بچوں پر جنسی تشدد کی وجوہات اور روک تھام۔۔۔چوہدری عامر عباس

دو روز قبل اخبار پڑھتے ہوئے ایک خبر نظر سے گزری کہ ایک کمسن بچی کو اغواء کے بعد قتل کر دیا گیا۔ روزانہ اخبارات میں ایسے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں کہ ننھے بچوں اور بچیوں کی عزت کو نہ صرف تار تار کیا جاتا ہے بلکہ جنسی ہوس پوری کرنے کے بعد ثبوت ختم کرنے کیلئے انہیں ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ من حیث القوم ہم اخلاقی گراوٹ کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں پولیس نے سہیل ایاز نامی ایک شخص کو گرفتار کیا جس نے متعدد بچوں کیساتھ جنسی تعلقات کا اعتراف کیا ہے۔ اس نے مزید انکشاف کیا کہ اسے ایسے جرائم کی پاداش میں دو ممالک سے نا صرف سزا ہو چکی ہے بلکہ ڈی پورٹ بھی کیا جا چکا ہے۔ ہر روز اخبارات میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ پڑھنے کو ملتا ہے جس سے دل دہل جاتا ہے۔ چند ماہ قبل “ساحل” نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے ہوشربا انکشافات پر مبنی رپورٹ جاری کی۔ انھوں نے ملک کے طول و عرض سے ڈیٹا اکٹھا کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر روز دس سے زائد بچے کسی نہ کسی صورت جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔

ہم کس قدر پتھر دل قوم ہیں اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئے دن بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات سُن سُن کر اب ہم مکمل طور پر بے حس ہو چکے ہیں۔ چند دن سوشل میڈیا پر ہا ہا کار مچاتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے دن گزرتے جاتے ہیں ہمارا حافظہ بھی ماند پڑتا جاتا ہے۔ لہٰذا چند دن بعد پھر کوئی ایسا واقعہ ہماری سوچ کو جلا بخشتا ہے اور ہمارا مردہ ضمیر وقتی طور پر پھر زندہ ہو جاتا ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں ہونے والے بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات اور ان میں بڑھتی ہوئی شرح میں افسوسناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بچے غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن کو ان کے والدین کسی مجبوری کے تحت کسی جگہ کام کاج کے لیے چھوڑ آتے ہیں۔ اب بات آجاتی ہے والدین کی اور فیملی پلاننگ کی۔ بعض دوست کہتے ہیں کہ بچے پیدا کرنا سنت نبوی ہے۔ بےشک جتنے مرضی پیدا کیجیے۔ کون آپ کو روکتا ہے۔ لیکن بچوں کی مناسب دیکھ بھال اور اچھی تربیت کرنا بھی سنت نبوی ہے۔ لہٰذا کیوں نہ یہ کوشش کی جائے کہ اتنے بچے ہی پیدا کر لیے جائیں جتنے بچوں کی پرورش و تربیت اچھے طریقے سے ہو سکے۔ بچے بھلے جتنے مرضی پیدا کریں لیکن اس کے بعد انکی تربیت اور فرسٹ سٹیپ پر نگہبانی کا سوچنا بھی آپ ہی کا کام ہے۔ اس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے کیسز میں ملوث مجرم زیادہ تر بچے کے قریبی رشتہ دار یا جاننے والے ہی پائے گئے ہیں۔ یہاں ایک بات توجہ طلب ہے کہ بچے تو معصوم ہوتے ہیں ان کے نزدیک اچھے برے یا بڑے چھوٹے کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ ہر ایک کو اپنا سمجھنا ان معصوموں کی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔ اب یہاں پولیس یا قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کا کردار محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور والدین کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔

بعض بچوں کے والدین بیمار ہوتے ہیں اور مجبوراً بچے کو گھر کا کفیل بننا پڑتا ہے لہٰذا باہر جا کر کام کرنا انکی مجبوری ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ بچے بھی اس معاشرے کے درندہ صفت لوگوں سے محفوظ نہیں۔ یہی بچے جب کسی ورکشاپ یا ہوٹل پہ جاکے کام کرتے ہیں تو ان کا حلیہ اور چہرے کے تاثرات بتاتے ہیں کہ وہ یہاں کتنی تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں۔
اکثر بچوں کوبھیک مانگتے دیکھا ہے۔ اکثر والدین نکمے،کاہل اور نشہ کے عادی ہوتے ہیں وہ نہ اپنے بچوں کی اچھی پرورش کرتے ہیں نہ وہ اس بات پہ یقین رکھتے ہیں۔میری اکثر ایسے بچوں سے بات ہوئی تو وہ بولے کہ ہم دو وقت کی روٹی کھا لیتے ہیں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ معاشرہ ہمارے بارے میں کیا سوچتا ھے۔ ایسے بچے جنسی درندوں کا آسان شکار ہوتے ہیں۔
خیر اگر بات کی جائے ان مالکوں کی جن کے پاس یہ بچے کام کرتے ہیں۔ چاہے وہ کسی گھر میں نوکرانی ہو، یا کسی ہوٹل پہ کام کرنے والا چھوٹا، بعض گھروں میں ان کے ساتھ غیر انسانی اور غیر مہذب سلوک عام دیکھنے کو ملتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بچوں پر تشدد کے واقعات جو رپورٹ ہوئے ہیں ان میں جنسی زیادتی کے واقعات نمایاں ہیں۔ گزشتہ سال سے قصور، چونیاں اور ملک کے طول و عرض میں ہونے والے دیگر ایسے واقعات درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان واقعات میں زیادہ تر قریبی رشتہ دار شامل ہوتے ہیں جو اس بچے کے ساتھ زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں والدین کو زیادہ محتاط رہنا چاہیے بالخصوص بچہ جس رشتہ دار سے خوف کھا رہا ہوں یا ڈر رہا ہوں ان پر توجہ دینی چاہیے، نہ کہ آپ کے انکل ہیں، آپ کی آنٹی ہے کہہ کر بچے کو کسی بھی ذہنی دباؤ کا شکار کرنا چاہیے۔
یہاں پر زیادہ ضرورت ایسے رشتہ داروں سے محتاط رہنے کی ہے جو آپ کے بچے کے سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جنسی واقعات میں مجرموں کی اکثریت بچے کے قریبی رشتہ دار، محلے دار یا والدین کے تعلق والوں کی پائی گئی ہے۔ زیادہ تر یہ بچے کسی کام والی جگہ، خالی گھر، فصل یا کھیت وغیرہ میں جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔
ان واقعات سے مکمل طور پر نمٹنے کے لیے والدین اور حکومت دونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ والدین کا کام ہے کہ بچوں اور گھر میں اکثر آنے والے قریبی رشتہ داروں پر نظر رکھیں اور فاصلے پر رہنے کی تلقین کیجیے۔ عمر کے حساب سے اپنے بچے کی خود جنسی تربیت کرنا لازم ہے کہ یہ وقت کا اہم تقاضا ہے۔ بچیوں کے لباس کے بارے میں احتیاط کیجئے۔ بچوں کو ازراہ محبت رشتہ داروں کی جھولی میں ڈالنے سے گریز کریں۔ بچوں کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کا بتائیں۔ اپنی اور بچے کی ہچکچاہٹ کو دور کیجیے کیونکہ اگر آپ خود اپنے بچے کی جنسی تربیت نہیں کریں گے تو پھر بچہ فطری تجسس سے مجبور ہو کر وہی سوالات دیگر لوگوں سے پوچھے گا جو خدانخواستہ آپکے بچے سے جنسی فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ والدین اپنے اور بچے کے درمیان فاصلے کو ختم کریں۔ بچوں کو دوست بنائیں اور انکو اعتماد دیں۔ بلاوجہ ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکیاں نہ صرف بچے کی اخلاقیات تباہ کرتی ہیں بلکہ یہ رویے انہیں احساس کمتری میں مبتلا کرتے ہیں۔ ایسے بچے جنسی استحصال کا آسان شکار ہوتے ہیں۔ بچوں کی جنسی تربیت کا موضوع ایک الگ اور مکمل کالم کا متقاضی ہے جس کو پھر کسی وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو کو مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے اور حکومت مزید ایسے ادارے تشکیل دے جو باہر کام کرنے والے بچوں پر نظر رکھیں اور ایسی کسی صورتحال میں ملوث ہونے والے مجرمان کو قرار واقعی اور عبرتناک سزا دلوائیں تاکہ آئندہ ایسے واقعات سے بچا جاسکے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply