فلسطین، یوم نکبہ اور آپریشن میجک کارپٹ۔۔منصور ندیم

آج ۱۵ مئی دنیا کی اس مہذب تاریخ میں ’’یوم نکبہ‘‘ یعنی “تباہی و بربادی کا ایک بڑا دن” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ دن سنہء ۱۹۴۸ کے بعد سے آج تک پوری دنیا میں فلسطین کے رہنے والے اور فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع میں یوم نکبہ کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے، فلسطینی عوام “یوم نکبہ” کو ایک بہت بڑی تباہی اور قیامت کے دن تشبیہ دیتے ہیں، یقیناً اس سر زمین پر بسنے والوں کے لئے یہ دن قیامت سے کم نہیں تھا کہ جب دوسری جگہوں سے آئے ہوئے صہیونیوں نے فلسطین پر قبضہ کیا اور فلسطین کے اصل باشندوں یعنی فلسطینی عربوں کو اس سرزمین سے نکال دیا۔ آج “یوم نکبہ” ۱۵ مئی کو منایا جارہا ہے تاکہ فلسطینی عوام کے ساتھ ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی نا انصافی پراحتجاج کیا جائے ۔

“یوم نکبہ” کی ابتداء کی بنیاد پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد سے شروع ہوئی تھی جب برطانیہ نے فلسطینی خطے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اس وقت تک فلسطین سلطنت عثمانیہ کی حکومت کا حصہ تھا اور برطانیہ کے قبضے کے بعد بھی یہاں پر مقامی عرب اکثریت میں تھے اور یہودی انتہائی قلیل اقلیت میں تھے۔ جب عالمی برادری نے برطانیہ کی ذمہ داری لگائی کہ وہ یہودی کمیونٹی کے لیے فلسطین میں ایک آزاد ریاست بنائیں۔ جسے لے کر یہودیوں اور مقامی عربوں میں تناؤ بڑھنے لگا، سنہء ۱۹۲۰ کی دہائی سے لے کر سنہء ۱۹۴۰ کے دوران یہاں باہر سے آنے والے یہودیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا تھا، ان میں سے کچھ دوسری جنگِ عظیم میں یورپ سے ہولوکاسٹ سے بچ کر آئے تھے۔ یہودیوں کی آمد سے یہودیوں کے ساتھ عربوں کا تصادم بڑھنے لگا۔ اور برطانوی حکومت کے خلاف بھی پرتشدد مظاہرے اور واقعات میں بتدریج اضافہ ہونے لگا تھا۔

یہ صورتحال سامنے آنے کی وجہ سے اقوام متحدہ نے سنہء ۱۹۴۷ میں ووٹنگ کروائی اور ووٹنگ کے ذریعے یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہودی اور عرب خطوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا، ایک حصہ یہودی ریاست ہوگی اور دوسرا حصہ عرب ریاست ہوگی اور یروشلم مع بیت المقدس ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت حاصل کرے گا۔ یہ تجویز یہودیوں کو قابل قبول تھی مگر عربوں نے اسے مسترد کردیا اس لئے یہ قابل عمل نہ ہوسکی۔ چند ماہ بعد صورت حال اس وقت مزید بگڑ گئی جب یمن میں دو مسلمان لڑکیوں کو قتل کیا گیا اور الزام یہودیوں پر لگا۔ پھر فسادات شروع ہو گئے اور یہودیوں پر حملے ہونے لگے، تو دیگر مقامات پر موجود یہودی غیر محفوظ ہو گئے۔ سنہء ۱۹۴۸ میں جب برطانیہ فلسطین سے جارہا تھا، یہودیوں اور عربوں کا مسئلہ کسی بھی حل کے بغیر ویسے ہی موجود تھا اور اسی وقت کا فائدہ اٹھا کر یہودی رہنماؤں نے امریکا کی مدد سے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔

جس وقت یہودی رہنما اسرائیل کی ریاست کا اعلان کررہے تھے وہیں فلسطینی اس کی مخالفت میں جنگ کے لئے تیار تھے، اور بالآخر جنگ شروع ہوگئی اس جنگ میں قریب تمام ہمسایہ عرب ممالک کی فوجوں نے بھی اسرائیل کے خلاف حصہ لیا تھا۔ اس جنگ نے لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر دیا، اور کئی فلسطینی دوسرے عرب ممالک میں پناہ کے لئے چلے گئے،ایہ سال کے بعد جنگ بندی ہوگئی، اور اسرائیل نے زیادہ تر خطے کا کنٹرول سنبھال لیا، اسی جنگ و بربادی اور اپنے اجداد کی زمینوں پر قبضے کے دن کی وجہ سے اسے “یوم نکبہ” یعنی تباہی کا دن کہا جاتا ہے۔ اس جنگ بندی کے بعد اردن نے جو خطہ حاصل کیا اسے West Bank “غربِ اردن” کہتے ہیں، غزہ کی پٹی کا کنٹرول مصر نے سنبھالا، اور بیت المقدس کے مغربی حصے کو اسرائیلی فورسز نے سنبھال لیا جبکہ اردن کی فوج نے مشرق کا کنٹرول لے لیا تھا۔

سنہء ۱۹۴۸ میں اسرائیل کے قیام کے وقت قریباً دس لاکھ یہودی مشرق وسطیٰ، افریقی اور عرب ممالک میں مختلف مقامات پر موجود تھے، جن کو کافی مشکلات کا سامنا تھا۔ اس سے قبل ہی سنہء ۱۹۴۷ میں جب امریکا اور اسرائیلی رہنماؤں نے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا، سنہء ۱۹۴۸ میں اسرائیل کے قیام کے بعد منصوبے کو عملی شکل دینے کے لئے امریکہ اور و اسرائیلی حکام نے یمن کے شاہ سے رابطہ کیا یمن کے شاہ نے اس شرط پر یہودی لے جانے کی اجازت دے دی کہ ان کو لے جانے والے جہاز یمن کی سرزمین پر نہیں اتریں گے بلکہ شہر عدن Aden city سے ملحق ’گیولا‘ نامی ٹرانزٹ کیمپ سے یہودیوں کو اٹھائیں گے جو اس وقت انگریز حکومت کے پاس تھا اور یمن سے قریباً ۳۰۰ کلو میٹر دور تھا۔

اس کے بعد اس خفیہ آپریش کی تیاری شروع ہوئی جس کا نام ’آپریشن میجک کارپٹ‘ (Operation Magic Carpet) تجویز کیا گیا، جسے Operation On Wings of Eagles بھی کہا جاتا ہے، اس کا ہدف یمن سے تمام یہودیوں کو نکال کر بحفاظت اسرائیل پہنچانا تھا، اس منصوبے کے لیے مالی تعاون امریکن جیوئش جوائنٹ ڈسٹری بیوشن کمیٹی نے فراہم کیا۔

چونکہ یہ ایک خفیہ آپریشن تھا اس لیے اس لئے اس کا اعلان نہیں کیا جا سکتا تھا کہ تمام یہودی ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں، جہاں سے ان کو لے جایا جائے گا بلکہ یمنی حکومت کی رضامندی سے ہی کچھ لوگوں کی ڈیوٹی لگائی گئی جن کا کام یہودیوں کو ڈھونڈنا اور ان کو اسرائیل جانے کے لیے تیار کرنا تھا۔ ساتھ ہی انہیں یہ تاکید بھی کرنا تھی کہ کسی کو نہ بتائیں۔ یوں کئی ماہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور اندازے کے مطابق قریباً تمام ہی یہودیوں کو پیغام مل گیا تھا اور وہ تیار ہو چکے تھے۔ اس کے بعد ملک کے مختلف حصوں سے ٹولیوں کی شکل میں لوگ ٹرانزٹ کیمپ کی طرف چلنا شروع ہوئے، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی، چونکہ سواریوں کا انتظام نہیں تھا اور دوسرا چھپ کر بھی جانا تھا اس لیے وہاں پہنچنے والوں کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مصائب اور کئی روز کے سفر کے بعد قافلے ٹرانزٹ کیمپ کے پاس پہنچے تو امریکہ اور اسرائیلی حکومت نے ان کے لئے پہلے سے رہائش، صحت کی سہولتوں، خوراک وغیرہ کا انتظام کر رکھا تھا۔ رضاکاروں کی ڈیوٹی لگائی گئی تھیں، چونکہ ان میں سے اکثریت انتہائی غریب یہودیوں کی تھی اس لیے بیت الخلا اور دوسری سہولتیں ان کے لیے حیران کن تھیں۔

پہلا جہاز اسرائیل جون سنہء ۱۹۴۹ کے آغاز میں پہنچا تو وہاں پر غریب یہودی اس جہاز کو دیکھ کر ڈر گئے تھے اور انہوں نے جہاز پر سوار ہونے سے ہی انکار کر دیا تھا، جنہیں کافی سمجھا بجھا کر سوار کروایا گیا اور یوں پہلا جہاز قریباً ۱۰۰ یہودیوں کو لے کر اڑا اور تل ابیب پہنچا، لوگ اتارے گئے اور پھر جہاز واپس عدن پہنچا، یہ سلسلہ ستمبر سنہء ۱۹۵۰ تک جاری رہا، یہودیوں کو یمن سے اسرائیل پہنچایا جاتا رہا۔ یہ انتہائی خفیہ اور خطرناک آپریشن تھا لیکن اسے اس مہارت سے پورا کیا گیا کہ اس میں ایک انسانی جان تک ضائع نہیں ہوئی۔ اس کے لیے الاسکا ایئرلائنز کے ۲۸ طیارے مسلسل اڑتے اور اترتے رہے اور ۵۰ ہزار افراد کو لے جایا گیا۔ جہازوں کو ایک مہینے میں قریباً ۳۰۰ گھنٹے تک اڑایا گیا حالانکہ امریکہ میں ان جہازوں کی اڑان کی حد ۹۰ گھنٹے تک مقرر ہے۔ لیکن اس وقت کم سے کم وقت میں سب یہودیوں کو یمن سے نکالنا ان کی اولین ترجیح تھی۔ یہ آپریشن مکمل ہونے کے کئی ماہ بعد دنیا کو اس کا علم ہوا۔

اسرائیل پہنچنے والے یہودیوں کو بڑے شہروں کے مضافات میں قائم کیے جانے ٹرانزٹ کیمپوں میں لے جایا گیا جہاں وہ چند ماہ تک قیام پذیر رہے۔ ان کی خوراک کا انتظام حکومت کی جانب سے کیا جا رہا تھا۔ پھر ان کو زرعی علاقوں میں منتقل کر دیا گیا جہاں کچھ نے کھیتی باڑی شروع کی، جب آنے والے یہودیوں کی معاشی صورت حال بہتر ہوتی گئی تو ان میں سے کئی دوسرے اور بڑے شہروں کی طرف منتقل ہو گئے۔ جہاں زندگی کے دوسرے شعبوں میں ان کو مواقع دیے گئے۔ تعلیم اور آگے بڑھنے کے بھرپور مواقع دیے گئے اور ووٹ کا حق بھی مل گیا، آپریشن میجک کارپٹ کی کامیابی کے بعد اسرائیلی حکومت نے دنیا کے دیگر حصوں سے بھی یہودیوں کو اسرائیل لانے کا منصوبہ بنایا اور بعد ازاں کئی آپریشنز ہوئے۔ عراق سے ایک لاکھ بیس ہزار یہودیوں کو ایئرلفٹ کیا گیا جنہیں ہوائی جہازوں کے ذریعے اسرائیل لے جایا گیا۔ اسی طرح سنہء ۱۹۸۴ میں سوڈان کے مہاجر کیمپ میں موجود ۸۰۰۰ ایتھوپین یہودیوں کو اسرائیل لے جایا گیا۔ سنہء ۱۹۹۱ میں اسرائیلی جہازوں نے صرف ۳۶ گھنٹوں کے اندر ۱۵۰۰۰ ایتھوپین یہودیوں کو اسرائیل منتقل کیا۔ اس طرح چند سال کے عرصے میں قریباً ۱۰ لاکھ یہودی اسرائیل پہنچے۔

نتن یاہو کی موجودہ حکومت میں بھی ۳ دسمبر سنہء ۲۰۲۰٫ کو ایتھوپیا سے یہودی نسل کے ایتھوپین کی اسرائیل کی سرزمین پر واپس لوٹنے کے لئے آنے والی پہلی فلائٹ کے ۳۱۶ مسافروں نے اسرائیل کی سرزمین پر قدم رکھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو ایتھوپیا کے کیمپوں میں زندگی گزار رہے تھے، ایک عرصے سے ایتھوپیا کے کیمپوں میں رہنے والے وہ یہودی کمیونٹی جو وہاں پر “Falash Mura” کے نام سے جانے جاتے تھے ، جنہوں نے بھوک، پریشانیوں، اور ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لئے یہودیت مذہب ترک کرکے عیسائیت کو قبول کیا تھا، مگر اس کے باوجود انہیں ایتھوپیا میں شناخت کا مسلہ رہا، اور ایک عرصے سے ہونے والی اسرائیلی تدابیر سے آخر کار پچھلے کچھ عرصے سے ۲۰۰۰ ایتھوپیائی یہودیوں کو بالآخر اسرائیل کی سرزمین پر بلائے جانے کا عمل شروع کیا۔ ایتھوپیا یہودیوں کے Falash Mura کمیونٹی کے ۱۶٫۶۰۰ تارکین وطن نے اسرائیل کے لئے درخواستیں جمع کروائی تھیں، جن میں سے فی الوقت دوہزار کی منظوری ہوئی اور پہلے ۳۱۶ افراد کے بعد ۴ دسمبر ۲۰۲۰ کو بھی ۱۰۰ افراد پہنچے اور جنوری سنہء ۲۰۲۱ کے اواخر تک یہ دو ہزار افراد اسرائیل پہنچ گئے، انہیں اسرائیل نے شہریت کے تمام بنیادی حقوق بھی دئیے ہیں۔ اسرائیل نے اپنے ہم مذہب ایتھوپیائی یہودیوں کے لئے یہ کارنامہ تو انجام دے دیا کہ جنہیں بد حالی، معاشی تنگ دستی، اور شناختی مسائل کا سامنا ایک زمانے سے تھا۔ اور آج بھی اسرائیل کا ایک ادارہ رضاکارانہ طور پر اس حوالے سے اب بھی کام کر رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر جن کے اجداد کا یہ وطن تھا، انہیں آج وہاں بنیادی انسانی حقوق بھی میسر نہیں ہی۔ بلکہ یہی ریسکیو کرکے لائے جانے والے یہودی اب ان فلسطینیوں کے ساتھ جو ظلم روا رکھے ہوئے ہیں اور جس طرح ان کے گھروں کو مسمار کرکے قبضہ کررہے ہیں، یہ آج کی مہذب دنیا میں ایک جنگی جرم ہے، حالیہ چند دنوں میں جہاں تیں اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے ہیں، وہیں اسرائیلی بمباری اور فائرنگ سے ۱۲۲ فلسطینی بھی اپنی جان دے چکے ہیں۔ آج کے مہذب دنیا میں اسرائیلی جارحیت اور تشدد کے خلاف کوئی موثر آواز بھی نہیں ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply