کرائسٹ چرچ حملہ : تہذیبی تصادم کی تمہید۔۔۔۔صادق صبا

پی ہنگٹن نے اپنی کتاب “تہذیبوں کا تصادم” میں موجودہ دنیا کو آٹھ تہذیبوں میں تقسیم کیا ہے، اور لکھا ہے کہ ہماری مغربی تہذیب کے ساتھ سوائے اسلام کے باقی چھ تہذیبیں موافقت رکھتی ہیں۔ اسلام اور مغربی تہذیب ہی مستقبل قریب میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ سکتی ہیں۔ مزید وہ لکھتے ہیں کہ اسلام کے ساتھ تعاون کرنے والی تہذیب کنفیوشش تہذیب (چائنیز اقوام کی) ہوگی۔

مغرب میں اسلامو فوبیا ہر دور میں رہا ہے لیکن 9/11 کے بعد اس نے عروج کی طرف جانا شروع کیا کیوں کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کی تعلیمات اور اقدار کو یورپ اپنی لبرل جمہوریت کے نظریات کے مخالف تصور کرتا ہے اور اسلام کو آنے والے دور میں یورپ اور امریکہ کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔

دراصل اسی ڈر نے امریکہ اور یورپ کے حکمرانوں کو آنکھوں پہ پٹی باندھنے پر مجبور کیا۔ نتیجتاً انھوں نے اپنی تئیں ہر وہ کوشش کرنے کی ٹھانی جو اسلام اور اسلامی تعلیمات کو داغدار کرے اور ذریعے کے طور پر میڈیا کا استعمال زور شور سے ہوا جو پہلے ہی یہودی اثر کے زیر ہے۔ جس کی وجہ سے عام عوام میں دن بہ دن اسلام مخالف جذبات کا بڑھاوا ہوا اور آئے دن یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ 2002 میں امریکہ میں 25 فیصد افراد اسلام کو تشدد پسند مذہب خیال کرتے تھے جب کہ آج یہ شرح 60 فیصد سے اوپر پہنچ چکی ہے۔ کرائم فار انگلینڈ اینڈ ویلز کے مطابق نفرت اور عداوت کا شکار سب سے زیادہ مسلمان ہیں، جن کا تناسب 38 فیصد ہے جب کہ ہندو 1 فیصد ہے۔

نائن الیون کے بعد متعدد اسلامک گروپس وجود میں آئے، جن میں اکثر کا دور دور سے حقیقی اسلامی تعلیمات سے واسطہ نہ تھا۔ بلکہ ان میں بہت سارے اسی ڈر کی پاداش میں اسلامی چہرے کو مسخ کرنے کے لیے وجود میں لائے گئے جن کی معاون پس پردہ عالمی طاقتیں تھیں۔ جو میڈیا کے ذریعے ان کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کو اسلام اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ نتھی کرتے تھے، جس سے انھیں رائے عامہ کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے میں آسانی ہوتی تھی۔

جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، عالمی منظرنامہ میں مذہبی جنونیت کے شکار سیاست دان و رہنما رونما ہو رہے ہیں جن کے بیانات اور عزائم سے صدیوں پہلے لگی صلیبی جنگوں کی شکست کی نفرت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

شہرہ آفاق مصنفہ کیرن آرم اسٹرانگ لکھتی ہیں کہ “نائن الیون کی پانچویں برسی کے موقع پر پاپائے اعظم بنیڈکٹ نے جرمنی میں جو متنازع بیان دیا، اس نے اسلاموفوبیا کو مزید بڑھاوا دیا۔”

دو تین سالوں سے یورپ اور امریکہ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منظم طور پر کاروائیاں ہو رہی ہیں۔ ان کاروائیوں کو نہ حکمران نہ میڈیا دہشت گردی گردانتا ہے بلکہ دہشت گردوں کو ذہنی مریض قرار دے کر فارغ کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں اس کی بڑھتی وجہ اسلاموفوبیا کو فروغ دینا اور ان حملوں کو انفرادی قرار دے کر چشم پوشی کرنا ہے۔ جس سے مغربی ممالک کی دہشت گردی برائے دہشت گری کی پالیسی کو دیکھا جاسکتا ہے جو یقینا ایک منفی اقدام ہے۔

برینٹن ٹرینٹ ایک انفرادی حملہ آور نہیں جسے مراد اول کے قاتل مولس اوبیلک کا نام بھی یاد رہا بلکہ یہ ایک سوچ، ایک تہذیبی ٹکراؤ کا نام ہے جو آنے والے وقتوں میں کم ہوتا ہوا نہیں بلکہ بڑھتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پی ہینگٹن کی سوچ کہ آنے والے دور میں مغرب اور اسلام کا تصادم ہوگا، کا وقت شاید آ چکا ہے۔ جس میں بقول اس کے ہندی تہذیب مغرب کا اور کنفیوشسی تہذیب اسلام کا ہاتھ تھام سکتی ہے۔ اگر عالمی منظرنامے پر نظر دوڑائی جائے تو حالات اس سے زیادہ مختلف نہیں بلکہ کرائسٹ چرچ اس کی تمہید ہی دکھائی دیتی ہے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply