دین،سیاست اور ملائیت (قسط7)۔۔۔عنایت اللہ کامران

گذشتہ سے پیوستہ:

اس آسان استدلال سے مغرب کے تمام باطل اور مادی فلسفوں کی خوب صورت طریقے سے تردید ہوجاتی ہے۔ مغرب کا کلمہ لاالٰہ الا انسان ہے، جب کہ اسلام کا کلمہ لاالٰہ الا اللہ ہے۔ مغرب کے مطابق قانون سازی کا اختیار انسان اور جمہور کو ہے، جب کہ قرآن کے مطابق یہ حق صرف اور صرف اللہ کو حاصل ہے۔۔۔۔اب آگے پڑھئیے

یہ بھی پڑھئیے۔۔۔۔دین،سیاست اور ملائیت (قسط6)۔۔۔عنایت اللہ کامران

قسط7:

مولانا سیدابوالحسن علی ندوی، تاریخ دعوت عزیمت میں حضرت شاہ ولی اللہ کے نظریہ خلافت پربحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کلیۃ الکلیات (اصل الاصول) وہ حقیقت ہے جس کا عنوان ’اقامتِ دین‘ ہے۔ غرض یہ ہے کہ اقامت دین ایک جامع اصطلاح ہے اور ان تمام احکامِ قرآنی پر حاوی ہے جو مَا اَنْزِلَ اللّٰہَ سے متعلق ہے۔
حضرت شاہ ولیؒ اللہ نے اپنے ترجمہ قرآن فتح الرحمٰن میں من الدین کا ترجمہ ’از آئین‘ فرمایا ہے۔ مولانا مودودیؒ اس ترجمے سے استفادہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو تشریح فرمائی ہے اس کی نوعیت آئین کی ہے۔ اس توجیہ سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ آیت میں دین کے معنی ہی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت مان کر اس کے احکامات کی اطاعت کرنے کے ہیں، اور یہ کہ وہ خالق و مالک ہونے کی بنا پر واجب الاتباع ہے۔ اس کے حکم اور قانون کی پیروی نہ کرنا بغاوت اور بندگی سے انکار کے مترادف ہے۔
مولانا مودودیؒ نے دین کے مفہوم اور اقامتِ دین کو بڑی شرح و بسط سے بیان فرمایا ہے۔ معاشرے میں سہل پسندی اور بے عملی کے رجحان پر تنقید کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: اقامت دین کا مقصد صرف تبلیغ دین سے پورا نہیں ہوتا، بلکہ دین کے احکامات پر کماحقہٗ عمل درآمد کرنا، اسے رواج دینا اور عملاً نافذ کرنا اقامت دین ہے۔ مزید وضاحت کے لیے لکھتے ہیں: دین مشترک بین الانبیا سے صرف ایمانیات عقائد اور چند بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی مراد نہیں ہیں، بلکہ اس سے تمام ہی شرعی احکام مراد ہیں۔ دلیل کے طور پر مولانا نے قرآن حکیم کی وہ آیات پیش کی ہیں جن میں ان احکام کو واضح اور صریح طور پر دین سے تعبیر کیاگیاہے۔ ذیل میں وہ آیات درج ہیں:
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ o(البینہ ۹۸:۵)،
اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں، اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرکے، بالکل یکسو ہوکر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ یہی نہایت صحیح و درست دین ہے۔
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ قف وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ط ذٰلِکُمْ فِسْقٌ ط اَلْیَوْمَ یَءِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ ط اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳)،
تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلا گھُٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکرکھا کر مرا ہو۔ یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو۔ سواے اُس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا۔ اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب افعال فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمھارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔
معلوم ہوا کہ یہ سب احکام شریعت دین ہی کا حصہ ہیں۔
اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِاءَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ (النور ۲۴:۲)،
زانیہ عورت اور زانی مرد،دونوں میں سے ہرایک کو100،100کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں دامن گیر نہ ہو۔
اس آیت میں قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ یہاں فوجداری قانون کو دین اللہ فرمایا گیا ہے۔ معلوم ہوا صرف عبادت ہی دین نہیں ہے، مملکت کا قانون بھی دین ہے۔ (تفہیم القرآن)

ان تفصیلات کے بعد ان آیاتِ ربانی پر غور کرتے ہیں جن سے اصولِ فقہ کی روشنی میں اقامتِ دین کا فرض ہونا اور منشاے الٰہی کا مقصود ہونا دلالۃ النص اور اقتضاء النص سے ثابت ہوتا ہے۔ مولانا محمد اسحاق ندوی اپنی کتاب اسلام کے سیاسی نظام میں دینی حکومت کے قیام کے لیے سورۃ نساء کی آیت:
اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔(النساء۴:۵۹) 
اے لوگو جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحبِ امر ہوں۔
سے اقامتِ دین کا فرض ہونا اقتضاء النص سے ثابت کیا ہے۔ اس آیت میں صاحبِ امر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے جس پر عمل اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب صاحبِ امر موجود ہو۔ اب اسے وجود میں لانا بالفاظِ دیگر اقامت دین کے نظم کوقائم کرنا نص کا منشا اور مقتضا ہے۔
اسی طرح سورۃ انفال کی آیت:

وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ۔(الانفال۸:۶۰)
اور تم لوگ جہاں تک تمھارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ ان کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کر دو جنھیں تم نہیں جانتے۔
میں ہمیں حکم دیا جاتا ہے کہ ہم اپنی قدرت کی حد تک دشمنانِ دین کے مقابلے کے لیے قوت فراہم کریں۔ تنظیم، افراد اور نظم حکومت کا قیام بالفاظ دیگر نصب امامت خود قوت کا ایک حصہ ہے، بلکہ اس نوعیت کی کل قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ اس آیت سے امام کے تقرر کی فرضیت اسی طرح ثابت ہوتی ہے جس طرح جنگ کے لیے اسلحہ مہیا کرنے کی فرضیت۔
سورہ توبہ کی آیت:

قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّ ھُمْ صٰغِرُوْنَo(التوبہ۹:۲۹) 
“جنگ کرواہلِ کتاب کے ان لوگوں سے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیاہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنادین نہیں بناتے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔” سے اقامتِ دین اور دینی نظام کے قیام کی فرضیت واضح طور پر ثابت ہوتی ہے۔ آیت کریمہ اہلِ اسلام کو قتال کا حکم دیتی ہے اور اس وقت تک جاری رکھنے کا حکم دیتی ہے تاآنکہ اہلِ باطل کو مغلوب کر کے ان سے جزیہ وصول کیا جائے اور انھیں چھوٹا بناکر رکھا جائے۔ ظاہر ہے کہ ان احکامات کو پورا کرنا دینی حکومت اور اقامتِ نظم دین کے بعد ہی ممکن ہے۔
سورۃ مائدہ کے ساتویں رکوع میں فرمایا:
وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo(مائدہ۵:۴۵)،
جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔
وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنََo(مائدہ۵:۴۷)،
اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔
معلوم ہوا کہ تمام معاملات میں ما انزل اللّٰہ کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے کافر، ظالم اور فاسق ہیں، اور اقامتِ دین حکومت و عدالت کی کرسیوں پر اسی طرح ضروری اور لازم ہے جس طرح اقامتِ صلوٰۃ کے لیے اوقات کے لحاظ سے ادایگی نماز اور مسجد کی تعمیر اور اُس کا انتظام۔ اور یہ کہ یہ سب فرائض اقامتِ دین کا حصہ ہیں۔
برائے حوالہ:
http://theguidance.com.pk/اقامت-دین-فرض-ہے/

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

عنایت اللہ کامران
صحافی، کالم نگار، تجزیہ نگار، سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ سیاسی و سماجی کارکن. مختلف اخبارات میں لکھتے رہے ہیں. گذشتہ 28 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک، کئی تجزیے درست ثابت ہوچکے ہیں. حالات حاضرہ باالخصوص عالم اسلام ان کا خاص موضوع ہے. اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں. طنزیہ و فکاہیہ انداز میں بھی لکھتے ہیں. انتہائی سادہ انداز میں ان کی لکھی گئی تحریر دل میں اترجاتی ہے.آپ ان کی دیگر تحریریں بھی مکالمہ پر ملاحظہ کرسکتے ہیں. گوگل پر "عنایت اللہ کامران" لکھ کربھی آپ ان کی متفرق تحریریں پڑھ سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply