کشمیر کی آزادی ، اب منزل زیادہ دور نہیں۔۔۔۔ محمد وقار اسلم

دنیا بھر میں جرم کو ختم کرنے اور مجرم کو پکڑنے کے لیے ہی یہ ادارے بنائے جاتے ہیں اور وہ کام سب سے پہلے اسی گھر کے افراد سے شروع کرتے ہیں جہاں وقوعہ ہوتا ہے اور اکثر اوقات مجرم، جرم اور جس کے خلاف جرم ہوا ہو کا کوئی نہ کوئی تعلق نکل ہی آتا ہے اور یوں اصل مجرم پکڑا بھی جاتا ہے لیکن ہمارے پڑوسی بھارت کا معاملہ مختلف بلکہ الٹ ہے اس کے ہاتھ جو بھی مجرم آتا ہے اس کا تعلق پاکستان سے جوڑ دیا جاتا ہے بلکہ مجرم کو بھارت کی بجائے پاکستان میں ڈھونڈا جاتا ہے اور پھر کسی نہ کسی طرح اس تعلق کو پاکستان سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یوں اپنے عوام کو بیوقوف بنا کر الزام پاکستان کے سر رکھ دیا جاتا ہے اور اپنے فرائض سے بری الذمہ ہو لیا جاتا ہے۔

دوسرا بہت ہی آسان ہدف بھارت کے لیے کشمیر ہے دھماکہ ہوگیا کشمیری، حملہ ہوگیا کشمیری، اغوا ہو گیا کشمیری نے کیا اور یوں اصل مجرموں کو اگلے جرم کے لیے کھلی چھٹی مل جاتی ہے اور اب تو یہ رواج بھارت میں کچھ حد سے بڑھ چکا ہے جس کا کریڈٹ اس کے وزیراعظم مودی کو بھی جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مودی سے پہلے والے پاکستان کے لیے کوئی نیک خواہشات رکھتے تھے جبکہ بھارتی میڈیا جو حواس کھو چکا ہے وہ گانگریس کوپاکستان کی ہمدری رکھنے والا کہہ کر مودی کا الیکشن بچانے کی کوشش میں ہیں۔بھارت نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف سازشوں کا ایک ایسا سلسلہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آرہا کلبھوشن یادیو کا کیس انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں ہے جہاں بھارت نے اپنا جج لگوانے کی چالاکی بھی کرنا چاہی تھی پاکستا ن کے پاس اس کی دراندازی کے بہت ٹھوس شواہد ہیں۔

چین نے بھارت کے دعوؤں کو حقائق کے منافی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کسی کو پناہ نہیں دے رہا۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی کشمیر کا لاینحل مسئلہ کھڑا کر دیا گیا جسے اب تک نہ تو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکا ہے اور نہ جنگوں کے زور پر اور حالیہ بڑھنے والی کشیدگی کے بعد جب بھارت کو منہ کی کھانی پڑی او آئی سی نے بھی اس مہمان کا کرتوتوں کی وجہ سے اچھا خاصہ دھڑن تختہ کیا ۔ جہاز گر ا کر بھی اورچھوٹے سرپرائز کا بڑا جوابی سرپرائز دے کر جب پاکستان نے بھارت کو اس کی اوقات یاد دلائی تو اس کے چودہ   طبق روشن ہوگئے۔ کشمیر کی آزادی کے لیے کل کی طرح آج بھی کشمیر کا ہر بچہ، بوڑھا، مرد اور عورت کشمیر کی سڑکوں پر ہوتا ہے اور کسی اور سمجھوتے پر پہنچنے سے مکمل انکاری ہے سوائے اس کے کہ کشمیر کو بھارت سے آزادی چاہیے کشمیری اس سے کم کسی سمجھوتے پر راضی نہیں اور بھارت ہے کہ ایک کے بعد ایک کشمیری کو شہید کیے جا رہا ہے اب جب بھارت نے بلا اشتعال گولہ باری کو معمول بنا لیا ہے تو کشمیری بھی کھل کر میدان میں آگئے ہیں وہ نہتے بھی ان بھیڑیوں سے بھرپور مزاحمت کرنے لگے ہیں۔

گیارہ فروری 1984 کو ایسے ہی ایک کشمیری لیڈر مقبول بٹ کو نئی دلی کے تہار جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا اور سمجھا گیا کہ کشمیریوں کی آزادی کی خواہش کو کچل دیا جائے گا۔ مقبول بٹ پر پاکستانی ایجنٹ ہونے کا الزام تھا لیکن جب انہیں عدالت میں پیش کیا گیا اور ان پر فرد جرم عائد کی گئی اور پاکستان کا ایجنٹ قرار دیا گیا تو مقبول نے عدالت کو بتایا کہ میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو قبول کرتا ہوں لیکن آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں آپ کے دشمن کا ایجنٹ نہیں ہو ں بلکہ مجھے دیکھو میں خود آپ کا دشمن ہوں میں آپ کی نو آبادیاتی ذہنیت کا دشمن ہوں مجھے غور سے دیکھ لو میں تمہارا دشمن ہوں۔مقبول بٹ بھارتی جیل میں سرنگ بنا کر وہاں سے فرار ہوئے تھے اور اپنے اس جرم سے انکار بھی نہیں کیا لیکن بھارت کو یقین بھی دلایا کہ وہ اْس کے دشمن کا ایجنٹ نہیں بلکہ خود دشمن ہے لیکن پھر بھی بھارت مقبول بٹ کو پاکستان کا جاسوس قرار دیتا رہا اْس نے مقبول بٹ کو 11 فروری 1984 کو پھانسی دی، پھانسی سے پہلے ان کے خاندان کے کسی فرد کو ان سے نہیں ملنے دیا گیا۔ یہاں تک کہ اْن کی لاش بھی اْن کے ورثاء کے حوالے نہیں کی گئی خود بھارت کے ماہرین قانون نے اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ پھانسی بھارتی قوانین کو ایک طرف رکھ کر دی گئی جو کہ بالکل غلط تھی اس کیس میں شروع سے قانونی جھول موجود تھے لیکن بھارتی حکومت نے اپنی من مانی کی اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ دے دیا۔

یہ سلسلہ یہاں رْکا نہیں کشمیری اپنی آزادی کی جنگ لڑتے رہے بھارت کے مسلمان بالعموم اور کشمیر کے بالخصوص بھارتی سرکار اور ہندو اکثر یت کا نشانہ بنتے رہے اور اب بھی بن رہے ہیں۔ وہ کشمیر میں چلنے والی آزادی کی تحریک کو دہشت گردی قرار دے کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش تو کر رہا ہے لیکن اس حقیقت سے انکاری ہے کہ جب کشمیری یوں سڑکوں،گلیوں اور گھروں میں مارے جائیں گے تو وہ اپنے جوان بچوں، بوڑھے ماں باپ اور ماؤں بہنوں کا بدلہ لینے تو ضرور نکلیں گے۔ پھر چاہے بھارت سرکار جتنے بھی مقبول بٹوں کو پھانسی چڑھائے کئی اور مجاہد کشمیر کی آزادی کے لیے میدان میں اترتے رہیں گے۔ بھارت نے اپنی روش نہیں بدلی اور ایک بار پھر فروری ہی کے مہینے میں ایک اور کشمیری افضل گرو کو پھانسی چڑھا دیا اْسکا جرم بھی آزادی کی خواہش تھی اس بار الزام یہ لگایا گیا کہ افضل گرو 13 دسمبر 2000 کو بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے میں ملوث تھا اس حملے میں کوئی پارلیمنٹیرین تو ہلاک نہیں ہوا تاہم آٹھ سکیورٹی اہلکاروں سمیت نو افراد ہلاک ہوئے جبکہ سولہ افراد زخمی ہوئے پانچوں حملہ آور بھی ہلاک ہوئے۔

افضل گرو کو اس حملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور اس سے اقبالی بیا ن بھی لیا گیا جس کے بارے میں بعد میں گرونے بتایا کہ اْسے شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس کے جسم کے حساس مقامات پر کرنٹ دیا جاتا تھا، اس کے خاندان والوں کو دھمکیاں دی گئیں اور اسے بتایا گیا کہ اس کا بھائی پولیس کی تحویل میں ہے لہٰذا اْسے مجبوراََ ناکردہ جرم قبول کرنا پڑا اْس نے یہ سب کچھ اپنے وکیل کو ایک خط میں لکھا۔ افضل گرو کو بھی مقبول بٹ کی طرح گھر والوں سے ملوائے بغیر پھانسی دی گئی اورتہار جیل کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا تھا ۔ پھر ممبئی حملوں کا بہتان پاکستان کے سر باندھا گیا تھا جس 26/11 کی حقیقت کو طارق اسمعیل ساگر منظرعام پرحال ہی میں اپنی کتاب کے زریعے لے کر آئے جس میں مجیب الرحمٰان شامی ،اوریا مقبول جان،سہیل وڑائچ اور اس وقت کے موجودہ اور اب کے سابقہ وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے خوب داد دی تھی۔۔پھر مودی کی اوچھی حرکتیں زوروں پر آگئیں اڑی میں سرجیکل اسٹرائیک کے جھوٹے دعوے کے بعد کشمیر پلوامہ میں اپنی فوج پر خود ہی حملہ کروایا اور پھر اپنے ملک میں انتہاء پسندی کو ہوا دلوائی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس واقعے  کی رپورٹ کوئی بیس دن کے بعد درج ہوئی اور یہ رپورٹ بہت مبہم تھی دنیا کی فارینسک اوردیگر ٹیمز نے بھی بتادیا کہ پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ،پھر بالاکوٹ میں درختوں پر اپنے طیارے کی زور آزمائی کروائی اور پھر جنگ کی جانب قدم بڑھا دئیے اور پھر اسے شکست خوردہ ہونا پڑا۔جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے جنگ کی بھڑکوں پر ٹیبل ٹاک کا مشورہ دیا تھا کہ پاکستان بھی بہتر صلاحیت رکھتا ہے۔جو دل دہلا دینے والا سلوک حواتین کے ساتھ ہوتا ہے چھوٹی بچیوں پر بھی رحم نہیں کھا یا جاتا اس بارے میں یاسین ملک کی اہلیہ مشال ملک کا کہنا ہے کہ خواتین پرظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اور ان مظالم سے لڑتے ہوئے کئی برہان وانی ،کئی مجاہدین اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور بڑے فخر سے سینہ چوڑا کر کے شہادت کو گلے لگاتے ہیں ،مودی الیکشن انتہاپسندی پر جیتا تھا اور اب اس کے بیانات میں وہی آگ کے شعلے بڑی تیزی سے مزید شدید ہوکر نمودار ہورہے ہیں جو ان کی ذہنی پسماندگی کی عکاس ہیں اور پھر جب اتنی حیثیت عملی میدان میں نہیں دکھا پاتے اور ان کے ابھی نندن دھڑام کرکے گر پڑتے ہیں تو ان کی عوام quench کرنے لگ جاتے ہیں اور پھر ان کو کچھ اوربڑا اور اپنے چہرے کی طرح بھیانک کہنا پڑتا ہے جس پر یہ سو بار چاہتے ہوئے بھی عمل نہیں کر پاتے لیکن ان کے اقدامات کی وجہ سے کشمیر کا مدعہ مربوط ہوتا جا رہا ہے اور کشمیر کی آزادی دور نہیں بلکہ بہت نزدیک ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply