بھاری ذمہ داری۔۔۔حسنین اشرف

بھارتی جہازران آج اپنے ملک واپس لوٹ جائے گا۔ سوچتا ہوں کہ قیدی جب اپنے ملک کی سرزمین پر قدم رکھے گا تو کیسے ہوا جھوم جھوم کر اس کا استقبال کرے گی۔ لمحہ لمحہ، جب اس کی منزل قریب ہوگی تو بیوی بچوں سے ملنے کا اشتیاق اس کے دل میں امڈ امڈ آئے گا۔ گھر میں بیٹھی بوڑھی ماں سے جب وہ آشیرباد لینے کے لیے جھکے گا تو  گیلے گیلے بوسے اس کے گالوں کا استقبال کریں گے۔ بوڑھا باپ، خفت بھری نگاہوں سے اسے دیکھے گا کہ میرےبڑھاپے کا کیا  ہوتا اگر تم لوٹ کر نہ آتے۔ اور وہ اپنی خوش قسمتی پر جھوم جھوم اٹھے گا کیونکہ ہندوستان کے چنگل سے پاکستانی قیدی اور پاکستانی  جیل سے ہندوستانی قیدی کا اتنی جلدی لوٹ جانا کسی معجزےسے کم نہیں ہے۔ جنگ اور سیاست کے اس گرم ماحول میں، جہاں سب کچھ پوائنٹ سکورنگ اور قومیت پرستی کے لبادے میں چھپا پڑا ہے اور جہاں ہندوستان، اسے پاکستان کی ہار اور اپنی سیاسی جیت بتلا رہا ہے۔ یہ سوچ ایک عجیب ساسکون میرے اندر اتارتی چلی جا رہی ہے کہ آج ایک بیٹی کو اس کا باپ صحیح سلامت مل جائے گا۔ وہ اس کے ارگرد اٹھکیلیاں کرتی پھرے گی، اس سے سوال کرے گی۔

وہ شاید اس سے یہ بھی پوچھے گی کہ بابا، دھرتی کے اس پار آگ و خون کی لکیر پاٹ کر جہاں سے تم آزاد ہوکر آئے۔ ذرا بتلاوتو،  دشمن دیکھنے میں کیسا دکھائی دیتا ہے؟ اس کے سینے میں بھی تو دل ہوگا نا، اس کے گھر پر  بھی تو بوڑھی ماں راستہ دیکھتی ہوگی۔ اس کے گھر کنواری بہن، اس کی منگیتر اور اس کا بھی تو بوڑھا باپ ہوگا نا۔ جو صبح شام اس خونی لکیر کی جانب دیکھ کر کوئی منتر پھونکتے ہوں گے کہ ان کا خدا، ان کے اکلوتے کو حفظ امان میں رکھے۔اور اس کی بھی تو بیٹی ہوتی ہوگی، چھوٹی سی، اس کے واپس لوٹنے پر اس کی انگلی پکڑ کر بازار گھماتی ہوگی۔ اس کے مضبوط سینے پر جب وہ سر رکھتی ہوگی۔ تو اس کا پہاڑوں جیسا دل، موم بن کر پگھل نہ جاتا ہوگا۔

میں سوچتا ہوں، کیسی مشکل گھڑی ہوگی، جواب دینے کو ایک لمحہ بھی نہ ہوگا۔ ایک  کاندھے پر، قومیت پرستی کا بوجھ اور دوسرے پر انسانیت، وہ کیا بتائے گا؟  کیا فیصلہ کرے گا؟ یہ کہہ دوں کہ نہیں، وہاں انسان نہیں بستے، ان کی رگوں میں خون نہیں دوڑتا۔ ان کے گھر جب جوان بیٹے کی گولیوں سے چھلنی لاش پہنچتی ہے تو ماں کا کلیجہ پھٹ پھٹ نہیں جاتا، باپ ٹوٹ نہیں جاتا اور اس کی بیٹی، سسکیاں بھرتی ماں سے ہرگز یہ نہیں پوچھتی کہ بابا کدھر گئے ہیں؟ وہ کب آئیں گے؟ اور اللہ میاں انہیں ہم سے دور کیوں لے گئے ہیں؟ کیا وہ یہ کہہ کر اپنی قوم کا وقار بچا لے گا اور اس بیانیہ کا ساتھ دے گا۔ جسے انسانوں کو، سرحد اس پار اور اس پار، درسی کتابوں تک میں گھول گھول کر پلایا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یا پھر وہ انسانیت کے وقار کو بچانے کی خاطر ملکی وقار  کی قربانی دے گا۔ اس ملک سے آزاد ہو کر جانے کے بعد، ابھیندن کے کاندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری ہوگی۔ بھاری ذمہ داری!

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply