علاج بھی حرام حلال ہوتا ہے؟۔۔۔۔عبدالله رحمانی

آپ کی طبیعت خراب ہے اور آپ معالج کے پاس اپنے طبی معائنے کیلئے جاتے ہیں۔ معالج آپ کو ایک دوا مثلاً   پیناڈول یا بروفن (یا کوئی بھی دوا جو آپ کے مرض کیلئے مناسب ہو) تجویز کرتا ہے۔

اتنے میں  آپ کے  علم کی جستجو اور آپ کا نکتہ چیں مزاج پھڑکتا ہے اور آپ معالج سے دریافت فرماتے ہیں کہ: اے طبیب مریضان دل!!! ذرا یہ تو بتلانا کہ تم جو یہ دوائی تجویز کئے دے رہے ہو، اس کا نام و کام کس آیت شریفہ میں مذکور ہے؟

معالج آپ کو دیکھتا ہے اور آپ یکسر ایک ادائے بے نیازی سے نکتہ رساں طمطراق سے گویا ہوتے ہیں۔ “چلو! اے کم فہم انسان! کم از کم اتنا ہی بتلانا کہ کس حدیث رسول سے تمھاری تجویز کردہ دوا سے علاج کا ثبوت ملتا ہے؟”

نتیجتاً معالج (بایں صورت کہ وہ آپ سے ازحد مخلص و ہمدرد ہو) آپ کو دماغی معالج کے پاس (بغیر آپ کو بتائے) بھیج دے گا۔
بصورت دیگر وہ حتی المقدور نازیبا و ناروا کلمات سے آپ کی خاطر مدارات کرتے ہوئے آپ کو اپنے ہاں سے رخصت فرما دے گا۔

کہانی ختم شد۔۔۔

کم و بیش اس کی تطبیق ان احوال کے ساتھ فرمائیے جب کوئی شخص کسی عامل سے اپنا علاج کرواتا ہے۔ اگر عامل آپ کو پڑھنے کے لئے کچھ وظیفہ یا کوئی ٹوٹکا دیتا ہے۔ اور آپ جوابا ً اس سے اس وظیفے کا ثبوت مانگیں یا اس طریقہ علاج کے قرآنی و حدیثی دلائل کا مطالبہ کریں  تو یہ ایک سراسر احمقانہ طرز عمل ہے۔

جاننا چاہیے کہ شریعت کی حدود کے اندر رہ کر کوئی بھی طریقہ علاج آپ اختیار کر سکتے ہیں۔ جس طرح بعض ادویہ حرام ہوتی ہیں، اور ان سے اجتناب برتنا چاہئے اسی طرح عملیات سے علاج میں بھی اس اصل کو مد نظر رکھ کر اس سے علاج کر سکتے ہیں۔۔۔ یہ تجرباتی چیزیں ہیں جیسے کسی شخص کو کچھ پڑھنے سے کسی طرح کا فائدہ ہوا تو اس پر کسی بھی طرح کی قدغن لگانا چہ معنی دارد؟

Advertisements
julia rana solicitors

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ چیزوں کو اپنی اصل پر چھوڑ دیجئے اور تا آنکہ کسی شرعی حکم کی پامالی نہ  ہو، اس طرح کے سوالات بے بنیاد اور نسبتاً   احمقانہ ہیں۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply