بوڑھا صحافی استاد مختلف ثقافتو ں میں سماجی برائیوں پر بات کر رہا تھا ۔صحافیوں کے اس کورس میں دنیا کے مختلف ممالک کے صحافی موجود تھے ۔ ایک مشرقی ملک کے صحافی نے سوال کے لئے ہاتھ کھڑ ا کیا ؟
بوڑھے یورپی استاد ن نے اجازت دی کہ پوچھو جو پوچھنا چاہتے ہو ۔ نوجوان صحافی نہایت جوش سے تقریر کے انداز میں کہنے لگا آپ کے ممالک تہذیب کے معاملے میں پستی کی جانب گامزن ہے خواتین کا لباس دیکھیں تو بے حیائی اور فحاشی پھیلی ہوئی ہے۔ لگتا ہے انسان جنگل کے دور میں واپس چلا گیا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ عورت اور مرد سڑک کنارے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھوم رہے ہیں بلکہ کچھ تو بوس و کنار میں بھی مشغول ہیں۔ یہ انسانی تہذیب و تمدن کا جنازہ ہے ۔۔۔
کچھ دوسرے مشرقی ممالک کے صحافیوں نے اس صحافی کو آنکھ ماری اور تحسین بھری نظروں سے داد دی کا واہ کمال کر دیا ۔
بوڑھے یورپی صحافی نے ایک گہرا سانس لیا اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو سڑک کنارے اس طرح مردو خواتین کے بوسے و معانقے ہمیں بھی تہذیب کی تنزلی لگتی ہے ۔ واقعی اس برائی کو رکنا چاہیے ۔اس کے بعداس نے اپنا لیکچر دوبارہ شروع کردیا ۔ اب اس نے مختلف ممالک میں جرائم پر گفتگو شروع کی اور اعداد وشما ر بتانا شروع کئے اور پھر اس نے اسی مشرقی صحافی کو مخاطب کر کے پوچھا کہ ذرا تفصیل بتائیں گے کہ آپ کے ممالک میں ہر روز کتنے لوگ قتل ہوتے ہیں ؟
اعداو شمار تو اس کے پاس تھے لیکن اس دفعہ وہ خاموش ہو گیا اور نہ صرف وہ خاموش ہو گیا بلکہ تمام دیگر ممالک کے لوگ بھی خاموش ہو گئے جو اس سے پہلے ایک دوسرے کو آنکھ مار رہے تھے۔
بوڑھا یورپی صحافی پھر گویا ہوا ۔ کوئی بھی معاشرہ سماجی برائیوں کو صفر نہیں کر سکتالیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ معاشرتی برائیوں کے خاتمے میں ترجیحات کیا ہیں ۔لکھتے وقت کن جرائم کی روک تھام کے لئے زیادہ قلمکاری کی ضروت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویلنٹائین ڈے آتےہی ہمارے مبلغین باقاعدہ صف بندی اور جتھے بندی سے تحریریں لکھتے ہیں۔ حقیقت تویہ ہے کہ یہ دن ہمارے دیہی علاقوں میں شاید ایک فیصد لوگوں کا بھی مسئلہ نہ ہو۔ بلکہ اگر مبلغین اس پر طبع آزمائی نہ کریں تو کسی کو اس کے گزرنے کا پتہ بھی نہ چلے لیکن ہمارے مسائل اور ترجیحات میں واضح فرق ہے
مثلاً آپ کو ایسی کوئی زبردست تحریری تحریک جہیز کے خلاف نہیں ملے گی جس نے معاشرے کو جہنم بنا دیا ہے ۔ آپ کو ایسی کوئی زبردست تحریک شادیوں پر فضول اخراجات ، مہندی اور آتشیں اسلحے سے فائرنگ کے خلاف نہیں ملے گی ۔ آپ کو کوئی ایسی زبردست تحریک میت والوں کے گھروں میں فضول اخراجات کرنے کے خلاف نہیں ملے گی ۔ آپ کو ایسی کوئی زبردست تحریک وی آئی پی کلچر، دولت کی نمائش ، شخصیت پرستی کے خلاف نہیں ملے گی ۔ آپ کو ایسی کوئی تحریک زبردستی کی شادی ، کاروکاری ،وٹے سٹے کے خلاف نہیں ملے گی ۔ آپ کو ایسی کوئی تحریک رشوت ، کرپشن اور ،ملاوٹ کے خلاف نہیں ملے گی
ہم ایک فیصد لوگوں کے مسائل کے لئے تو فکر مند ہیں لیکن ہمارے ننانوے فیصد لوگ استحصال اور جبر کی کس چکی میں پس رہے ہیں ان کی ہمارے قلمکاروں کو کوئی فکر نہیں
Facebook Comments
کام تو سب اپنا اپنا کرتے ہیں آپ دبے دبے لفظوں میں ویلنٹائن ڈے لکہ لیتے ہیں ہم دبےدبے لفظوں میں مخالفت کر لیتے ہیں آپ ویلنٹائن ڈے کہنا چھوڑ دیں ہم مخالفت چھوڑ دیں