• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کشمیر اور گلگت: حامد میر صاحب کا کالم اور تاریخی مغالطے(حصّہ اوّل)۔۔۔ڈاکٹر اظہر فخرالدین

کشمیر اور گلگت: حامد میر صاحب کا کالم اور تاریخی مغالطے(حصّہ اوّل)۔۔۔ڈاکٹر اظہر فخرالدین

‘کشمیریوں کے دوست یا دشمن’ کے عنوان سے 5 نومبر کو شائع ہونے والا حامد میر صاحب کا کالم نظر سے گزرا، جس میں گلگت کی آزادی اور اسکے آزاد کشمیر سے تعلق کے حوالے سے بہت سارے تاریخی واقعات کچھ ایسے بیان ہوئے کہ بظاہر ایک نئی تاریخ رقم کی گئی۔ اس کالم میں ہم ان واقعات کا تاریخ کی روشنی میں تجزیہ کریں گے۔
حامد میر لکھتے ہیں۔
“سچائی یہ ہے کہ 1947 میں گلگت بلتستان میں شامل علاقے ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھے اور اسی لیے 16 جنوری 1948 کو پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے 228ویں اجلاس میں کہا کہ گلگت بلتستان دراصل ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے”
وہ لکھتے ہیں
“یہ بھی ایک سچائی ہے کہ یکم نومبر 1947 کو گلگت بلتستان میں (گلگت)  سکاؤٹس کے ایک افسر میجر براؤن نے ڈوگرہ حکومت کے مقرر کردہ گورنر گھنسارا سنگھ کے خلاف بغاوت کر دی اور پھر جموں و کشمیر سکھ انفنٹری کے کیپٹن مرزا حسن خان نے اس بغاوت میں شامل ہو کر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر لیا۔ بعد میں کیپٹن مرزا حسن نے 1948 کی کشمیر کی جنگ آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔۔۔”

“1949 میں لیاقت علیخان نے آزاد کشمیر کے صدر سردار ابراہیم خان پر دباؤ ڈال کر ان کے ساتھ ایک کراچی معائدہ کیا جس کے تحت گلگت بلتستان کی نگرانی حکومت پاکستان نے لے لی”
وہ مزید لکھتے ہیں
“اس سچائی سے بھی انکار ممکن نہیں کہ گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر سے چھیننے کے بعد پاکستان کے ریاستی اداروں نے اسے شمالی علاقہ جات قرار دیکر مقامی آبادی کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک شروع کر دیا”

اس کالم کو پڑھنے کے بعد ایک عمومی رائے یہ بنتی ہے کہ گلگت بلتستان کی جنگ آزادی (صرف) میجر براؤن اور کیپٹن حسن مرزا کی مرہون منت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تاثر بھی قائم کیا گیا ہے کہ گلگت ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا اور 1 نومبر کی بغاوت کے بعد وہ آزاد کشمیر کے زیر انتظام تھا جس کو پاکستان نے (حامد میر صاحب کے بقول) چھین کر اپنے انتظام میں لے لیا۔
پہلے کچھ ایسے سوالات جو اس کالم کو پڑھنے کے بعد (اور حکومت پاکستان کے گلگت بلتستان کو عبوری انتظامی صوبہ بنانے کے اعلان پر) ذہن میں آتے ہیں ان پر ایک نظر:
1. کیا گلگت بلتستان 1 نومبر 1947 تک ریاست جموں کشمیر کا حصہ تھا؟
2. کیا گلگت بلتستان کا خطہ آزادی کے بعد آزاد کشمیر کے زیر انتظام رہا؟ (اس میں ایک ضمنی سوال یہ بھی ہے کہ کیا گلگت بلتستان کے لوگ اپنے آپکو کشمیری سمجھتے ہیں؟)
3. کیا گلگت میں مسلح بغاوت میجر براؤن نے شروع کی؟
4۔ کیپٹن حسن مرزا کا اس جنگ آزادی اور (آزاد) کشمیر کی آزادی میں کتنا کردار تھا؟
5. کیا پاکستان نے آزاد کشمیر سے گلگت بلتستان کا علاقہ چھینا (بقول حامد میر صاحب)؟

آئیے ان تمام واقعات کا تاریخ کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں۔
مضمون کی طوالت (جو تاریخی حوالوں کی وجہ سے ناگزیر تھی) کی بنا پر اسکو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلا حصہ گلگت کی مختصر تاریخ اور یہاں سکھ اور ڈوگرہ افواج کی آمد
دوسرا حصہ 1947 کی جنگ آزادی اور گلگت بلتستان
تیسرا حصہ گلگت اور آزاد کشمیر کے تعلقات کی نوعیت

پارٹ 1. گلگت 1947 سے پہلے
گلگت بلتستان کے مختصر تاریخی پس منظر اور اس کے ریاست کشمیر سے رشتے کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ وہاں کی مقامی جنگ آزادی کی وجوہات اور اسکے مقاصد سمجھ آ سکیں۔
قدیم تاریخ میں جب ریاست کشمیر (جس میں کابل، ایران کے کچھ علاقے اور موجودہ بنگلہ دیش کا کچھ حصہ شامل تھا) کرکوتا ایمپائر کے زیر اثر تھی تب گلگت چائنا دربار اور پھر تبت دربار کے زیر اثر تھا۔ گلگت کو Little Palolaاور بلتستان کو Large Palolaکہا جاتا تھا۔
ریاست کشمیر بتدریج مسلمان سلاطین، مغل اور پھر سکھ دور حکومت کے زیر سایہ رہی۔ جبکہ گلگت بلتستان کے موجودہ علاقے ایرانی نزاد تاراخان خاندان کے زیر اقتدار رہے (643-1805). یہاں چھوٹی چھوٹی کئی ریاستیں قائم رہیں جیسا کہ یاسین، ہنزہ، نگر، چلاس، پونیال، گلگت اور بلتستان وغیرہ۔ ان تمام ریاستوں کے اپنے راجا تھے اور ان میں باہمی جنگ و جدل کی بھی ایک لمبی تاریخ رہی ہے۔ [بحوالہ پروفیسر احمد دانی، 1987، امر سنگھ چوہان 1984، حشمت اللہ1939 و دیگر]
۔ اس ریجن میں گلگت شہر کو ایک مقامی حثیت حاصل تھی۔ مقامی راجاؤں کے مابین گلگت پر قبضے کی کئی جنگیں ہوئیں۔ 1841/42 میں جب گلگت پر ریاست یاسین کےراجاگوہر رحمن کا اقتدار تھا، ہنزہ کے راجا کریم خان نے 1842 میں کشمیر دربار (سکھ دور حکومت) سے اپنا پرانا قبضہ واپس لینے کے لیے مدد طلب کی۔ سکھ حکومت نے کرنل نتھو شاہ (جو بعد میں جنرل بنا) کی سربراہی میں سکھ فوج روانہ کی۔ یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ اس سے پہلے صرف استور تک سکھ دربار کا اثر و رسوخ تھا جہاں سے سکھوں کو نذرانہ دیا جاتا تھا۔ یوں پہلی بار سکھ افواج دریائے سندھ پار کر کے اس ریجن میں داخل ہوئیں اور انھوں نے کریم خان کے ساتھ ملکر گلگت شہر پر قبضہ کیا۔اگرچہ اقتدار پر کریم خان کی گرفت تھی لیکن سکھ دربار کا بھی اس پر کافی اثرو رسوخ تھا۔(Panikkar 1930&Drew Frederick 1971)۔ سکھوں کی دو چیک پوسٹ قائم تھیں، ایک گلگت شیر میں دوسری استور میں۔
-1846 میں ریاست کشمیر ڈوگرہ سرکار کو مل گئی، جس کی بنیاد معائدہ امرتسر تھا۔ نتھو خان جو اب مہاراجہ گلاب سنگھ کو اپنی خدمات سونپ چکا تھا ایک فوج لیکر گلگت ریجن پر قبضہ کرنے آیا۔ ہنزہ کے راجہ غازن خان نے ریاست یاسین کے راجہ گوہر رحمن کے ساتھ ملکر ڈوگرہ افواج کو شکست دیں۔ جنرل نتھو رام اپنی فوج اور گلگت کے راجہ کریم خان سمیت مارا گیا۔ گلاب سنگھ نے مزید افواج بھیج کر گلگت پر قبضہ کیا۔ 1852 میں چلاس سے ڈوگرہ قبضے کے خلاف ایک مقامی بغاوت نے جنم لیا۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کی افواج کو ایک شدید جنگ میں 1500 سے زائد سپاہیوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔
اسی سال میں راجہ یاسین گوہر رحمن کی قیادت میں گلگت کے نواحی علاقوں میں مسلح بغاوت جاری تھی۔ دریائے گلگت کے کنارے پہلے معرکے میں 300 کے لگ بھگ ڈوگرہ سپاہی مارے گئے، اور پھر گلگت قلعے میں تمام ڈوگرہ فوج مار دی گئی۔ اور گلگت کا قبضہ واپس گوہر رحمن کے پاس آ گیا۔1852 سے 1860 تک گلگت گوہر رحمن کے زیر اقتدار رہا اور ڈوگرہ افواج ہراموش کی چوٹی سے نیچے ہی رہیں۔ گلاب سنگھ نے اپنی بقیہ زندگی میں گلگت پر کوئی چڑھائی نہیں کی۔(Drew Frederick1971, Chohan1984).
-گلاب سنگھ کی وفات کے بعد اسکا بیٹا رنبیر سنگھ تخت نشین ہوا اور اسکی افواج نے 1860 میں گلگت پر چڑھائی کی۔ڈوگرہ افواج کے حملے کے شروع میں ہی گوہر رحمن کی طبعی وفات ہو گئی، جس کا اثر مقامی مسلمانوں کے مورال پر پڑا اور گلگت قلعہ اور شہر پر ڈوگرہ افواج کا قبضہ ہوا۔ (Imperial Gazetteer,P 28, Hashmetuullah khan, P789)
تین سال بعد 1863 میں ڈوگرہ افواج نے یاسین اور پونیال پر لشکر کشی کی اور پانچ سے چھ ہزار کی فوج نے وادی یاسین میں نسل کشی کی ایک المناک داستان رقم کی.1400 کے قریب مردوں، بچوں اور عورتوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا,2000 لوگ قیدی بنا لیے گئے اور وادی یاسین کو آگ لگا دی گئی۔ مقامی خواتین جو زندہ بچ گئیں انکو ڈوگرہ افواج اور انکے حمایتیوں نے آپس میں بانٹ لیا۔ (Chohan 1984, P16). ایک انگریز سیاح جو وادی یاسین میں 1870 میں آیا اس نے اس قتل عام کی تفصیلات انڈین گورنمنٹ کو ایک تفصیلی خط کی شکل میں بھیجیں جو رونگھٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہیں (George Hayward to Thronton, 1870) کچھ ایسے ہوا تھا گلگت پر ڈوگروں کا قبضہ.
– مختصرا یہ کہ 1868 میں نگر اور 1869 میں ہنزہ نے ڈوگرہ راج کی بالا دستی قبول کی، اور ڈوگرہ دربار کو نذرانہ دینا شروع کیا۔ (John Biddulp, P29&Kak B.C. The Fall of Gilgit 1977)۔ اس کے باوجود 1880 اور 1891 میں ہنزہ اور یاسین کے حکمران نے ایک اور مسلح بغاوت کی. پہلی بغاوت کا خاتمہ ریاست چترال کی مداخلت سے جنگ کے بغیر ہوا، جبکہ دوسری جنگ کا خاتمہ کشمیر دربار اور انگریز سرکار کی جیت پر ہوا (انگریز سرکار 1877 سے اپنے پولیٹیکل ایجنٹ کے زریعہ اس خطہ میں آئی اور 1889 میں گلگت ایجنسی قائم کی۔ جس کی بدولت انگریز سرکار کو دفاع اور انتظامی امور میں اہم حصہ ملا۔)
ان ساری تفصیلات بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ گلگت نے کبھی بھی ڈوگرہ راج کی حکمرانی کو تسلیم نہیں کیا۔ وادی کشمیر اور جموں کی عوام جو ڈوگرہ کو اپنا حکمران تسلیم کرتی تھی کے برعکس گلگت بلتستان کے لوگوں نے ہمیشہ ڈوگرہ راج سے بغاوت کی۔ یہاں کی عوام کے لیے کشمیر دربار بس ایک سامراج تھا جو ان پر قابض تھا۔
ریاست کشمیر کی جن قانونی حدود کا تعین معائدہ امرتسر میں ہوا اس میں گلگت بلتستان کا ذکر نہیں۔ اس میں تو ریاست کشمیر کی حدود دریائے سندھ سے مشرق کی جانب اور دریائے راوی سے مغرب کی جانب ہیں۔ ان حدود سے باہر مہم جوئی کے لیے ڈوگرہ حکومت انگریز سرکار سے اجازت لینے کی پابند تھی۔ گلگت ریجن کا زیادہ تر علاقہ تو ویسے بھی دریائے سندھ کے پار آتا ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ریاست کشمیر کا باشندوں کی شناخت کے لیے قانون باشندہ ریاست کا اطلاق 1927 میں ہوا۔ گلگت 1935 میں انگریز سرکار کو 60 سال کے لیے لیز پر دے دیا گیا تھا اور یہاں باشندہ ریاست قانون کا اطلاق نہیں ہوا۔ ہماری اطلاعات کے مطابق ایسا کوئی قانون یا سرٹیفکیٹ مقامی لوگوں کے پاس نہیں رہا۔
ان ساری تفصیلات سے آپ کو ماضی کی ریاست کشمیر اور گلگت بلتستان کے باہمی تعلق کی بنیاد بخوبی سمجھ آ چکی ہو گی۔ یہی 1947 کی جنگ آزادی کی بھی بنیاد بنی۔

پارٹ 2. گلگت بلتستان کی جنگ آزادی 1947
1935 میں تاج برطانیہ نے گلگت ایجنسی کو مہاراجہ ہری سنگھ سے ساٹھ سال کے لیے لیز پر حاصل کر لیا۔ کشمیر دربار کی آرمی (Imperial Kashmir Service Troops)گلگت ایجنسی سے چلی گئی اور اس خطے کا کنٹرول انگریز سرکار کے زیر سایہ گلگت سکاؤٹس نے سنبھال لیا۔ مہاراجہ کی کچھ افواج دریائے سندھ سے پار، بونجی کے مقام پر اور بلتستان کے خطے میں موجود رہیں۔
– ایک بنیادی فرق گلگت شہر (جس کو مہاراجہ دور سے گلگت وزارت کہا گیا) اور گلگت ایجنسی کا ہے۔ یہ فرق انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ معروف تاریخ دان یعقوب بنگش جو پاکستان کی پرنسلی سٹیٹس کی تاریخ پر ایک جانے پہچانے محقق ہیں کہتے ہیں کہ گلگت وزارت گلگت ایجنسی کا دسواں حصہ تھا۔ گلگت وزارت میں گلگت شہر، بونجی اور استور کے علاقے شامل تھے، جبکہ گلگت ایجنسی میں ہنزہ، نگر، چترال ، یاسین، پونیال،کوہ گذر، اشکامان اور چلاس کی ریاستیں اور گلگت کے نواحی قبائلی علاقہ جات (گور، داریل، تنگیر وغیرہ) شامل تھے۔ یہاں کے علاقے ماضی میں بھی ڈوگرہ راج کے براہ راست کنٹرول میں نہیں تھے اور انکے اپنے راجہ ہوا کرتے تھے۔ اگرچہ یہ علاقے مہاراجہ کو ہدیہ دیا کرتے تھے۔ لیکن ایسا ہی نذرانہ ہنزہ کے راجہ چائنا کو بھی دیا کرتے تھے۔ (Bangash 2015 and Chohan 1984, P203) چترال کو انگریزوں نے بعد میں مالاکنڈ ایجنسی کا حصہ بنا دیا۔ اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انگریزوں کو اس خطے میں ایک اتھارٹی حاصل تھی۔

– 3 جون 1947 کو جب برطانیہ نے برصغیر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو گلگت کی لیز کشمیر دربار کو لوٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ گھنسارا سنگھ نے 30 جولائی 1947 کو دوبارہ گلگت ریجن کا چارج سنبھال لیا۔
-27 اکتوبر 1947کو جب مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست کشمیر کے انڈیا کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تو گلگت کی مقامی آبادی میں تشویش کی لہردوڑ گئی۔ ڈوگرہ کے ساتھ ایک المناک تاریخ رکھنے کی وجہ سے اور تقریبا سو فی صد مسمان ہونے کی بنیاد پر یہاں کی مقامی آبادی اپنے لیے پاکستان کا انتخاب کرنا چاہتی تھی اور یہی آپریشن دتہ خیل کی بنیاد بنا جس میں گورنر گھنسارا سنگھ کا تختہ الٹا گیا۔
– اس مقامی بغاوت کی تاریخ خاصی پچیدہ اور متنازعہ ہے کیونکہ اسکے ہر کردار نے سارا کریڈٹ اپنے پاس رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ہم ان واقعات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
-گلگت کی مقامی بغاوت کے چار مرکزی کردار ہیں۔(1) گلگت سکاؤٹس جس کے مرکزی کرداروں میں صوبیدار میجر بابر خان اور صوبیدار سیف اللہ بیگ شامل تھے,(2) کشمیر دربار کی افواج کی مسلمان کمپنیاں جس کی کمان ایک کشمیری نژاد گلگتی کیپٹن حسن مرزا کر رہے تھے، انکے ساتھ کیپٹن سید درانی، کیپٹن محمد خان جبرال (جرال؟) اور لیفٹیننٹ علام حیدر تھے (3) انگریز آفیسر میجر براؤن، (4) تنظیم سرفروشاں، جو مقامی مسلمان محمد علی چنگیزی نے بنائی۔
-30 اکتوبر کی رات گورنر ہاؤس کا گھیراؤ کیا گیا اور اگلی صبح گھنسارا سنگھ نے ہتھیار  ڈال دیے۔ ایک نئی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ شاہ خان رئیس اس کے صدر اور کیپٹن حسن مرزا اسکی فوج کے چیف مقرر ہوئے (اسکی وجہ ممکنہ طور پر انکی بابر خان پر سینیارٹی تھی)۔ اس نو منتخب حکومت نے پاکستان حکومت کوالحاق کے لیے تار بھیجے اور کافی کوششوں کے بعد صوبہ فرنٹیئر سے ایک آفیسر عالم خان صاحب کو پولیٹیکل ایجنٹ بنا کر بھیجا گیا (اس وقت شاہراہ قراقرم نہیں تھی اور گلگت تک جانے کے دو بڑے رستے چترال/فرنٹیئر یا وادی نیلم/کشمیر سے جاتے تھے)

جرمنی کی مشہور یونیورسٹی (Ludwig Maximilian Univetsity of Munich) کے پروفیسر مارٹن سوکیفلڈ جو گلگت بلتستان اور کشمیر کی ہسٹری میں ایک اتھارٹی ہیں اور اس موضوع پر کئی کتابیں اور مقالے لکھ چکے ہیں انھوں نے اس جنگ آزادی کے کئی کرداروں سے خود ملاقات کی اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی کہ گلگت کی مقامی بغاوت کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے۔

انکے مقالے کے اہم پوائنٹس کچھ یوں ہیں
– گھنسارا سنگھ نے کشمیر کے انڈیا کے ساتھ الحاق کی خبر ملنے اور میجر براؤن کے مشورے پر بونجی کے مقام پر ڈوگرہ افواج سے مدد طلب کی۔(جس کی قیادت کرنل عبدالمجید کے پاس تھی) کہ انھیں ہندو اور سکھ کمپنیوں کی مدد بھیجی جائے۔ کیپٹن حسن مرزا نے کسی طرح کرنل مجید کو راضی کر لیا کہ وہ ہندو کے بجائے مسلمان کمپنی لیکر خود گلگت (جو بونجی سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے) جائیں گے۔
– 30 اکتوبر کو گلگت سکاؤٹس نے بابر خان کی قیادت میں گورنر گھنسارا سنگھ کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا۔ اور ایک کمپنی صوبیدار سیف اللہ کی قیادت میں بونجی سے ممکنہ طور پر آنے والی ہندو کمپنیوں سے نمٹنے کے لیے بھیجی۔ جن کی ملاقات ہندو کمپنیوں کے بجائے کیپٹن حسن مرزا اور انکے دستےسے ہوئی۔
– کیپٹن حسن مرزا شام کے وقت گورنر ہاوس پہنچ گئے۔ اگلی صبح گھنسارا سنگھ نے ہتھیار ڈال دیے۔
– پروفیسر مارٹن یہاں ایک دلچسپ حقیقت کا ذکر کرتے ہیں کہ بغاوت کی رات بابر خان میجر براؤن کو گرفتار کرتے ہیں اور اگلی صبح کیپٹن حسن مرزا اسکو دوبارہ گرفتار کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ انکا شک ہے کہ میجر براؤن گورنر کی طرفداری کر رہا ہے۔ میجر براؤن اگرچہ اپنی رپورٹس میں اپنی گرفتاری کا تذکرہ نہیں کرتا لیکن وہ یہ ضرور لکھتا ہے کہ “مقامی باغیوں کی بات ناں ماننا خودکشی کے مترادف ہوتا۔ میں نے اسی لیے صورتحال سے سمجھوتا کیا اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اور صورتحال کو خون خرابے سے بچانے کے لیے ضروری اقدامات کیے (بحوالہ میجر براؤن رپورٹ پارٹ 1)”
یہاں یہ تو واضح ہوتا ہے کہ میجر براؤن کا اس بغاوت کو شروع کرنے میں ہاتھ نہیں تھا۔ ورنہ اس کو دو مرتبہ شک کی بنیاد پر گرفتار کیوں کیا جاتا؟ حامد میر صاحب کا یہ دعوی تاریخ کی روشنی میں غلط ثابت ہوتا ہے۔ پروفیسر دانی جو ناردرن ایریاز کی تاریخ پر ایک اتھارٹی ہیں اور تاریخ دان یعقوب بنگش بھی اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ میجر براؤن اس بغاوت کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ میجر براؤن اس کا دعوی کرتا ہے۔اور کریڈٹ لینے کی کوشش کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply