حکومت حماقت نہ کرے/نجم ولی خان

یہ بہت بڑا اقدام لگتا ہے کہ حکومت موٹرسائیکلوں، رکشوں اور آٹھ سو سی سی تک کی کاروں کے لئے پٹرول کی فی لیٹر قیمت پورے سو روپے کم کرنے جارہی ہے۔ اگر ہم نے واہ واہ کرنی ہے، تالیاں بجانی ہیں تو اس کے لئے ایک یہ اچھا موقع ہے کہ ہم کہیں کہ آپ واقعی غریبوں کے بہت ہمدرد ہیں، ان کے لئے بہت سوچتے ہیں، انہیں ریلیف دینا چاہتے ہیں مگر یہ ایک سویپنگ سٹیٹمنٹ ہو گی یعنی ایسا بیان جو حقائق پر جھاڑو پھیر کے دیا جائے۔ جیسے یہ بیانات ہوتے ہیں کہ تمام امیر کرپٹ اور چور ہوتے ہیں اور تمام غریب مظلوم اور معصوم۔ اس طرح کے بیانات کم آئی کیو لیول والوں کے لئے بہت متاثر کن ہوتے ہیں مگر ایک صحافی کے لئے نہیں۔ میرے جیسے کارکن صحافی کا پہلا سوال ہی یہ ہے کہ کیا آپ کے خزانے میں اتنے پیسے آ گئے ہیں کہ آپ مجموعی طور پرسوا دو کروڑ سے زائد موٹر سائیکلوں اور چھوٹی گاڑیوں کو استعمال ہونے والے ساڑھے چار سو ملین لیٹرز پرریلیف دے سکیں۔ اس کا جواب ہے کہ اس میں حکومتی خزانے کاسوال نہیں کیونکہ حکوومت امیروں سے لے کر غریبوں کو دینا چاہتی ہے اور تمام مسائل اسی ایک سوال اورجواب میں چھپے ہوئے ہیں۔ حکومت منصوبہ بندی کررہی ہے کہ وہ سوا دو کروڑ موٹرسائیکلوں، رکشوں اور آٹھ سو سی سی چھوٹی گاڑیوں کے سوا تمام گاڑیوں کے تیل کے نرخ ایک سو روپے بڑھا دے اور اسی بنیاد پر مصدق ملک کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کو ہمارے اس پروگرام پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ یہ سب سڈی نہیں ہے۔
اسی سوال اور جواب میں پوری حماقت چھپی ہوئی ہے۔ حکومت اپنی طرف سے غریبوں کو ریلیف دے کر بلے بلے کروانا چاہتی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ باقی کن گاڑیوں کے لئے پٹرول تین سو بہتر روپے لیٹر کرنے جا رہی ہے۔ا ن میں امیر لوگ تو شامل ہی ہیں مگر ان میں وہ بھی شامل ہیں جن کے پاس اب بھی پانچ، دس ہی نہیں بلکہ بیس بیس پرانی گاڑیاں ہیں جو انہوں نے پانچ،سات یا دس لاکھ روپوں میں خرید رکھی ہیں۔ یہ پٹرول زیادہ پیتی ہیں مگر وہ نئی فیول ایفی شینٹ گاڑی افورڈ ہی نہیں کرسکتے جیسے سڑکوں پر بہت ساری نئی چھ سو ساٹھ سی سی گاڑیاں ہیں اور ان کی قیمتیں تیس سے چالیس لاکھ روپوں کے درمیان پہنچ گئی ہیں۔ ان میں سے بہت سارے وہ ہیں جو سخت گرمی میں بھی شیشہ کھول کے گاڑی چلاتے ہیں تاکہ اے سی پر پٹرول خرچ نہ ہو۔ آپ مڈل کلاس کے ایک بہت بڑے طبقے کو پونے چار سو روپے لیٹر پٹرول کا عذاب دینے جا رہے ہیں۔اس سے جڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ آپ ایسے تمام منصوبوں سے کرپشن کا عنصر نہیں نکال سکتے جیسے سستی روٹی میں ہوا تھا۔ یہاں کرپشن کے کئی لیول ہوں گے کیونکہ ان میں آپ پٹرول پمپوں، بنکوں اور پٹرول فراہم کرنے والی کمپنیوں کو بھی برابر کاحصے دار بنا رہے ہیں۔ان تین مرحلوں کے بعد سستا پٹرول لے کر مہنگا بیچنے والا کام اپنی جگہ پر رہے گا۔
اصل دھماکہ اس وقت ہو گا جب آپ ان تین قسم کی گاڑیوں کے علاوہ ہر قسم کی گاڑی کے لئے پٹرول پونے چار سو روپے لیٹر کریں گے تو ان میں چھوٹے موٹے لوڈر بھی شامل ہوں گے،بسیں بھی اور ٹرک بھی۔ یعنی خوراک سے لے کر ادویات تک ہر قسم کی نقل وحمل کے اخراجات بے حد بڑھ جائیں گے۔ حکومت پٹرول ڈیڑھ سوروپے سے پونے تین سو روپے پر لے کر گئی یعنی سواسو روپے کا اضافہ کیا تو اس وقت مجموعی طور پر ہر شے کی قیمت دوگنی ہوچکی ہے۔ جہاں بسوں اور ٹرکوں کے کرائے بڑھیں گے وہاں جس گھر کا مہینے کا سودا سلف پندرہ ہزار روپوں میں آتا تھا وہ تیس ہزار پر پہنچ چکا ہے آپ اسی خرچ کوپینتالیس ہزار روپوں پر لے جائیں گے۔میں نے رکشہ ڈرائیوروں سے پوچھا کہ آپ لوگوں کو جب پٹرول سو روپے کم میں ملے گا تو کیا آپ کرائے کم کریں گے کیونکہ ہمارے ہاں فی کلومیٹر کرائے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہ بارگیننگ ہی ہوتی ہے۔ جواب ملا کہ اگر آپ مجھے مہینے کے پچاس لیٹر پٹرول پر پانچ ہزار کی بچت دے دیں گے اور ساتھ ہی ہر شے مہنگی کر کے گھر کا خرچہ دس ہزار بڑھا دیں گے تو میں کرایہ کیسے کم کروں گا؟ رکشہ ڈرائیور بھی برداشت کر لے گا مگر موجودہ حکومت کے قیام کے بعد جس طرح فکس انکم والا تنخواہ دار پسا ہے، وہ کدھر جائے گا؟
اس سے آگے کی سن لیجئے۔ پٹرول پمپ ڈیلرز ایسوسی ایشن نے واضح اور دوٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ آپ نے ہمیں اعتماد میں لئے بغیر اس سیل کے تینتیس فیصد کا بوجھ ہم پر ڈال دیا ہے جبکہ پہلے ہی کاروبار کی ایسی تیسی ہو چکی ہے۔ تینتیس فیصد بوجھ پٹرول پمپ والا برداشت کرے گا جو اسے ریفنڈ کیا جائے گا مگر ایسو سی ایشن کہتی ہے کہ حکومت سے ریفنڈ لینا کون سا آسان کام ہے۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ ہم کاروبار بند کر کے بیٹھ جائیں۔ ابھی اسحاق ڈار ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں وہ سابق حکومت پر برس رہے ہیں کہ وہ صنعتکاروں کو ریفنڈز کیوں کر کے گئی ہے۔ ایسے میں اسحق ڈار سے ریفنڈ لینا کوئی آسان کام نہیں ہو گا جیسے حکومت کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ ہر روز رات کو ریفنڈ ہوا کرے گا۔ میں اپنے پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ حکومت موٹرسائیکل سواروں سے واہ واہ کروانے کے چکر ایسے بہت سارے لوگوں کو ننگا ہو کے چیخیں مارنے پر مجبور کر دے گی جو ابھی تک سفید کپڑے پہن کے باہر نکل رہے ہیں۔ جن لوگوں کے لئے آپ پٹرول مزید سو روپے مہنگا کریں گے وہ معاشرے کے بااثر لوگ ہیں۔ غریب لوگوں کاردعمل وہی ہو گا جو اس وقت مفت آٹا لیتے ہوئے ہے۔ آپ کسی بھی لائن میں چلے جائیں آ پ کو حکومت کا شکریہ ادا کرنے والے دو، چار ہی ملیں گے مگر بیس، تیس اور چالیس وہ ہوں گے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ غریب کو ذلیل کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ ساڑھے چھ سو روپے والا آٹے کا دس کلو کا تھیلا گیارہ سو کا کردیا گیا ہے،یہ کون سا احسان کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف اپوزیشن والے ان لائنوں کوموت کی قطاریں کہہ رہے ہیں۔اب تک تین سے چار ہلاکتیں ہو چکی ہیں جن کی ویڈیوز وائرل ہیں۔
مجھے کہنے میں عار نہیں کہ حکومت اپنا سیاسی فائدہ کرنے کے چکر میں بہت بڑا نقصان کرلے گی۔ غریبوں نے خوش ہونا نہیں او رکھاتے پیتے لوگوں نے بھی ایسی تیسی کر دینی ہے۔ سب سے بری شے مہنگائی ہوگی جس کو واپس لانا اور قابو کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ مجھے موٹرسائیکل سواروں کوسستا پٹرول دینے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن یہ اسی صورت میں فائدہ دے گا اگر آپ اسے اپنے پلے سے دیں گے ورنہ ہر پٹرول پمپ پر گالیاں دینے والوں کی ایک کی بجائے دو قطاریں ہوں گی۔آخری بات یہ کہنی ہے کہ اگر آپ سستا پٹرول دینا ہی چاہتے ہیں تو توجہ سستا پٹرول خریدنے کی طرف کریں اوراس کے بعد اسے کم قیمت پر فراہم کر دیں۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply