بدن (59) ۔ سخت جان/وہارا امباکر

ہم کتنے بڑے ہو سکتے ہیں؟ اس کے پیچھے بھی سطح کا قانون کارفرما ہے۔ ہالڈین نے ایک صدی پہلے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ اگر انسان کا قد اتنا ہو جتنا “گلیور کے سفر” کے دیووں کا ۔۔ جو کہ سو فٹ ہے ۔۔ تو اس کا وزن 280 ٹن ہو گا۔ یہ عام انسان سے 4600 گنا زیادہ ہے۔ اس کی ہڈیوں کو تین سو گنا موٹا ہونا پڑے گا، تا کہ بوجھ سہار سکیں۔ ہم موجودہ سائز کے اس لئے ہیں کہ ہم اسی سائز کے ہو سکتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جسم کے سائز کی حد پر بڑا اثر گریویٹی کا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ اگر ایک چیونٹی اونچی سطح سے گرتی ہے تو بغیر کسی چوٹ کے وہ اپنی راہ چلتی رہتی ہے۔ اس کی وجہ اس کا سائز ہے (اصل میں یہ سطح اور حجم کا تناسب ہے)۔ اور یہ بات کسی حد تک ایک مختلف سکیل پر انسانوں پر بھی سیکھی جا سکتی ہے۔ ایک بچہ جس کا قد آپس ے نصف ہے، اگر گرے تو اسے لگنے والی چوٹ کا اثر 32واں حصہ ہو گا۔ اور یہ وجہ ہے کہ بچے گر کر اٹھتے رہتے ہیں۔
بالغ لوگ اتنے خوش قسمت نہیں ہوتے۔ عام طور پر ہم پچیس یا تیس فٹ سے زیادہ کی بلندی سے گر کر بچ نہیں پاتے لیکن بچ جانے کے کئی حیرت انگیز واقعات ہیں۔ ان میں سے ایک نکولس آلکمیڈ تھے۔
دوسری جنگِ عظیم میں 1944 کی سردیوں میں یہ بمباری کے مشن پر گئے اور جہاز دشمن کے نشانے پر آ کر دھویں اور آگ سے بھر گیا۔ پیچھے بیٹھے والے بندوقچی جگہ کی تنگی کی وجہ سے پیراشوٹ نہیں پہنتے تھے۔ جب تک وہ پیراشوٹ تک پہنچے، اسے آگے لگ چکی تھی اور ناکارہ ہو گیا تھا۔ انہوں نے جہاز سے چھانگ لگا دی۔ اس وقت وہ زمین سے تین میل اوپر تھے۔
آلکمیڈ کہتے ہیں کہ “بہت خاموشی تھی۔ صرف فاصلے پر جہازوں کے انجن کی آواز تھی۔ اور مجھے محسوس ہو رہا تھا جیسے میں فضا میں معلق ہوں۔ عجیب بات ہے کہ کچھ خوف نہیں تھا۔ سکون کی کیفیت تھی۔ مجھے افسوس تھا کہ میں مرنے لگا ہوں لیکن اسے قبول کر لیا تھا۔ میرے پیشے میں لوگوں کے ساتھ یہ ہوتا ہے”۔
آلکمیڈ اونچے درختوں کی شاخوں سے ٹکرائے اور پھر برف میں جا گرے۔ ان کا گھٹنا سوج گیا اور جسم پر خراشیں آئیں لیکن اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
آلکمیڈ کے ایڈونچر کا یہی اختتام نہیں تھا۔ جنگ کے بعد انہوں نے کیمیکلز کی فیکٹری میں ملازمت ملی۔ کلورین گیس پر کام کرتے ہوئے ان کا ماسک اتر گیا اور وہ خطرناک لیول تک زہریلی گیس سونگھ کر بے ہوش ہو گئے۔ پندرہ منٹ تک بے ہوش پڑے رہے جب کسی نے انہیں نوٹ کیا اور وہاں سے نکال لیا۔ معجزاتی طور پر زندہ بچ گئے۔ اس سے کچھ عرصے کے بعد پائپ پر کام کرتے ہوئے پائپ پھٹنے سے سر سے پیر تک گندھک کے تیزاب کا سپرے ہو گیا۔ جسم جل گیا لیکن جان بچ گئی۔ واپس آئے تو ان پر بلندی سے نو فٹ لمبا دھات کا کھمبا گر گیا جس میں وہ پھر بال بال بچ گئے۔ انہوں نے مزید خطرہ لینا مناسب نہ سمجھا اور ملازمت ترک کر دی۔ اور فرنیچر کی دکام پر سیلزمین کا محفوظ کام شروع کر دیا۔ ان کی وفات اپنے بستر پر 64 سال کی عمر میں ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسمان سے گر کر بچ جانے کے واقعات کئی دوسرے بھی ہیں۔ (نہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بچ جانے پر بھروسہ کر سکتے ہیں لیکن یہ توقع سے زیادہ بار ہوتا ہے)۔ 1972 میں یوگوسلاو ائیر کا جہاز فضا میں دو ٹکڑے ہو گیا۔ اس وقت یہ 33000 فٹ کی بلندی پر تھا۔ اس کے عملے کی ویسنا وولووچ گرنے کے بعد زندہ بچ گئیں۔
مین ہٹن میں 2007 میں اونچی عمارت کے شیشے صاف کرتے وقت پلیٹ فارم ٹوٹ جانے سے 472 فٹ کی بلندی سے دو بھائی نیچے گرے۔ ایک کا فوری انتقال ہو گیا جبکہ دوسرے بھائی آلسیڈے مورینو معجزاتی طور پر بچ گئے۔ انسانی جسم کئی بار حیرت انگیز حد تک سخت جان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سخت جانی کا کوئی چیلنج نہیں جس سے جسم نپٹ نہ چکا ہو۔ کینڈا میں ایریکا نورڈبے ایک چھوٹی بچی تھی جو سردی کی رات میں صرف ڈائپر اور قمیض میں ملبوس تھی۔ گھر کا پچھلا دروازہ ٹھیک بند نہیں تھا۔ وہ اس سے نکل گئی۔ جب گھنٹوں بعد وہ ملی تو اس کا دل بند ہوئے دو گھنٹے گزر چکے تھے۔ مقامی ہسپتال میں اسے بڑی احتیاط سے گرم کیا گیا اور معجزاتی طور پر اسے زندگی واپس مل گئی۔ اس نے مکمل طور پر ریکوری کی۔ اور اس سے صرف دو ہفتے بعد وسکونسن کے کھیت میں ایک دو سالہ بچے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور مکمل صحت یابی ہوئی۔ جسم مرنا بالکل بھی نہیں چاہتا۔
بچے سخت سردی کو سخت گرمی کے مقابلے میں بہتر برداشت کر لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ کہ ان کے پسینے کے غدود مکمل طور پر ڈویلپ نہیں ہوئے ہوتے۔ اور یہ وجہ ہے کہ اگر گرمی میں انہیں بند گاڑی میں چھوڑ دیا جائے تو ان کے زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ گاڑی کے اندر کا درجہ حرارت باہر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو سکتا ہے اور بچے اس میں زیادہ وقت نہیں برداشت کر سکتے۔ پچھلے بیس سال میں امریکہ میں غلطی یا بے توجہی سے گرم گاڑی میں چھوڑ دئے جانے والے بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد 800 ہے جن میں سے اکثریت وہ ہے جن کی عمر دو سال سے کم تھی۔
ہمارے سخت جان جسم کی بہت سے حدود ہیں۔ اگرچہ کئی بار حیرت انگیز طور پر ناقابلِ یقین حالات میں زندہ رہنے کا کمال دکھا سکتا ہے، لیکن دانشمندی یہی ہے کہ اس والی صلاحیت کا امتحان نہ ہی لیا جائے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply