زیر نظر تحریر سید علی عباس جلال پوری کے خرد افروزی پر مشتمل افکار کا خلاصہ ہے۔
مسلم عربوں کو اساطیر اور شاعری کے سوا کوئی فنی اور علمی روایت ورثے میں نہیں ملی تھی، کیوں کہ قبل از اسلام عربوں میں پڑھنے لکھنے کا رواج بہت کم تھا۔ گنے چنے صحابہ کرام لکھ پڑھ سکتے تھے۔ قرطاس کا رواج فتح مصر کے ساتھ عام ہوگیا۔ اس سے پہلے چینی قرطاس کے استعمال سے واقف تھے۔ ابتدائی دور میں مسلمانوں میں ان علوم کا فروغ ہوا جن کا تعلق براہ راست مذہب یعنی قرآن، حدیث اور فقہ سے تھا، اور قرطاس کے بجائے یہ علوم حافظے کی مدد سے نسل در نسل منتقل ہوتے رہے۔ اس دور میں نقل و حفظ روایات کو علم کا نام دیا گیا۔ ان علوم کا تعلق نقل و پیروی سے تھا۔ یہ محدثین کا دور تھا۔
بنو امیہ کے دور حکومت میں علمائے مرجیہ (حاکم طبقہ) اور قدریہ (محکوم طبقہ) کے باہمی علمی مباحثوں اور ذہنی اختلافات کا ایک نتیجہ یہ ہُوا کہ اہل ِ علم کے فکر و تدبر کی صلاحیتیں بیدار ہوگئیں اور مسائل کی تحلیل و توجیہہ میں عقلی استدلال کو بروئے کار لایا گیا۔ محدثین ان رجحانات کے خلاف تھے کہ عقل پر مبنی علوم کی اشاعت سے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوجائیں گے۔ فارس کی فتح کے موقع پر جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایرانی کتب خانوں کے متعلق خط لکھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہدایت کی کہ “ایران کے کتب خانوں کو دریا برد کردیا جائے۔”
بنو امیہ کو عسکری مہمات اور سیاسیات کے علاوہ کسی اور پیشے سے دل چسپی نہ تھی۔ اس دور میں علوم و فنون کی پرورش ایرانی موالیوں کے ہاتھوں ہوئی۔ ابن خلدون کے مطابق: “یہ عجیب واقعہ ہے کہ ملت اسلامی میں اکثر حاملان علم خواہ علوم شرعیہ ہوں یا علوم عقلیہ، بجز چند مستثنیات کے عجمی ہیں۔”
بنو عباس کے دور حکومت میں ایرانیوں کے برسر اقتدار آنے سے علوم و فنون کے دروازے کھل گئے۔ مامون الرشید کے بیت الحکمت کے توسط سے سیکڑوں کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔ علم الکلام کا آغاز ہوا۔ تحقیقی علوم، منطق، الٰہیات، الجبر والمقابلہ، کیمسٹری اور طب کی بنیاد ڈالی گئی۔ حافظے پر مبنی نقلی علوم کے بجائے عقلی علوم کا احیاء ہوگیا۔ مگر دنیائے اسلام میں “اعتزال” کے نام سے خرد افروزی کی یہ تحریک زیادہ دیر تک نہیں چلی۔
اشعری اور حنبلی فقہا کے ایما پر بغداد میں متوکل اور ہسپانیہ میں ابو عامر نے اس تحریک کو کچل ڈالا۔ ١١٤٠ میں خلیفہ المستنجد کے حکم پر بغداد کے کتب خانوں کو نذر آتش کیا گیا۔ ١١٩٢ میں طبیب عبد السلام کو خارج از اسلام قرار دے کر اس کا کتب خانہ بھی نذر آتش کیا گیا۔ ان کتب خانوں میں ابن سینا، اخوان الصفا، ابن ہاشم، ابن الہیثم، فخر الدین بن خطیب، ابن رشد، ابن حبیب الشبیلوی اور دیگر مصنفین کی کتابوں کو نذر آتش کیا گیا۔
امام غزالی نے اشعریوں کی حمایت اور معتزلہ کے خلاف کئی کتابیں لکھیں۔ معتزلہ مصنفین (جو اکثر فلسفی تھے) کو پتھروں سے مارا جاتا تھا یا آگ میں ڈال کر سزا دی جاتی تھی۔ فلسفیوں کو زندیق کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ مغرب میں ابن رشد کی تصانیف نے نشاط الثانیہ میں اہم کردار ادا کیا۔ جب کہ مسلمانوں میں فلسفے کے خاتمے کے ساتھ ساتھ نظری سائنس کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ امام غزالی نے فلسفے کے بجائے تصوف کو اپنا کر فصل و جذب اور حلول و تناسخ کو کردار و عمل پر ترجیح دی۔ امام غزالی نے ابن سینا اور اخوان الصفا کی تکفیر کی تھی۔ ابن تیمیہ اور ابن قیم نے امام غزالی کی تکفیر کی تھی۔ خرد دشمنی کا یہ سلبی رجحان مکاتب و مدارس سے صوفیہ کے خانقاہوں تک پھیل چکا تھا۔ صوفیہ خرد دشمن بن گئے تھے۔ ان کے نزدیک صرف مکاشفہ سے حقیقت کا ادراک ممکن تھا۔ عقل، علم کلام کی کنیز بن گئی تھی۔ تاتاریوں کے خروج نے عربوں کی بساط الٹ دی تھی۔ خلافت عثمانی ترکوں میں منتقل ہوگئی تھی۔ ایرانی اور تورانی (ترک اور افغان) باہمی خانہ جنگیوں میں الجھ کر رہ گئے تھے۔
علمائے سوء اور فقہائے کم سواد شاہان وقت کی کاسہ لیسی میں مصروف تھے۔ تجسّس اور اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا تھا۔ اس دوران میں اہلِ مغرب احیاء العلوم، اصلاح کلیسا، خرد افروزی اور صنعتی انقلاب سے گزر رہے تھے، اور فلسفہ و سائنس کی دنیا میں محیر العقول انکشافات کر رہے تھے۔ مسلمانوں کی تقصیر یہ رہی کہ وہ جدید سائنس اور فلسفہ کو اخذ کیے بغیر اہل مغرب کی مسابقت کا دم بھرنا چاہتے تھے۔ لیکن آزادی فکر و نظر کے بغیر مسلمانوں میں وہ بےپناہ جوش و جذبہ پیدا نہ ہو سکا جو جدید سائنسی موجدین کو پیدا کرسکے۔
گذشتہ کئی صدیوں میں علمی دنیا میں کئی انقلاب پرور ایجادات اور انکشافات کیے گئے ہیں، مگر ان ایجادات میں مسلم دنیا کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے اکابر اور علمائے ظاہر کا علم و فضل چند درسی کتب اور درس نظامیہ تک محدود ہے۔ جدید علوم کی حیرت انگیز فتوحات کے پیش نظر مسلم دنیا کے علوم اور ذرائع علوم تشنہ اور ناکافی ہیں۔ مسلمانوں کی موجودہ معاشرتی و معاشی زبوں حالی اور علمی پس ماندگی کے خاتمے کے لیے علوم جدیدہ کی تحصیل ازبس لازمی ہے۔ علوم جدیدہ کے حصول کے لیے آمریت، موروثیت اور ملوکیت کے بجائے جمہوریت کا فروغ ضروری ہے۔ قرآن کی تفسیر و ترجمانی کے لیے مخصوص اذہان کی اجارہ داری کا خاتمہ اور عقلی تحقیق کا فروغ بھی ضروری ہے۔ علوم و فنون کو کفر و ایمان کے معیار پر جانچنا اور سائنسی علوم کو مشرف بہ اسلام یا مشرف بہ عیسائیت کرنا از حد درجہ حماقت ہے۔ تمام علوم و فنون انسانوں کا ناقابل تقسیم مشترک سرمایہ ہے۔
مسلم دنیا کے لیے ضروری ہے کہ وہ کشف و وجدان کے بجائے عقل و خرد کو اپنا رہنما بنائیں، عقلیت پسندی کو ترویج دیں، سائنس اور فلسفے کو مذہبی تحکم سے نجات دلائیں، مذہبی منافرت اور جنون کا انسداد کریں، انسان دوستی کو فروغ دیں اور سائنسی علوم کی روشنی میں معاشرے کی ازسرنو ترتیب یقینی بنائیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں