ہیبت/ خوف کا تھیٹر ۔۔۔۔احمد سہیل

جدید تھیٹر اور ڈرامے میں ریڈیکل اور نفس دانش کے حوالے سے کئی رجحانات سامنے آئے۔ جن میں ناگہانی خوف وہیبت/ PANIC کے تھیٹریٹکل نظرئیے نے ساٹھ کی دہائی میں مغرب میں فکری اور فنکارانہ انقلاب پیدا کردیا۔
“پینک تھیٹر” کو  خوف کا تھیٹر کہا جاتا ہے اسکو ” بحرانی تھیٹر بھی کہا جاتا ہے۔  ایربل نے 1969 میں MYTHIC BAROQUE Kenneth S. White Fernando Arrabal میں لکھا ہے کہ اپنے تعصبّات کو مستحکم اور مستحق قرار دیا۔ اور اعتراضائی” ادب جو محیط اور حساسیت کا مجموعہ ہوتا ہے۔لہذا ایریبل اسے   ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے ” جس میں مجھے اعتراضات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے خطرناک قسم کے “تعاقب “ظاہر ہوتے ہیں۔  ایربیل کے ڈراموں کے موضوعات  ناقابل اعتماد بنیادی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان میں سادگی اور نفاست ہوتی ہے،  جو ایڈن میں نوجوانوں کے theatericalized خوابوں کے مقابلے میں حقیقت کی مجموعی نفرت کا اظہار ہوتا ہے۔ جو اصل میں گہری سرایت کی کشیدگی کے باعث فرانس میں بسنے والے اسپین کے مصنفیں کی زبردست کشیدگی اور اجنبی جذبات کا احساس بھی ہے۔
فرنانڈو ایریبل ٹیران11 اگست، 1932 میں پیدا ہوئےایک ہسپانوی ڈرامہ، اسکرین مصنف، فلم ڈائریکٹر، ناول نگار اور شاعر، سابق ہسپانوی مراکش میں میلیلا میں ان کی ولادت ہوئی اور 1955میں فرانس میں آباد ہوئے۔ اپنی قومیت کے بارے میں، ایربیل خود  کہتے ہیں کہ وہ “کیریروڈو”، یا “نصف بیرون ملک، نصف جلاوطن ہیں” {desterrado”, or “half-expatriate, half-exiled}ہیں۔
ایریبل  ایک نوجوان کے طور پر اسپین کے مرکزی ڈرامائی افق پر سامنے آئے۔ ان کے اولیں ڈرامے ہسپانوی  میں  ہیں۔ ایریبل نے 1955 میں پیرس میں اسکالرشپ حاصل کی۔ اس کے بعد، انھوں نے اسپین واپس جانے سے انکار کر دیا، 1967 میں ایک سفر کےدوان وہ زخمی ہوئے۔  1955 میں دو مہینے تک ہسپانوی جیل میں رہے، ایریبل کے ڈراموں کو جرمنی، انگلینڈ، پولینڈ، اٹلی، اسکینڈنیویا، جنوبی امریکہ، آسٹریلیا، ریاست ہائے متحدہ امریکہ، اور دیگر مقامات میں وسیع پیمانے پر اسٹیج کی زینت بنایا گیا۔  ان کے بیس سے زائد ڈراموں کو دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ایریبل کا کہنا ہے کہ انٹیگریٹڈ گراؤنڈ، ان کے نزدیک ڈرامائی تصورات کو یکجا کرنے کے لئے ڈرامہ کی نئے شکلوں میں موازنہ کرنے کا متنازعہ طریقہ ہے۔میں ایک تھیٹر کا خواب دیکھتا ہوں جہاں مزاح اور شعر، خوف اور محبت سب ایک ہو جاتا ہے۔
یہ ڈرامائی تحریک ۱۹۶۰ میں پیرس میں ایک ہسپانوی تاریک وطن ڈرامہ نگار فرنانڈو ایریبل، الایاندرو جوڈودسسی اورروناکر ٹوپر کی مشاورت سے اس تھیڑیکل تحریک کا آغاز ہوا۔ جس کو ” خدا کے درد” کے نام سے بھی منسوب کیا گیا۔ جس پر انتھوئن آخطو اور لویس بندول کے سفاک {وحشیانہ} تھیٹر کا گہرا اثر تھا۔ جس پر گوتھک اور سوئیلرازم کے تصوارات بھی حاوی رہے۔ ” پینک” یا ہیبت ناک تھیٹریکل نظرئیے میں تشدد پسند واقعات کو افسوسناک حد تک بڑی سفاکی اور وحشیانہ انداز میں اسٹیج پر پیش کیا جاتا ہے۔ جس میں ہر فرد ” دکھا” ہوا ہے جو اپنے اذیت ناک وجود پر برہم ہے۔ اور انہی انسانی کیفیات سے  ان ڈراموں کا خاکہ تشکیل پاتا ہے۔ جس میں تخریب کاری بہت ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ڈراموں میں دنیا  کی تباہ کاریوں میں ” خوب صورتی” بھی تلاش کی جاتی ہے۔ مئی ۱۹۶۵ میں پہلی بار اس ڈرامائی رجحان کے تحت چا ر  گھنٹے کا طویل ڈرامہ پیرس کے ایک فیسٹیول میں اسٹیج کیا گیا۔ اس کو لوگ ” آزادی تاثریت” کا نمونہ بھی کہتے ہیں۔ جس میں جودوودسی نے سیا ہ رنگ کی چمڑے کی جیکٹ زیب تن کررکھی ہے۔ اور موٹر سائیکل پر اسٹیج پر نمودار ہوتا ہے اس کے سینے پر دو بطخوں اور دو سانپوں کےکٹے ہوئے سروں کی تصاویر ہیں۔ اس ڈرامے کے تمام کردار برہنہ اور مصلوب ہیں۔ جس میں ایک مرغی بھی مصلوب ہے اور ایک برہنہ عورت شہد میں نہاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اور اسٹیج پر ایک یہودی ربائی کا قتل بھی ہوتا ہے۔ عورت کی شرم گاہ سے زندہ کچھوئے اور خوبانی کے ڈبے ناظریں پر پھینکے جاتے ہیں۔ اسی سال انھوں نے کیلی فورنیا کی برکلے یونیورسٹی، امریکہ میں ۲۱ مئی سے ۲۳مئی ۔۔ ۱۹۶۵ تک ۔۔۔۔۔ ویت  نام میں امریکہ کے گھناونے کردار کو بے نقاب کرتے ہوئے۔ ویت  نام کی جنگ کے خلاف ایک میلو ڈرامہ پیش کیا۔ پھر ان لوگوں نے امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے مقام پیونو” چیس ساو”{ ددخت کاٹنے کی برقی مشین} کے بدنام زمانہ سفاک قتل عام پر سفاک تھیٹر کے نظرئیے کے تحت ڈرامہ پیش کیا اور ناظریں کو اشتعال دلوایا گیا۔ جس میں دہشت اور PANIC بہت ہے۔ اس ڈرامے میں مکالموں اور علامتوں کی مدد سے اداکاروں اور ناظرین کے درمیان کھڑی دیوار گرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اور ان ناظرین کے خون کو گرمادیا جاتا ہے۔ ہمت ، دلیری اور جوش کو شامل کرکے آپس کے فاصلے مٹا دئیے جاتے ہیں۔ اور یہ احساس دلوایا جاتا ہے کہ ہم سب ایک پاگل دنیا  میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جس میں مصائب، عدم مساوات، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے انسان کو منتشر کرکے رکھ دیا ہے۔ اور زندگی ان کو ” نگل” رہی ہے، زندگی بدبو دار ہے اور فن بھی ایسا ہی ہے۔ اس سے ہم کو نجات حاصل کرلینی  چاہیے۔ ان ڈراموں میں موسیقی بہت عمدہ ہوتی تھی جو ناطرین کے وجود میں سنسنی پھیلا دیتی تھی۔ اوران دہشتناک مکالموں کا اثر اور تاثریت تماشا  گاہ میں بیٹھے ہوئے لوگوں پر جھر جھری طاری ہوجاتی تھی۔ اس ڈرامے میں خوابوں میں طنز بھی کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی خوف کی شاعری کو اچھوتے اور فنکارانہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔۔ ہیبت ناک تھیٹر کی شناخت ” آوان گان” کے فکری ادبی اور فنکارانہ رویوں سے ہیں۔ جس سے آئنسکو، بیکٹ، ژان ژینے، بینٹر اور جرمنی کے ڈرامہ نگار پیٹر ہیڈک اور رینر فاس بھی منسلک ہیں۔ کافکا، الفریڈ جیری کی طربیہ نکارشات اور سیڈ اور انتھونن آخطو سے بھی ایریبل خاصے متاثر ہیں۔
ہیبت ناک تھیٹرکے نطرئیے کے تحت ایربیل اور جودودسی فلمی دینا میں قدم رکھتے ہیں اور اپنی فلموں ” بے ابان مارٹی “{۱۹۷۱} ” مِیں چلتا ہوں پاگل گھوڑے کے طرح”، {۱۹۷۳}، ” لوٹو پو” {۱۹۷۰}، اور “مقدس پہاڑ” { ۱۹۷۳} جیسی معرکتہ آرا فلمیں بنائی۔ ۱۹۷۳ میں جودوسی نے  اس تھیٹریکل تحریک کے اختتام کا علان کیا۔ جب ایریبل کی کتاب “خوف”{LE PANIQUE} شائع ہوئی ۔ یہ ڈرامائی تحریک تخیل، خوف۔ فرد کے اعصابی تناو ، مردم بیزاری اور سیاسی بے چینی کے ڈرامائی اظہار کی بہترین مثال ہے۔ یہاں اس تحریک کے سرخیل فرنانڈو ایریبل کے متعلق بتاتا چلوں۔ ایریبل میلا، اسپین میں گیارہ اگست ۱۹۳۲ میں پیدا ہوئے۔ فرانسیسی زبان میں لکھا کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ لایعنی ڈرامہ نگار ہیں ۔ ان کی تحریروں پر بیکٹ کا گہرا اثر ہے۔ ۱۹۵۲ میں انھوں نے اپنا پہلا ڈرامہ PIQUE MIQUE EN CAM PAGNE لکھا۔ جو بہت مشہور ہوا۔ انھوں نے ۱۹۵۹ میں ORCHESTRATION THEATRE لکھا . جس میں بغیر الفاظ اور جملوں کے ڈرامائی عمل کو دکھایا گیا تھا۔ اس کو سہ سمتی ڈرامائی شکل میں اسٹیج کیا گیا۔ ایریبل کو اون گارد ڈرامہ نگاروں میں شامل کیا جاتا ہے۔ وہ ڈرامہ نگار ہونے کے علاوہ ، شاعر، ناول نگار اور فلمی ہدایت کار بھی ہیں۔ ان   میں  انہوں نے اپنی کتاب” جدید تھیٹر”{ ۱۹۸۵، اسلام آباد} میں ایک باب قائم کیا ہے۔ “ہیبت ناک تھیٹر” { ” Panic Theatre”} پر کینت ایس ایت نے بڑی اچھی کتاب لکھی ہے جس کو ستمبر ۱۹۷۱ میں امریکہ سے ‘راکی ماونٹین لینگویج ایسوسیشن  نے چھاپا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply