• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • علم فلکیات کائنات کی روح کا علم ہے ۔۔نذر محمد چوہان

علم فلکیات کائنات کی روح کا علم ہے ۔۔نذر محمد چوہان

امریکی حکومت نے کچھ کتابوں کو بائبل کی طرح کا اسٹیٹس دے کر ان کا مطالعہ تمام درسگاہوں میں لازمی کیا ہوا ہے ۔ ان سو کے قریب کتابوں میں ایک کتاب Cosmos ہے ۔ یہ کتاب مشہور امریکی آسٹرونومر کارل ساگن اور نیل ڈی گرا سے ٹائسن نے لکھی ہے ۔ کارل ساگن ۱۹۶۶ میں انتقال کر گیا تھا لیکن چونکہ ٹائسن زندہ ہے لہٰذا اس کو بار بار ری ایڈٹ کرتا رہتا ہے ۔ غالباًًً  اس کا آخری ایڈیشن ۲۰۱۳ میں مشہور امریکی پبلشر سائمن اینڈ شسٹر نے چھاپا ہے ۔ یہ کوئی  ۳۵۹ صفحہ کی کتاب ہے میں نے اسے بہت دفعہ پڑھا ہے اور اسے astronomy کی بائبل سمجھتا ہوں ۔ کاش ڈاکٹر شہباز گل جیسے امریکی پلٹ نام نہاد دانشور پاکستان میں اس طرح کی کتابیں introduce کرواتے ۔ ان کا ترجمہ کرواتے ، اور ان پر مزید ریسرچ کی جاتی ۔ لیکن موصوف تھانیداری کے چکر میں روز کسی نہ کسی آر پی او یا ڈی سی کی تصویر چھاپ کر داد لیتا ہے ۔ پاکستان کو کلونیلزَم اور تھانیداری لے بیٹھی ۔ پورا معاشرہ بدمعاشی کی لپیٹ میں ، ہر کسی کو نمبردار اور تھانیدار بننے کا شوق۔ میرا دل کرتا ہے کے کاش کوئی ایسا لیڈر آئے کہ  ۲۲ کروڑ کو ایک دفعہ ہی تھانیدار بنا کر یہ شوق پورا کر دے اور اس عذاب اے جان چُھوٹے ۔

Advertisements
julia rana solicitors


اس کتاب میں ڈھائی  ہزار سال کا مغرب کا آسٹرونومی کو پھیلانے کا بیانیہ ہے ۔ اتنا زبردست کہ ناقابل بیان ۔ یہ شاید میرا کسی بھی کتاب پر سب سے مشکل ریویو ہے گو کہ  فلکیات میرا اپنا شدید پسند دیدہ مضمون ہے ۔ کارل ساگن نے کتاب کو دو بہت اچھے قول سے شروع کیا ایک اس کا اپنا اور دوسرا ہکسلے کا ۔ اس کے مطابق ؛
Our future depends on how well we know this Cosmos in which we float like a mot of dust suspended in the sunbeam ..
دوسرا قول تھامس ہینری ہکسلے کا ہے جو بھی میرا بہت پسندیدہ بائیالوجسٹ اور لکھاری ہے ۔ اس نے کہا تھا ؛
The known is finite, the unknown infinite; in intellect we stand on an islet in the midst of an illimitable ocean of inexplicability. Our business in every generation is to reclaim a little more land
مجھے بہت دُکھ ہے کہ مشرق نے اس کو زمین لینا سمجھا اور لگ پڑے لڑائی  چڑھائی  میں ۔ تیمور کے پوتے نے پندرہویں صدی میں کیا زبردست آبزرویٹری بنائی تھی لیکن اس کا عالم و دانش ہونا اسے مروا گیا۔ وہ وہ کچھ کر گیا تھا جو کیپلر نے مغرب میں دو سو سال بعد کیا لیکن اس کے اپنے ہی بیٹے نے کرائے کے قاتلوں سے قتل کروا دیا ۔
کارل ساگن نے کتاب Cosmos کو پانچ سو سال قبل عیسوی سے شروع کیا ہے جب Thales نامی ایک شخص نے Ionian تہذیب میں سب سے پہلے اس نالج میں تہلکہ مچایا ۔ ارسطو اپنی کتاب politics میں لکھتا ہے کہ  ٹیلز نامی ایک فلاسفر یہ بتا سکتا تھا کہ  اگلے سال زیتون کی فصل کیسی ہو گی ۔ ارسطو لکھتا ہے کہ  اس نے ایک دفعہ زیتون کے پریس بولی میں فصل سے پہلے بُک کروا لیے ۔ نیلامی میں کوئی  بولی ہی نہیں لگا رہا تھا کہ  اتنی فصل ناممکن ہو گی ۔ جب فصل بہت زیادہ ہو گئی تو پریس کے لیے لائنیں لگ گئیں۔ ٹیلز نے اس سے پیسہ تو بہت کمایا لیکن بقول ارسطو ؛
He showed the world philosophers can easily be rich if they like , but that their ambition is of other sort …
اتفاق سے جب آئونین تہذیب کے یہ سائنسی جادوگر ٹیلز ، انیکسیمنڈر اور پائیتھاگرس چھٹی صدی قبل از مسیح یہ کمالات دکھا رہے تھے عین اسی وقت مصر میں فرعون نیچو افریقہ دریافت کر رہا تھا ۔ زوریستھر ایران میں ، کنفیوشس اور لازآوہ چین میں یہودی پیغمبر اسرائیل ، مصر اور بیبیلونیا میں اور بُدھا ہندوستان میں علم اور روحانیت کی شمعیں جلائے ہوئے تھے ۔ کارل ساگن کے نزدیک یہ ایک اتفاق نہیں تھا بلکہ قدرت کا ارتقاء کا منصوبہ تھا ۔
کارل ساگن اس کتاب میں اسکندریہ کی لائبریری کا تذکرہ کرتا ہے کہ  کیسے علم پھیلانے میں اس لائبریری نے بنیادی کردار ادا کیا جو دنیا کی پہلی لائبریری تھی ۔ تب ہاتھ سے پارچاجات پر لکھا جاتا تھا جو یقیناً بہت محنت طلب کام تھا لیکن ایک Eratosthenes نامی آدمی جو اسکندریہ میں رہتا تھا اس نے اس لائبریری کو بنانے اور سنبھالنے میں بہت کردار ادا کیا ۔ یہ شخص وہ تھا جس نے جغرافیہ متعارف کروایا ، ریاضی ، آسٹرونومی کا ماسٹر تھا ۔ شاعر بھی تھا اور میوزک کی تھیوری بھی متعارف کروائی ۔ cosmos بھی ایک Greek لفظ ہے جس کا مطلب ہے
Order of Universe, it is opposite of Chaos ..
دراصل Big Bang کو بھی chaos سے منتقلی کہا جاتا ہے ۔ پہلے chaos ہوا پھر اس سے cosmos ۔ لائبریری میں کتابیں اس طرح جنون کی حد تک جا کر اکٹھی کی جاتیں کہ  کارل ساگن لکھتا ہے ؛
‏the heart of the library was collection of books .. agents were sent abroad to buy for libraries ..Commercial ships docking in Alexandria were searched by the police not for contraband but books
ایک اور بات جو بہت دلچسپ اس کتاب میں ڈیبیٹ کی گئی  ہے وہ یہ ہے کہ  اگر یہ علم اور حقائق ڈھائی  ہزار سال پہلے پتہ لگ گئے تھے تو پھر ان کی قبولیت کو مزید دو ہزار سال کیوں لگے ؟ Aristarchus نامی شخص نے تب پانچ سو سال قبل از مسیح بتا دیا تھا کہ زمیں یونیورس کے سینٹر میں نہیں ہے بلکہ سورج تو پھر دو ہزار سال کا انتظار کیوں ؟ یہی ماجرا مسلمان فلاسفروں اور سائنسدانوں کے ساتھ رہا کہ  انہوں نے ۴۰۰ سال پہلے جو کچھ بتایا تھا بالکل وہی کاپرنکس ، گلیلیو اور کیپلر نے کئی سال بعد بتایا ۔ عباسیہ دور آٹھویں صدی سے لیکر بارہویں صدی تک محیط ہے جس میں البیرونی ، الخوارزمی ، ابن سینا ، ابن العربی ، ابن خلدون وغیرہ نے کیا کچھ نہیں دریافت کیا ۔ مسلم آسٹرونومر الفزاری نے تو ایک موسیقی کا آلہ astrolabe بھی بنایا جسے گو کہ  پانچ سو سال پہلے یونانی خاتون Hypatia نے کنسٹرکٹ کیا تھا۔ البتانی نے trigonometric ratios کا بتایا ۔ البیرونی نے تب ہی بتا دیا تھا کہ زمین اپنے axis کے گرد گھومتی ہے ۔ کاپرنکس نے اٹلی میں کہا جاتا ہے کہ  نصیرالدین طوسی کے بنائے ہوئے compass کو استعمال کیا۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ  کنٹرول کی خواہش رکھنے والوں نے ترقی نہیں ہونے   دی بالکل اسی طرح جیسے ایک گاؤں کا چوہدری تعلیم کا شدید مخالف یا مسجد کا مولوی ۔ اسکندریہ لائبریری کو بھی اسکندریہ کے آرک بشپ تھیوفلس نے آگ لگوائی ، اسی نے ہی اس علم کی روشنی والی تحریک کی آخری سائنسدان ایک عورت Hypatia کو ہجوم سے مروایا ۔
کہا جاتا ہے کہ ہم زمین والے سینٹر تو کیا بالکل یونیورس کی fringes پر بیٹھے ہیں اور ایسے تیس مار خان بن رہے ہیں کہ  ہم ہی کائنات کے مالک ہیں ۔ ہم نے تو کوسموس کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ برٹرینڈ رسل نے کہا تھا کہ ؛
“Pythagoras founded a religion, of which main tenets were the transmigration of souls”
ایک سو بلین سے زیادہ galaxies ہیں ایک  سو بلین سے زیادہ ستارے ہیں ۔ یہ سب کچھ ساقط تو نہیں ؟ روشنی کی رفتار کو آخیر جانا گیا اور آئین سٹائین کی ریکیٹیویٹی کی تھیوری نے بہت سارے جھنجٹ ختم کیے ۔ کارل ساگن کہتا ہے کہ  اگر کوئی  انسان اس روشنی کی رفتار سے مقابلہ کر سکتا ہے تو وہ زندگی کا امر دھارا ہے اس کو دوام ہے ۔ میں کہتا ہوں روح ایسا کرتی ہے سائنس شاید کوئی  بھی ایسی اسپیس شہرہ نہ بنا سکے جو اس رفتار کا مقابلہ کرے ۔ آواز کی رفتار کو تو سائنس نے سُپر سانک بنا کر ضرور بیٹ کیا لیکن روشنی کو نہیں ۔ یہ کتاب سائنس کی انتہا کی بات کرتی ہے اور سارے ان سائنسدانوں کا تذکرہ کرتی ہے جو دراصل سارے کے سارے mystic تھے دلیل کی بجائے روحانیت سے ان مقامات کو چھُوا ۔ اس کتاب کو ایک دلیل اور سائنس کے  ذہن کے ساتھ بھی پڑھیں تو آپ کائنات کی mystery تک پہنچ جاتے ہیں ۔ میں اسے روحانی کتاب کہوں گا جبکہ اس کا مدیر اسے سائنس کی نان فکشن کہتا ہے ۔ ہمارا ارتقاء اب ہمیں کہاں لے کے جائے گا ، یہ ہماری اجتماعی سوچ فیصلہ کرے گی ۔ کیا ہم نے ایک دوسرے پر لڑائی  چڑھائی  کر کے اس دنیا کو فنا کرنا ہے یا ایک اور سفر کی طرف گامزن ہونا ہے جسے H G Wells کی زبان میں کارل ساگن ہی بہت زبردست الفاظ میں sum up کرتا ہے ؛
‏A day will come , one day in the unending succession of days , keen beings. Who are now latent on our thoughts and hidden in our lions , shall stand upon this earth as one stands upon a footstool , and shall laugh and reach out their hands amidst the stars ..
ہربرٹ جارج ویلز ، انیسویں صدی کا ایک بہت زبردست لکھاری تھا ۔ اس کتاب میں سارے حوالے ہیومینیٹیز والوں کے ہیں جنہوں نے وہ باتیں کیں جو سائنسدانوں نے تجربوں اور دلائل سے ان کے قول کے بعد ثابت کیں ۔ اسی کو علامہ اقبال نے بال جبریل میں بہت درست کہا تھا کہ ؛
“ستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہیں “
اور علامہ اقبال نے ہی اس جستجو اور اس چاہت کو مزید کچھ یوں بیان کیا ؛
مجھے محبت ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند”
بس علم کی مشعل جلائے رکھیں اور دعا کریں کہ  ہمارے سربراہ ہمیں لائبریریاں ہی بنا دیں ، ان سے کوئی  خیر کی توقع تو نہیں کی جا سکتی ۔ میری طرف سے یہ بلاگ ہی پاکستانی نوجوانوں کے لیے ۲۳ مارچ کا تحفہ ۔ پاکستان  پائندہ باد۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply