• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • وینٹی لیٹر پر پڑے اردو ادب کو جنسی آکسیجن۔۔۔۔وقاراحمد چوہدری

وینٹی لیٹر پر پڑے اردو ادب کو جنسی آکسیجن۔۔۔۔وقاراحمد چوہدری

اردو ادب میں رومان ہمشہ سے موجود رہا ہے اور اسے ادب کا حسن بھی تصور کیا جاتا رہا ہے چونکہ اب موبائل اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی بدولت کتابوں اورادب سے ہم دور ہو چکے اور کتابوں کی جگہ انٹرنیٹ نے لے لی ہے ،پہلے وقتوں میں جو لوگ کتابوں کا مطالعہ کا شوق رکھتے تھے اور شاعری کو ادب کی روح سمجھتے تھے وہ بھی آجکل ٹِک ٹَاک پر ویڈیوز بنا کر لونڈوں کی نقل کرتے نظر آتے ہیں ،فیسبک اور ٹویٹر پر ہم اپنے دوستوں کی فضول تصاویر اور لغویات دیکھتے نہیں تھکتے ۔

ٹیکنالوجی کے بعد آجکل آن لائن جرائد کا دور چل رہا ہے جسکا فائدہ یہ ہے کہ کتابوں سے دوری کے باوجود ہم لٹریچر اور ادب سے کسی نہ کسی صورت جُڑے ہیں لہذا مرتے ادب کو ٹیکنالوجی کے ذریعے بچانے کو ایک کوشش جاری ہے۔
اس دور میں جب کتابیں ختم ہوتی نظر آ رہی ہیں اور ادب بستر مرگ پر پڑا ہے تو چند انقلابی لوگوں نے آن لائن جرائد کا اجرا کیا جو تقریباً ایک کامیاب تجربہ ثابت ہوا مگر جلد ہی محسوس ہوا کہ غالب اور میر کی غزلیں نواجوان نسل کی سمجھ سے بالا تر ہیں ادبی افسانے ہماری سوچ نے نابلد ہیں اسی اثنا میں کچھ انقلاب پسندوں نے محسوس کیا کہ گوگل سرچ انجن پر سب سے زیادہ پورن سرچ کرنی والی قوم کیلئے جنسی ادب تحیلق کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لہذا مہذب جنسی ادب سےتحاریر کا شروع ہونے والا سلسلہ آج اپنی جڑیں گاڑھ چکا ہے کچھ روز قبل چند تحاریر نظر سے گزریں تو ایک صاحب نے محبوب کے پستانوں پر کالم لکھا اور پستانوں کے فضائل بیان کیئے جبکہ ایک صاحب نے ہم جنس پرستی پر ننگا مضمون لکھ ڈالا ۔بلا شعبہ دونوں لکھاریوں نے سچ لکھا مگر اندازِ بیان کنواروں کیلئے نہایت کٹھن ثابت ہوا جسکی وجہ سے حکیموں کا کاروبار چمکتا نظر آیا۔اردو ادب میں محبوب کے حسن کی آنکھوں،زلفوں اور چال کی تعریف تو سنی تھی مگر پستانوں کی واہیات تعریف پہلی دفعہ پڑھی،اسکے ساتھ ہی ایک صاحب نے نہایت دلچسپ تحریر لکھی جس پر توجہ دلائی گئی کہ  آجکل فیسبک پر ایسے پیجز ہیں جو مرتے ادب کو زندہ رکھنے کی خاطر جنسی کہانیاں پوسٹ کر کے ثوابِ دارین حاصل کرتے ہیں اور ان پیجز پر روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ٹریفک بتا رہی ہے کہ آئندہ کا ہمارا لٹریچر  کیا ہو گا۔جنسی کہانیوں میں محرم رشتوں کو فرضی کہانی کی صورت میں پامال کیا جاتا ہے جو لمحہ فکریہ ہے ۔اب ہم  اسے یہودیوں کی سازش کہہ کر جان چھڑا لیں تو ہماری نالائقی اور اگر سمجھ جائیں کہ  یہ ہمارے اپنوں کے دماغوں کے کیڑے ہی ہیں جو ان سے ویب سائٹس کی ریٹنگ اور لائیکس کے چکر میں  ایسے کام سرزد کرواتے ہیں۔

Facebook Comments

وقار احمد
صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply