2020 بلوچستان کے لیے کیوں اہم سال ہو گا۔۔عابد میر

کہتے ہیں نئے سال میں صرف ہندسے بدلتے ہیں باقی سب تو وہی رہتا ہے۔ لیکن اس بار سال کا ہندسہ بدلتے ہی بلوچستان میں بہت کچھ ہونے والا ہے۔ عین ممکن ہے یہ “بہت کچھ” برسوں سے منجمند اس کے حالات و تقدیر پہ بھی کوئی اثر ڈالے اور بہاروں کو ترستے اس دیس میں امید کی کوئی نئی کونپلیں کھل اٹھیں۔

آئیے دیکھتے ہیں ہمارے دیس میں ممکنہ طور پر نئے سال میں کیا ہونے جا رہا ہے۔

ینگ بلوچ کے سو سال

ہمارے خطے میں اولین سماجی سیاسی علمی تنظیم کاری کی بنیاد کو اس سال سو سال مکمل ہو رہے ہیں۔ 1920 میں مستونگ کے مقام پر میر عبدالعزیز کرد نے کچھ ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر “ینگ بلوچ” کی بنیاد رکھی۔ یہ کسی قسم کی جدید شہری تنظیم کاری کی ہماری اولین کوشش تھی۔ بنیادی مقصد اپنے سماج کی شعوری بنیادوں پر علمی و سیاسی تربیت تھا۔ یہی کاوش آگے چل کر بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی بنیاد بنی۔ اگلی پیڑھی نے اسی مشعل سے روشنی لے کر قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی نامی محاذ تشکیل دیا۔ جو پھر مختلف ناموں کے چولے بدلتے رہا۔ یہ اسی فکر کا اثر ہے کہ پاکستان کے موجودہ آئینی بندوبست میں بھی بلوچستان واحد صوبہ ہے جس کی اپنی صوبائی پارلیمانی جماعتیں اچھے خاصے ووٹ بینک کے ساتھ اپنا اثر رکھتی ہیں۔

اب تین مختلف اداروں نے 1920 کی اس تحریک کے صدسالہ جشن کا اعلان کیا ہے۔ ان میں ایک بلوچستان کے دانش وروں اور اہل علم پر مشتمل تنظیم سنگت اکیڈمی آف سائنسز ہے جو اپنا شجرہ نصب 1920 کی اسی تنظیم اور ان کے اکابرین سے جوڑتی ہے۔ یہ تنظیم پوہ زانت (علم فہمی) کے نام سے ہر ماہ ایک علمی ادبی نشست کا اہتمام کرتی ہے۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ نئے سال کے ہر پوہ زانت میں 1920 کی تحریک اور ان کے اکابرین کو یاد کیا جائے گا۔ اور دسمبر میں ایک کانفرنس منعقد کی جائے گی۔

دوسرا ایک نومولود ادارہ ہے جس کی بنیاد ایک سال پہلے رکھی گئی۔ اس ادارے نے اپنی بنیاد ہی 1932 کی آل بلوچ کانفرنس کی یاد میں اور اسی طرز پر رکھی۔ یہ ادارہ 1920 کی تحریک اور 1932 کی کانفرنس کے نشاط الثانیہ کا خواب رکھتا ہے۔ فی الحال اسے اس کی طرز پر آل بلوچستان کانگریس (اے بی سی) کا نام دیا گیا ہے۔ اس نے پہلی کانفرنس محمد امین کھوسہ کے نام پر جھٹ پٹ کے مقام پر دسمبر 2018 میں منعقد کی۔ دوسری کانفرنس اسی خطے کے ایک عوام دوست رہنما خیربخش گولہ کے نام پر اسی مقام پہ دسمبر 2019 میں منعقد ہوئی۔ اب اعلان کیا گیا کہ ہے 2020 ان اکابرین کی یاد کا سال بھی ہو گا اور ایک ایسے ادارے کی تنظیم سازی کی جائے گی جو ینگ بلوچ اور انجمن اتحاد بلوچستان کا جدید متبادل ثابت ہو سکے۔ ادارے نے اعلان کیا ہے کہ یہ پیغام سال بھر سماج کی مختلف پرتوں تک پہنچایا جائے گا اور دسمبر 2020 میں اس کا باقاعدہ تنظیمی اعلان ہو گا۔

تیسرا ادارہ ایک معروف سیاسی جماعت نیشنل پارٹی ہے۔ جس نے نئے سال کو اپنے اکابرین سے منسوب کرتے ہوئے سال بھر ان کی یاد میں تقاریب کے اہتمام کا اعلان کیا ہے۔

توقع ہے کہ یہ خیال اپنے اچھوتے پن اور مقامیت کے باعث ہمارے سماج کے سبھی طبقات کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے گا اور بہت جلد مختلف علمی ادبی سماجی سیاسی ادارے اس خیال کو اپنانے لگیں گے۔ یوں یہ سال بلوچستان بھر میں وسیع پیمانے پر زندگی آمیز سرگرمیوں کا سال ہو گا۔ عین ممکن ہے اس کے نتیجے میں سماج کسی بنیادی فکری و عملی تبدیلی سے دوچار ہو۔

آواران میں تبدیلی

بلوچستان میں اس صدی کے آغاز سے شروع ہونے والی انسرجنسی نے جن اضلاع کو سب سے زیادہ متاثر کیا ان میں سرفہرست آواران ہے۔ یہ حالیہ مزاحمتی تحریک کا ہیڈکوارٹر بھی مانا جاتا ہے۔ یہاں دونوں متحارب قوتوں کا زور پایا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہاں کی مقامی آبادی سخت متاثر ہوئی ہے۔ رہی سہی کسر 2013 کے زلزلے نے پوری کر دی۔ یوں مقامی آبادی کا نصف سے زائد حصہ اپنے آبائی علاقوں سے ہجرت کر گیا۔ باقی رہ جانے والی آبادی کے لیے زندگی دشوار تر ہوتی جا رہی ہے۔

ہمارے ایک ساتھی شبیر رخشانی نے چند ماہ قبل بلوچستان ایجوکیشن سسٹم کے نام سے ایک مہم شروع کی۔ اور اس کا مرکز اپنے آبائی علاقہ آواران کو بنایا۔ اس دوران وہ وہاں کو چپہ چپہ گھوما۔ گھوسٹ سکولز اور گھوسٹ ٹیچرز کا پورا کچا چٹھا جمع کیا اور سوشل میڈیا سمیت سرکار کے ایوانوں تک پہنچانے کی کوشش کی۔

اس دوران جب وہ آواران میں تھا ہم نے اسے مشورہ دیا کہ وہاں ایک تعلیمی میلے کی کوشش کرے جہاں خصوصا طلبا و طالبات اور شہریوں کو علمی ادبی سرگرمی دیکھنے کو ملے تاکہ مایوسی کی فضا میں امید کا دیا روشن ہے۔

اس نے یہ خیال ڈگری کالج آواران کو فعال بنانے والے متحرک پرنسپل سے شیئر کیا۔ انھیں خیال پسند آیا اور انھوں نے میزبانی کی حامی بھر لی۔ یوں جنوری کے دوسرے ہفتے میں آواران میں پہلی بار تعلیمی و ادبی میلہ ہونے جا رہا ہے۔ جو آواران کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی سرگرمی ہو گی۔ بالخصوص گولیوں کی مسلسل گونج والے سماج میں پہلی بار علمی نشستیں ہوں گی شعر و ادب کی آواز گونجے گی۔ بلوچ کے ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے میں قلم و کتاب کی یہ عملی تفسیر ہو گی۔

کتاب و علم دوستی کا سال

گزشتہ کچھ برسوں میں کتاب دوستی کا سفر ہمارے ہاں بھی تعلطل کا شکار ہوا۔ اب کچھ نوجوانوں نے طے کیا ہے کہ اس تعطل کو ختم کیا جائے۔ سریاب سے تعلق رکھنے والے یہ نوجوان اس خیال سے نئے سال کا آغاز کوئٹہ میں کتاب بازار سے کرنے جا رہے ہیں۔ نئے سال کے آغاز پر جہاں ملک بھر میں ہیپی نو ایئر کے نام پر غل غپاڑہ چل رہا ہو گا کوئٹہ کے نوجوان سریاب روڈ کے منیر احمد جان چوک پر کتابوں کے ہفتہ وار سستا بازار کا افتتاح کر رہے ہوں گے۔ ہم چاہیں گے کہ یہ اس موقع پر چاپ بھی ڈالیں اور اپنے پیغامات پوسٹرز کی صورت وہاں نمایاں کریں۔ میڈیا کے ذریعے دنیا کو ہمارا روشن چہرہ دکھائیں۔ سریاب کا اصل دمکتا چہرہ دکھائیں۔

امید ہے یہ سلسلہ سال بھر تسلسل سے جاری رہے گا اور اس سے شہہ پا کر بلوچستان بھر میں اسے پھیلایا جائے گا۔

بلوچستان لٹریچر فیسٹول

گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان بھر میں ادبی میلوں کا رواج پڑا اور تیزی سے پھلا پھولا۔ ان میلوں پہ ہونے والی تنقید سے قطع نظر بہرحال ان سرگرمیوں نے عوام کو متحرک کرنے اور علم و ادب کی طرف راغب کرنے میں خاصا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے ذریعے قارئین اور مصنفین کے درمیان بڑھتی دوریاں خاصی سمٹی ہیں۔ خصوصاً انتہاپسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات والے سماج میں یہ میلے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے جہاں ہر نوع کا مکالمہ بھی ہوتا ہے اور نوجوان جھومتے گاتے بھی ہیں۔

یہ میلے اب پاکستان کے لگ بھگ ہر بڑے شہر میں سالانہ بنیادوں پر ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں سوائے گوادر میلے کے ایسے کسی میلے کا رواج نہیں پڑ سکا۔ جہاں ملک بھر کے ادیب صحافی اور سیاسی و سماجی شخصیات یکجا ہو سکیں۔

اب کچھ احباب کا خیال ہے کہ بلوچستان لٹریچر فیسٹول کے نام سے نئے سال سے اس ایونٹ کا ڈول ڈالا جائے۔ اس سے جڑے احباب اس کا آغاز اس خطے کے ایک مشترکہ ثقافتی تہوار نوروز کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں جو مارچ کے آخری ہفتے میں منایا جاتا ہے۔

یہی احباب بلوچستان فلم فیسٹول منانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ ایونٹ لٹریچر فیسٹول کا حصہ بھی ہو سکتا ہے اور ممکنہ طور پر ایک الگ ایونٹ بھی۔

دیکھیے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

عابد میر
عابد میر بلوچستان سے محبت اور وفا کا نام ہے۔ آپ ایک ترقی پسند سائیٹ حال احوال کے ایڈیٹر ہیں جو بلوچ مسائل کی نشاندھی اور کلچر کی ترویج میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply