• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تخلیقاتِ ربُّ العالمین اور ہمارے شعور کے محدود کنارے۔۔۔یاسر لاہوری

تخلیقاتِ ربُّ العالمین اور ہمارے شعور کے محدود کنارے۔۔۔یاسر لاہوری

جب مانگنے والے کا یقینِ کامل ہو اور دروازہ ربِّ کائنات کا ہو تو پھر اسباب کا فقدان تکمیلِ خواہشات میں رکاوٹ نہیں بنا کرتا۔

آئیے ذرا ماضی میں چلتے ہیں، کچھ نفوسِ قُدسیہ کی پُرنور زندگیاں اور ان کے اپنے رب پر یقین کی جھلکیاں دیکھ کر اپنے ایمان کو ترو تازہ کرتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں کی باتوں پر بھی نظر دوڑاتے ہیں جو سائنس کا سہارا لے کر بہت سے مذہبی حقائق کو ایک ایک کر کے جھٹلاتے جا رہے ہیں۔
(اس تحریر میں موجود پاکیزہ ہستیوں کے واقعات قرآن پاک کی آیات سے لئے گئے ہیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم تقریباً دو ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے کے زمانے کے اندر ماضی کے دریچوں میں جھانک رہے ہیں، ایک صدیوں پرانا منظر ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، عرب خطہ ہے جو کہ ملک شام کا گرد و نواح معلوم ہوتا ہے، ایک نہایت ہی بوڑھا شخص کہ جس کے سر کے بال سفید ہو چکے ہیں، بڑھاپے کی وجہ سے ہڈیاں سوکھی ہوئی لکڑی کی طرح اکڑ چکی ہیں، عمر کا آخری حصہ ہے لیکن دل میں اولاد کی خواہش لئے یہ بوڑھا شخص آج اپنے معبود کے سامنے عجز و انکساری کے ساتھ کچھ درخواست کر رہا ہے۔مسئلہ صرف اس کا بڑھاپا نہیں ہے بلکہ وہ بیوی بھی ہے جو شروع دن سے ہی عاقر (بانجھ) ہے، جس کے ہاں جوانی میں اولاد پیدا نہیں ہو سکی وہ بڑھاپے میں آ کر اولاد مانگے تو لوگ بیوقوف سمجھیں گے اور مزاق اڑائیں گے اس لئے یہ شخص ایک بند جگہ محصور ہو کر اپنے رب کو بڑے ہی خفیہ انداز میں پکار رہا ہے اور کہ رہا ہے کہ میں تجھ سے اس لئے مانگ رہا ہوں کہ تجھ سے مانگ کر میں کبھی محروم نہیں رہا!
کیا آپ جانتے ہیں یہ اولاد کی خواہش رکھنے والا بوڑھا شخص کون ہے؟ یہ عیسی علیہ السلام کے خالہ زاد اور بنی اسرائیل کے   آخری انبیاء میں  سے ایک  نبی زکریا علیہ السلام ہیں جو مریم علیھا السلام کے پاس بے موسمی پھل دیکھ کر اپنے لئے اپنے رب سے بے عمری کی والاد مانگ رہے ہیں کیوں کہ ان کا یقین ہے کہ جو رب العالمین مریم کو بے موسم پھل عطا کر سکتا ہے وہ مجھے بڑھاپے میں اولاد بھی دے سکتا ہے۔

زکریا علیہ السلام محراب یعنی عبادت خانے میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں کہ ربِ کائنات نے فرشتے بھیجے کہ جاؤ میرے بندے سے کہ دو:
کہ بے شک اللہ آپ کو ایک بیٹے کی خوشخبری دیتا ہے، جس کا نام یحی ہو گا۔جب مانگنے والے کا یقینِ کامل اور دَروازہ ربِّ کائنات کا ہو تو پھر اسباب کا فقدان تکمیلِ خواہشات میں رکاوٹ نہیں بنا کرتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب آتے ہیں ہم کم و بیش اکیس صدیاں بعد اپنے زمانے میں، یہاں اس وقت جس کی بیوی بانجھ ہے، بوڑھی ہو چکی ہے اور اپنا حال بھی بے حال ہے۔۔۔بڑھانے نے سر کو سفید رنگ میں رنگ دیا ہے، اب اگر ایسا کوئی بوڑھا شخص اولاد کی بات کرے گا تو ایک نہیں بلکہ ایک سو ایک فلسفی اور سائنسی ماہرین اس پر باتیں کسیں گے کہ دیکھو اس عمر میں اس حالت میں اسے اولاد چاہیئے جب کہ خود اگلے جہاں جانے کو ہے۔اصل وجہ کیا ہے؟ ہم اس قدر عقل و شعور رکھنے کا دعوی کرنے والے اپنے رب کے بارے میں عقل و شعور استعمال کیوں نہیں کرتے؟

اصل وجہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک اپنے رب کو پہچان نہیں پائے، ڈھونڈ نہیں سکے، اس کی حقیقت کو جان نہیں سکے۔ہم نے سائنس پڑھ لی، سیکھ لی اور سکھا لی پھر ہم نے یہ گمان کر لیا کہ جو سائنس نے کہہ دیا وہ حرفِ آخر ہے، ہماری سوچ ہماری عقلی دلیلوں تک محدود ہو کر رہ گئی، ہم نے ایک محدود لیکن مثبت چیز (سائنس) کو مذہب کے مقابلے میں لا کھڑا کیا اور یوں ہم ایک ایک کر کے مذہبی باتوں کو پوشیدہ اور ڈھکے چھپے الفاظ میں جھٹکانے لگے۔اس تحریر میں چند ایک ایسی باتوں کا ذکر کیا جائے گا جن کو مذہب نے بیان کیا ہے لیکن سائنس و اہل سائنس ابھی تک ان چیزوں کو صرف اس لئے نہیں مان رہے کیوں کہ ابھی تک ایسے کوئی سائنسی ثبوت نہیں ملے جس کی بنا پر یہ کہا جا سکے کہ مذہب (اسلام) نے جو فلاں بات کی یے وہ ٹھیک ہے۔۔۔خدارا! لوٹ آئیے، توبہ کر لیجیئے اور سمجھ جائیے کہ “مذہب کو سمجھنے کے لئے سائنس کی ضرورت نہیں ہے، مذہب اپنی حقانیت کو اجاگر کرنے کے لئے سائنس و اہلِ سائنس کا محتاج نہیں ہے”

کیا کوئی اس سوال کا جواب دے سکتا ہے کہ ہمیشہ کی بانجھ عورت اور نہایت ضعیف اور کمزور بوڑھے شخص کے ہاں اولاد ہوئی تو کیوں کر ہوئی؟ کیسے ہوئی؟
یہ تو صرف ایک ہی ایسی صورت حال ہے کہ ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔۔۔مذہب الہامی علم کا ایک وسیع سمندر ہے، جس کی حدود کا تعین کرنا میری، آپ کی یا ہماری تحقیق و جستجو (سائنس) کے بس کا کام نہیں!

عقل و شعور سے بالاتر خالق کائنات کی ایک اور تخلیق

مریم علیھا السلام بنی اسرائیل کے ایک معتبر دینی گھرانے میں پیدا ہوئیں تھیں، آپ کے والد کا نام عمران تھا۔مریم علیھا السلام کی والدہ نے اپنی منت کے مطابق آپ کو ہیکل (عبادت خانے) کے لئے وقف کر دیا تھا۔مریم علیھا السلام ہمہ وقت اپنے حجرے کے اندر اللہ کی عبادت میں مصروف رہتیں، آپ کی کفالت زکریا علیہ السلام کے ذمہ تھی جو وقتا فوقتا آپ کے حجرے میں تشریف لاتے اور ضروریات کا خیال رکھتے۔یہ خاندان اس وقت بنی اسرائیل کے انبیاء کا خاندان تھا۔

مریم علیھا السلام ایک نہایت پاکیزہ ہستی تھیں کہ جن کی زندگی خدائے عز و جل کی عبادت میں گزر رہی تھی کہ یکایک زندگی میں اتھل پتھل ہوئی، انسان ہونے کے ناطے شش و پنج میں مبتلا ہو گئیں سمجھ میں نا آیا کہ یہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ہوا کچھ یوں کہ ایک دن مریم علیھا السلام بیت المقدس کے مشرقی جانب آبادی سے دور ویران جگہ کو آئیں، جب لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو گئیں تو اللہ کی طرف سے جبرائیل علیہ السلام ایک انسان کی شکل و صورت میں آئے۔ایک اجنبی مرد، بے آباد ویران جگہ اور اپنے اکیلے پن کو محسوس کر کے مریم علیھا السلام گھبرا گئیں اور کہنے لگیں کہ میں رب رحمان کی پناہ میں آتی ہوں اگر تو ذرا بھی اپنے دل میں ڈر رکھتا ہے تو!!! یہ سن کر جبرائیل علیہ السلام فرمانے لگے کہ میں تمہارے رب کا بھیجا ہوا ایک قاصد ہوں، میرے یہاں آنے کا مقصد یہ ہے کہ میں تجھے ایک پاکیزہ لڑکا (کی خوشخبری) دوں۔

ایک پاکیزہ، متقی، پرہیز گار اور عبادت گزار بغیر نکاح والی عورت یعنی مریم علیھا السلام نے یہ سنا تو حیران و مبہوت ہو کر رہ گئیں، فرمانے لگیں کہ میرے ہاں اولاد کیسے ہو سکتی ہے؟ حالانکہ مجھے آج تک کسی انسان نے چھوا تک نہیں (یعنی نکاح نہیں ہوا) اور نا ہی میں بدکار ہوں۔اس پر جبرائیل علیہ السلام نے جو کہا وہ آج کے ان لوگوں کے سوالات کا خوب جواب ہے جو لوگ سائنس کا سہارا لے کر ہر مذہبی مافوق الفطرت بات کا انکار کر دیتے ہیں۔

جبرائیل علیہ السلام فرمانے لگے “بات تو ایسے ہی ہے جو آپ فرما رہی ہیں لیکن معاملہ یہ ہے کہ آپ کے رب پر یہ نہایت ہی آسان ہے، اور یہ بن باپ کے اولاد پیدا کرنا اس لئے بھی ہے تا کہ ہم اسے لوگوں کے لئے نشانی بنا دیں اور یہ کام تو ہو کر رہے گا” زکریا علیہ السلام کے واقع کی طرح قرآن پاک اس واقع کی بھی ایک ایک بات پر گواہی دے رہا ہے کہ “مریم علیھا السلام کے ہاں بن باپ کے اور کسی مرد کے چھوئے بغیر ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام عیسی علیہ السلام ہے، جو بنی اسرائیل کے آخری نبی ہیں، جن کو روح اللہ کا لقب عطا کیا گیا، جنہیں آسمانی کتاب بھی عطا کی گئی اور پھر مریم و عیسی علیھما السلام قیامت تک کے لئے یہ پاکیزہ ہستیاں لوگوں کے لئے رب العالمین کی عظیم تخلیقات کی نشانیاں ثابت ہوئیں۔

عقل کو حیران کر دینے والی رب رحمان کی ایک اور نشانی!

جب مریم علیھا السلام گود میں ایک شیر خوار بچے کو اٹھائے واپس آئیں اور قوم کے لوگوں نے عجیب عجیب سوالات کئے، کہنے لگے کہ اے مریم! بے شک تم نے بہت بری حرکت کی ہے۔اے ھارون کی بہن نا تو تیرا باپ برا آدمی تھا اور نا تیری ماں بدکار تھی۔جب سوالات بڑھنے لگے تو مریم علیھا السلام نے اس بچے کی طرف اشارہ کر دیا کہ اس سے پوچھو سارا ماجرا، سب کے سب کہنے لگے لو بھئی! اب ہم گود کے بچے سے بھلا کیسے باتیں کریں۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟

تب منطق و فلسفہ، عقل و شعور اور دانائی سے بھرپور ذہانتیں دھری کی دھری رہ گئیں، اس وقت قوم کے لوگ دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے، جب ربِ کائنات نے گود کے بچے کو “کہ جو ابھی پیدا ہی ہوا تھا” قوتِ گویائی عطا فرمائی اور اس بچے یعنی عیسی علیہ السلام نے اپنی ماں کی پاکیزگی کچھ یوں بیان فرمائی “بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں، مجھے اس نے کتاب عطا فرمائی ہے اور اس نے مجھے نبی بنایا ہے، اور میں جہاں کہیں بھی ہوں گا اس مجھے بابرکت بنایا ہے، اور اس نے مجھے تاحیات نماز اور زکوة کا پابند کیا ہے اور مجھے میری ماں کا فرمانبردار بنایا ہے، مجھ پر سلام ی سلام ہے جس دن میں پیدا ہوا جس دن فوت ہوں گا اور جس دن دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاوں گا”

ایک اور محیر العقول قرآنی واقعہ!

ادھر آیئے! چار ہزار سال پرانا منظر ہے، جس منظر میں آپ اور میں محوِ سفر ہیں، ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی سارہ علیھا السلام کے پاس دو اجنبی مہمان آتے ہیں۔ابرہیم علیہ السلام ان کی میزبانی کرنا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے کچھ بھی کھانے پینے سے انکار کر دیا، میزبانی قبول نا ہونے پر ابراہیم علیہ السلام ذرا گھبرا جاتے ہیں کہ پتہ نہیں ان کے آنے کا مقصد کیا ہے جس پر وہ دونوں اجنبی مہمان ابرہیم علیہ السلام کے سامنے بولتے ہیں کہ آپ ڈریے مت ہم قوم لوط “جو کہ بدکاری میں حد سے گزر چکی ہے” کی تباہی کے لئے بھیجے گئے فرشتے ہیں، ساتھ ہی فرشتوں نے بڑھاپے میں پہنچے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے اسحاق علیہ السلام کی خوشخبری بھی سنا دی کہ اللہ آپ کو اولاد عطا کرنا چاہتا ہے، اس بات پر سارہ علیھا السلام نے بڑے ہی تعجب کا اظہار کیا اور فرمانے لگیں کہ “میرے ہاں کیسے اولاد ہو سکتی ہے جبکہ میں ایک عجوز یعنی بڑھاپے کی وجہ سے بانجھ ہو چکی ہوں اور یہ میرے شوہر یعنی ابراہیم علیہ السلام بھی بوڑھے ہو چکے ہیں یہ تو بہت ہی عجیب بات کی تم نے۔۔۔فرشتے کہنے لگے کہ کیا تو اللہ کی قدرت پر تعجب کر رہی ہے؟”

اور پھر۔۔۔ قرآن و حدیث اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ رب العالمین نے اس جوڑے کو بڑھاپے میں اولاد یعنی اسحاق علیہ السلام جیسی نعمت سے نوازا، اہل کتاب بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کو چھیاسی سال کی عمر میں اللہ نے اولاد عطا فرمائی!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کا انسان جدید تعلیم کے چار الفاظ سیکھ کر، ٹیکنالوجی کے فانی و محدود کمالات پر اختیار حاصل کر کے یہ بھول گیا ہے کہ رب العالمین جس طرح اپنی ذات میں یکتا ہے اسی طرح اپنی صفات میں بھی یکتا ہے اور تخلیق کرنا بھی اس کی ایک صفتِ خاص ہے وہ جب چاہے، جیسے چاہے جہاں چاہے جس کو چاہے جو چاہے عطا کر دے، اس کی عطاؤوں کو کوئی روکنے والا نہیں اور جب وہ روک لے تو اس کے مقابلے میں کوئی عطا کرنے والا نہیں!!! تخلیق و ایجاد کے معاملے میں یہ یاد رکھیں کہ اس کے قبضہ اختیار میں ہے کہ وہ بغیر سبب کے بھی پیدا کر سکتا ہے۔

وہ چاہے تو بغیر مرد اور عورت کے انسان کو پیدا فرما دے۔جیسا کہ آدم علیہ السلام!
وہ چاہے تو صرف مرد سے عورت کو پیدا کر دے۔جیسا کہ حوا علیھا السلام!
وہ چاہے تو بغیر مرد کے عورت کے ہاں اولاد پیدا کر دے۔جیسا کہ مریم علیھا السلام کے ہاں عیسی علیہ السلام!
وہ چاہے تو ایک بوڑھے شخص اور سدا کی بانجھ عورت کے ہاں بڑھاپے میں بیٹا عطا کر دے۔جیسا کہ زکریا علیہ السلام کے ہاں یحی علیہ السلام!
وہ چاہے تو نشانی کے طور پر اچھے بھلے بولتے انسان کی زبان کو تین دن کے لئے گونگا کر دے۔جیسا کہ زکریا علیہ السلام!
وہ چاہے تو پیدا ہونے کے چند لمحے بعد گود کے بچے کو زبان عطا کر دے۔جیسا کہ عیسی علیہ السلام!

وہ چاہے تو زرخیز زمین کے اندر ڈالے گئے بیج کو وہیں ضائع کر دے اور ہم پودا نِکلتا نا دیکھ سکیں، وہ چاہے تو باورچی کے اندر ٹوکری میں پڑے خشک پیاز سے ہرا بھرا پودا نکال دے!
یاد رکھیں! فزکس، کیمسٹری اور بائیو کے قوانین جہاں دم توڑ جاتے ہیں، ندجہاں ان کی حدود ختم ہوتی ہیں وہاں سے میرے اور آپ کے رب کی ربوبیت و تخلیق کی ابتداء ہوتی ہے۔۔۔سائنس میری، آپ کی اور ہم سب کی تحقیق و جستجو کا نام ہے اور یہ بات سب مانتے ہیں کہ ہم بحیثیت انسان غلط ہو سکتے ہیں، ہمارے اندازے اور تجربات آئے روز بدلتے رہتے ہیں جبکہ قرآن و صحیح حدیث ایک اٹل حقیقت ہے۔سائنس نے تو ابھی آٹے میں نمک برابر کائنات میں تحقیق نہیں کی پھر اپنی نامکمل تحقیق کے بل بوتے پر یہ لوگ آسمانی مذاہب کو کس قانون کے تحت جھٹلاتے ہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ سائنس اس بات کا دعوی کرتی ہے کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ تاریخ میں کبھی بھی انسان کی عمر ڈیڑھ سو سال سے زیادہ ہوئی ہو۔۔۔۔جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ قرآن پاک واضح الفاظ میں بتاتا ہے کہ “اور بے شک ہم نے نوح علیہ السلام کو ان کی قوم میں بھیجا تو وہ ان میں پچاس کم ایک ہزار سال (950 سال) رہے” سورہ عنکبوت
جبکہ سائنس اتنی لمبی انسانی عمر کا انکار کرتی ہے۔مزید سائنس ابھی تک روح کے متعلق نہیں جان سکی کہ روح کیا چیز ہے؟ ذرا سوچیئے کہ انسان مر گیا، انسانی جسم موجود ہے، اس میں خون موجود ہے ہڈیاں موجود ہیں ہاتھ سلامت ہیں سب کچھ ہے لیکن نا بول سکتا ہے نا دیکھ سکتا ہے نا چل سکتا ہے نا ہی بیٹھ سکتا ہے۔۔۔آخر اس کے جسم میں ایسا کیا تھا جو اب نہیں!!! روح نظر نہیں آئی تو کیا ہم سائنس کے نظریات کے مطابق انکار کر دیں کہ روح نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں؟ کیوں کہ سائنس کسی چیز کے موجود ہونے کا ثبوت مانگتی ہے، مشاہدہ اور تجربہ کرتی ہے پھر مانتی ہے لیکن یہاں تو بہت سی ایسی باتیں ہیں کہ جن کے متعلق سائنس بے بس ہے تو کیا ہم ان سب چیزوں کا انکار کر دیں؟ جی نہیں ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی سب کچھ نہیں بلکہ خدائے عزوجل کی ربوبیت ہی سب سے بڑی حقیقیت ہے اور اسی کا قول برحق و لاریب ہے!

کیا میری اپنی ذات ہی مجھے یہ بات سمجھانے کے لئے کافی نہیں ہے کہ رب العالمین ہر طرح سے بااختیار بھی ہے اور قادر مطلق بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔ایک وقت تھا کہ میں کچھ بھی نہیں تھا، اب میں ایک جیتا جاگتا انسان ہوں اور آپ سے مخاطب ہوں مزید ایک وقت آئے گا کہ جب میں پھر سے ایک بھولی بسری چیز ہو جاؤں گا۔۔۔۔۔!

Advertisements
julia rana solicitors

وفی انفسکم افلا تبصرون
اور تمہارے اپنے وجود میں کئی ایک نشانیاں ہیں کیا تم غور نہیں کرتے؟ سورہ الذاریات

Facebook Comments

محمد یاسر لاہوری
محمد یاسر لاہوری صاحب لاہور شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت عرصہ سے ٹیچنگ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سائنس، فلکیات، معاشرتی بگاڑ کا سبب بننے والے حقائق اور اسلام پر آرٹیکلز لکھتے رہتے ہیں۔ جس میں سے فلکیات اور معاشرے کی عکاسی کرنا ان کا بہترین کام ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply