مبشّرِ پاکستان                  ۔۔سعید چیمہ

کیا کوئی مولانا حالی سے اختلاف کر سکتا تھا۔ہر طرف سے ذلت ورسوائی ساون کے بادل کی طرح برس رہی تھی۔مایوسی کے سائے سینکڑوں سال پرانے درختوں کی لمبائی ایسے دراز ہو رہے تھے۔یہ ذلت ورسوائی،یہ مایوسی کے سائے کن کے لیے تھے۔قیامت کے ماننے والوں پر قیامت سے پہلے قیامت ڈھائی جا رہی تھی۔دنیا کے ہر خطے میں زندگی اجیرن اور زمین تنگ کی جا رہی تھی۔سلطنتِ عثمانیہ برائے نام،گھوسٹ سکولوں کی طرح جن کا وجود صرف کاغذوں میں ہوتا ہے۔ایسے میں اگر حالی مسدس نہ لکھتے تو کیا کرتے،انداز بھی ایسا دل دوز اپنایا کہ ہر رباعی پڑھنے کے بعد آنکھوں سے بے ساختہ ابر برسنے لگیں،جگر شقّ القمر کی طرح پھٹنا چاہے

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے

اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے

مانے نہ  کبھی کہ مد بھی ہے ہر جزر کے بعد

دریا   کا ہمارے جو اترنا دیکھے

مسدس کا آغاز ایسے شعروں سے تو اختتام بھی گریہ زاری پر

اے خاصئہ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے

امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے

وہ دیں جو بڑی  شان سے نکلا تھا وطن سے

پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے

Advertisements
julia rana solicitors

پھر سرسید کی صورت میں قریباً پونے دو صدی بعد خورشید کی کرنوں نے اجالا پھیلانا شروع کیا مگر اتنی طویل اندھیری رات میں سسکنے کے بعد ہمارے ہم مذہبوں کی آنکھیں روشنی سے نا آشنا ہو گئیں تھیں۔اسی لیے پہلی کرنِ خورشید کو دیکھتے ہی چمگاڈر کی طرح آنکھیں بند کر لیں جو سورج کو دیکھ کر آنکھیں بند کر کے سارا دن درخت کی شاخوں سے لٹکتا رہتا ہے۔سر سید نے ایسوں کی بینائی لوٹانے کے لیے کیا کیا بحر عبور کیے،یہ موضوع ابھی تشنہ لب رہے گا۔علی گڑھ سکول کے بانی روشنی میں اگر چلنا نہیں تو کم ازکم آنکھیں کھلی رکھنا ضرور سکھا گئے۔سر سید کے بعد حالات کھیت میں جوئے ہوئے بیل کی طرح آہستہ آہستہ کروٹ بدلنے لگے۔مصوّرِ کائنات کو اس خطے کے لوگوں پر ترس آیا تبھی تو اقبال ایسے دانا کو ہم میں مبعوث  کیا۔شکوہ لکھ کر ماضی یاد دلایا اور جوابِ شکوہ لکھ کر باور کروایا کہ مستقبل میں کیا کرنا ہے۔پاکستان کی بشارت سب سے پہلے انہوں نے ہی دی،مبشّرِ پاکستان مگر ان کو کبھی نہیں کہا گیا۔مفکر پاکستان،مصور پاکستان اور حکیم الامت جیسے خطابات سے نوازا گیا۔ہم بھی شاید گزشتہ صدی کے سب سے قد آور شاعر کو کبھی مبشر پاکستان نہ کہتے،مگر ڈاکٹر اسراراحمد کی تقریر سماعت سے گزری جس میں انہوں نے اقبال کے متعلق کہا کہ سب سے پہلے پاکستان کی خوشخبری دینے والے اقبال ہی تو تھے۔دو قومی نظریہ کسی حد تک تھا مگر اقبال کے خطبئہ الٰہ آباد نے نئی سمت سے روشناس کرایا،ہمیں کہنے دیجئے کہ اگر اقبال نہ ہوتے آج ہم بھی آزاد فضاؤں میں سانس نہ لے رہے ہوتے اور بقول علامہ خادم حسین رضوی کے”کسی ہندو کے کتّے نہلا رہے ہوتے”۔افسوس مگر افسوس اقبال کو پڑھا گیا اور نہ  ان کو تکریم کی مسند پر بٹھایا گیا،اس کے برعکس پھن پھیلائے ہوئے کوبرا کیطرح انکے خلاف زہر اگلا گیا بلکہ یہ تک کہہ دیا گیا کہ مئے نوش تھے۔ان کو شاعرِ مشرق نہیں کہنا چاہیئے،مشرق میں تو اور بھی بہت سے ممالک ہیں تو اقبال شاعر مشرق کیسے ہوئے؟ مستنصر حسین تارڑ ایسے صاحبِ ادب بندے نے تقطہ اٹھایا جو کئی دہائیوں سے پوشیدہ تھا،گریہ زاری کا مقام کہ محترم حسن نثار نے فوراً اپنے مخصوص بپھرے ہوئے انداز میں تائید کا مارٹر گولہ داغا،کاش یاسر پیرزادہ ہی اختلاف کر لیتے۔یہ کافی سال پرانے پروگرام کی بات ہے جو اب بند ہو چکا ہے۔اقبال کی شاعری کو ہم سے زیادہ ایران میں پڑھا جاتا ہے،ایران والے ان کو اپنا شاعر کہتے ہیں۔پاکستانیوں سے زیادہ اقبال افغانیوں کے شاعر ہیں،ڈاکٹر اشرف غنی نے محترم سلیم صافی کو کہا۔اور خشونت سنگھ ایسے روشن خیال ادیب بھی اقبال کے معتقد ہیں اور اپنی آٹو بائیوگرافی میں انہوں نے متعدد مقامات پر اقبال کے شعر نقل کیے ہیں۔اب بھی اگر ان کو شاعر مشرق نہیں سمجھتا تو بارگاہِ ربی میں ہاتھ اٹھا کر دعا گو ہیں کہ خدا تعالیٰ  ایسوں کی فراست پہ پڑے ہوئے قفل کھولے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply