لیون ٹراٹسکی اور قومی سوال(حصّہ دوم)۔۔پارس جان

مارکسی بین الاقوامیت

تعصب، ہٹ دھرمی اور بہتان تراشی سٹالنسٹوں کے بنیادی خواص ہیں۔ انتہائی ڈھٹائی سے وہ ٹراٹسکی پر بیہودہ الزامات لگاتے چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ گردان قارئین نے کشمیر سے لے کر کوئٹہ تک مبینہ طور پر ”پڑھے لکھے“ سٹالنسٹوں اور قوم پرستوں سے بارہا سنی ہو گی کہ ٹراٹسکی کے قومی سوال کے مرتد ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ بین الاقوامیت کی بات کرتا ہے۔ اس کا نظریہ ’مجرد‘ ہے اور وہ کسی بھی خطے یا قوم کے ٹھوس معروضی حالات کو یکسر فراموش کر دیتا ہے۔ سٹالنسٹوں کی سیاسی بددیانتی کا کھلم کھلا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب وہ ٹراٹسکی کے بین الاقوامیت کے تصور کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ ٹراٹسکی کہتا تھا کہ دنیامیں کسی ایک ملک میں انقلاب آ ہی نہیں سکتا بلکہ بیک وقت پوری دنیا میں انقلاب آنا چاہیے۔ یہ بات کسی سیاسی نظریہ دان تو کجا کسی عام سطحی ذہنیت کے حامل شخص کی فہم و فراست کے بھی منافی ہے۔ کوئی شخص جو رتی برابر بھی عقل اور شعور رکھتا ہو، وہ ایسا سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔ اور ٹراٹسکی جیسے عظیم المرتبت شخص کی طرف سے ایسی دقیانوسیت کا کوئی سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔ سٹالن چونکہ خود انتہائی اوسط ذہن کاشخص تھا، اس کے ماننے والے جہالت میں اس سے بھی کئی ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔ وہ درحقیقت جدلیات کی ابجد سے اتنے نابلد ہیں کہ مجرد اور ٹھوس کے تعلق کو سمجھنے کے اہل ہی نہیں ہو سکتے۔ ٹراٹسکی عالمی معیشت کے ایک کُل کے اجزا کے طور پر قومی معیشتوں کی نسبتی خود مختاری سے ہرگز انکاری نہیں تھا مگر کُل کی فیصلہ کن برتری کو تاریخی ترقی کے منطقی لازمے کے طور پر سمجھتا تھا۔ اس کی بین الاقوامیت کوئی نیا تصور بالکل بھی نہیں ہے بلکہ مارکس، اینگلز اور لینن کے تصور کی ہی تفسیر ہے۔ بلکہ لینن نے اس موضوع پر کئی جگہ ٹراٹسکی سے بھی کہیں آگے بڑھ کر دو ٹوک اور واشگاف لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔ یہ تما م اساتذہ معیشت اور سفارتکاری کی معروضی عالمگیریت سے بین الاقوامیت کے نظریئے کی لازمیت کو کشید کرتے تھے نہ کہ اس کے الٹ۔ لینن اور ٹراٹسکی نے بیسیوں بار وضاحت کی کہ قومی حدود میں مکمل سوشلزم کی تعمیر مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ یہ مارکسزم کی معراج نہیں بلکہ ابجد ہے۔ مارکسزم اپنی انتہا میں نہیں بلکہ اپنے آغاز میں بین الاقوامی ہے۔ آئیے ٹراٹسکی کو بولنے دیتے ہیں:

”وہ معاشی ترقی جس نے انسانیت کو قرونِ وسطیٰ کی محدود علاقائیت سے نکالا، قومی سرحدوں پر رک نہیں سکی۔ قومی معیشتوں کی تشکیل کے متوازی عالمی تبادلے کی بڑھوتری بھی ہوتی رہی۔ ترقی یافتہ ممالک میں ترقی کی کسی بھی شرح پر، ترقی کے اس رجحان نے اپنا اظہارکشش ثقل کے مرکز کو قومی سے بیرونی منڈی میں منتقل کرتے ہوئے کیا۔ انیسویں صدی کی تاریخ قومی مقدر کے معاشی زندگی کے ساتھ منسلک ہو جانے کی تاریخ ہے۔ لیکن ہماری صدی کا بنیادی رجحان قومی اور معاشی زندگی میں مسلسل بڑھتے ہوئے تضاد کا رجحان ہے۔۔۔الٹرا ماڈ رن معاشی قوم پرستی کی تباہی اس کے اپنے رجعتی کردار کے ہاتھوں اٹل اور ناگزیر ہے۔ یہ انسانیت کی پیداواری قوت کو کم، محدود اور ضائع کرنے کا نظریہ ہے۔“ (قوم پرستی اور معاشی زندگی)

Image result for marx engels lenin trotsky
ٹراٹسکی کی بین الاقوامیت کوئی نیا تصور بالکل بھی نہیں ہے بلکہ مارکس، اینگلز اور لینن کے تصور کی ہی تفسیر ہے۔ بلکہ لینن نے اس موضوع پر کئی جگہ ٹراٹسکی سے بھی کہیں آگے بڑھ کر دو ٹوک اور واشگاف لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔

ٹراٹسکی نے کبھی نہیں کہا کہ سوشلزم پوری دنیا میں بیک وقت آئے گا بلکہ اس کا استفسار یہ تھا کہ سوشلسٹ انقلاب کسی بھی ایک ملک سے شروع ہو سکتا ہے مگراس کی تکمیل بین الاقوامی سطح پر ہی ہو گی کیونکہ جس سرمایہ داری کو اس نے شکست دینی ہے وہ تمام تر ناہموار طرزِ ارتقا کے باوجودخود عالمی کردار اختیار کر چکی ہے، یہی نہیں بلکہ اس نظام کے بطن سے ایک عالمی مزدور تحریک کا جنم ہوا ہے جس کے پیچھے پیچھے عالمی طبقاتی شعور پروان چڑھ رہا ہے۔ کسی بھی ایک ملک کی تحریک مارکس وادیوں کی خواہش کی وجہ سے نہیں بلکہ تاریخی محرکات کے باعث دیگر ممالک تک پھیلتی چلی جاتی ہے۔ انقلابات صرف سیاسی تشکیلات کو ہی نہیں بلکہ تاریخ اور جغرافیے کو بھی بدل دیتے ہیں۔ تاریخ سے اس نظریئے کی صداقت کی بے شمار مثالیں مل سکتی ہیں۔ زیادہ دور نہ جایئے، گزشتہ دہائی میں عرب بہار یا امریکہ کی آکوپائی وال سٹریٹ کی تحریک کو ہی لے لیجیے۔ سٹالنسٹ تاریخ سے اب اس لیے بھی کچھ سیکھنے کے اہل نہیں رہے کیونکہ تاریخ کے کوڑے دان میں ذہنی ورزش کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ ٹراٹسکی مارکسی بین الاقوامیت کے تصور کو اس طرح پیش کرتا ہے:

”اقتدار پر پرولتاریہ کے قبضے سے انقلاب مکمل نہیں ہوتا بلکہ شروع ہوتا ہے۔ سوشلزم کی تعمیر صرف طبقاتی جدوجہد کی بنیاد پر قومی اور عالمی سطح پر کی جا سکتی ہے۔ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ رشتوں کے شدید تسلط کی کیفیات میں یہ جدوجہد ناگزیر طور پر دھماکوں یعنی داخلی طور پر خانہ جنگیوں اور خارجی طور پر انقلابی جنگوں کو جنم دیتی ہے۔ اسی میں سوشلسٹ انقلاب کا مسلسل کردار پوشیدہ ہے۔ چاہے یہ کوئی پسماندہ ملک ہو جس نے ابھی کل ہی اپنا جمہوری انقلاب مکمل کیا ہویا پھر کوئی پرانا سرمایہ دارانہ ملک ہوجس کے پیچھے جمہوریت اور پارلیمانیت کی طویل تاریخ ہو۔ قومی حدود میں سوشلسٹ انقلاب کی تکمیل کو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ بورژوا سماج کے بحران کی ایک بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ اس کی اپنی تخلیق کردہ پیداواری قوتیں اب قومی ریاستی حدود سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔ سوشلسٹ انقلاب قو می میدان میں شروع ہوتا ہے، بین الاقوامی میدان میں آگے بڑھتاہے اور عالمی میدان میں مکمل یا کامیاب ہوتا ہے۔ اس طرح سوشلسٹ انقلاب ایک مسلسل انقلاب بن جاتا ہے۔ یہ پورے کرۂ ارض پر ایک نئے سماج کی حتمی کامیابی سے ہی مکمل ہوتا ہے۔ اوپر بیان کیا گیا عالمی انقلاب کی بڑھوتری کا خاکہ سوشلزم کے لیے بالغ یا نابالغ ممالک کا سوال ہی ختم کر دیتا ہے۔ سر مایہ داری نے عالمی منڈی، عالمی تقسیمِ محنت اور عالمی پیداواری قوتیں تخلیق کر کے عالمی معیشت کو مجموعی طور پر سوشلسٹ تبدیلی کے لیے تیار کر دیاہے۔ مختلف ممالک اس عمل میں سے مختلف رفتار سے گزریں گے۔ کچھ مخصوص حالات میں پسماندہ ممالک ترقی یافتہ ممالک سے پہلے پرولتاریہ کی آمریت تک پہنچ سکتے ہیں یا وہ ترقی یافتہ ملک کی نسبت دیر سے سوشلزم تک پہنچیں گے۔“ (مسلسل انقلاب، آخری باب)

پہلی عالمی جنگ اور چھوٹی اقوام کا سوال

پہلی عالمی جنگ ایک دیو ہیکل واقعہ تھا جس میں پہلی دفعہ اتنے وسیع پیمانے پر سر مایہ داری کے تضادات پھٹ پڑے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ یہ دنیا بھر کے انقلابیوں کی نظریاتی سمجھ بوجھ اور طبقاتی کمٹمنٹ کا بہت بڑا امتحان بھی تھا۔ جنگ نے قومی سوال کو پوری شدت کے ساتھ عالمی سیاست کے منظرنامے پر حاوی کر دیا تھا۔ ٹراٹسکی نے ان سالوں میں لینن کے ہمراہ پوری طاقت کے ساتھ اپنے بین الاقوامیت کے تصور کی تشریح اور اس کا دفاع کیا۔ سچ پوچھیے تو یہی وہ وقت تھا کہ جب لینن اور ٹراٹسکی کی نظریاتی ہم آہنگی قطعی شکل اختیار کر گئی اور پھر وہ دو الگ جسم اور فرد ہوتے ہوئے بھی ایک ہی نظریئے کی مجسم تفسیر بن گئے۔ جو لوگ واقعی سیاسی طور پر بد دیانت نہیں ہیں اور ٹراٹسکی کے قومی سوال پر مؤقف کے حوالے سے محض کنفیوز ہیں ان کو پہلی فرصت میں ٹراٹسکی کی اس بحرانی دور کی تحریروں کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے جودکھاتی ہیں کہ کس طرح ٹراٹسکی مارکسی بین الاقوامیت کی وکالت کے فرض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ مظلوم اور چھوٹی اقوام کے حقوق کی لڑائی سے کبھی ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا۔ ایک انتہائی اہم مضمون سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

”امن کا پروگرام کیا ہے؟ حکمران طبقے اور اس کی اطاعت گزار پارٹیوں کے نقطہئ نظر سے، یہ ان خواہشات کی کلیت ہے جن کی تکمیل کو فوجی طاقت کے بلبوتے پر یقینی بنایا جائے گا۔ تاہم ملیاخوف (روسی وزیرخارجہ) کے مجوزہ امن پروگرام کی رو سے استنبول کو ہر صورت میں اسلحے کے زور پر فتح کیا جانا چاہیے۔ جبکہ وینڈرویلڈ (ایک بیلجیئن سوشلسٹ) کا امن پروگرام ایک منطقی لازمے کے طور پربیلجیئم سے جرمن افواج کے انخلا سے مشروط ہے۔ ان نقطہ ہائے نظر کی رو سے امن کی دفعات محض ان فتوحات پر اخلاقی مہر ثبت کرنے کا کام کرتی ہیں جو اسلحے کی طاقت سے حاصل کی گئی ہوں۔ دوسرے لفظوں میں یہ تمام امن کے پروگرام آخری تجزیئے میں جنگ کے پروگرام ہیں۔ لیکن یہ، درحقیقت، تیسری طاقت (سوشلسٹ انٹرنیشنل) کی مداخلت سے پہلے کی صورتحال ہے۔ انقلابی پرولتاریہ کے نقطہئ نظر سے امن کے پروگرام سے مراد وہ خواہشات نہیں ہیں جن کو قومی فوجی شاونزم کے ذریعے پورا کیا جائے بلکہ وہ مطالبات ہیں جنہیں پرولتاریہ تمام ممالک کے فوجی شاونزم کے خلاف اپنی سیاسی جدوجہد کے دم پرلاگو کرنا چاہتا ہے۔ جتنا زیادہ عالمی انقلابی تحریک بڑھتی چلی جائے گی، اتنا ہی امن کے سوال کا انحصار متحارب ریاستوں کے باہمی فوجی توازن پر کم ہوتا چلا جائے گا، ساتھ ہی یہ اندیشہ بھی کم ہوتا جائے گا کہ امن کی صورتحال کو بھی عوام جنگی مقاصد کابہروپ ہی سمجھتے رہیں۔

چھوٹی قومیتوں اور کمزور ریاستوں کے سوال پر یہ امر اور بھی زیادہ وضاحت سے منکشف ہوتا ہے۔

جنگ کا آغاز بیلجیئم اور لگزمبرگ پر جرمنی کے تباہ کن حملے سے ہوا۔ اس کے فوری بعد جہاں ایک طرف جرمنی کے دشمن حکمران طبقات نے چھوٹے ملک کی پامالی پر منافقانہ اور انانیت پرستانہ واویلا کیا، وہیں دوسری طرف عوامی سطح پر ایک حقیقی غم و غصہ اور مزاحمت کی لہربھی ابھری جسے ان چھوٹی قومیتوں کی تقدیر کے عمومی سوال کے ساتھ جوڑا جانا چاہیے جو اتفاقی طور پر دو جنگی طاقتوں کے مابین واقع ہونے کی وجہ سے برباد ہو جاتی ہیں۔

جنگ کے پہلے مرحلے پر اپنی غیر معمولی المیاتی صورتحال کے باعث بیلجیئم کو دنیا بھر سے توجہ اور ہمدردی ملی لیکن جنگی کارگزاری کے چونتیس ماہ نے ثابت کر دیا کہ بیلجیئم سامراجی جنگ کے بنیادی سوال کے حل کی طرف محض پہلا قدم تھا۔ اور سامراجی جنگ کا بنیادی سوال اصل میں کمزور پر طاقتور کی گرفت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔

سرمایہ داری نے بین الاقوامی تعلقات کے شعبہ میں بھی وہی طریقے منتقل کر دیئے ہیں جنہیں یہ اقوام کی داخلی معاشی زندگی کو متحرک رکھنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ مسابقت کا راستہ، در حقیقت، بڑے سرمائے کے تسلط کی خاطر چھوٹی اور درمیانی کمپنیوں کے بتدریج خاتمے کا راستہ ہے۔ اسی طرح، سرمایہ دارانہ قوتوں کی عالمی مسابقت کا مطلب ہے بڑی اور وسیع الجثہ سرمایہ دارانہ طاقتوں کے آ گے چھوٹی، درمیانی اور پسماندہ اقوام کی اطاعت گزاری۔ سرمایہ داری میں تکنیک جتنی ترقی کرتی جاتی ہے، اتنا ہی مالیاتی سرمائے کا کردار بڑھتا چلا جاتا ہے اوراسی تناسب سے فوجی شاونزم کی ضرورت بھی سر اٹھاتی رہتی ہے اور اس عمل کے ناگزیر نتیجے کے طور پر چھوٹی اقوام کا بڑی اور طاقتور اقوام پر انحصار بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ مذکورہ عمل اصل میں سامراجی میکانیات کا سب سے اہم لازمہ ہے جو کہ جنگ کے علاوہ امن کے ادوار میں بھی ریاستی قرضوں، ریلوے اور دیگر رعایتوں اور فوجی و سفارتی معاہدوں وغیرہ کے ذریعے بلا روک ٹوک جاری رہتا ہے۔ جنگ کھلے اشتعال کی شکل میں اس عمل کو عریاں اور تیز کر دیتی ہے۔ جنگ چھوٹی اقوام کی آزادی کی آخری رمق کو بھی تباہ کر دیتی ہے، اس بات سے قطع نظر کہ دو بنیادی مخالف کیمپوں میں سے فتح چاہے کسی کی بھی ہو۔

بیلجیئم ابھی بھی جرمن فوجی جکڑ میں بلک رہا ہے۔ یہ اس کی آزادی کے انہدام کا واضح اور خون آلوداظہار ہے۔ بیلجیئم کی آزادی اتحادی حکومتوں کے لیے ایک آزادانہ حدف نہیں ہے۔ چاہے جنگ جاری رہے یا ختم ہو جائے دونوں صورتوں میں بیلجیئم بڑی قوتوں کے مابین مہرے کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ اگر تیسری قوت (انقلاب) کی مداخلت ناکام ہوتی ہے تو یا تو بیلجیئم جرمن تسلط میں رہے گا، یا برطانوی جبرکا سامنا کرے گا یا پھر دونوں اتحادوں کے دو بڑے طاقتورڈکیت اسے آپس میں تقسیم کر لیں گے۔ یہی بات سربیا کے لیے بھی درست ہے جس کی قومی توانائی نے سامراجی دنیا میں ایک ایسے میزان کا کام دیا جس کے ایک یا دوسرے پلڑے کے جھکنے سے سربیا کے عوام کے آزادانہ مفادات کی عکاسی نہ ہونے کے برابر ہی رہ گئی ہے۔۔۔رومانیہ اور یونان کی مثالیں ہمارے سامنے مزید واضح کرتی ہیں کہ سامراجی ٹرسٹوں کی لڑائی میں چھوٹی اقوام کو دی جانے والی ’انتخاب کی آزادی‘ کی کیا اوقات ہے۔ رومانیہ نے اس انتخاب کی آزادی کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی غیر جانبداریت کو قربان کر دیا جبکہ یونان نے مختلف طریقوں سے اپنی حد تک غیر متعلق رہنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اپنی بقا کے تحفظ کی غرض سے اس غیر جانبدارنظر آنے کی لایعنیت اس وقت بالکل ننگی ہو گئی جب بلغاریہ، ترکی، فرانس، برطانیہ، روس اور اٹلی کی افواج یونانی علاقے میں دندنانے لگیں۔ انتخاب کی آزادی کا بہترین عملی مظاہرہ خود کی تباہی کی صورت میں ہوا۔ آخر میں رومانیہ اور یونا ن کا مقدر ایک ہی ہے۔ وہ بڑے جواریوں کے ہاتھوں میں تاش کے پتوں کی طرح ہیں۔۔۔چاہے کوئی بھی فتح مند ہو، اور اس فتح کے کتنے ہی دور رس اثرات کیوں نہ ہوں، یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ چھوٹی اقوا م کے لیے حقیقی آزادی کی طرف واپسی ناممکن ہے۔ خود ساختہ ماہرین اور بیوقوف لوگ ہی چھوٹی اقوام کی آزادی کے سوال کو ایک یا دوسرے فریق کی فتح کے ساتھ منسلک کر سکتے ہیں۔۔۔۔بیلجیئم، سربیا، پولینڈ اور آرمینیا کی آزادی کے سوال کو ہم(گویسڈ، پلیخانوف، وینڈرویلڈ، ہینڈرسن اور دوسروں کی طرح) اتحادیوں کے جنگی پروگرام سے نتھی نہیں کرتے بلکہ ہمارے لیے یہ سامراجیت کے خلاف بین الاقوامی پرولتاریہ کی جدوجہد کا لازمی جزو ہے۔“ (لیون ٹراٹسکی، امن کا پروگرام، ریاست ہائے متحدہ سوشلسٹ یورپ)

اسی طرح جب تیس کی دہائی میں دوسری عالمی جنگ کا خطرہ امڈ رہا تھا اور چیکو سلواکیہ اور جرمنی کے مابین جنگ کے خطرات منڈلا رہے تھے تو ایک دفعہ پھر بہت سے سوشلسٹوں میں قومی شاونزم ابھرنا شروع ہو گیا تھا۔ سٹالنزم اب ایک واضح سیاسی رجحان کے طور پر نمودار ہو چکا تھا جس نے اس عمل کو مزید مہمیز دی۔ ٹراٹسکی نے ایک دفعہ پھر مارکسزم کی اساس کے لیے قلم اٹھایا:

”جرمنی اور چیکو سلواکیہ کے مابین ممکنہ جنگ کو، حتیٰ کہ اگر اس میں فوری طور پر دوسری سامراجی ریاستیں مداخلت نہ بھی کریں تب بھی ان یورپی اور عالمی سامراجی تعلقات کے بندھن سے کاٹ کر سمجھنے کی کوشش کرنا حماقت ہو گی جن تعلقات سے یہ جنگ ایک واقعے کے طور پر نمودار ہو گی۔ ایک دو ماہ کے بعد چیک جرمن جنگ میں دوسری ریاستوں کی مداخلت ناگزیر ہو گی۔ یوں ایک مارکسسٹ کے لیے یہ بہت بڑی غلطی ہو گی کہ وہ اپنامؤقف جنگ کے درپردہ سماجی محرکات کے عمومی کردار کی بجائے عارضی اور اتفاقی سفارتی اور عسکری صف بندیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دے۔۔۔یہ قطعی طور پر واضح ہے کہ پرولتاریہ کواپنی پالیسی کسی بھی جنگ کے ممکنہ نتائج کے مفروضے اور قیاس آرائی کی بجائے اس جنگ میں اس وقت کے مخصوص معروضی مواداور اس مواد کو متعین کرنے والے ترقی اور ارتقا کے تسلسل کے تحت تشکیل دینی چاہیے۔ اس طرح کی قیاس آرائیوں میں ہر کوئی ناگزیر طور پر اپنی خواہشات، اپنی قومی ہمدردیوں اور نفرتوں کے زیر اثر ہی کوئی نقطہ نظر اپنائے گا۔ یہ واضح ہے کہ ایسا نقطہئ نظر مارکسی کی بجائے موضوعی اور بین الاقوامی کی بجائے شاونسٹ کردار کا حامل ہو گا۔“ (سماجی حب الوطنی کی سوفسطائیت)

حقِ خود ارادیت

جس سوال پر قوم پرستوں اور سٹالنسٹوں کے مابین تمام تر سیاسی امتیاز ختم ہو جاتا ہے وہ حقِ خود ارادیت کا سوال ہے۔ دونوں ٹراٹسکی کو بہت کوستے ہیں کہ وہ حقِ خود ارادیت یا علیحدگی کا منکر یا مخالف تھا۔ اس کے بالکل برعکس وہ لینن کی طرح حقِ خود ارادیت کا بہت بڑا وکیل تھا لیکن مارکسزم کے یہ دونوں سرخیل ہمیشہ اس حق کے عالمی مزدور تحریک کے ساتھ اٹوٹ رشتے پر زور دیتے تھے۔ تیس کی دہائی میں جنوبی افریقہ کی ورکرز پارٹی کی قیادت ٹراٹسکائیٹس کے پاس تھی۔ جنوبی افریقہ میں برطانوی سامراج سے آزادی کے ساتھ ساتھ بلیک ریپبلک کا سوال بھی پوری شدت سے ابھر رہا تھا۔ اس موضوع پرورکرز پارٹی کے اندر گرما گرم بحثیں چل رہی تھیں۔ پارٹی کی قیادت نے اس اہم سیاسی سوال پر اپنے سیاسی مؤقف کو ایک تھیسز کی شکل میں مرتب کیا اور اسے منظوری کے لیے ٹراٹسکی کو ایک خط کی شکل میں ارسال کر دیا۔ اس خط کے جواب میں ٹراٹسکی نے اس سوال پر اپنا تفصیلی نقطہ نظر پیش کیا جوکچھ یوں ہے:

”تھیسز میں جہاں کہا گیا ہے کہ ’بلیک ریپبلک‘کا نعرہ بھی انقلابی مقصد کے لیے اتنا ہی نقصان دہ ہے جتنا کہ ’جنوبی افریقہ فار دی وائٹس‘، ہم اس بیان کی ساخت سے کسی صورت متفق نہیں ہو سکتے کیونکہ آخرالذکرنعرہ مکمل جبر کی دو ٹوک حمایت کرتا ہے جبکہ اول الذکر حقیقی آزادی کی طرف پہلے مرحلے کا علمبردار ہے۔ ہمیں مکمل ہوش و حواس میں اور بغیر کسی قسم کے تحفظات کے سیاہ فاموں کی غیر مشروط آزادی کے حق کی حمایت کرنی چاہیے۔ صرف اور صرف استحصالی گوروں کے جبر کے خلاف مشترکہ جدوجہدسے ہی سفید اور سیاہ فام مظلوموں کا اتحاد مضبوط ہو سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ فتح کے بعد سیاہ فام جنوبی افریقہ میں اپنی الگ جمہوریہ کی تشکیل کو غیر ضروری سمجھیں، ظاہر ہے کہ ہم انہیں الگ ریاست کی تشکیل کے لیے مجبور نہیں کریں گے لیکن یہ فیصلہ بہرحال انہیں خود کرنے کی مکمل آزادی ہو گی اور وہ یہ فیصلہ استحصالی گوروں کی لاٹھی کے زیراثر نہیں بلکہ اپنے تجربات کی روشنی میں کریں گے۔ پرولتاری انقلابیوں کو کسی صورت بھی مظلوم اقوام کے حقِ خود ارادیت کو بشمول مکمل علیحدگی کے حق کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اور انہیں ظالم قومیت کے پرولتاریہ کے اس فرض کو بھی پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے کہ انہوں نے ہر قیمت پر مظلوم اقوام کے اس حق کا دفاع کرنا ہے چاہیے اس کے لیے انہیں ضرورت پڑنے پر ہتھیار ہی کیوں نہ اٹھانے پڑیں۔تھیسز میں بالکل درست تحریر ہے کہ روس میں قومی سوال کو اکتوبر انقلاب نے ہی حل کیا تھا۔ قومی جمہوری تحریکیں اپنے بلبوتے پر زار روس کے قومی جبر سے آزاد ہونے کی اہل نہیں تھیں۔ صرف اس وجہ سے کہ مظلوم اقوام اور کسانوں کی زرعی تحریکوں نے پرولتاریہ کو مواقع فراہم کیے کہ وہ اپنی آمریت نافذ کر سکیں، قومی اور زرعی مسئلے دونوں فیصلہ کن اور دلیرانہ انداز میں حل ہوئے۔ لیکن قومی تحریکوں اور پرولتاریہ کی جدوجہد کا سنگم صرف اسی باعث ممکن ہو سکا تھا کہ بالشویکوں نے اپنی ساری تاریخ میں ظالم روسیوں کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کی تھی اور مظلوم اقوام کے حقِ خود ارادیت کا بشمول علیحدگی کے حق کا جرأت سے دفاع کیا تھا۔“ (زرعی اور قومی سوال، ورکرز پارٹی آف ساؤتھ افریقہ کے مجوزہ تھیسز پر ریمارکس)

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ لال سلام

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply