حجاز ریلوے اور مدینہ منورہ کا عجائب خانہ۔۔منصور ندیم

رواں سال فروری سنہء 2020 میں جب مدینے جانا ہوا، تو موسم خاصا سرد تھا، اسی لئے مع اہلیہ بعد نماز ظہر ہی سب سے پہلے مسجد نبوی کے قریب مقیم ہوٹل سے معروف اور تاریخی حجاز ریلوے اور مسجد ترکی کا قصد کیا، اہل مدینہ کے ہاں معروف ”استسیون“ حجاز ریلوے اسٹیشن کو کہا جاتا ہے ویسے ریلوے اسٹیشن کو عربی میں “محطہ سکتہ الحدید” کہا جاتا ہے، مسجد نبوی سے صرف 1.5 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ مدینہ منورہ کے مقامی عرب اس کا تلفظ ”اسٹیشن“ کے بجائے ”استسیون“ کہتے ہیں۔

قریب دس منٹ میں ہم مسجد نبوی سے بابِ عنبریہ کے ساتھ سیاہ گنبدوں والی خوبصورت عنبریہ مسجد پہنچ چکے تھے، مسجد سے روڈ کے دوسری طرف سرمئی تراشیدہ پتھروں سے بنا مدینہ منورہ کا حجاز ریلوے اسٹیشن عربی اور ترکی فنِ تعمیر کا حسین امتزاج تھا، چند قدم کے فاصلے پر مسجد ترکی موجود ہے۔ وہ ترک دور حکومت میں تعمیر ہوئی تھی ویسے ہی سرمئی پتھروں سے مزین مسجد عنبریہ جسے ترکی مسجد بھی کہا جاتا ہے، پتھروں سے تعمیر کی گئی یہ چھوٹی سی مسجد بہت خوبصورت ہے اور وہاں موجود دوسری عمارتوں میں ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔ اسی کے برابر سے مسجد نبوی کے نیچے واقع کار پارکنگ تک جانے کا راستہ بھی ہے۔ اسی لیے یہاں زبردست ٹریفک رہتا ہے۔ مسجد ترکی دیکھنے کے بعد ہم قریب میں واقع ترک دور حکومت کے ریلوے اسٹیشن کی طرف بڑھے، جو اب میوزیم کی شکل میں موجود ہے۔

مدینہ منورہ کا عجائب خانہ :

سعودی محکمہ سیاحت و آثار قدیمہ نے حجاز ریلوے اسٹیشن کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر اس کی اصلاح و مرمت کی ہے۔ اور اس بڑی بلڈنگ کو ضلع مدینہ منورہ سے تعلق رکھنے والے تاریخی آثار کے عجائب گھر (میوزیم) میں تبدیل کردیا ہے، یہ میوزیم مدینہ منورہ کی تاریخ ، اس کی جغرافیائی تشکیل پر مشتمل ہے۔ اس کا ایک حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک ، دوسرا حصہ خلفائے راشدینؓ اور دیگر ادوار اور ایک حصہ سعودی عرب کے موجود حکمران خاندان کے عہد اور اس کی تاریخ کا تعارف کرانے والے آثار کا امین ہے۔ حجاز ریلوے اسٹیشن تاریخی عمارتوں کے درمیان کھلے میدانوں پر بھی مشتمل ہے۔ یہاں محکمہ آثار قدیمہ نے ہنر مندوں کے لئے نمائش اور شائقین کے لئے نمائشی ہال بھی بنادیئے ہیں۔

اسٹیشن کی فصیل کے مغربی جانب قدیم عمارت ہے جسے ریلوے عجائب گھر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس میں سلطنت عثمانیہ کے دور کی تاریخی تصاویر اور مختلف اشیاء سجائی گئی ہیں۔ اس میوزیم میں ریلوے سے متعلق تو ہمیں کسی بھی حوالے سے کوئی چیز نظر نہیں آئی، بلکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک اور ان کے بعد کے ادوار کی بہت سی اشیاء محفوظ کر دی گئی ہیں۔ جس جگہ ریلوے اسٹیشن تھا اسی جگہ ایک خوبصورت عمارت تعمیر کرکے اسے میوزیم کی شکل دے دی گئی ہے۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی پہلے ایک بے حد خوبصورت ماڈل پر نظر پڑتی ہے جو اسی عمارت کا ہے۔ گراونڈ فلور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے پتھروں کی بہت سی اشیا رکھی ہیں۔ انھی میں اس دور کی ایک چکی بھی ہے جو خاصی بڑی اور موٹی ہے۔ اور گھروں میں گندم ذخیرہ کرنے والے برتن بھی رکھے ہیں۔

پہلی منزل پر بہت سے کمروں میں تلواریں، بندوقیں اور بہت سے آلات حرب سجے ہوئے ہیں۔ ایک کمرے میں پیتل کا بنا ہوا ایک خوبصورت سا چولہا ہے جو ایک گول طشت میں فٹ ہے۔ اس کے اوپری گول حصے میں بہت سے سوراخ ہیں۔ یہ چولہا عہد نبوی میں حجروں میں خوشبو بکھیرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ ایک دوسرے کمرے میں ایک اسٹینڈ پر پیتل کا بنا Astrolab (اصطرلاب) رکھا ہوا ہے۔ جو ایک مشینی گھڑی ہے، لغت کے اعتبار سے اصطرلاب ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جس کی مدد سے سورج اور ستاروں کا سمندر سے ارتفاع معلوم کیا جاتا ہے۔ یہ زمانہ قدیم کی گھڑی ہے جس سے وقت کا تعین کیا جاتا تھا۔

یہیں اس کے برابر میں اور نیچے قدیم صراحیاں رکھی ہوئی ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کے بعد مسجد نبوی میں آنے والے مہمانوں کو پانی پلانے میں استعمال کی جاتی تھیں، اس کے برابر میں ایک اور اسٹینڈ پر ایک بڑا سا مثلث یا Tranguler رکھا ہوا ہے۔ اس کا بھی استعمال وقت معلوم کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ دنوں اور مہینوں کا حساب لگانے کے لیے زمانہ قدیم کا کیلنڈر بھی سجا ہوا ہے۔ جس میں سات چرخیاں لگی ہوئی ہیں اور ہر چرخی میں دن اور مہینے لکھے ہوئے کاغذات لپٹے ہوئے ہیں۔ کاغذ ایک چرخی سے نکل کر دوسری چرخی میں لپٹ رہا ہے۔ ان پر دن اور مہینے ہاتھ سے لکھے ہوئے ہیں۔ پلاسٹک کے ایک چھوٹے سے بکس میں خلفائے راشدین کے زمانے کے درہم رکھے ہوئے ہیں۔

یہاں پر تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفان سے منسوب قرآن کریم کا ایک نسخہ ہے جو ہاتھ سے لکھا ہوا ہے، یہ فوٹو کاپی ہے۔ اس کا اصل نسخہ استنبول کے ایک میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔ یہ کچھ اور سکے ہیں، کچھ پیالیاں ہیں، کچھ کٹورے ہیں۔ انھی میں خوشبو اکٹھا کرنے کے برتن بھی ہیں۔ یہ حضرت عثمان بن عفان کے دور کی تلوار اور ڈھال ہے۔ یہیں پر آٹھویں صدی ہجری کی اشیاء بھی رکھی ہوئی ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے علاوہ بعد کے ادوار کے لباسوں کے نمونے بھی موجود ہیں۔ جن میں خواتین کے بہت سے لباس ایسے ہیں جن پر کشیدہ کاری کی گئی ہے۔ موجودہ دور کے بھی کچھ لباس الماریوں میں سجے ہوئے ہیں۔

گراؤنڈ فلور پر مدینہ شہر کی تصویریں عہد با عہد ترقی اور تعمیرات کے حوالے سے بھی بڑے بڑے فریم میں لگی ہیں ،جن میں مسجد قبلتین، مسجد قبا ، مسجد نبوی ، گورنر ہاؤس ، مسجد نبوی اور مدینہ شہر کی مختلف ادوار کی ترقی اور تعمیرات کو دکھایا گیا ہے، مجموعی طور پر اس میوزیم میں قدیم و جدید کی اشیا بڑے ہی سلیقے سے رکھی ہوئی ہیں جو سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتی ہیں۔

حجاز ریلوے :

اس عمارت کے عقب میں آج بھی ریل کی پٹری، ڈبے اور انجن سمیت عثمانیوں کے دور کی یاد دلاتا ہے۔ حجاز ریلوے کی مدینہ منورہ سے دمشق تک جاتی ریلوے لائن کہیں کچی ریتلی زمین پر بچھی ہوئی اور کہیں پہاڑی اُتار چڑھائو میں سے گزرتی ہے لیکن ریگستانی اور پہاڑی دونوں راستوں پرپھیلی یہ ریلوے لائن ہموار اور ستواں ہے۔ گردوپیش ہر طرف پہاڑ ہی پہاڑ ہیں۔ کہیں کسی چھوٹی وادی سے گزرتی اور کہیں خودرو درختوں سے گھرا نخلستان پار کرتی تو کہیں کسی غیر آباد علاقے اور وسیع ویرانے کو عبور کرتی العلا تک پہنچتی ہے۔ اس عمارت کے عقب کی طرف ہم نے ریل کی پٹری بھی دیکھی جو آج بھی موجود ہے۔ اور وہاں سیاہ رنگ کا ایک ڈبہ بھی کھڑا ہے۔ (جس کی تصاویر بھی لیں ), لیکن یہاں جالیاں لگا کر قریب جانے کی ممانعت رکھی گئی ہے ۔

حجاز ریلوے قریب 120 برس قبل اسلامی ریاستوں کا سب سے بڑا منصوبہ تھا،جو عہد خلافت عثمانی میں سلطان عبد الحمید دوم کے حکم پر تعمیر ہوا تھا، جو دمشق کو مدینہ منورہ سے جوڑتا تھا، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے 1.5کلو میٹر دور اس منصوبے کے لئے اس وقت پوری مسلم امہ نے عطیات کئے تھے اور سب سے زیادہ عطیات مسلمانان ہند نے پیش کئے۔ جب برصغیر کا بٹوارہ نہ ہوا تھا۔ حجاز ریلوے کا منصوبہ تاریخی تھا، اور ایک عظیم الشان کارنامہ تھا۔ یہ مسلم امت کو درپیش نازک ترین تاریخی دور میں روبہ عمل لایا گیا تھا۔ اب یہ سب تو ماضی کا افسانہ بن چکا ہے۔

اس زمانے میں دمشق سے مدینہ منورہ کا سفر عموما حجاج اونٹوں پر کرتے تھے، اس سفر میں عموما 2 ماہ لگ جاتے تھے، خاص طور پر موسم حج میں حجاج کا کارواں بہت مسائل اور کٹھن مراحل سے گزر کر حجازِ مقدس جاتے تھے، اس وقت عثمانی سلطان عبدالمجید نے بلادِ مقدسہ کو دمشق سے ملانے کے لیے حجاز ریلوے پر غور و خوض شروع کیا۔ جون سنہء 1901 میں جنوبی اردن میں درعا سے اس کی تعمیر کا آغاز ہوا۔

حجاز ریلوے لائن انجینئرنگ کا ایک مثالی شاہکار تھا۔ اپنے طویل پھیلائو میں وادیاں، پہاڑ، برساتی دریا، ندی نالے، دشت صحرا اتار چڑھائو، گھاٹیاں اور کھائیاں، ان سب میں تواتر و تسلسل کے ساتھ ریلوے لائن بچھانا قابلِ قدر کارنامہ ہے۔ ٹرمینل کی عمارت کا نقشہ ایک بڑے مقدس شہر کے ریلوے اسٹیشن کے طور پر بہت خوبصورتی کے ساتھ بنایا گیا۔ حجاز ریلوے کے باضابطہ افتتاح ستمبر سنہء 1908 تک اس کی صرف ایک منزل تیار ہوسکی تھی۔ راستے میں جگہ جگہ چھوٹے بڑے 76 ریلوے اسٹیشن بنائے گئے۔ 28 اگست سنہء 1908 کو حجاز ریلوے مدینہ منورہ پہنچی۔

سلطان عثمانی خلیفہ عبدالمجید دوئم اور صدر اعظم نے متعدد ملاقاتیں کرکے سلطنت عثمانیہ کی افواج کے کمانڈر کاظم باشا کو حجاز ریلوے منصوبہ کی نگرانی کے فرائض تفویض کئے تھے۔ اس پر عملدآمد کا آغاز سنہء 1900میں کیا گیا تھا اور یکم ستمبر سنہء 1908ءاختتام عمل میں آیا۔ 9 برس تک حجاز ریلوے کام کرتی رہی اور پہلی عالمی جنگ کے دوران بند ہوگئی۔مدینہ منورہ میں حجاز ریلوے اسٹیشن کی عمارت ایسی جگہ بنی ہوئی ہے جس کا سیرت مبارکہ سے گہرا تعلق ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پیغمبر اسلام بدر جانے والے لشکر کا معائنہ کیا تھا اور اس کے بعد سنہء 2 ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا تھا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں مسجد السقیا واقع ہے۔ یہ سلطنت عثمانیہ کے فن تعمیر کی آئینہ دار ہے۔ دمشق سے مدینہ تک ریلوے لائن کی لمبائی 1330 کلومیٹر تھی۔

حجاز ریلوے کے آغاز سے لے کر سنہء 1914 (1332ھ) میں پہلی جنگِ عظیم تک اس پر 45 ؍لاکھ عثمانی گولڈن پونڈ کی خطیر رقم صرف ہوئی۔ پہلی عالمی جنگ نے سنہء 1914 میں یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی شمولیت سے مکہ تک توسیع دینے کے منصوبے مؤخر کرنے پڑے,اس کی ایک بڑی وجہ اس وقت سلطنتِ عثمانیہ کی حالتِ زار، سلطان عبدالحمید ثانی اور ’’انجمنِ جوانِ ترک‘‘ شریف مکہ حسین بن علی، شریف مکہ اور عثمانی ترکوں میں باہمی خلفشار کے عوامل بھی رہے۔ اگست سنہء 1914 میں برطانیہ کے لارڈ کچز کو وزیرِجنگ بنا دیا گیا۔ یہی کچز خلافت عثمانیہ کی تباہی اور برطانوی عمل داری کو روبہ عمل لانے کا مرکزی کردار بنا تھا۔

اس کا ابتدائی آغاز مقام حجاز سے کیا گیا تھا۔ جہاں پوری اسلامی دنیا کی توجہ کا مرکز بنانے کے لیے قرعہ فال حسین بن علی شریف مکہ کے نام نکلا، لارڈ کچز نے شریف مکہ کے نام اپنے پیغام میں عندیہ دیا کہ اب برطانیہ عثمانی ترکوں کے بجائے عربوں کو اسلام کے محافظ کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا ہے۔ برطانیہ نے عثمانی اقتدار کے خاتمے کے بعد حسین بن علی کو پورے بلادِعرب کا بادشاہ بنانے کے لالچ کا وعدہ کیا۔ 9 مئی سنہء 1916 میں برطانیہ اور فرانس نے روس کے ساتھ مل کر ایک خفیہ کنونشن میں طے کیا کہ سلطنت عثمانہ کے حصے بخرے کرکے اس کا شیرازہ منتشر کردیا جائے۔ اسی وعدے کے تحت 10 جون سنہء 1916 کو حسین بن علی نے مکہ، طائف، جدہ اور حجاز کے تمام علاقوں میں بغاوت کا اعلان کردیا۔ اور 16 نومبر سنہء 1916 کو حسین بن علی نے اپنی خودمختاری کا اعلان کردیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کام کے لئے تکنیکی طور پر حجاز میں موجود برطانوی ٹی۔ ای لارنس المعروف لارنس آف عربیہ کی مدد سے ملی اس نے حسین بن علی کو باور کروایا کہ ریلوے لائن تباہ کیے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس مقصد کے لیے برطانیہ سے انہیں سونا، توپیں، گولہ بارود اور چند انگریز مشیروں کو منگوایا۔ آخر کار ریلوے لائن کو پھر باقاعدہ انہی منصوبہ بندیوں کے تحت ڈائنا مائیٹ سے مختلف مقامات سےجگہ جگہ سے اڑا کر ختم کردیا گیا۔ اس وقت ترکی کے اندر بھی سازشوں کا سلسلہ جاری تھا۔ وہاں کمال پاشا اقتدار پر قابض ہوگیا۔ حجاز ریلوے کی تباہی کے ساتھ ہی 24 جولائی سنہء 1924 کو ترکی کی خلافت بھی ختم ہوگئی۔ سعودی عرب کا محکمہ سیاحت و آثار قدیمہ اس تاریخی مقام کو اندرون اور بیرون مملکت سے مدینہ منورہ آنے والے زائرین کا مرکز بنانے کے لئے خاصی غیر معمولی محنت کررہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply