ہمارا مطالبہ توازن ہےبرتری نہیں۔۔۔ ایمان شاہ

ایڈیٹر نوٹ: ادارہ مکالمہ آزادی اظہار رائے پر مکمل یقین رکھتے ہوئے ہر جانب کی رائے شائع کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ ذیل مضمون کو باقی کے مضامین کی طرح ایک جانب کی رائے سمجھا جائے۔

 

عورت آزادی مارچ کی تصاویر دیکھ کر مجھے مشہور رائٹر خلیل الرحمن قمر کا ایک جملہ شدت سے یاد آرہا ہے
“عورتیں صرف اپنی قید میں رہتی ہیں
جن عورتوں کو قید کرنا پڑتا ہے وہ عورتیں نہیں ہوتیں”۔۔

یعنی جو عورتیں اپنی مرضی اور خوشی سے مرد کے خوبصورت رشتوں کے حصار میں رہنا چاہتی ہیں
باپ بھائی اور شوہر کی صورت میں
وہی عورتیں کہلانے کی حقدار ہیں

باقی جو ان رشتوں کے خوبصورت مراکز سے ہی باہر نکلنا چاہتی ہیں

وہ کون ہیں؟؟؟

خود ہی اپنا نام تجویز کردیں تو بہتر ہوگا ۔۔۔۔۔

یعنی جس قسم کی آذادی کا مطالبہ یہ عورتیں کررہی ہیں

وہ آزادی ایک ایسی عورت ہرگز نہیں چاہتی جس کے گرد خوبصورت اور محترم رشتوں کے گھیرے ہوں۔
عورت ان رشتوں کے ہالوں میں خود کو زیادہ محفوظ اور مضبوط محسوس کرتی ہے
عورت کو آزادی سے سانس لینے کی اجازت چاہئے اپنے خوابوں کی تکملیل کیلئے
سازگار ماحول اور یکساں مواقع چاہیے۔

لیکن اپنی خودداری اپنی عزت بیچ کر بے راہ روی کا راستہ دکھانے والی آنٹیوں کے مارچ نے ایسا حبس پیدا کردیا ہے کہ ہر کوئی اپنی بہن بیٹی یا بیوی کو اجازت دیتے ہوئے ہزار بار سوچے کہ کہیں ان آنٹیوں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں اور گھریلو سکون تباہ و برباد نہ ہوجائے۔

پچھلے سال نعرہ بلند کیا گیا میرا جسم میری مرضی

یعنی لوگوں کو کھیلنے کیلئے ایک جملہ دے دیا گیا

اور متضاد جملوں کے انبار جمع ہوگئے
مثلا میری آنکھیں میری مرضی اور فلاں فلاں

اب کی بار میں ٹائر چینج کرسکتی ہوں اور لامتناہی فضول مطالبے
تمہارا اٹھنا بیٹھنا تمہاری تہذیب ہے یا تم پر دوسروں کا جبر؟؟؟؟

یہ کونسا عمل کونسا طریقہ احتجاج ہے جس سے تم مظلوم عورت کو حق دلانا چاہتی ہو؟؟؟؟

گزشتہ سال کے اختتام پر کتنی ہی معصوم کلیوں کو بے دردی سے روندا گیا

کنب میں منظور وسان کے بھتیجے ذولفقار وسان کے ہاتھوں تیرہ سالہ رمشا کا بے دردی سے بے رحمانہ قتل۔

عورت مارچ میں اس معصوم کلی کیلئے کوئی آواز سنائی دی؟؟؟
کوئی بینر اٹھایا؟؟؟؟؟

لاہور کے میو ہاسپٹل میں بیمار بچے کی والدہ کے ساتھ ایم ایس بلڈنگ کے احاطے میں کیا کچھ ہوا؟؟؟؟
انصاف کی دہائی دی گئی؟؟

انسانیت اس وقت بھی مری تھی جب گزشتہ ماہ ایک گونگی لڑکی شیریں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناکر موت کی نیند سلادیا تھا۔
اس کی بوڑھی ماں کی آوازیں شامل تھیں تمہارے احتجاج میں؟؟؟؟

تم ان سب واقعات کے خلاف کیوں آواز اٹھاتیں؟
تم تو شاید ایسے ہی آزاد معاشرے کی حامی ہو۔

یا ان واقعات کے خلاف بولنے کے لئے تمہیں الگ سے پبلسٹی اور معاوضہ چاہئے ہوگا۔
عورت پر ظلم کے ہزاروں واقعات اس سال رجسٹروں میں درج ہوئے
لیکن عالمی دن کے موقع پر میڈیا اور سوشل میڈیا نے ایک نام نہاد مارچ کی کوریج کرکے سب کو بیک سائیڈ پر کردیا۔

یہ ہمارے میڈیا کا ذمہ دار اور سوالیہ کردار ہے۔

ہمارے معاشرے کی عورت جو باپ بھائیوں اور شوہر کی سختیوں میں رہتی ہے وہ کھلی فضا ضرور چاہتی ہے لیکن بے راہ روی اور ایسی نام نہاد آذادی نہیں جس کا لیبل اس مارچ میں اٹھایا گیا۔

مارچ والی آنٹیوں سے اتنا کہنا ہے کہ

تمہارا جسم تمہاری مرضی
تمہارے نعرے تمہاری مرضی
خدارا اپنے ان نعروں کے شور سے حبس پیدا کرکے پہلے سے مظلوم عورت کا جینا مزید محال نہ کرو کیونکہ یہ بے ہودہ اور فضول نعرے معاشرے میں ضد اور انتشار کے سوا کچھ نہیں۔
عورت میزان کے دوسرے پلڑے کی مانند برابر کا وزن چاہتی ہے اپنی برتری نہیں کیونکہ
پہلا بگاڑ مرد کی برتری کے خبط نے پیدا کیا

دوسرا بگاڑ عورت کا برتر ہونے کا جنون ہے

صحت مند معاشرہ کچھ دو اور کچھ لو کے فارمولے کے تحت کام کرتا ہے۔ عورتوں کی ذمہ داریاں حقوق اور فرائض ایک صنف مخالف ہونے کی کی وجہ سے مختلف ہیں۔ انہی ذمہ داریوں کو سمجھا جائے ، انہی حقوق کا مطالبہ کیا جائے اور انہی فرائض کو انجام دیا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ
ہمیں متوازن سکون چاہیئے

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارا مطالبہ توازن ہے برتری نہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply