تھا ہندوستان اور اندلس میں ایک اور مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔ دونوں جگہ مسلمان اقتدار کی سرحد یں سکڑ نے کے عمل سے گزریں۔ عزیز احمد ایک مضمون بعنوان ’’ اسلام کی سکڑتی ہوئی سرحدیں‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اسلام کی سرحدیں یورپ میں اسپین ، سسلی اور بلقان اور قپچاق کی ڈھلانوں ، کریمیا اور وسط ایشیا ، زیریں صحرا اور افریقی سرزمین، برصغیر ، ملائشیا ، انڈونیشیا اور مانڈاناؤ ، جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا میں خطرات کے لیے کھلی تھیں۔ ان میں سے کچھ سرحدیں مکمل یا جزوی طور پر ختم ہوگئیں۔ بعض جگہوں پر سیاسی شکست کے بعد اسلام بطور مذہب اس خطے سے مٹ گیا۔ افریقا مرحلہ وار محفوظ رہا۔ جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا ء میں مسلمانوں نے منڈاناؤ میں مشکل کا سامنا کیا۔ وہ خطے جہاں اسلام مکمل طور پر معدوم ہوگیا یا اسے سیاسی شکست کے بعد معدومی کا خطرہ لاحق ہوا، وہاں اس کی وجوہات و نتائج میں بہت یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ان میں سے چند وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ مسلم ریاست ٹوٹ پھوٹ گئی یا اس کا رقبہ کم ہوگیا۔ اس کی وجوہات عام طور پر آپس کی لڑائیاں تھیں۔ حکمرانوں کے لیے مشکل تھا کہ وہ ابھرتے ہوئے دشمن کا مقابلہ کرسکتے۔
2۔ مسلمانوں کے ہاں ہجرت کا نظریہ اشرافیہ کو یہ چھوٹ دیتا ہے کہ وہ غریب طبقے کو دشمن سماج کے رحم و کرم پر چھوڑ کر کہیں اور ہجرت کر جائیں۔ اس کے نتیجے میں کمزور لوگ دشمن اور جارح کے عقیدے کو قبول کرنے پر مجبور ہوئے۔ ‘‘
اندلس سے مسلمانوں کا انخلا ۱۴۹۲ء میں ہوا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے ۱۹۴۷ء میں پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ یوں مشرق اور مغرب کے دونوں کونوں پر عالم اسلام کی سرحدیں سکڑ گئیں۔ دونوں جگہ مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑ نا پڑاجہاں وہ سالہا سال سے رہ رہے تھے اور جہاں وہ صدیوں حکمران بھی رہے تھے۔
اختتامیہ
سچ یہ ہے کہ ہندوستان میں اندلسی ثقافت سے واقفیت مغربی تصنیفات کے ذریعے شروع ہوئی۔ برطانوی راج کو شوق تھا کہ اپنی حکمرانی کا تقابل ماضی کی مسلم حکمرانی سے کرے۔ برطانوی حکمرانوں نے اس تقابلی مطالعہ کی حوصلہ افزائی بھی کی۔خاص طور پر کوشش کی کہ طلبا اس قسم کے مطالعات میں دلچسپی لیں۔ سر چارلس ٹریولین نے مضمون نویسی کا ایک مقابلہ کروایا جس کا عنوان ’’عباسیوں کے بغداد اور اموی اندلس کا تقابل: عرب ادب کا یورپ پر اثر‘‘ تھا۔ (گراہم ، سرسید احمد خان ،۱۸۵۵ء، ص۷۸) لارڈ لٹن بھی جزیرہ نما آئبریا میں مسلم عہد کی توصیف کے قائل تھے۔ (گراہم،۱۸۵۵ء، ص۲۷۸)
بعض لوگ پاکستان میں ہجرت کے واقعے کو عام طور پر اندلس سے انخلاء کے مماثل بتاتے ہیں۔ اکثر اختلاف بھی کرتے ہیں تاہم سرحدیں سکڑنے کا مفہوم زیر بحث ضرور رہتا ہے۔ ابتدائی دور میں پاکستان میں کئی تحریکیں اس جنت گم گشتہ کی بازیابی کے لیے اٹھیں لیکن بتدریج قومی شناخت کی سیاسی کشمکش میں تاریخ اور جغرافیہ کے تنا ظر کی بجائے نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اولین ترجیح بن گئی۔اندلس کی یاد اَب بھی آتی ہے، لیکن کبھی کبھی،اور وہ بھی فلسطین کے حوالے سے۔
بشکریہ تجزیہ آن لائن!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں
براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”جنوب ایشیائی مسلمانوں کے ہسپانیہ سے عشق کی داستان(ترجمہ: شوذب عسکری)ڈاکٹر خالد مسعود“