• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آزاد کشمیر میں جاری عوامی تحریک اور آزاد کشمیر حکومت کی غیر سنجیدگی/قمر رحیم

آزاد کشمیر میں جاری عوامی تحریک اور آزاد کشمیر حکومت کی غیر سنجیدگی/قمر رحیم

بڑھتی ہوئی مہنگائی نے پاکستان کی کم و بیش چالیس فیصد آبادی کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے۔ لوگوں کے لیے دو وقت کی خشک روٹی مہیا کر نا بھی دشوار ہو گیا ہے۔لوگ اپنے زیورات تک بیچ کر بجلی کے بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ اب ان کے پاس تن کے کپڑوں اور معمولی گھریلو سامان کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچا جسے بیچ کر وہ بجلی کے بل ادا کر سکیں۔ کرنسی کی قیمت پچھلے ایک سال کے دوران سو فیصد گرگئی ہے۔ مہنگائی کی شرح تیس فیصد سے اوپر ہے۔یوں تنخواہ دار طبقہ کی تنخواہ قدر کے اعتبار سے آدھی رہ گئی ہے۔ کاروبار روز بروز سکڑ رہا ہے جس کی وجہ سے بیروز گاری میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک کروڑ ستر لاکھ نوجوان بیروز گار ہیں۔ معاشی اعتبار سے پاکستان اپنی تاریخ کے سیاہ ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس صورتحال کی ذمہ دار پاکستان کی قیادت ہے۔دراصل یہ قیادت نہیں لٹیروں کا گروہ ہے جو اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے۔

آزادکشمیر پر ان حالات کا براہ راست اثر پڑتا ہے۔نہ صرف یہاں کی معیشت بلکہ سیاست، معاشرت،تعلیم،صحت، غرضیکہ ہر شعبہ ہائے زندگی پراس کے برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہاں نجی سطح پر چھوٹی موٹی دوکانداری کے علاوہ کوئی کاروبار نہیں ہے۔جس کے باعث لوگوں کی اکثریت بیرون ملک ہجرت پر مجبور ہے۔لیکن اس کے باوجود مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ تعلیم یافتہ اور بہترین صلاحیتوں کے حامل کئی لاکھ نوجوان بیروز گاری کا شکار ہو کر نشے کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ حالانکہ آزاد کشمیر کا یہ چھوٹا سا علاقہ وسائل سے مالامال ہے۔ لیکن یہاں کا حکمران طبقہ پاکستان کے حکمران طبقہ سے زیادہ نااہل، جاہل اور خود غرض ہے۔

گذشتہ کئی ماہ سے بجلی کے بلوں میں ہوش ربا اضافوں کے خلاف اورآ ٹے پر سبسڈی کی بحالی کے لیے چلنے والی تحریک نے پورے آزاد کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے۔ پچھلے دو ماہ سے لوگوں نے بجلی کے بل جمع کرانا بند کر دیے ہیں۔ ماہ اگست میں پونچھ اور میرپور ڈویژن نے اوسطاً چالیس فیصد بل جمع کروائے جبکہ ستمبرمیں پورے آزاد کشمیر سے تقریباً پندرہ فیصد بل جمع ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ30اگست کو مظفرآباد ڈویژن میں جبکہ5 ستمبر کوپونچھ اور میرپور ڈویژن میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال ہوئی۔ ان دونوں دنوں میں صورتحال یہ تھی کہ کوئی گاڑی سڑک پر آئی نہ شٹر کھلا۔ البتہ وزیر اعظم آزاد کشمیر کے شہر بھمبر میں کچھ دکانیں کھلوائی گئیں۔ آزاد کشمیر کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں لوگوں نے دھرنے دے رکھے ہیں۔ لوگوں کے کئی ایک مطالبات میں سے چند بڑے مطالبات یہ ہیں:

1۔آزاد کشمیر جہاں سے تقریباً چا ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے اس کی اپنی ضرورت صرف چار سو میگا واٹ ہے۔ یہ بجلی یہاں کے لوگوں کو پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کے مابین ہونے والے معاہد کے مطابق مفت فراہم کی جائے۔
2۔آٹے پر سبسڈی دی جائے۔
3۔آزاد جمو ں کشمیر بنک کو شیڈول بنک کا درجہ دیا جائے۔
4۔بیرون ملک مقیم کشمیریوں کا اربوں ڈالر کا زر مبادلہ کو آزاد کشمیر میں ٹور ازم سمیت مختلف انڈسٹریز لگانے میں صرف کیا جائے۔ اور نوجوانوں کو روزگار کے لیے قرضہ جات بھی فراہم کیے جائیں۔تاکہ یہاں پر بیروز گاری کا خاتمہ ہو سکے۔
5؛پینے کے صاف پانی، سیوریج اور روڈز کے انفراسٹریکچر کو تعمیر کیا جائے۔
6؛حکومتی عہدیداروں، سابقہ صدور، ججز، وزیروں اور بیوروکریسی کی بے تحاشہ مراعات کو فی الفور ختم کیا جائے۔
7:حکمران اپنی عیاشیوں کو ختم کر کہ عوام کی بہتری کے لیے کام کریں۔

ان میں سے کوئی ایک بھی مطالبہ ناجائز نہیں ہے۔ مفت بجلی کی فراہمی کا مطالبہ بھی پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کے مابین ہونے والے اس معاہدے کی روشنی میں کیا جارہا ہے جو منگلا ڈیم کی تعمیر کے وقت ہوا تھا۔ لیکن اس میں اتنی گنجائش نکالی جا سکتی ہے کہ پیداواری لاگت اور ترسیل کے اخراجات کے ساتھ بجلی کی یونٹ کا ریٹ مقرر کیا جائے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر کے مطابق پن بجلی کی پیداواری لاگت 2.58روپے ہے۔ اس میں ترسیل کے اخراجات بھی اگر شامل کر دیے جائیں تو بھی بجلی کی فی یونٹ قیمت چند روپوں سے اوپر نہیں جاتی۔وزیر اعظم آزاد کشمیر نے پاکستان کی سینیٹ کی فنانس کمیٹی میں آزاد کشمیر کے لوگوں کی درست ترجمانی تو کی۔ لیکن وہ آزاد کشمیر میں چلنے والی عوامی حقوق کی تحریک کو درست انداز میں ایڈریس کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ چند دن پہلے انہوں نے پونچھ ڈویژن کے صدر مقام راولاکوٹ کا دورہ کیا۔ اس سے کچھ امید بر آئی تھی کہ وہ عوامی تحریک کے تینوں ڈویژن کے نمائندگان کو مذاکرات کی دعوت دیں گے اور ساتھ ہی اس بات کا اعلان بھی کریں گے کہ ہم مل بیٹھ کر ان مطالبات کو زیر غور لائیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ بلکہ ان کے جانے کے فوری بعدمظفرآباد، راولاکوٹ اور دیگر شہروں پر پولیس نے پرامن دھرنوں پر دھاوے بولنا شروع کر دیے۔ کئی ایک کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ مظفرآباد میں عوام پر لاٹھی چارج، شیلنگ کی گئی اور ایک انتہائی پرامن اور سویلائزڈ تحریک کو تشدد کے راستے پر ڈالنے کی پور ی کو شش کی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ تحریک کے قائدین نے کمال محنت، فہم و فراست کا ثبوت دیتے ہوئے عوام کو ابھی تک پر امن رکھا ہو ا ہے۔ جبکہ دوسری طرف حکومت انتہادرجہ کی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق راولاکوٹ میں بھی پولیس ایکشن اور تحریک کو کچلنے کے معاملے میں انہوں نیمقامی قیادت جن میں پیپلز پارٹی،جموں کشمیر پیپلز پارٹی یا ن لیگ کو اعتماد میں نہیں لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیا وزیر اعظم بتا سکتے ہیں کہ وہ آزاد کشمیر کے حساس خطے کو انارکی کی طرف کیوں لے جانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے راولاکوٹ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیر بھی رہ چکے ہیں، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئر مین، اسپیکر، صدر اور اب وزیر اعظم بھی۔اب اور مجھے کیا چاہیے۔ اب تو تابوت ہی اٹھنا ہے۔ کیا وزیر اعظم بتا سکتے ہیں کہ وہ اپنی تقاریر میں جس دانش، فہم و فراست اور وژن کا اظہار کر رہے ہیں، متذکرہ بالا عہدوں پر رہتے ہوئے انہوں نے ناخن برابر بھی اسٹیٹس کو کو توڑنے اور بہتری لانے کی کوشش کی ہے۔ بھاشن دینے والے وزیر اعظم صاحب شاید بھول رہے ہیں کہ اپنے عوام کو فتح کرنے والے حکمرانوں کے تابوت میں ان کا اعمال نامہ بھی ساتھ جاتا ہے۔اگر ان کا رویہ یہی رہا تو تاریخ عوامی تحریکوں کو کچلنے والے حکمرانوں کو جو تمغات عطا کرتی ہے اس میں ان کا حصہ بھی ہوگا۔ طاقت کے بل بوتے پر سانڈ جیتا کرتے ہیں لیڈر اور عوامی نمائندے نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply