• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کنٹونمنٹ بورڈ کے ٹیکسز میں معذور افراد کیلئے کوئی رعائیت نہیں؟-ثاقب لقمان قریشی

کنٹونمنٹ بورڈ کے ٹیکسز میں معذور افراد کیلئے کوئی رعائیت نہیں؟-ثاقب لقمان قریشی

آج ایک ماہ کے وقفے کے بعد لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ وقفے کے دوران بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ دھوکے، ناانصافیاں اور ذیادتیاں برداشت کرنا پڑیں۔ مسائل کو ایک ایک کر کے قلم بند کرنے کی کوشش کرونگا۔ امید کرتا ہوں کہ آنے والی تحریروں سے معذور افراد کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ ان مسائل پر شائد پہلے کبھی نہیں لکھا گیا۔
اگر ہم بازار میں بکنے والی مختلف اشیاء پر لاگو ٹیکسز کا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ ہم بعض اشیاء پر پچیس، بعض پر اٹھارہ، کسی چیز پر بارہ فیصد سیلز ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ لیکن ضروریات زندگی کی بعض چیزوں جیسا کہ آٹا، چینی، دودھ وغیرہ پر کم سے کم سیلز ٹیکس کیوں وصول کیا جاتا ہے؟ اسی طرح بجلی کے دو سو یونٹس سے کم کے صارفین کیلئے رعائیت کیوں ہے، کم آمدن والے افراد کیلئے ٹیکس کی شرح کیوں کم رکھی جاتی ہے؟ سرکاری یونیورسٹیوں میں کم سہولیات والے علاقوں کے طالب علموں کیلئے سیٹیں کیوں رکھی جاتی ہیں؟ نوکریوں میں پسماندہ علاقوں کا کوٹہ کیوں رکھا جاتا ہے؟ خواتین کیلئے آسان قرضے، نوکریوں میں حوصلہ افزائی کیوں کی جاتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ

ان ساری چیزوں کے پیچھے ایک سائنس کام کر رہی ہے جس کا مقصد متوازن معاشرہ تشکیل دینا ہے۔ متوازن انسانی معاشرے میں طاقتور، کمزور امیر غریب سب کو آگے بڑھنے کے مواقعے یکساں فراہم کیئے جاتے ہیں۔ ذیادہ آمدن والے افراد، عیاشی کی اشیاء پر ذیادہ ٹیکس، عام آدمی کی ضرورت کی چیزوں پر کم ٹیکس، بیماری کی صورت میں استعمال ہونے والی اشیاء پر صفر یا کم سے کم ٹیکس کا مقصد سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔

اسی طرح معذور افراد کیلئے یونیورسٹیوں میں سیٹس، نوکریوں میں کوٹے، ٹرین اور بسوں میں آدھے کرائے، ٹیکسز میں چھوٹ وغیرہ کا مقصد معذور افراد کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ راولپنڈی کنٹونمٹ بورڈ ملک کا سب سے اہم کنٹونمنٹ ہے کیونکہ جی-ایچ-کیو راولپنڈی میں واقع ہے۔ یہاں کے عملے نے گزشتہ بارہ سالوں سے میری زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔

ہمارے معاشرے میں جن گھروں میں معذور، بیوہ یا یتیم بچے ہوں وہاں بڑوں کی کوشش ہوتی ہے کہ انکی زندگی آسان بنانے کیلئے انکے نام کوئی گھر، فلیٹ یا دکان کر دی جائے تاکہ انکا گزر بسر آسانی سے چلتا رہے اور یہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔ میں کم آمدن کی وجہ سے شادی نہیں کر رہا تھا۔ مرحوم والد صاحب نے میری شادی کروا کر ایک پانچ مرلے کا گھر دلا دیا۔ تاکہ اسکے کرائے سے میرے اخرجات پورے ہوتے رہیں۔ گھر خریدنے کے بعد میں نے اسے کنٹونمٹ بورڈ میں رجسٹررڈ کروایا تو کنٹونمنٹ کا عملہ ٹیکس کا لمبا نوٹس لے کر میرے پیچھے پڑ گیا۔ جن کا کہنا تھا کنٹونمنٹ بورڈ کے قانون میں معذور افراد کیلئے کوئی رعائیت نہیں۔ پھر کسی نے مشورہ دیا کہ زکوٰت کمیٹی کے صدر کے دستخط سے درخواست بھجوائیں۔ یہ عمل ہر سال اسی طرح دہرانہ ہے۔ 2014ء میں کنٹونمنٹ کے ڈپٹی چیف سے ملا انھیں سارا ماجرا بتایا۔ انھوں کہا کہ آپ باہمت جوان ہیں کنٹونمنٹ کا عملہ آپ سے بھر پور تعاون کرے گا۔ لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں۔ میں ہر سال فقیروں کی طرح زکوٰت کمیٹی کے صدر کو ڈھونڈتا اس سے درخواست پر دستخط رکرواتا پھر محلے کے کسی بندے کے ہاتھ یہ درخواست کنٹونمنٹ میں جمع کروا دیتا۔

خیر 2018ء میں کنٹونمنٹ بورڈ سے نوے ہزار روپے ٹیکس کا نوٹس ملا۔ محلے کے ایک شخص کو کنٹونمنٹ بھیجا کہ یہ گھر معذور شخص کا ہے تو جواب ملا کہ ہمارے قانون میں معذوروں کیلئے کوئی رعائیت نہیں۔ میں نے کنٹونمنٹ کے چیف کو ایک خط لکھا جس میں سارے معاملات کا ذکر کیا۔ مجھے کنٹونمنٹ سے کال آئی کہ آپ کا ٹیکس معاف کر دیا گیا ہے۔ اگلے سال پھر 26  ہزار روپے کے ٹیکس کا نوٹس آگیا۔ میں نے تنگ آ کر ٹیکس جمع کروا دیا۔ یہ سلسلہ تین سال یونہی چلتا رہا۔ نومبر 2022ء میں ایک اضافی ٹیکس کا نوٹس ملا جس میں لکھا تھا کہ میرا مکان پانچ مرلے سے تھوڑا ذیادہ ہے اسلیئے مجھے چھبیس ہزار جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ ایک شخص مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر کنٹونمنٹ لے گیا۔ ممبر کنٹونمنٹ کو باہر لایا اس نے مجھے دیکھا۔ کاغذ لے کر گیا اور کہنے لگا کہ اب مجھے اضافی ٹیکس نہیں ملے گا۔ چند روز قبل کنٹونمنٹ سے اڑسٹھ ہزار روپے ٹیکس کا نوٹس ملا ہے۔ میں نے اپنے کرائے دار سے درخواست کی کہ آپ بات کرکے آئیں۔ وہ بات کرنے گیا تو جواب ملا کہ قانون میں معذورں کیلئے کوئی رعائیت نہیں ہے۔

میں گھر کا واحد کفیل ہوں۔ بچے ابھی چھوٹے ہیں۔ ٹیکسی پر دفتر آتا جاتا ہوں۔ جس کا کرایہ بارو سو روپے روزانہ بنتا ہے۔ ٹیکسی والے ویل چیئر نہیں رکھتے اس لیے دفتر اور گھر میں الگ الگ ویل چیئر رکھی ہوئی ہیں۔ کہیں جانا ہو تو ویل چیئر کیسے لے کر جاؤں۔ پھر ایک آدمی کی ضرورت ہوتی ہے جو مجھے مطلوبہ مقام تک لے کر جائے اس لیے میں دفتر کے علاوہ کہیں نہیں جاتا۔ مکان میں کوئی کام نکل آئے تو عذاب بن جاتا ہے۔ ویل چیئر کے ساتھ مزدور ڈھونڈنا، سامان خریدنا اور کھڑے ہو کر کام کروانا میرے لیئے نہایت مشکل ہے۔ میرا مکان ہائیرنگ پر ہے کنٹونمنٹ کے کاغذوں میں جو کرایہ درج ہے جس کے حساب سے ٹیکس لگتا ہے۔ حقیقت میں، میں اس کرائے سے بہت کم کرایہ وصول کرتا ہوں۔ مارکیٹ کے مطابق کرایہ لونگا تو کرائے دار جلد گھر خالی کر دیں گے۔ نیا کرائے دار کون ڈھونڈے گا؟ اس ڈر سے کرایہ نہیں بڑھاتا۔ بیمار ہوں بھی جاؤں تو بیماری سے بڑا مسئلہ ہسپتال آنے جانے کا ہوتا ہے۔ اپنے تمام مسائل ایک درخواست کی شکل میں، میں نے راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ کے سی-ای-او کو لکھ بھیجے ہیں۔

حیرت کی بات ہے کہ کنٹونمنٹس نے معذور افراد کے حوالے سے کوئی واضح  پالیسی کیوں اختیار نہیں کی۔ میں کنٹونمنٹ سے بھیک تو نہیں مانگ رہا جو میں زکوٰۃ  کمیٹیوں کے صدور کے دفتروں کے چکر لگاتا رہا ہوں۔ ٹیکس میں چھوٹ معذور افراد کا بنیادی انسانی حق ہے جس سے انھیں محروم کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

معذور افراد کے مسائل کچھ فرق کے ساتھ ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اس لیئے میں نے اپنے مسئلے کو بلاگ کی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔ معذور افراد کے نمائندے کی حیثیت سے میری ملک کے تمام کنٹونمنٹس کے سی-ای-اوز سے گزارش ہے کہ معذور افراد کے حوالے سے اپنی پالیسیز کو نرم اور واضح کریں۔ ٹیکس اور پراپرٹی کے لین دین میں ہمیں خصوصی رعایت فراہم کی جائے۔ کسی بھی مسئلے کی صورت میں ہمیں دفتر بلا کرذلیل کرنے کے بجائے ہمارے گھر آکر ہم سے بات کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری خواہش ہے کہ کنٹونمنٹس کی حدود میں بننے والی تمام ہاؤسنگ سکیموں میں ہمارے لیئے بھی خصوصی پلاٹ رکھے جائیں۔ کنٹونمنٹس میں بننے والے تمام تجارتی مراکز میں ہمارے لیئے بھی دکانیں رکھی جائیں۔ کنٹونمنٹس میں قائم تمام سرکاری اور پرائیویٹ دفاتر میں کم از کم ایک معذور فرد کو بھرتی کرنا لازمی قرار دیا جائے۔ کنٹونمنٹ کے انفراسٹرکچر کو معذور افراد کیلئے قابل رسائی بنایا جائے۔ ہماری تجاویز پر عمل کرتے ہوئے کنونمنٹس کو ملک اور دنیا کیلئے مثال بنایا جاسکتا ہے۔ معذور افراد ملک کی آبادی کا بیس فیصد ہیں۔ انھیں ترقی کے دھارے میں شامل کیئے بغیر کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply