نسلی امتیاز ،اور عدم برداشت کا حل۔۔۔ایم۔اے ۔صبور ملک

اس بات کا فیصلہ 1400سال پہلے جناب رسالتماب محمد ﷺ نے اپنے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر کردیا تھا ،جب 9ذوالحجہ 10ہجری کو جبل رحمت پر کھڑے ہو کر ایک لاکھ سے زائد نفوس سے خطاب فرماتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا کہ آج کا دن تمہارے مال ،تمہاری عزتیں،ایک دوسرے پر حرام ،جیساکہ یہ شہر اور یہ مہینہ ،خبردار میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا،عنقریب تمہیں اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے،جہاں تمہارے اعمال کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔

یوں تو یہ عظیم خطبہ پورا کا پورا انسانی حقوق کے چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے ،لیکن اس خطبے کے اہم نکات میں عورتوں کے حقوق اور نسلی امتیاز کے حوالے سے آپﷺ کا فرمان ذی شان بہت اہمیت رکھتا ہے ،جب فرما دیا کہ آج کے بعد کسی کالے کو گورے ،گورے کو کالے ،عجمی کو عربی اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں،مگر تقویٰ  کی  بنیاد پر وہ بھی اللہ کی نظر میں وگرنہ تمام نسل انسانی بحیثیت  انسان برابر ہے،رنگ نسل کا فرق آپ ﷺ نے مٹا دیا، یہ خطبہ بلا شبہ انسانی حقوق کا ایک عظیم اور جامع چارٹر کہلاتا ہے یہ خطبہ قرآنی تعلیمات کا نچوڑ ہے ،اس میں انسانی زندگی کے تمام تمدنی،سیاسی اور سماجی اصولوں کا احاطہ کیا گیا ہے، عرب اور باقی دنیا کے اس وقت کے حالات و واقعات ہوں یا قیامت تک آنے والی نسل انسانی کے حقوق کی بات اور ان کے حقوق کی ضمانت کی بات ہو ،ہر دور میں انسانی حقوق کے قوانین مرتب کرتے ہو ئے اس خطبے کے بنیادی نکات  سے استفادہ حاصل کئے بنا نسل انسانی کے حقو ق کا کسی طور احاطہ کرنا ممکن نہیں،نسل انسانی نے نسلی امتیاز کے حوالے سے جو بات بیسویں صدی میں آکر سیکھی وہ بات ہادی برحق ﷺ ساتویں صدی عیسوی میں ہی فرما چکے ہیں۔

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ نسلی امتیاز نے جو قہر ڈھائے اور آج بھی جو ظلم نسلی انسانی نسلی امتیاز کے نام پر سہہ رہی ہے،اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم انسانی حقوق کے عظیم منشور پر عمل کرنے کے بجائے اس سے روگردانی کے مرتکب ہو رہے ہیں،برداشت ،محبت ،امن،مذہبی رواداری ،بھائی چارے،اور برابری کا جو سبق ہمیں اس عظیم خطبے میں دیا گیا ۔غیر مسلم سے تو گلہ کیا خود ہم مسلمان جو غلام ہیں غلام ہیں رسول کے غلام ہیں، کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے، ہمارا طرز عمل اس خطبے کے برعکس ہے۔

کرائسٹ چرچ میں جو قیامت ٹوٹی سو ٹوٹی ،لیکن ہماری مسلم دنیا اور خود پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کون سی بہتر ہے؟ اندرون سندھ ہندو  نوجوان لڑکیوں کو جبری مسلمان بناکر شادی کرنے،کاروکاری ،ونی اور جائیداد میں حصہ نہ دینے کے لئے قرآن سے شادی،اپنے مخصوص مذہبی عقیدے اور فرقے کے برعکس بات کرنے والے کی جان لے لینا پاکستان میں معمول کی بات بن چکی ہے،اور یہ مافیا جی ہاں میں اسے مافیا ہی کہوں  گا جو نوجوان ہندؤ لڑکیوں کو جبری اغواء زبردستی مسلمان بنانے اور عدالت میں لڑکیوں سے اپنے حق میں بیان دلوانے کے مذموم دھندے میں ملوث ہے،کیونکہ لڑکی کو اس حد تک خوف زدہ کردیا جاتا ہے کہ وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی جان بچانے کے لئے اپنے زبردستی کے شوہر کے حق میں بیان دے دیتی ہے اور معاملہ دب جاتا ہے،لیکن کبھی کسی نے اس مظلوم خاندان کے پاس جاکر ان کی بے بسی اور لاچاری پر بات نہیں کی ،جس کی جوان بیٹی اغواء ہو جاتی ہے،میں یہاں ان نام نہاد اسلام کے ٹھیکے داروں سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ ہر بارصرف جوان ہندؤ لڑکی ہی کیوں مسلمان ہوتی ہے؟کبھی کسی بزرگ مرد یا ادھیڑ عمرہندؤ نے آج تک ان کے ہاتھوں  پر اسلام کیوں قبول نہیں کیا؟

اب آئیں ایک اور سلگتے ہوئے مسئلے کی جانب ،ابھی ہم نیوزی لینڈ کو رو رہے تھے کہ بہاولپور میں ایک معلم کو اپنے ہی کالج کے طالب علم کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھونے پڑے ،قاتل جس کو ہمارے ہاں مخصوص مذہبی سوچ کے حامل لوگوں میں ممتاز قادری کی طرح ہیرو کا درجہ دیا جارہا ہے ،اور خاص طور پر اس واقعے کو لے کر سوشل میڈیا پر دو مختلف آراء دیکھنے کو مل رہی ہیں ،اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ بھی بہت تیزی سے اس ڈھب کی جانب گامزن ہے جو نیوزی لینڈ جیسے واقعات کی وجہ بنتی ہے، انتہا پسند ی ،مذہبی عدم برداشت اور فرقہ واریت کا زہر اب ہماری علمی  درسگاہوں تک آن پہنچا ہے،اگر ہم نے اپنے بچوں  کے افعال و کردار پر گہری نظر نہ رکھی تو کانٹوں کی جو فصل بوئی جارہی ہے ۔اسکے نتائج ہمارے معاشرے کے لئے تباہ کن ثابت ہو ں گے،عورتوں کی آزادی کے  نام پر شتر بے مہار مظاہرے اور ان میں لگائے جانے والے نعروں اور سلوگنز ہو ں ،بہاولپور میں معلم کا بے رحمانہ قتل،الغرض ہمارے معاشرے میں اب ہر دو باتیں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اعتدال پسندانہ رویوں کا فقدان اس بات کی قوی دلیل ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کے ہر شعبے میں میانہ روی کو کھو چکے ہیں،اس کی بنیادی وجہ کسی بھی معاملے میں ہمارے نصاب اور نظام زندگی میں طبقاتی تفریق اور ہمارے اہل قلم کا اس مسئلے سے پہلو تہی کرنا ہے،معلم کے قتل کو جائز یا ناجائز قرار دینا اور عورتوں کے عالمی دن پر ہونے والے مظاہروں کے حق اور مخالفت میں کہیں سے بھی ان عوامل کو پوری طرح زیر بحث نہیں لایا جاسکا جو اس ساری صورت حال کا تقاضا ہے،بڑھتی ہوئی معاشرتی گھٹن اورعورتوں کے ساتھ رواء رکھے جانے والے ہمارے سلوک کا نتیجہ یہی نکلنا تھا،ہمیں اگر ان تما م حادثات اور ان تما م باتوں سے بچنا ہے تو ملکر ایک قرآن مجید میں بتائے ہو ئے اصولوں اور حجتہ الودع کے موقع پر آپ ﷺ کے فرمائے ہوئے انسانی حقوق کے حوالے سے عظیم چارٹر کی روشنی میں اپنے معاشرے کی تشکیل کرنا ہوگی ،ورنہ اگر یہی صورتحال رہی تو خدا نخواستہ کل ہر دوسرا شخص چھری اور بندو ق ہاتھ میں لئے اپنے فرقے اور عقیدے سے اختلاف رکھنے والے کی جان کے درپے ہوگا،نسلی امتیاز ہو یا مذہبی انتہا پسندی اس وقت پوری دنیا کا مسئلہ بن چکی ہے،اقوام عالم کو یواین او کے پلیٹ فارم پر بیٹھ کر اس کا حل ڈھونڈنا ہو گا،جان دینا اور جان لینا اللہ تعالی کا اختیار ہے اسی لئے قرآن میں کسی انسان کے ناحق قتل کو پوری نسل انسانی کا قتل اور کسی کی جان بچانے کو گویا پوری نسل انسانی کی جان بچانے کے برابر قرار دیا گیا ہے،لیکن یہاں نسل انسانی تو دور کی بات خود مسلمان کے ہاتھوں دوسرا مسلمان محفوظ نہیں،وقت آگیا ہے کہ ایک بار پھر نسل انسانی کی بقاء ،تحفظ ،خوشحالی ،امن اور بقائے باہمی کے لئے9 ذوالحجہ 10ہجری کو جبل رحمت پردےئے گئے خطبے سے رجوع کیا جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply