فجر کا وقت(1)۔۔روبینہ فیصل

2020میں جب کرونا کی وجہ سے یہ دنیا بدل رہی تھی تو ایک دفعہ تواسے لگا تھا کہ اب انسان  بدل جائے گا۔ ہر طرف بیماری،موت اور موت کا خوف رقص کر رہا تھا۔ گھروں میں بند ہو نے کے سرکاری فرمان جا ری و ساری تھے۔ فاطمہ بھی خوف زدہ تھی مگر ہمیشہ کی طرح اپنی موت سے زیادہ کسی اپنے کی موت کا خیال اسے ہو لائے دے رہا تھا یا یہ خیال کہ اگر سب بازار اور رسل و ترسیل بند ہو گئی اور غذائی قلت پیدا ہو گئی تو۔۔ اور اس کے بچوں کو کسی ناگہانی کا سامنا کر نا پڑ گیا تو۔۔؟۔ اس کے لئے یہ بھی موت سے بڑھ کر اذیت ناک چیز تھی۔ وہ سوچتی؛ ہم تو دنیا کے کئی رنگ دیکھ چکے ہیں مگر بچوں نے تو ابھی بہت کچھ دیکھنا اور کرنا تھا۔ بچوں نے تو ابھی میدانوں میں کھیلنا، سکولوں میں جانا، دوستوں کے ساتھ ہلہ گلہ کرنا تھا۔ لیکن اس وبا نے تو بچوں اوربڑوں سب کو گھرو ں میں قید کر کے رکھ دیا تھا۔ یہ سب بے ثبا تی دیکھ کر ہی اسے لگا تھا کہ شائید ان دیکھی کا یہ خوف آج کے انسان کو بدل دے،انسانوں کا دوغلا پن کم ہو جائے اورروحوں میں پاکیزگی کے پھول کھلنے لگیں مگر اس کا یہ وہم وہم ہی رہا۔۔ موت کے رقص میں بھی منافقت گھنگرو باندھ کر ناچتی رہی۔

ایک دن تو وہ مکمل طور پر مایوس ہو گئی  “تو انسا ن نے وبا کے اس سنہری موقع کو بھی گنوا دیا اور برائی کو اپنے اندر نہ ختم کر نے کے وطیرے پر قائم دائم رہا۔۔ “اور یوں کڑھتے کڑھتے، جسم کو بچاتے بچاتے، اس کی روح اتنی کھوکھلی ہو گی کہ اس کے جسم کا ساتھ ہی چھوڑ گئی اور ایک دن باقی بہت سے لوگوں کی طرح اس کا بھی دم نکل گیا اور وہ مر گئی۔۔

اس کی موت کی خبر کچھ ایسی اہم بھی نہیں تھی کہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل جا تی مگر پھر بھی فیس بک فرینڈز کے ہاتھ ایک سیکنڈ کے لئے اس کی موت کے افسوس کے لئے دو لفظ ٹائپ کر نے کو رک رہے تھے۔کوکب پروین جو اس کی ہر پو سٹ کو لائیک کر تی تھی، آج بھی اس کی موت کی خبر والی نیوز کے نیچے بہت دکھ کا اظہار کر رہی تھی اور اس پوسٹ کو ایک آدھ اضافی جملے کے ساتھ آگے بھی شئیر کر رہی تھی۔ اور یہ سب کرتے ہو ئے کوکب پروین کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہو ئی تھیں۔ فاطمہ نے اس کی بھرائی ہو ئی آنکھیں دیکھیں تو اس کا دل بھی بھر آیا۔ وہ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اسے کیسے تسلی دے کہ کوکب اُسی وقت کسی اور دوست کی ایک مزاحیہ پو سٹ پر سمائلی والے ایموجی دھڑا دھڑ پھینکنے لگی اور اب اس کے چہرے پر پھیلنے والی مسکراہٹ،ا س کے آنسو لے اڑی تھی۔

فاطمہ نے سوچا یہ دنیا ہے یہاں رونا اور ہنسنا ایک ساتھ ہی پڑتا ہے۔ وہ جب زندہ تھی تو وہ بھی تو یہی سب کیا کرتی تھی۔ فیس بک پر تو یہ تماشے، روز کا تماشہ ہیں اور وبا کے ان دنوں میں تو موت کی خبر سالگرہ کی خبر کی طرح ہو گئی تھی جیسے کبھی بھلے وقتوں میں چھ یا سات دوستوں کی سالگرہ کا اجتماعی نوٹیفیکشن آیا کرتا تھا، اب اسی طرح اجتماعی اموات کے اکھٹے نوٹیفیکشن آنے لگے تھے۔ابھی وہ اپنی موت کی خبر پر افسوس کر نے والوں کی تعداد گن رہی تھی کہ منظر بدل گیا۔۔اس منظر میں وہ ایک لکڑی کے بستر پر بے حس و حرکت لیٹی ہو ئی تھی۔ پاکستان ہو تا تو اسے جنازے کی چارپائی کہہ سکتے تھے یا وہ عیسائی ہو تی تو تابوت میں لیٹی ہو تی مگر اب وہ کینیڈا میں ایک مسلمان تھی۔ اس لئے مر نے کے بعد جس چارپائی پر وہ مردہ حالت میں پڑی تھی وہ اسلام اور کینیڈین کلچر کا امتزاج تھی۔

یہاں مردے کا دیدار کر نے کا بڑا سلیقہ ہو تا ہے۔ جیسے یہاں کینیڈا میں ہماری شادیوں اور دیگر تقریبات نے اپنے اوپر سفید رنگ چڑھا لیا ہے، کیک کاٹنا، برایئڈل میڈ، دوستوں اور رشتے داروں کا دلہا دلہن کے بارے میں مائیک پر کھڑے ہو کر تقریریں کرنا، ان کے والدین اور بہن بھائیوں کا جوڑا جوڑا کر کے ہال میں موسیقی کی تھاپ پر رقص کر تے داخل ہو نا، یہ سب پاکستانی شادیوں میں شامل ہو چکا تھا بالکل اسی طرح جنازوں میں بھی یہ” ترتیب وار دیدار” کینیڈا ہی کی ایک سوغات تھی جوپاکستانی رسومات میں شامل ہو چکی تھی۔ فاطمہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اس کی نظر وہاں کھڑی ایک عورت پر پڑی جس نے خود کو سیاہ لباس میں لپیٹ رکھا تھا۔ اموات پر پہننے کے لئے یہ سیاہ اور سفید رنگ بھی نہ جانے کہاں سے پاکستانی روایات کا حصہ بن گئے تھے۔وہ عورت رو رو کر فاطمہ کی میت کے پاس سے گزر رہی تھی۔وہ پہلے تو اسے پہچان نہ سکی لیکن جب اس کے سر اور چہرے سے حجاب ذرا سا سرکا تو تب فاطمہ کا بدن غصے سے سلگ اٹھا۔ یہ وہ عورت تھی جس نے زندگی میں اس کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ وہ دوست کے روپ میں دشمن نکلی تھی۔ فاطمہ نے ہر دم اس کا ساتھ دیا تھا۔ وہ رات کو بھی اسے فون کرتی تو فاطمہ اپنی نیند خراب کر کے، اپنے بیڈ روم سے اٹھ کر کہ کہیں اس کے شوہر کی نیند خراب نہ ہوجائے، ساتھ والے کمرے میں جا کر اس منحوس عورت کی اپنے شوہر کے خلاف شکایات سنا کر تی تھی تاکہ اس کا دل ہلکا ہو جائے اور اس کو مشورے دینے میں اپنا سر پورے خلوص کے ساتھ کھپایا کرتی تھی اور تو اور وہ تو اس عورت کے غم سے اپنے سینے کو درد سے بھر لیا کرتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

منظر بدل گیا اب وہی عورت گلابی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس، اپنے شوہر کے ساتھ اس کے سامنے بیٹھی تھی۔ اُس کاشوہر بار بار اپنی مونچھوں کو تاؤ دے رہا تھا۔
عورت: “تمہیں میرے شوہر پر الزام نہیں لگانا چاہیے تھا، وہ بھی سب کے سامنے؟ ”
فاطمہ: “الزام؟ یہ الزام نہیں ہے جو کل میں نے بتایا یہی سچ ہے۔ تم نے جب ایک دن اس کے ہاتھ میرے لئے حلیم بھجوائی تھی تو اس نے مجھے باہر کافی پر ساتھ لے جانے کے لئے کہا تھا۔۔ بتاؤ اب چپ کیوں ہو؟ ”
شوہر:”میں کیوں چپ ہو نے لگا۔ میں تم جیسی عورتوں کو اچھی طرح سے جانتا ہوں۔تمہارا شوہر گھر نہیں تھا تو تم نے مجھے اندر آنے کو کیوں کہا”۔
فاطمہ: “اس لئے کہ تم میری دوست کے شوہر ہو اور میرے لئے بھائیوں کی طرح ہو۔ اور اندر میرے بچے موجود تھے۔تم حلیم لائے تھے میں نے اخلاقا ً پو چھ لیا۔۔ ”
شوہر: “جو تم کرو وہ اخلاق جو میں کروں وہ بد اخلاقی۔۔ واہ میں تو پہلے ہی نزہت سے کہتا تھا یہ عورت ٹھیک نہیں ہے۔۔اور اب اتنے دنوں بعد سب کے سامنے یہ بات یاد آگئی؟ اتنے دن یاداشت غائب تھی؟ ”
نزہت: “بالکل اب کیوں۔۔اور اچھا اگر کافی کے لئے پوچھ بھی لیا تو ایسا کیا ہوگیا۔تم کون سا ستی ساوتری ہو کتنے مردوں کے ساتھ تو کافی پینے جاتی ہو۔۔ ”
فاطمہ: بالکل ٹھیک کہا مردوں کے ساتھ کام کے لئے ملنے یا ان کے ساتھ کافی پینے میں کوئی حرج نہیں۔ میں پرانے خیالات کی نہیں ہوں اور نہ ہی میرا شوہر۔میں انشورنس کے بزنس میں ہوں، کلائنٹس سے ملتی ہوں اور نظروں کے فرق کو سمجھتی ہوں اور تم بھی تو جانتی ہو اپنے شوہر کے کرتوت۔اس کی گندی نظروں کے قصے اور اس کے عورتوں کے ساتھ چکر اور اس کی شراب کی عادت۔۔یہ سب بتاتے تمہاری زبان نہیں تھکتی تھی۔میں اب بھی نہ بتاتی مگر تم ہی نے اس کی آوارہ مزاجیوں کا قصہ چھیڑا تو میں نے بھی بتا دیا۔ ”
نزہت گھبراتے ہو ئے: “میں کیوں تم سے یہ باتیں کر نے لگی اور سب کے سامنے۔۔۔ مجھے تو لگ رہا منیر ٹھیک ہی کہہ رہا تھا، تم مخلص دوست نہیں ہو، ہمارا گھر تڑوانا چاہتی ہو۔۔ پہلے میرے شوہر پر الزام لگا رہی تھی اور اب وہ بات نہیں بنی تو یہ دوسرا پتہ پھینک دیا۔”
فاطمہ: “اس نے میرا ہاتھ بھی پکڑنے کی کوشش کی تھی۔۔ چلو کافی کی آفر کو بھی چھوڑو مگر یہ ہاتھ پکڑنا۔۔مجھے اسی بات کا غصہ تھا پہلے ا س لئے نہیں بتایا کہ اگنور کرو تاکہ تمہارا گھر نہ خراب ہو مگر جب تم نے خود ہی اس کے کرتوت بتانے شروع کئے تو۔۔۔ ”
نزہت اور منیر غصے سے کھڑے ہو گئے اور نزہت چلا کر بولی؛ “بس بس اپنا منہ بند رکھو اور آئندہ جو کبھی ہماری طرف مڑ کر بھی دیکھا۔۔” فاطمہ نے حیرانی سے نزہت کی طرف دیکھا، اس کا چہرہ سفید ہو گیا تھا۔۔ لٹھے کی طر ح۔۔ بالکل ایسا ہی جیسا اس وقت تھا۔۔مرنے کے بعد۔۔۔وہاں سے جانے کے بعد پھر ان دونوں میاں بیوی نے نہ جانے کیا کیا افواہیں پھیلائیں کہ ان کے دوستوں کاجو ایک گروپ تھا، وہ سب فاطمہ کے خلاف ہو گیا۔ اور اس سے رابطہ یوں منقطع کر دیا گیاجیسے اسے جانتے ہی نہ ہوں،کسی نے قطع تعلقی کی وجہ بتانے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔۔۔ فاطمہ کے ذہن نے بہت عرصے بعد اس دھوکے کو بھلایا تھا اور اب دیکھو تو ذرا اُسی نزہت کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اورفاطمہ کی روح یہ دیکھ دیکھ کر بے بسی سے تلملا رہی تھی۔ نزہت نے فاطمہ کے مردہ چہرے کو غور سے دیکھا جو اسے مسکراتا ہوا لگا اور پھر جب وہ اپنی جگہ پر واپس آکر بیٹھی تو ساتھ بیٹھی فاطمہ کی بہن سے تعزیت کرتے ہو ئے بولی؛ “فاطمہ بہت معصوم تھی۔ میرے بہت دکھ سکھ سنتی تھی، میری بہنوں کی طرح تھی۔ دیکھیں اتنی جلدی روٹھ گئی ہم سب سے۔ اچھے لوگ یوں ہی چلے جاتے ہیں پلک جھپکتے ہی۔ چہرہ ابھی بھی کیسا شفاف ہے۔۔۔”فاطمہ کی بہن نے ہچکیوں کے درمیان چہرہ اوپر کیا۔۔
بہن: “ہائے! ہم تو برباد ہو گئے، میری اتنی محبتوں والی بہن چلی گئی۔ میں اس سے بڑی تھی لیکن جانے کی جلدی اس کو تھی۔۔”
فاطمہ نے اپنی بہن کو یوں بلک بلک کر روتے ہو ئے دیکھا تو اسے اطمینان سا محسوس ہوا اور مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی،اُسی  وقت جو عورت میت کے پاس کھڑی تھی، حیرت سے یکدم بول اٹھی:” یاللہ اسے زندگی میں بھی ہمیشہ ہنستے ہی دیکھا تھا اور اب دیکھو ذرا،مر کر بھی چہرے پر مسکراہٹ ہے۔ ”
وہ جب زندہ تھی تو اس کا دل کرتا تھا کہ اس کی بڑی بہن اس کی فکر کرے جیسے دوسری بڑی بہنیں اپنی چھوٹی بہنوں کی کیا کرتی تھیں۔ لیکن اس کی بڑی بہن تو ہر وقت اس کے ساتھ مقابلے بازی میں لگی رہتی تھی۔ ایک منظر سامنے آکھڑا ہوا۔۔۔۔
بہن: “واہ امی! جب میری شادی نہیں ہو ئی تھی میرے تو اتنے نخرے نہیں اٹھائے جا تے تھے۔ اس کے کپڑوں پر استری بھی کام والی کرتی ہے اور میں اپنے کپڑے کیا آپ کے ا ور ابو کے بھی استری کیا کرتی تھی۔ ”
امی: “حالات ایک جیسے نہیں رہتے۔اب فاطمہ کی بھی تنخواہ آتی ہے تو ایک مستقل کام والی رکھ لی ہے۔ ”
بہن: “اور یہ اپنی دوستوں کے ساتھ اتنا گھومتی پھرتی ہے۔مجھے اس بات کی اجازت کیوں نہیں تھی؟۔ ”
امی: “تو کیا کرے آفس بھی جاتی ہے اور ساتھ ابھی پڑھ بھی رہی ہے تو کچھ وقت دوستوں کے ساتھ نکل جا تی ہے تو کیا ہوا۔تمہاری فرق  والی عادت تھی۔۔ اس کی طبیعت اور ہے۔ اور حالات۔۔”
بہن: ” کیا حالات حالات کر رہی ہیں۔ میں کون سا اس سے دس بارہ سال بڑی ہوں تین چار سال کا ہی تو فرق ہے۔مجھے تو کبھی نہیں اتنی تفریح کرنے دی، وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ شادی کے بعد انگلینڈ چلی گئی ورنہ آپ نے تو۔۔۔”
امی: “تمہیں تو سب سے زیادہ پیار اور پیسہ ملا ہے۔ ابھی بھی مقابلے بازی کر رہی ہو۔ چھوٹی بہن سے ایسے کون مقابلہ کرتا ہے۔تمہارے بچوں کا بھی اتنا خیال رکھتی ہے، تم چھٹیاں منانے آئی ہو، چلی جاؤ گی، اتنی سی دیر کے لئے بھی بہن برداشت نہیں ہو تی۔۔ ”
بہن: “تو ہاں ناجب میں ادھر آئی ہوں تو یہ بچوں کو ہی دیکھے نا۔۔ “اس پورے منظر میں فاطمہ حیرت سے بڑی بہن کو دیکھتے جا رہی تھی۔ بہنیں ایسی ہو تی ہیں؟ اسے تو اپنی بڑی بہن سے بہت پیار تھا مگر۔۔۔۔
ایک منظر اور بدل گیا۔۔۔۔
فاطمہ:”باجی! میں بہت پریشان ہوں۔ آفس میں مینجر بہت تنگ کرتا ہے۔۔”
باجی:”میں نے آج منحوس سسرال میں جانا ہے تم بچوں کو رکھ لینا میں نہیں انہیں ساتھ لے جاسکتی۔ امی بھی میرے ساتھ ہی جائیں گی۔”
امی: “ہاں فاطمہ کام والی کپڑے دھوئے گی اسے بھی دیکھ لینا۔۔ ”
فاطمہ: “امی میرا پیپر بھی ہے۔”
امی: “تو آجائیں گے جلدی، ہم نے کون سا ادھر ہی رہ جانا۔۔ فون پر سہیلیوں سے گپیں  نہ لگانا۔۔ ”
بہن: “تم کون سا میری طرح سیریس ہو کر پڑھتی ہو۔ بھاگتے دوڑتے تو پڑھنا ہوتا ہے۔۔ ”
فاطمہ: “ہاں لیکن اب پارٹ ٹائم نوکری بھی تو کر رہی ہوں۔۔۔ ”
بہن:” اچھا چلو نا۔۔ تم نے تو پاس ہی ہو جانا۔۔ ”
فاطمہ،بہن کی اس بلا واسطہ تعریف سے خوش ہو کر وہ احمقوں کی طرح ہنسنے لگی۔۔۔
اُسی وقت اس کی میت کے پاس سے گزرتے ہو ئے ایک اور عورت بولی جو اس کی کوئی دوست تھی؛ “کیسا مسکراتا چہرہ ہے۔ یوں لگتا ہے ابھی اٹھ کر قہقہے لگانے لگے گی۔کتنا اونچا قہقہہ ہوا کرتا تھا اس کا۔۔ ”
جاری ہے

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply