میں خمیازہ ساحل کا۔ بُک ریویو۔۔۔۔۔عامر کاکازئی

میں خمیازہ ساحل کا
بقدر ظرف ہے ساقی!خمارِ تشنہ کامی بھی
جو تو دریاۓ مے ہے، تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا
منہ دیور کی طرف ہے
دائیں بائیں دیکھنے کی ممانعت ہے
کہ دونوں طرف اپ جیسے بندھے ہوۓ ہیں
جیسے ہی قاری کتاب کھولتا ہے پہلا صفحہ پڑھتا ہے اور پڑھتے ہی جسم میں خوف، تاسف اور جھونجھل کا کرنٹ دوڑنے لگتا ہے۔
تین وقت کھانا ملتا ہے، پیٹ بھر ملتا ہے، خوب ملتا ہے
مگر کیا بھوک ہے؟
چوبیس گھنٹوں میں سے دس گھنٹے سلاتے ہیں۔ بہت اچھے سے سلاتے ہیں
مگر کیا نیند ہے؟
یہ ان لاتعداد  کہانیوں میں سے ایک کہانی ہے، ایک نوجوان کی، جو اسرائیل کے مظالم پر تنقید کرتا ہے اور غائب کروا دیا جاتا ہے۔کہتا ہے کہ
آپ ایک تخلیق کار بن سکتے ہیں، بلکہ  آپ ایک تخلیق کار بن چکے ہیں
آپ اور آپ کی تخلیق دونوں پر سوالیہ نشان لگا کر ، اَپ کو غائب کر دیا جاتا ہے
کوئی نہیں جانتا ، آپ کہاں ہیں۔
کہانی آگے کو کھسکتی ہے، اب ایک مولانہ کی کہانی ہے جو حاکم وقت کو مدینہ کی ریاست سے تشبیہ دیتا ہے، حضرت عمر فاروق کی طرز حکمرانی کے واقعات سناتا ہےاور ساتھ  ہی درخواست، ایک کرپٹ آفیسر کی رہائی  کی، جس کا تعلق ان کے فرقہ سے ہے۔ اسکے بعد ایک کے بعد ایک کہانیوں کی قطاریں ہیں جو قاری کو کبھی کسی ٹیکسی ڈرائیور اور پیشہ ور کے پاس لے جاتی ہے اور کبھی کسی گاؤں میں جہاں قصہ ہے ایک بوڑھے زمیندار اور اس کی جوان بیوی کا۔
ہمیں یاد نہیں کہ علی سجاد شاہ کیسے ہماری دوستوں کی لسٹ میں  آئے، مگر اتنا ضرور یاد ہے کہ جب جب بھی اُن کو پڑھا تب تب ایک ہی بات کی کہ وہ
King of one liner ہیں
اس بات کو انہوں نے ایک بار پھر اپنے چبتھے ہوئے جملوں سے پروف کیا اور ہماراے دیے ہوئے لقب کی جیسےانہوں نے لاج رکھ لی ہو۔
سردیاں اسلام  آباد پر ایسے ہی ٹوٹ کر برستی ہیں جیسے کہ شادی کی پہلی رات کسی حکیم کا تیار کیا ہوا دولہا اپنی دلہن پر ٹوٹ پڑتا ہے
اس دفعہ کی سردیاں تو ایسے دولہے کی طرح شدت لیے ہوئے تھیں، جس کی شادی پینتیس برس کے بعد ہوئی ہو اور ویاہ سے پہلے اس نے کمیٹی چوک پر بیٹھے سکھ حکیم گربند سنگھ کی نسواری گولیاں کھا لیں ہوں
پیغام اگر محبت کے ہوں تو وہ لافانی ہوتے ہیں، وہ وقت کی قید اور موسموں کی بندش سے  آزاد ہوتے ہیں، مگر تم تو مشینوں پر بنایا گیا ایک وقت گزاری حربہ ہو۔۔۔
میری محبت ایک اینالاگ تھی، جس میں میں نے اپنی کمٹمنٹ کا سیل ڈالا، چابی بھری تھی، اینا لاگ محبت میں نہ دوسری بار سیل ڈالا جاسکتا ہے اور نہ ہی گھڑی دوبارہ چابی لیتی ہے۔
شہر والوں کے لیے دو کلے زمین بہت ہوتی ہے، مگر کھیتی باڑی کی دنیا میں دو کلے زمین والے کو ڈنگر سے تھوڑا اوپر کا درجہ دیتے ہیں۔
علی سجاد شاہ کے چبتے ہوۓ جملے ایک سرجن کے نشتر کی طرح ہیں جو ہمارے منافقت  زدہ معاشرے کی سرجری کرتے ہیں، اس میں سے فاسد مادہ کو نکالتے ہیں۔ پٹی کرتے ہیں اور صحت مند بناتے ہیں۔
جیسے کہ۔۔۔۔بیٹا گھر دامادی اور کتے کی زندگی میں کوئی  زیادہ فرق نہیں ہوتا۔
غریب گھر کاہے تو گلے میں رسی، مڈل کلاسیا ہے تو گلے میں پٹا
امیر گھرانے کا گھر داماد بنے تو قیمتی کالر، لیکن پٹہ گلے سے کبھی نہیں اُترتا۔۔۔۔
اس کتاب کی سب سے خوبصورت کہانی “ناس ماری ” ہے۔ جس کا صرف ایک جملہ پڑھیے اور داد دیجیے۔
میں تو کہوں لڑکیوں کو کوکھ میں رکھو، وہیں پالو، باہر مت نکالو، باہر نکلیں گی تو پٹتی رہیں گی۔۔۔ہاتھوں سے، قسمت سے، باتوں سے
ان کی کتاب کی کچھ کہانیاں ادھوری لگتی ہیں، پڑھتے پڑھتے ایسا لگتا ہے کہ گاڑی جیسے روانی سے جاتے جاتے ایک دم رُک جائے، بغیر کسی وجہ کے۔ہمارے خیال میں شاید لکھتے لکھتے اچانک قید و بند کا کوئی  لمحہ یاد جانے کی وجہ سے ان کی لکھاوٹ کو جیسے کوئی  بریک لگ جاتی ہو گی۔
یہ کتاب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ الو کا پٹھا، الو کا پٹھا رہتا ہے خواہ وہ نو ماہ قید و بند کی تکلیفیں جھیل کر کیوں نہ آیا ہو۔ اس لیے اسرائیلوں سے دست بدستہ ہاتھ باندھ کر گزارش ہے کہ یہ قوم لاعلاج ہے اس پر اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنے پراپرٹی کے کام کو ترقی دیں۔
میں واپس آ گیا ہوں، اپنوں کے درمیان
اسی ملک میں رہوں گا، مگر چپ رہوں گا
سو زندہ رہوں گا۔
خوش آمدید علی سجاد شاہ!
کتاب کا نام: میں خمیازہ ساحل کا
مصنف : علی سجاد شاہ
پبلشر :علم و عرفان پبلشر لاہور03009450911.
قیمت : تین سو (مگر پبلشر سے ڈائریکٹ منگوانے کی حماقت نہ کریں کہ  آپ کو یہ کتاب چار سو پچاس میں پڑے گی اس لیے اپنے قریبی بک سٹور سے خریدیے یا اس کو کہیں کہ  آپ کو پبلشر سے منگوا دے ( علی سجاد شاہ کے دوستوں سے گزارش ہے کہ براہ   کرم کتاب خریدیے کہ کسی تخلیق کار سے مفت مانگنے کا مطلب ہے کہ آئیندہ کے لیے اس کی تخلیقی اور علمی صلاحیتوں کو بریک لگ جاۓ۔
یہ کتاب دیش بھگت اور نظریہ پاکستان کے مارے  ہوئے لوگوں کے لیے ہرگز بھی نہیں لکھی گئی ہے کہ ان کو حقیقت پڑھ کر مایوسی ہو گی۔ نہ ہی ان کے لیے ہے جو کوئی  ادب کا شاہکار تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ بقول علی معین، یہ کہانیاں نہیں لکھیں، بلکہ زندگی نقل کر کے لکھی گئی  ہے ۔ یہ کہانیاں صرف اور صرف عام پاکستانیوں کے لیے ہیں۔  آپ ان کہانیوں کو پڑھ کر محسوس کریں گے کہ ان جیسے کریکٹرز کو کہیں دیکھا ہے، کہیں ملے ہیں، کہیں محسوس کیا ہے۔ یہ خاص انداز میں لکھی ہوئی  ہمارے روز مرہ  کی عام کہانیاں ہیں۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply