• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کالے دھن کو سفید بنانے کا کا لا قانون۔۔۔۔۔۔۔اعظم معراج

کالے دھن کو سفید بنانے کا کا لا قانون۔۔۔۔۔۔۔اعظم معراج

ایک ایسا ملک اور قوم جو ایک ریسرچ کے مطابق 73فیصد بلیک معیشت پر چل رہی ہو جہاں پچھلے 45سال سے انڈسٹری کو چلانے یا پیدواری  قومی صلاحیت بڑھانے کیلئے کوئی جامع اور طویل المعیاد کوشش ہی نہ کی گئی ہو بلکہ ہر طرح کی اشرافیہ نے ڈنگ ٹپاؤ ،لوٹواور پھوٹو جیسے عیارانہ بلکہ مجرمانہ رویوں اور طریقوں سے ملک چلانے کی کوشش کی ہوتو ،وہاں اگر رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کا حجم بڑھتا جائے اور اس میں لگے سرمائے میں سفید دھن کی  زیادہ سے  زیادہ 10فیصد (بلکہ کئی ٹرانزکشن ،سودوں میں یہ مقدار ٹوٹل ٹرانز کشن کا ایک فیصد تک بھی ہوتا ہے)ایسے شاندار کالے معاشی ماحول میں عالمی سطح پر 9/11جیسا دنیا تبدیل کرنے والا سانحہ بھی ہوجائے اور اشرافیہ (ہر طرح ) کی چھوڑ کر باقی عام آدمی کیلئے دیار غیر بھی محفوظ نہ رہے ہوں تو رئیل اسٹیٹ کا حجم بڑھتے بڑھتے اگر آسمان کو چھونے لگے تو کوئی حیرانگی کی بات نہیں۔ ایسے معاشی ماحول میں اس بہتی گنگا بلکہ بہتے دریا (کیونکہ گنگا سے ذہن میں چھوٹی سی رومانوی ندی کا تاثر  آتا ہے)میں ہر طرح کی اشرافیہ نے بڑھ چڑھ کر ہاتھ دھوئے ہیں ۔بلکہ کئی ایک نے تو کپڑوں سمیت ڈبکیاں لگا لگا کر پوتر اشنان کیے  ہیں ۔

ہاتھ دھونے اور ڈبکیالگانے کا یہ معاشی پروگرام جاری وساری ہی رہتا لیکن بُرا ہو ااس جنگ کا جو پچھلی ایک دہائی سے ہم پر مسلط رہی ہے۔اس جنگ کے شروع میں تو ہمیں انداز نہیں ہو ا لیکن دن بہ دن اس جنگ کی وجہ سے ہماری قومی معیشت کا حجم  گھٹتا جارہاہے اور ہمارا ملک قرضوں میں جکڑاہوا ہے ۔لیکن انفراد ی سطح پر اپنی اپنی ذات میں ہم بل گیٹس اور وارن بوفٹ کا مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں ۔اب یہ جنگ اپنے آخری فیز میں داخل ہو چکی ہے اور اس کی کمان بھی خوش قسمتی سے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو اُس کے ہر پہلو پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔جس میں سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قوموں کی جنگ جینے کی استعداد کیلئے اور بہت سارے عناصر کے ساتھ ساتھ مضبوط قومی معیشت کا ہونا بھی ضروری ہے ۔اب پتہ نہیں کسی سیانے کے کہنے پر یا اس جنگ میں شامل کسی دوسرے بلکہ واحد فریق ادارے کے سمجھانے پر یا پھر دوسرے بہت سارے حکومتی مسائل سے توجہ ہٹانے یا واقعی ہی نیک نیتی سے اس ملک کی معیشت کو سنوارنے کیلئے ( آخری مفروضے کے صحیح ہو نے کے امکانات نہایت ہی کم ہیں ) غرض کسی بھی وجہ سے آج سے تقربیاً 8دن پہلے وزیر خزانہ نے فنانس بل 2001 ء مالیاتی بل میں ترمیم پاس کروائی جس میں اس بات پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے کہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں بڑھتے ہوئے کالے دھن کو کم کرنے کیلئے اب جائیداد کے لین دین میں جائیداد کی قیمت کا تعین اسیٹ بینک کے مقرر کردہ ویلیوایٹرزکریں گے ۔

اس سے پہلے یہ کام صوبائی حکومتوں کی مقرر کردہ قیمتوں پر ہوتا ہے جو کہ مارکیٹ پرائس سے بہت کم ہو تا ہے ۔رئیل اسیٹ کا حجم کا اوراس مارکیٹ میں کالے دھن کا حجم بڑھنے کی ایک وجہ حکومتی مقرر کردہ قیمت اور مارکیٹ کی قیمت کا یہ فرق بھی بڑا عنصر ہے ۔اس سے پاکستانی ڈاکومنٹڈ معیشت (Documented Economy) کو شدید طرح کے خطرات لاحق ہو گئے ہیں ۔(یہ علیحدہ بات ہے کہ جن حضرات کی وجہ سے یہ خطرات پیدا ہوئے ہیں اب وہی ان کو ٹھیک کر نے کی کوشش کریں گے ) ہم کتنے سادہ ہیں کہ اُنہی عطار کے لونڈے سے دواکی اُمیدکررہے ہیں جن کے سبب سے ہماری یہ معیشت بیمارہوئی ہے (میر سے معذرت کے ساتھ ،اب جب سے یہ اعلان ہوا ہے ۔رئیل اسٹیٹ کے بظاہر نظر آنے والے اسٹیک ہو لڈ ( Visible Steak Holder) بلبلا اُٹھے ہیں (کیو نکہ اس سارے کھیل کی اصل اسٹیک ہولڈ تو ہماری ہر طرح کی اشرافیہ ہے ) ۔اور ہماری اشرافیہ کا کیا کہنا ہے بلکہ میری تو انکے بارے میں یہ سوچی سمجھی رائے ہے
ع: میری قوم کی جو وجہ افلاس ہے
میری اشرافیہ کا وہ ذریعہ معاش ہے ۔

اس غصے میں بظاہر اسٹیک ہولڈ اس کالے دھن کو سفید کر نے اور پاکستانی معیشت کو بہتر کر نے کی کوشش کو کالا قانون کہہ رہے ہیں جب ریاست اور حکومت اس کوشش کو کالے دھن کو سفید کرنے کی کوشش کا نام دے رہی ہے (ریاست ،حکومت اور شہریوں کی سوچوںمیں اتنا   تضاد کہ ایک کا سفید دوسرے کا کالا نظر آتا ہے ۔شاید اس میں بھی قصور پالیسی سازوں کا ہی ہے )اس سارے معاملہ کو دیکھتے ہوئے لگتا ایسا ہے کہ نہ تو مالیاتی بل میں ترمیم کر نے والوں نے اس قانون پر عملدآمد کروانے کیلئے کوئی جامع منصوبہ بندی کی ہے اور نہ ہی جو اس کے بظاہر شکار ہو نے والے اسٹیک ہولڈ ز ( اسٹیٹ ایجنٹس اور بلڈرز )اس قانون کی زد میں آنے والے حقیقی لوگ تو رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والے اور بلڈرز حضرات ہیں کیونکہ اسٹیٹ ایجنٹس تو بلڈرز کا مال بیچے یا سرمایہ دار کی سرمایہ کاری کروائے دونوں صورتوں میں اپنی خدمات بیچتا ہے ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان بھر میں رئیل اسٹیٹ ایجنٹ ہی اس قانون پر سب سے  زیادہ اعتراض    کر رہے ہیں ۔ اس مالیاتی ترمیمی بل کو کاؤ نٹر کرنے کیلئے کوئی جامع اور ٹھوس اقدام تجاویز کررہے ہیں جس سے پاکستانی معیشت میں بہتری بھی آئے اور اس پیشے سے منسلک افراد کے مفادات کا بھی تحفظ ہوسکے۔اب تناؤاور ٹکراؤ کی ایسی صورتحال ہے کہ ایک فریق (اسٹیٹ ایجنٹس اور بلڈرز ) سمجھ رہے ہیں کہ یہ دوسرا فریق (حکومت ) ہمارے روزگار کو تباہ کر نا چاہتا ہے ۔اور دوسرا فریق (حکومت) یہ سمجھتی ہے کہ یہ چوروں ،کرپٹ ،نوکر شاہی ،اسمگلروں ،اور لوٹ مار کر نے والے سیاست دانوں غرض ہر طرح کی معاشی دہشت گردی کرنے والے عناصر کے فرنٹ مین بن کر ان کے مفادات کیلئے احتجاج کررہے ہیں ۔دونوں فریقوں کے پاس اپنے موقف کے لئے دلائل ہیں مثلاً  اسٹیٹ ایجنٹس اور بلڈرز حضرات یہ سمجھے ہیں کہ اس کالے قانون سے مارکیٹ ٹھپ ہوجائے گی۔(یہ میں مضمون میں ربط پیدا کرنے کیلئے لکھ رہا ہوں حقیقتاً وہ سب یہ سمجھتے ہیں کہ جس قانون سے بھی مارکیٹ بیٹھ جائے وہ قانون   کالا ہو تا ہے چاہے  وہ قانونِ فطرت ہی کیوں نہ ہو۔)رئیل اسٹیٹ منڈی سے وابستہ افراد کا یہ ایک نقطہ نظر ہے کہ اس مارکیٹ میں گردش کرنے والے سرمائے کا ایک بڑا حصہ تعمیراتی شعبے میں چلا جاتا ہے جس سے تقریباً 48 صنعتوں کا پہیہ  چلتا ہے جبکہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اِن تعمیراتی یونٹوں میں بھی کالا دھن رکھنے والے سرمایہ داروں کے داخل ہوجانے کی وجہ سے تعمیرات کے شعبے کے مثبت ثمرات دُکان، مکان خریدنے والے عام آدمی تک پہنچنے کی بجائے پہلے اِن مال پیٹ حضرات اور کالا دھن رکھنے والوں کو ہی ملتے ہیں اور اِس شعبے سے عام آدمی کی  اپنی چھت، اپنا گھر جیسے خواب خواب ہی رہ گئے ہیں۔

اسی طرح سرمایہ داروں اور اِن کے فرنٹ مین  اور اُن کی دیکھا دیکھی اسٹیٹ ایجنٹس حضرات ایک نقطہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس سے سرمایہ ملک سے پرواز کرجائے گا جبکہ حکومت سمجھتی ہے کہ کالے دھن والا ملک کی محبت میں نہیں بلکہ زیادہ نفع کے لالچ میں یہاں سرمایہ کاری کررہا ہے۔ لہٰذا گوروں ،عربوں یا بنگالیوں کو جو ٹیکس دینا ہے وہ یہیں دے۔
(جبکہ کالے دھن والے کا مائنڈ سیٹ کچھ شریکوں کو فائدہ نہ پہنچانے کا ہے چاہے کسی کیکر یا کھجور کی وجہ سے اُن کا بڑا نقصان ہی ہو جائے۔)
اسی طرح حکومت سمجھتی ہے کہ رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں کالے دھن کی مقدار تقریباً 90فیصد  تک ہے جبکہ اس مارکیٹ کے بڑے ثمرات سے فائدہ اُٹھانے والے استدلال ہوسکتا ہے کہ جب ہماری ساری ملکی معیشت ہی 77فیصد کالے دھن پر مبنی ہے تو یہ سرمایہ اُسی معیشت سے کمزور حکومتی و ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے اس منڈی میں آیا ہے۔ اس منڈی نے کالا دھن پیدا نہیں کیا بلکہ کالے دھن نے اس منڈی کو بگاڑا ہے جو کہ حکومتی نااہلی کا نتیجہ ہے نہ کہ اس منڈی کا، اور اگر اس منڈی میں کچھ سفید دھن کالا ہوا ہے تو وہ بھی انسانی فطرت کے عنصر لالچ اور حکومتی و ریاستی نااہلی کی وجہ سے ہوا ہے۔ لہٰذا پوری معیشت کو سفید کرنے کیلئے بہت سارے انقلابی اقدام اُٹھانے ہوں  گے نا  کہ ایک منڈی کو ہی پکڑ لیں۔

اسی طرح کے  سینکڑوں اور نقطہ نظر کو سمجھنے کیلئے ہم اس قانون کے بنائے جانے کے محرکات اور اُس کی وجوہات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ وفاقی حکومت کا یہ خیال ہے کہ ایک اندازے کے مطابق رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں تین ہزار ارب کا کالا دھن گردش کررہا ہے جس کی وجہ سے دوسری پیداواری صنعتوں کا پہیہ رُک گیا ہے کیونکہ سرمایہ دار کو جہاں زیادہ منافع ملتا ہے اور اُس کے سرمائے کو تحفظ ملتا ہے وہ وہیں جاتا ہے۔ لہٰذا دوسری صنعتوں سے بھی سرمایہ نکل نکل کر رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں آگیا ہے۔ (اس کی ہزاروں اور بھی وجوہات ہوسکتی ہیں، مثلاً حکومتوں کی نااہلی، جس میں عام شہری کی جان و مال کی حفاظت جیسی بنیادی ذمہ داری سے لے کر ریاست کے ذمہ اسی طرح کی ہزاروں ذمہ داریاں پوری نہیں ہوئیں۔ لہٰذا پاکستانی معاشرہ اور معیشت دونوں ہی شتر بے مہار ہوگئی ہیں۔)اور ہر شعبے میں ریاستی اداروں اور حکومتی اہلکاروں (بہت ادنا سے انتہائی اعلیٰ سطح تک کے) کی زیر سرپرستی ایسے معاشی و معاشرتی دہشت گرد عفریت پیدا ہوگئے ہیں جو اَب ریاست، حکومت، آئین اور قانون کو اپنا غلام سمجھتے ہیں اور انہوں نے اس کمزور حکومتوں و ریاستی اداروں اور بیمار معاشرے و معیشت کی وجہ سے اپنے لاکھوں حمایتی بھی بنا لیے   ہیں۔ لہٰذا ایسی صورتحال میں کسی بھی اس طرح کی ایسی کوشش جس سے ایسے حضرات کے مفادات پر ضرب پڑتی ہو، کو وہ بڑی آسانی سے ذاتی مفاد کو قومی مفاد بنادیتے ہیں۔ لہٰذا ایسا کوئی بھی قانون بڑے جامع اور مؤثر طریقے سے ہی نافذ کیا جاسکتا ہے۔ اس قانون کو بنانے کا سب سے بڑا محرک وفاقی حکومت کے پاس یہ ہے کہ صوبائی حکومتوں کی مقرر کردہ زمین جائیداد کی قیمتوں اور منڈی کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق آچکا ہے۔ اس فرق کو ختم کرنے کیلئے حکومت نے فنانس ایکٹ 2001 میں یہ ترمیم کی ہے۔ منڈی کی قیمت اور حکومتی مقررکردہ قیمت کو سمجھنے کیلئے ہم سندھ حکومت کی مثال دیکھتے ہیں۔

ویلیوشن ٹیبل، ڈی سی ویلیو، کلیٹریٹ ویلیو یا گورنمنٹ ویلیو کسی بھی غیر منقولہ جائیدا دکی وہ ویلیو ہو تی ہے جو ہر صوبائی حکومتی اپنی حد میں آنے والی زمین کا تعین کرتی ہے ۔سندھ حکومت نے پہلی ویلیو شین ٹیبل 11نومبر 1986 ء کو پہلی بار متعارف کروایا۔ اس سے پہلے زمین جائیداد کی قیمت کا تعین حکومتی اہلکار ہی کیا کرتے تھے اور حکومتی اہلکار کیونکہ انسان ہوتے ہیں، لہٰذا ہر پاکستانی کو زمین خریدتے بیچتے وقت اُن کی انسانیت کے تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایسے تقاضے پورے کرنے کے ماحول میں یہ ویلیوشن ٹیبل متعارف کروانابڑا مؤثر اقدام تھا اور اس سے رجسٹرار اور انکم ٹیکس کے دفاتر میں ایک ہی طرح کا قیمت کا نظام واضح ہوا۔ اس ویلیو شین ٹیبل کی روح سے کراچی(جسکی قیمتوں میں اضافے کے طوفان نے وفاقی حکومت کو مالیاتی بل 2001ء میں ترمیم لانے پر مجبور کیا ہے) کو 6کیٹیگریز میں بانٹ دیا گیا تھا۔ نومبر 2000 ء تک کراچی 6کیٹیگریز میں ہی رہا ۔نومبر2000ء میں سندھ کی بیوروکریسی نے اس چھ کیٹگریز میں ایک کا اضافہ کیا ۔(اگر اس ٹیبل پر محنت کی جاتی تو لاہور جو کہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کراچی سے آدھا ہے وہاں تقریباً 1200کیٹگریز ہیں)میرا خیال ہے اگر اس ٹیبل کو ہر مالیاتی سال کے اختیام پر تبدیل کیا جاتا تو یہ منڈی کی قیمت اور سرکاری قیمت میں انتا فرق پڑتا ہی نہ ۔لیکن اس ٹیبل کوپچھلے 30سال میں صرف اوسطاً11دفعہ ہی تبدیل کیا گیا جو کہ ایک مجرمانہ غفلت تھی اور بلکہ ایک مجرمانہ حرکت یہ کی گئی کہ جن ادوار میں کسی بھی وجہ سے رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں کئی گنا اضافہ ہوا مثلاً  پچھلے 6سال میں جہاں زمین جائیداد کی قیمتوں میں ہو شربا اضافے ہوئے ان ادوار میں اس ٹیبل کو بالکل چھیڑاہی نہیں گیا اب اس میں یقیناًاسٹیٹ ایجنٹس حضرات کا کوئی قصور نہیں اور میرا خیال ہے کہ منڈی کی قیمت اور صوبائی حکومتوں کی مقررکردہ قیمت کے فرق کا کم و بیش ہر صوبے میں یہی صورتحال ہے۔

1۔ وفاقی حکومت کو چاہیے  کہ اگر انہوں نے اس قانون کو بناتے ہوئے اس قانون پر عمل در آمد کروانے کا کوئی جامع منصوبہ بنایا ہے تو اُس کو متعلقہ اسٹیٹ ہولڈرز یعنی اس قانون کی زد میں آنے والے متعلقہ افراد جن کا روزگار اس قانون کی زد میں آرہا ہے وہ سرمایہ دار تعمیراتی شعبے سے وابستہ افراد اسٹیٹ ایجنٹس وغیرہ ہوسکتے ہیں، کو اپنے صوبائی ،ڈویژن، ضلع، تحصیل حتیٰ کہ یوسی سطح پر بھی ریاستی عناصر یعنی اس شعبے سے متعلقہ افسران کے ذریعے اپنا مکمل منصوبہ پیش کرے تاکہ پورے پاکستان میں اس منڈی میں سرمایہ کاری کرنے والے اور انسانی ضرورت کی اس بنیادی جنس یعنی زمین جائیداد کے آخری صارف بلڈنگ، مکان، دُکان، فیکٹری یا کسی بھی قسم کی عمارت خریدنے بیچنے اور بنانے والے پاکستانیوں میں اس قانون کے بارے میں سن کر جو افرا تفری اور دہشت کی فضا قائم ہوئی ہے اُس کو نارمل کیا جائے۔ (اگر اس قانون کو سو فیصد نیک نیتی اور بہتر منصوبہ بندی سے نافذ کیا جائے تو ایک عام آدمی کو اس سے فائدہ ہو۔)

2۔اب اگر حکومت سندھ نے یکم جولائی 2010ء سے اس ٹیبل کو اپ ڈیٹ نہیں کیا تو یہ ذمہ داری حکومت سندھ کے فہم وفراست اور مالیاتی معاملات کے ماہر سیاسیدانوں  اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوکر شاہی بیوروکریسی کی لاپرواہی کی سزا اسٹیٹ ایجنٹس حضرات کو کیوں دی جارہی ہے ۔

3۔ حکومت کو چاہیے کہ اس تقریباً 30 سال کے منڈی اور حکومتی مقررکردہ قیمت کے فرق کو 3 سے 5 سالہ پروگرام کے تحت بتدریج ختم کرے، مثلاً اگر آج حکومتی قیمت اور منڈی کی قیمت میں کسی بھی رہائشی و کمرشل زمین جائیداد کے یونٹ میں 90فیصد کا فرق ہے تو اس 90فیصد کو 3 یا 5 سال پر تقسیم کرکے اور ساتھ ہی سالانہ شرح نمو کو بھی اس میں شامل کرکے بتدریج بڑھایا جائے۔ اس سے یہ فرق 3 یا 5 سال میں مٹ جائے گا اور اس سے سرمایہ داروں اور اُن کے فرنٹ مینوں اور اسٹیٹ ایجنٹس (اِن دونوں میں بہت واضح فرق ہے)، بلڈرز اور تعمیراتی شعبے سے وابستہ دوسرے افراد میں بے چینی اور افراتفری کم ہوگی۔ باقی معاشی دہشت گردوں کیلئے وہی حکمت عملی اپنائی جانی چاہیے  جو بندوق بردار دہشت گرد کیلئے ہے۔

4۔ایک اوربڑا اعتراض جو اس بل پر اسٹیٹ ایجنٹس کو ہو سکتا ہے کہ اگر صوبائی حکومتوں کے مقرر کردہ ریٹ پر پٹواری یا رجسٹرار رجسٹری کرے گا تو مالیا تی سال کے آخرمیں یہ زمین بیچنے اور خریدنے والا اپنے ٹیکس گوشواروں میں اس کو اسی قیمت پر ڈکلیئر کرے گا جو کہ  یقیناً منڈی کی قیمت سے کم ہو گی تو پھر ویلیو ایٹر حضرات پرانی قیمت کو کالعدم قرار دے دیں گے ۔ تو پھر کیا واپس جا کر پھر اسٹمپ ڈیوٹی اور حکومتی ٹیکس نئی شرح سے بھرنے پڑیں گے یا پھر رجسٹری کرتے ہوئے ہی پٹوارخانوں اور رجسٹر ار آفس میں ہی رشوت کے بھانبڑ نہیں جل اُٹھیں گے کیونکہ رشوت کے بازار تو کئی دہائیوں سے ہی گرم ہو ہو کر تپ چکے ہیں ۔

5۔ایک اور بڑا اعتراض زمین جائیدار میں سرمایہ کاری کرنے والوں اور ٹیکس ادا کرنے والوں کی طرف سے ہے کیا پہلے ہی سے ٹیکس ادا کر نے والوں کو نچوڑ نچاڑ کر خانہ پوری کی جائے گی یا واقعی یہ کوئی سنجیدہ کوشش ہے اور ٹیکس نیٹ بھی بڑھایا جائے گا (جس میں اب تک یہ حکومت بُری طرح ناکام رہی ہے )

6۔اٹھارویں آئینی ترمیم کا کارنامہ انجام دیتے ہوئے اپنے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر صوبہ کے معروضی حالات کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور اس طرح کی سچویشن کا ادارک نہیں کیا گیا اور اب اگر خُدا نخوستہ مالی معاملات کی وجہ سے ٹکرؤا کی صورتحال پیداہوئی تو وفاق اور کمزور نہیں ہو گا ۔

7۔اس قانون کا اطلاق 2006ء سے کیا جارہا ہے کیا اس سے جو حضرات ان بہتے دریاؤں میں پوتر اشنان کر کے جا چکے ہیں ان کو بھی ریڈ ورنٹ جاری کرکے انہیں  انٹرپول کے ذریعے واپس لایا جائے گا یا یہ جو بیوقوف دریا میں سیلاب آنے کے باوجود نہا رہے ہیں انہیں ہی پکڑا جائے گا ۔

8۔کھرب پتیوں کیلئے تو پانامہ والوں نے ٹیکس فری ہیون بنائے ہوئے تھے اگر صوبائی حکومتوں کی نااہلی اور سستی کی وجہ سے پاکستان میں ارب پتیوں اور کڑور پتیوں کیلئے رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کی صورت میں ٹیکس فری ہیون وجود میں آگئی ہے تو اسے کیوں ختم کیا جارہا ہے ۔

9۔لوگ اس بات پر بھی پریشان ہیں کہ اس کا اطلاق صرف سرکاری حدود میں آنے والی زمینوں پر ہی ہو گا یا ریاست کے اندر آنے والی ریاسی اداروں کی سرپرستی میں وجود میں آنے والی پرائیویٹ ہاوسنگ سوسائٹیوں کو بھی اس نیٹ میں لایا جائے گا ۔(کیونکہ ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں کیلئے سارے وسائل اور زمین توحکومت پاکستان کی ہی استعمال ہو رہی ہے )۔لہٰذا اس قانون کا اطلاق ان پر بھی کسی جامع منصوبہ بندی کے ذریعے ہو گا یا یہ سارا کھیل رچایاہی ان کے کاروبار کو بڑ ھانے کیلئے ہے کیونکہ بہت سارے پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان کے بہت سارے اعلیٰ عہدیدار، بہت ساری پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں شراکت دار ہیں، اسی لئے وہ ہر طرح کے زمین جائیداد کے متعلق حکومتی ٹیکسوں اور فیسوں سے مستثنیٰ ہیں اور زمین جائیداد کی خریدوفروخت کے قوانین کو سخت کرکے اس منڈی کے سرمایہ کاروں کو ہانکا لگا کر اُن کی معاشی شکار گاہوں میں تو نہیں دھکیلا جارہا ہے؟ لہٰذا جن قوانین کی آڑ میں وہ حکومت کے اربوں کھربوں کے ٹیکس بچانے میں اپنے سرمایہ داروں کی مدد کررہے ہیں، اِن قوانین کا بھی بغور جائزہ لے کر اُنہیں سخت اور مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔

10۔کیا کالے دھن کو پکڑنے  کیلئے باقی سارے چینل بھی استعمال کیے جائیں گے مثلاً موٹروہیکل آفس،بینک اکاؤنٹ یا یہ کرم نوازی صرف رئیل اسٹیٹ والوں کیلئے ہی ہے ۔

11۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارا ملک ہر سطح پر مضبوط انتظامی ڈھانچہ رکھتا ہے (گو کہ ہمارے جمہوری آمر اور آمر جمہورے اسے تباہ کرنے کےدرپے ہیں) لہٰذا صوبائی ڈویژن ضلعی ، تحصیل ٹاؤن ، اور یوسی سطح کے انتظامی افسران اور منتخب سیاسی لوگوں مقامی اسٹیٹ ایجنٹوں ، تعمیراتی شعبے سے وابستہ لوگوں کی انجمنوں اور سرمایہ داروں کے تعاون سے اس ٹیکنالوجی کے دور میں بہت اچھا شفاف اور انصاف پر مبنی ویلیوشن ٹیبل بنایا جا سکتا ہے، اسی  طرح پٹوار خانوں ، تما م رجسٹر ار آفس کو صحیح استعمال کر کے ٹیکس نیٹ بھی بڑھا یا جا سکتا ہے۔

12۔ سب سے آخر میں اس کالے دھن کو سفید کرنے کا قانون بنانے والوں سے التماس ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی سستی (نرم ترین لفظ یہ ہی ہو سکتا ہے) جن کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اچھے پاکستانیوں کا سفید دھن کا لا ہوا ہے ان کو واپسی کا کوئی راستہ (ایمنسٹی) ضرور دیں۔چونکہ چند ہزار معاشی دہشت گردوں کو پکڑنے کے چکر میں پوری قوم کو ہراسا ں نہ کریں۔

13 ۔ اگر حکومت واقعی ہی پٹوار خانوں اور رجسٹرار کے دفاتر اور ایف بی آر کے اہلکاروں کے  ذریعے معیشت کو سفید کرنے چلی ہے اور اُن کی نیت بھی دُرست ہے تو پھر پٹوار، رجسٹرار اور ایف بی آر کے علاوہ اور ہزاروں ریاستی اہلکاروں کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے، مثلاً ٹریفک پولیس کو ہی متحرک کرنے سے بے تحاشا  کالے دھن کو ملکی معیشت میں شامل کیا جاسکتا ہے کیونکہ جہازی سائز کی بے تحاشا  سڑکوں پر دوڑنے والی گاڑیاں بھی زیادہ تر کالے دھن ہی کے ثمرات کا نتیجہ ہیں۔ (ہاں! یہ علیحدہ بات ہے کہ اُن کے آگے پیچھے جو ریاستی لشکر اُن کے تحفظ کیلئے ہٹو بچو کا شور مچا رہے ہوتے ہیں، پہلے اُنہیں اُن کے حصار سے نکالنا پڑے گا۔)

اس صورتحا ل میں اسٹیٹ ایجنٹس حضرات کی نمائندہ انجمنوں کو چاہیے  کہ وہ اس افراتفری اور بے چینی کے ماحول میں معیشت دانوں ،ٹیکس ایڈوائزروں سے نشستیں رکھیں اور اس مالیاتی بل کے ہر طرح کے اثرات کو سامنے رکھ کر اپنے ذاتی اور قومی مفادات کو سامنے رکھ کر اس پر تجاویز تیارکریں اور پھر ان تجاویز سے وزارت خزانہ کو بھی آگاہ کیا جائے اور ساتھ ہی میڈیا کو بھی اس پر اعتماد میں لے کر اپنے اور قومی مفادات کے دونوں پہلوؤں سے آگاہ کیا جائے تا کہ اس اہم معاشی مسئلے کا ہر پہلو عام پاکستانی کے سامنے بھی آئے ۔ساتھ ہی وفاقی حکومت کو بھی اس بات پر بھی قائل کیا جائے کہ وہ صوبائی حکومتوں کو اس بات پر مجبور کرے کہ ویلیوشین ٹیبل کو اپ دیٹ کیا جائے اس سے اس طرح کے بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ساتھ ہی وفاقی حکومت کو چاہیے  کہ ہر طرح کے اسٹیک ہولڈ ز کو آن بورڈ لے کر اس کالے دھن کو سفید کرنے والے میکزم کو بہتر سے بہتر بنائے تاکہ کوئی بھی پاکستانی اس کو کالا قانون نہ کہہ سکے ۔اب اگر یہ مالیاتی بل اس طرح کے سیکٹروں اور نکات کو ذہن میں رکھ کر بنایا گیا ہے پھر تو یقیناًیہ ملک اور قوم کی معیشت کیلئے اچھاہی ہو گا کیونکہ دھن سفید کر نے والا قانون کالا نہیں ہو سکتا ۔لیکن اسحاق ڈار صاحب کا پچھلا ٹریک ریکارڈ ( اس میں 42صفحات کے بیان حلفی کی طرف اشارہ قطعی نہیں کیونکہ وہ اپنے پیشہ ورانہ کیرئیر میں اور بھی کئی معاشی کارنامے انجام دے چکے ہیں ۔ہماری بیور وکریسی کی نا اہلی ،کم علمی اور سب سے بڑھ  کر بد نیتی اور ہماری 69سالہ تاریخ میں ایسے قومی اور  حساس معاملات میں اپنائے گئے رویے اور ایسے مسائل کو حل کر نے کیلئے عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے وہ لطیفہ یاد آتا ہے ’’ایک صاحب نے دعویٰ کیا کہ میں شراب چکھ کر بتا سکتا ہوں کہ یہ کونسی شراب ہے اور کب اور کہاں کشید کی گئی‘‘ اُس کے اس دعوے کے بعد اس کے قصبے والوں نے اس دعوے کو جھٹلانے کیلئے قصبے کے چوراہے میں ایک محفل سجائی ۔ایک پنڈال سجایا گیا اور ان صاحب کی آنکھوں پر پٹی باندکر اُن کے سامنے میز پر مختلف برانڈ ز کی شراب رکھ دی گئی ۔اور پھر اُسے ایک ایک گھو نٹ شراب دی جانےلگی یہ صاحب گھونٹ بھرتے اور ساتھ ہی بتا دیتے مثلاً  یہ واڈکا ،1960ء میں روس میں فلا ں شہر میں کشید ہوئی ۔اس طرح انہوں نے ہر برانڈ چکھ کرٹھیک ٹھیک شراب کانام ،کب اور کہاں کشید ہوئی بتا دیا ۔سارے برانڈ چکھ چکھ کر یہ صاحب موڈ میں بھی آچکے تھے منتظمین کو شرارت سوجھی اور انہوں نے اُنہیں سادہ پانی کا گھونٹ دیا  ۔یہ  صاحب نے پانی چکھ کربہت دیر سوچتے رہے اور پھر نشیلی آواز میں بولے ’’یارو میں ہار مانتا ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دوں کہ یہ کمپنی چلے گی نہیں ۔‘‘

میری دُعا ہے کہ کسی بھی پاکستانی کے جائز روزگار کو نقصان پہنچائے بغیر ملک وقوم کے مفاد میں مالیاتی ترمیمی بل 2001 ء کا یہ آرڈیننس چلے کیو نکہ اس وقت ملک اور قوم کو درپیش اندرونی اوربیرونی خطرات بہت زیادہ ہیں لہٰذا ہمیں ہر طرح کے ذاتی مفادات ،تعصبات سے بالا ترہو کر سوچنا ہو گا ۔

اس مضمون کے لکھے جانے تک حکومت سندھ نے اپنے ویلیوشن ٹیبل میں 20% کا اضافہ کردیا ہے، یعنی صوبہ سندھ کے شہر کراچی کے ایک محلے ڈیفنس فیز 8 میں جو پلاٹ پچھلے 6 سال سے 1650 روپے گز تھا وہ 1815 روپے گز ہوگیا ہے۔ لہٰذا وفاقی حکومت کو مبارک ہو کہ اُن کے ڈر سے حکومت سندھ نے ویلیوشن ٹیبل میں بے تحاشہ اضافہ کردیا ہے اور سرمایہ دار حضرات کو ڈر جانا چاہیے  کہ پورا 20% اضافہ ہوگیا ہے۔ ہاں! یہ مت پوچھیے گا کہ وہاں پلاٹ کی قیمت اوپن مارکیٹ میں کیا ہے؟ کیونکہ یہ حکومت سندھ کے وزیر خزانہ اور اُن کے پڑھے لکھے سیکریٹری خزانہ ، ممبر ریوینیو اور دوسرے ایسے ہی سرکاری بابوؤں کے دینے کے جوابات ہیں جنہوں نے یقیناًبہت عرق ریزی سے اِتنا گراں قدر اضافہ کیا ہوگا۔

قارئین محترم12جولائی 2016کو مجھے یقین تھا کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی لیکن آج 25جون 2019 حکومت بلکہ وزیراعظم کی (پولیٹیکل ول) سیاسی نیت دیکھتے ہوئے مجھے شک ہے یہ کمپنی چل جائے گی کیونک پانی میں کچھ اصلی مال مل گیا۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اعظم معراج ریئل اسٹیٹ کے شعبے سے وابستہ ہیں کئی کتابیں لکھ چکے ہیں جن میں پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کاکاروبار” ،شناخت نامہ،شان سبز وسفید اور دھرتی جائے کیوں پرائے ،نمایاں ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply