داستاں سود خوروں کی

اگر مجھے صحت والی عمر ِخضر    مل جائے  تو وہ میں یوسفی صاحب کو دوں گی تاکہ وہ مزید لکھ سکیں۔ یوسفی صاحب لکھاریوں میں وہ یوسف ہیں جن کے پڑھنے والے دنیا کے بڑے بڑے لکھاریوں کو بھی ترنگ میں وہ کہہ ڈالتے  ہیں جو فراز اپنے محبوب کو دیکھ کر مصر کی زلیخا کو کہہ گئے
ہیں۔

ہم اپنے بُت کو ،زلیخا لیے ہے یوسف کو
ہے کون رونق بازار، چل کے دیکھتے ہیں!

یوسفی صاحب سے میرا تعارف میرے ایک پرانے افسر کے توسط سے ہوا. کسی وقت سوچتی ہوں ان افسر  کی جگہ مجھے معزا عبدالودود مل جاتے تو میں بھی یوسفی بن جاتی. اگرچہ ادب کے شعبے میں تو میں یوسفی نہ بن سکی، نہ ہی یوسفی بننے کا سوچ سکی لیکن کم از کم اتنی مماثلت ضرور ہو گئی کہ میں اور قبلہ یوسفی دونوں ہی کوچہ جاناں کی بجائے کوچہ سود خوراں میں جبیں گھساتے اور جوتیاں چٹخاتے رہے ہیں. یوسفی صاحب تو دامن جھاڑ کے اب گوشہ نشیں ہیں مگر ہم ابھی غم روزگار نبھا رہے ہیں .


کوچہ سود خوراں  کے بارے میں ایک عام سوچ یہ ہے کہ بھلا اس شعبے والوں کا ادب سے کیا لگاؤ. لیکن آج ایک راز کی بات آشکار کروں تو آج سے چار دہائیاں قبل تک بینک کا منیجر ایک نہایت ہی قابل شخص  ہوتا تھا. جس کی شخصیت اکثر اوقات ہمہ جہت ہوتی تھی . آپ کچھ پرانے منجھے ہوئے بینکاروں کے بارے میں معلومات اکٹھی کریں تو آپ کو یہ جان کر خوش گوار حیرت ہو گی کہ وہ نہایت اعلیٰ درجے کا ادبی ذوق رکھنے والے لوگ تھے. مثال کے طور پر یوسفی صاحب کو ہی دیکھ لیں.

تمام ہی پیشے اپنے اندر ایک مکمل دنیا آباد رکھتے ہوں گے  لیکن بینک کئی لحاظ سے انوکھا ہے. بینک ملازمین وہ لوگ ہیں جو پٹھان سے اس کی ماں اور بیوی دونوں کا نام پوچھ لیتے ہیں۔ یہ دنیا کی وہ بےحس قوم ہے جو روز پیسے میں کھیلتی ہے اور رات کو گھر جاتے ہوئے سوچتی ہے تنخواہ آئے تو اس رقم میں سے اپنا حصہ نکلوائیں۔ آپ کو شاید اندازہ نہیں ہو گا کہ کسی بچے کی ٹیوشن والی باجی کے علاوہ اس کا بینکر وہ بندہ یا بندی ہوتی  ہے جس کو اپنے کسٹمر کے گھر کے سب حالات بشمول سسرال کے جھگڑوں اور میاں کی کوتاہیوں کے معلوم ہوتے ہیں. ظاہر ہے ان دو کے بعد پیچھے ایسا کیا بچتا  ہے جو اس سے زیادہ حساس ہو۔

اگر بینکاراپنے   ساتھ پیش آنے والے واقعات  لکھنا شروع کریں تو دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں بینکار لکھیں.کچھ چیدہ چیدہ چیزیں برسر ِ تذکرہ مجھے یاد آ گئی ہیں. کچھ برس قبل ہمارے منیجر صاحب حج پر گئے تو ایک صاحب ان کا پوچھنے آئے کہ جناب منیجر صاحب عافیت سے ہیں۔۔۔؟ واپسی کب تک ہے. بات ہو تو سلام دیجیئے گا. جاتے جاتے پوچھنے لگے “ویسے واپس آ کے بینکنگ ہی کریں گے یا توبہ کر لیں گے” اگلے کئی دن وہ صاحب ہم سے اور ہم ان سے شرمندہ رہے. سوال شاید غلط نہ تھا لیکن ضرورت سے زیادہ  کھرا  ضرور تھا۔

بینک ملازمین کو معلوم ہوتا ہے کہ  سال میں دودفعہ ان کے جھوٹ بولنے کا سیزن آتا ہے. یہ ہوتے ہیں عیدین کے دن جب ہر کسی کو نیا کیش چاہیے ہوتا ہے . خدا جانے کس شخص نے اس قوم کو نئے کیش کی لت میں مبتلاء  کیا. بہرحال جو بھی تھا وہ ملک و ملت کا خیرخواہ نہیں تھا. ملک و ملت کے ساتھ تو جو ہوتی سو ہوتی ہے  لیکن بینکار کے ساتھ  تو  اجتماعی زیادتی ہوتی ہے ،اس کا  سارا  ثواب انہی حضرت کو پہنچے. تاہم عیدین کے علاوہ اگر کوئی نئے کیش کا سوال کرے تو اس کے ساتھ بینکار وہی کرتا ہے جو عید کے دنوں میں کسٹمر بینکار کے ساتھ کرتے ہیں۔

ایک بار ایسے ہی آف سیزن میں ایک شخص نیا کیش مانگنے آیا. ہم نے کلاس شروع کرنے کی تمہید باندھی. ان سے پوچھا کہ  حضور کیا کیجئے  گا  اس نئے کیش کا ۔۔۔ پچیس سال کے لگ بھگ وہ حضرت شرما کر  بولے  “ابا جی کا دوجا ویاہ ہے باجی. ان کی بارات پر لٹانے ہیں ” اس کے بعد سوائے کیش دینے کے اور کیا کیِا جا سکتا تھا۔

اسی قصے سے یاد آیا  کہ بینکار وہ بندہ ہوتا ہے  جس کو آج تک پاکستان میں چار شادیوں والے شوہروں سے ملنے کا شرف حاصل ہوتا ہے . اللہ گواہ ہے ان گنہگار آنکھوں نے الحمد للہ ساٹھ سال کے شوہر ایسے دیکھے جو چار بیویوں کے ساتھ بیک وقت حیات تھے اور وہ بھی یوں کہ چاروں کو معلوم تھا. حیرت ہے ان کے گھر قیامت نہیں ٹوٹتی ۔ چوتھی بیگم نہ صرف میاں سے پچیس سال چھوٹی ہوتی ہیں بلکہ حیرت انگیز طور پر خوش بھی ہوتی ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors london

جاتے جاتے وہ واقعہ جس نے مجھے یہ سب لکھنے پر مجبور کیا. آج تک لکھنا میرا تعارف نہیں تھا. اب جب تعارف بن گیا تو یقیناً  میری ذات کا حصہ بھی بن گیا. لکھاری اپنی تحریروں کی ماں ہوتا ہے. کچھ ہم دیسی لوگ جب کوئی آفیشل تحریر لکھتے ہیں تو ذہن خاکہ اردو میں ہی ترتیب دیتا  ہے ،  اس کے بعد اس کو ترجمہ کر کے کاغذ پر اتارتے ہیں . ادبی لکھنا ایسا طبیعت کا حصہ بن گیا کہ آج ایک سمری بناتے ہوئے جس میں انتظامیہ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ کسٹمر کے اعشارئیے ثابت کرتے ہیں کہ کسٹمر ایک نہایت مضبوط کاروباری ساکھ رکھتا ہے ،ذہن نے جو جملہ ترتیب دیا وہ کچھ یوں تھا:
“اعشارئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کسٹمر نہایت معیاری خدمات فراہم کر رہا ہے، ورنہ یوں رقیب ایک ہی محبوب کے سنگ آستاں پر جبیں  نہ گھسا رہے ہوتے”.
اللہ مجھے اس دن سے محفوظ رکھے جب دفاتر کی سرکاری زبان اردو ہو اور میری دفتری خط و کتابت آنے والے دور کے بچوں کو نصابی کتب میں پڑھا کر  اردو سے متنفر کیا جائے۔

Facebook Comments

سعدیہ سلیم بٹ
کیہ جاناں میں کون او بلھیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply