دھرتی ماں کی محبت اور ماں جی کی لوریاں ۔۔۔عامر عثمان عادل

آج 23 مارچ ہے یوم پاکستان تجدید وفا کا دن، پوری قوم ایک نئے عزم و حوصلے سے سرشار اور آج رہ رہ کے مجھے ماں جی یاد آ رہی ہیں
بچپن کی وہ خنک راتیں نہیں بھول پائیں  جب تاروں بھرے آسمان تلے چھت پر لگے بستروں پر سونے کیلئے لیٹتے تو امی ہمیں قیام پاکستان اور ہجرت کے سفر کی روداد سناتیں بس پھر تو ایسا چسکا لگا کہ روز ہماری فرمائش پر اس ہونچکاں سفر کی ایک نئی کہانی سنتے سنتے ہم نیند کی آغوش میں چلے جاتے ۔

امی کی زبانی قیام پاکستان سے قبل وہ اپنے والدین اور ددھیال کے ہمراہ پنجاب سے دہلی شفٹ ہو گئے جہاں ہمارے نانا جامعہ ملیہ سے زانوئے تلمذ طے کرنے کے بعد کچھ عرصہ اس درسگاہ عظیم میں معلم بھی رہے۔ قرول باغ میں اپنے قیام کی باتیں سناتے ہوئے امی نے بتایا کہ بہت سے ہندو گھرانوں کی لڑکیاں ان کی ہم جماعت تھیں ہماری نانی اماں مزے کے شامی کباب بناتیں جو ہم اپنے لنچ میں سکول لے جاتے۔ ہماری دعوت پر وہ لڑکیاں مزے لے لے کر کباب چٹ کر جاتیں لیکن جب ہم بعد میں شرارت سے انہیں بتاتے  کہ یہ کباب جو تم نے کھائے ہیں یہ تمہاری ماما یعنی گائے ماتا کے گوشت سے بنے ہیں پھر تو ان کی حالت دیدنی ہوتی ۔۔
وہ دن میری والدہ کی زندگی کا یادگار دن تھا جب قائداعظم ان کے سکول آئے اور ان کے استقبال کیلئے جھنڈیاں تھامے کھڑی طالبات میں وہ بھی شامل تھیں اور وہ پل ان کی زندگی کا یادگار لمحہ بن گیا جب انہیں بانی پاکستان سے ہاتھ ملانے کا شرف حاصل ہوا اور مجھے یاد ہے یہ تذکرہ کرتے ہوئے میری ماں کا چہرہ احساس تفاخر سے گلنار ہوا جاتا۔
اسی دوران تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھی بالآخر قیام پاکستان کی منزل بھی آن پہنچی اعلانِِِ  تقسیم ہوتے ہی جنونی ہندو اور سکھ نہتے مسلمانوں پر پل پڑے۔ ایک قیامت تھی جو مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی پورے ہندوستان میں قتل عام شروع ہو گیا ہم پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا اپنے اپنے گھروں میں قید ہوکے رہ گئے ،ہمہ وقت دھڑکا لگا رہتا کہ ابھی ہندو بلوائی  دروازہ توڑ کر  اندر داخل ہوں گے اور ہماری گردنیں کاٹ لے جائیں گے ۔
ہمارے پھوپھا برٹش آرمی میں صوبیدار تھے انکے انگریز کرنل نے ایک دن بلایا اور کہا حالات بہت خراب ہیں اس سے پہلے کہ تمام راستے مسدود ہو جائیں میں تمہیں چھٹی دیتا ہوں جاو اپنے خاندان کو پنجاب چھوڑ و ۔۔ہم نے سکھ کا سانس لیا اور رخت سفر باندھا ،مسافت طویل راستے مخدوش اور حالات غیر یقینی تھے نجانے کتنے دن لگ جائیں یہ سوچ سوچ کر دل ڈوبے جاتا ،والدہ نے اسی خیال کے پیش نظر کھانے کو بہت کچھ بنا کے زاد راہ کے طور پر ساتھ رکھ لیا
ایک صبح ہم ڈرے سہمے چھپتے چھپاتے اپنے پھوپھا کی سرکاری گاڑی پہ ریلوے اسٹیشن تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے راستے کے مناظر انتہائی دلخراش تھے ۔جابجا اپنے بہن بھائیوں کے خون آلود نعشیں دیکھ دیکھ کر ہماری چیخیں سسکیوں میں ڈھل جاتیں
خدا خدا کر کے ٹرین روانہ ہوئی  تو قدرے سکھ کا سانس لیا لیکن خوف اس قدر کہ ہم سانس روکے بیٹھے تھے ہر اسٹیشن پر کرپانیں تلواریں لہراتے آنکھوں میں خون لئے جے بند کے نعرے لگاتے ھندو بلوائی  دکھائی  دیتے اور اکثر اسٹیشنوں پر ہم نے اجڑے برباد مسلمان مرد و خواتین کو دیکھا جو نجانے کتنے دنوں سے بھوکے پیاسے تھے جونہی ان کی نظر ہم پر پڑتی آنکھوں میں آنسو اور امید لئے وہ سینہ کوبی کرتے اور اپنے فاقہ زدہ پیٹ دکھاتے ان کی حالت دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا والدہ نے ہمیں کہا کہ جو کچھ ہم نے اپنے کھانے کیلئے رکھا ہے وہ ان بد نصیبوں کو دے دو ہم مٹھیاں بھر بھر اشیائے خوردونوش ٹرین کی کھڑکی سے ان کی جانب اچھالتے جاتے ۔
خوف بے یقینی اور درد کا یہ سفر جاری تھا کہ رات ہو گئئ اچانک ایک جھٹکے کی آواز سنائی دی اور جس ڈبے میں ہم سوار تھے اچانک الٹ گیا ٹرین رک گئی ۔ ڈبوں کا الٹنا، ہو کا عالم ،باہر سے بلوائیوں کا ڈر، کلیجہ منہ کو آنے لگا ۔۔امی نے سب کو دعا مانگنے کی تلقین کی جبکہ ہمارے پھوپھا بندوق تھامے ڈبے کے دروازے میں ہماری حفاظت کو سینہ تانے کھڑے تھے۔ خدا جانے اب کیا بنے گا ٹرین ٹھیک ہو گی بھی یا نہیں اور اس کے چلنے تک کیا جنونی ہندووں کے ہاتھوں ہماری جانیں بچ پائیں گی ؟ ذہن میں یہ اندیشے تھے اور خشک لبوں پر دعائیں اللہ جی اب تو بس آپ ہی کا سہارا ہے
صدق دل سے مانگی ہوئی  دعائیں یوں بھی قبول ہوتی ہیں اللہ ہمارے دلوں کے اتنے قریب ہوتے ہیں معجزے یوں بھی رونما ہوتے ہیں یہ میں نے زندگی میں پہلی بار اپنی آنکھوں سے اس روز دیکھ لیا اچانک الٹا ہوا ڈبہ خود بخود سیدھا ہو گیا کچھ دیر بعد ٹرین روانہ ہوئی  جونہی ہم پاک سر زمین کی آزاد فضاوں میں پہنچے تو بے اختیار اللہ رب العزت کے حضور سجدہ ریز ہو گئے
شکریہ ماں جی ! مجھے فخر ہے ایک ایسی ماں کی گود میری پہلی درسگاہ رہی جس نے تحریک آزادی میں عملی حصہ لیا ہجرت کے دکھ اٹھائے وطن سے محبت کی لوریاں دے کر ہمیں پالا اور لگتا ہے گھٹی بھی دھرتی سے پیار کی دی یہی وجہ ہے کہ آج یہ دیس مجھے اپنی جان سے بھی پیارا ہے آپ کی سنائی  ہوئی  کہانیاں راتوں کو دی گئی لوریاں اس قدر اثر آفریں تھیں کہ آج یہ محبت لہو بن کے میرے رگ وپے میں دوڑتی ہے ۔
شائد اسی لئے جب بھی کوئی  ننگ وطن نام نہاد دانشور اس کی سالمیت کے خلاف زہر اگلتا ہے تو  میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے خود پر قابو نہیں رہتا بس میں ہو تو ہر اس زبان کو گدی سے کھینچ لوں جو میرے وطن پہ تہمت لگا کے داد طلب نظروں سے دشمن کی طرف دیکھے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم تو مر جائیں گے اے ارض وطن پھر بھی تجھے
زندہ رہنا یے قیامت کی سحر ہونے تک

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply