مبشر علی زیدی ( خاکہ ) کچھ گزرے لمحے یاد رہ گئے

سال تھا 2016 کا اور تاریخ تھی 7 فروری، میں نے انھیں پہلی بار دیکھا۔ بیچ لگژری ہوٹل میں کراچی لٹریچر فیسٹیول جاری تھا۔ اتوار کا دن تھا، شام پانچ بجے میں نے بیچ لگژری ہوٹل میں داخل ہوتے ہی احد کو دیکھا ، وہی احد جو ان کی ہر کہانی کا مرکزی کردار تھا۔ میں اس کی طرف بے اختیار بڑھی اور پوچھا کہ مبشر علی زیدی کہاں ملیں گے؟ انہوں نے پہلے حیرت سے مجھے دیکھا پھر ایک ہال کی طرف اشارہ کیا اور کہا: " اس کا سیشن ہے ابھی وہاں " ۔
یہ سن کر میں اور میرے شوہر اس ہال میں پہنچے اور اپنی اپنی کرسی سیشن شروع ہونے سے پہلے ہی سنبھال لی۔ کچھ ہی دیر میں ہال بچوں، نوجوانوں اور بڑوں سے بھر گیا۔ سامنے دیکھا تو اور کچھ نہ دیکھا۔ حسینہ معین، زاہدہ حنا اور مبشر علی زیدی۔ ایک نوجوان لکھاری اور بھی تھے، ان کا نام یاد نہیں۔ ایک اداکارہ بھی تھی، ان کا بھی نام ذہن میں نہیں رہا۔
سیشن کی شروعات زاہدہ حنا صاحبہ نے کی، پھر حسینہ معین کو بولنے کا موقع دیا گیا۔ اس دوران جس بات کو میں نے شدت سے محسوس کیا، وہ یہ تھی کہ مبشر علی زیدی بات کہنے سے زیادہ بڑوں کی بات سننے پر یقین رکھتے ہیں۔ اپنی باری آنے تک وہ ایک لفظ نہ بولے اور باری آنے پر بھی مختصر سا مدعا بیان کیا اور خاموش ہو گئے۔
جب سیشن ختم ہوا تو ان کی کتاب " 100 لفظوں کی کہانیاں " ہاتھ میں لئے، میں کی ان طرف بڑھی ، ان کے ساتھ ایک تصویر بنوائی اور کتاب پر دستخط کروائے۔
زیدی صاحب لوگوں کو کہنے لگے " میرا خیال ہے کہ یہاں اگلا سیشن شروع ہونا ہے، ہم باہر چلتے ہیں۔ " .
کراچی لٹریچر فیسٹیول سے ہی ان کی ایک اور کتاب " شکر پارے " خریدی۔ انھیں ایک بار پھر دستخط کرانے کی غرض سے ڈھونڈا تو وہ اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ڈرتے ڈرتے قریب گئی کہ نہ جانے پسند کریں یا نہیں مگر وہ محبت سےآگے بڑھے اور کتاب ہاتھ سے لی اور دستخط کر دیے۔
میں نے 2015 کے جون سے انھیں پڑھنا شروع کیا تھا۔ اس وقت سے آج تک صبح اٹھتے ہی پہلا کام جنگ اخبار میں چھپنے والی ان کی " 100لفظوں کی کہانی " پڑھنا ہوتا ہے۔ پھر لاہور لٹریچر فیسٹیول میں تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے ان سے ملاقات نہ ہو پائی۔ البتی اگلی ملاقات رواں ماہ 12 تاریخ بروز ہفتہ ہوئی جہاں ان سے ، ان کے گھر والوں سے ، ان کی کہانیوں کے کردار احد سے ( جسے ہمارے گھٹن زدہ معاشرے نے کاشف بنا دیا ) ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ یہ ایک پر تکلف دعوت تھی .جس کے میزبان مبشر علی زیدی خود تھے۔ یہاں مبشر علی زیدی کی شخصیت کو قریب سے دیکھا جا سکتا تھا۔
درمیانہ قد ، سادہ سی پینٹ شرٹ پہنے ، سر پر لا تعداد بکھرے بال، جو سارے کے سارے سفید تھے۔ رنگت سفید، چہرے پر سب سے واضح نقش ان کی ناک اور اس پر بڑا سا کالا تل تھا مگر عینک نے ان کی آنکھوں کو نمایاں کر رکھا تھا۔ ان کی آنکھوں میں چمک تھی اور ذہن میں ڈھیر ساری کہانیاں۔
وہ مزے لے لے کر اپنی کہانیاں سناتے ہیں ، وہ بات کرتے کرتے کہانی بنا لیتے ہیں۔ وہ لوگوں کی باتیں سن کر ، انھیں کھاتا دیکھ کر یہاں تک کہ چھری کانٹے کو دیکھ کر بھی کہانی بنا لیتے ہیں۔ کہانی سناتے سناتے ان کی آنکھوں کے ساتھ چہرہ بھی چمکنے لگتا ہے۔ دوسرے کی بات مکمل انہماک سے سنتے ہیں اور حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ ہنستے ہیں اور ہنساتے بھی ہیں لیکن جب غصّہ آجاے تو چہرے پر عیاں ہونے سے روک نہیں پاتے۔ تصویر بنواتے ہوئے بچوں جیسا معصوم اور شرارتی سا ملا جلا چہرہ بنا لیتے ہیں۔ کبھی مذاق میں بھی کتاب مانگیں تو فورا تحفہ حاضر کر دیتے ہیں۔ کتابوں سے اور کتاب پڑھنے والوں سے خاص انسیت رکھتے ہیں۔
ایک بات جو ان سے پوچھ نہ سکی کہ کیا بولتے ہوئے بھی الفاظ گنتے ہیں ؟

Facebook Comments

آمنہ احسن
کتابیں اور چہرے پڑھنے کا شوق ہے ... معاملات کو بات کر کے حل کرنے پر یقین رکھتی ہوں ....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply