شعورِ حسن سے عاری ہیں فطرت سے بھی نفرت ہے
یہ کیسے لوگ ہیں جن کو محبت سے بھی نفرت ہے
روایت کا امیں سمجھے تھے ہم فرسودہ لوگوں کو
مگر ان کو محبت کی روایت سے بھی نفرت ہے
کوئی سنگیت بھی جن کو کبھی پگھلا نہیں پایا
یہ وہ پتھر ،جنھیں پتھر کی مورت سے بھی نفرت ہے
سوائے تلملانے کے کریں گے اور کیا جن کو
جواں جسموں میں جذبوں کی حرارت سے بھی نفرت ہے
رکھیں گے تیرے جیسوں سے محبت کی طلب اور ہم
تجھ ایسوں کی ہمیں صاحب سلامت سے بھی نفرت ہے
تجھے گر زہر لگتے ہیں یہ امن و پیار کے نغمے
ہمیں تجھ سے ترے دینِ عداوت سے بھی نفرت ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں